اتوار، 22 نومبر، 2020

شہر میں قحط ہے اب،بخیہ گروں کا!




شہر میں قحط ہے اب،بخیہ گروں کا!

 

 بات بہت معمولی تھی مگر تھی بہت اہم! غضب خدا کا ہال میں  سینکڑوں خواتین موجود اور کسی کے پرس میں سوئی دھاگا موجود نہ ہو! یادش بخیر نیلام گھر شو میں طارق عزیز ایسی انوکھی اور بلاسبب چیزیں خواتین کے پرس سے نکلوا لیا کرتے تھے کہ جس کا جواز تک نہ ہوتا تھا۔ مگر یہ ایسا کوئی شو نہیں تھا بلکہ ڈاکٹر شمع کو اپنی NGOکے ریجنل آفس کا افتتاح کرنا تھا جس کے لیے وہ آج صبح ہی کراچی سے یہاں پہنچی تھیں۔ پنج ستارہ ہوٹل میں تیاریاں مکمل تھیں۔

لباس تبدیل کرکے وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئیں تو گریبان کے بٹن ندارد تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ رواروی میں ٹیلر صاحب لگانا بھول گئے ہیں۔ اگر یہ کسی اداکارہ یا ماڈل گرل کی پریس کانفرنس ہوتی تو یہ ہی اسٹائل بن جاتا کسی کی مجال تھی کہ کوئی تبصرہ کرتا! مگر یہ تو ایک ایسی این جی او کی بریفنگ تھی جس کا ماٹو ہی ہے کہ ”ہمیں عورت کی نسوانیت برقرار رکھنا ہے!“ پریشانی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ سارا میڈیا مدعو ہے! ہوسکتا ہے کہ کسی صحافی کا دماغ اس طرف نہ جائے مگر اب تو صحافنوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ رسک نہیں لیا جاسکتا! ایسا نہ ہو کہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی تنقید کی زَد میں آجائے؟؟ چنانچہ سوئی دھاگے کی تلاش شروع ہوئی۔ یوں تو یہ کوئی متروک چیز نہیں ہے مگر اسے اب صرف خواتین سے منسوب کرنا بھی کچھ ایسا درست مفروضہ نہیں رہا۔ ڈاکٹر شمع کو اپنی الماری کے پیچھے والے خانے میں جس پر غیر استعمال شدہ اشیا کا لیبل لگا ہوا تھا رکھی، وہ بقچی یاد آئی جو آج سے چھبیس برس پہلے ان کی پھوپھی نے ان کی شادی کے دن ان کے ہاتھ میں دی تھی یہ کہہ کر کہ یہ ایمرجنسی میں تمہارے کام آئے گی! اس کے اندر سوئی دھاگے، پن وغیرہ تھے۔ اب بقچی کا نام بدل کر پاؤچ رکھ دیا گیا ہے جس میں دلہنیں موبائل رکھتی ہیں جو ہر قسم کی ایمرجنسی میں کام آتا ہے۔ یہ یاد آنے پر انہوں نے اپنے ٹریولنگ باکس کی طرف دیکھا۔ اب تو ایئرلائن کمپنیاں بھی ایسی کٹ نہیں دیتیں جس میں سوئی دھاگا، بٹن وغیرہ ہو!! چند سیکنڈ میں بہت کچھ سوچ لیا، مگر مسئلہ وہیں کا وہیں! ہال میں ممبران سمیت شہر کی نمایاں خواتین موجود تھیں۔ شاید کسی نہ کسی کے بیگ میں تو مل ہی جاتا لیکن ظاہر ہے ہر خاتون سے تو پوچھا نہیں جاسکتا۔ نہ اس کی مہلت تھی اور نہ ضرورت! خواہ مخواہ اسکینڈل بنتا!!

ڈاکٹر شمع نے پن لگا کر کسی نہ کسی طرح اس خلا کو پُر کیا اور دوپٹہ اس زاویے سے سیٹ کیا کہ نظر نہ آسکے۔ کام تو چل گیا مگر بہت سی خواتین دل ہی دل میں یہ سوچ کر حیران تھیں کہ ڈاکٹر شمع اتنے مضحکہ خیز انداز میں اپنے گلے کا خوبصورت ڈیزائن چھپائے بیٹھی رہیں۔ اگر چھپانا ہی تھا تو بنوانے کی کیا ضرورت تھی؟؟ ان کی حیرانگی بجا تھی۔ بہرحال پریس کانفرنس بڑی خوشگوار رہی۔ کامیاب پریس بریفنگ کے بعد وہ اپنی سیکریٹری کے ساتھ مسرور سی ہوٹل کے کمرے میں پہنچیں۔ لباس تبدیل کرکے باہر آئیں تو دیکھا کہ سیکریٹری سیما موبائل پر کسی سے تکرار میں مصروف ہے۔ کئی منٹ کی لاحاصل بحث کے بعد جب فون بند ہوا تو سیما بُری طرح پریشان نظر آئی۔ پتا چلا کہ اس کی بیٹی کے اسکول میں فنکشن ہے جس کے لیے خصوصی لباس درزی کو تیار کرنا تھا مگر وہ انکاری ہے کہ ہنگاموں اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا ہے!! بچی کئی گھنٹے سے فون کھڑکھڑا رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ گھر میں موجود کوئی بھی فرد اس مسئلے کو حل کرنے سے قاصر تھا۔ ڈاکٹر شمع جو سیما سے پروگرام پر تبصرہ اور بحث کرنا چاہ رہی تھیں اس ناگہانی پر سٹپٹا کر رہ گئیں اور اسے تسلیاں دینے لگیں۔ انہیں سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے سے بچی کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔

”........... ماما! آج فائنل ریہرسل تھی، فل ڈریس کے ساتھ!!.... مجھے ٹیبلو سے ڈراپ کر دیا گیا ہے...........“

”.......تم گھر پر ہوتیں تو کسی طرح سی سلا کر مکمل کروا دیتیں......“ ڈاکٹر شمع کے ذہن میں اپنی ماں گھوم گئیں جو عید یا تقریب پر رات گئے تک اپنی بیٹیوں کا سوٹ مکمل کرکے ہی اٹھتیں تھیں، مگر یہ تو پچھلے لوگ تھے اور سیما تو اس نسل سے تعلق رکھتی تھی جہاں علامتی طور پر سلائی مشین تو جہیز کا حصہ ہوتی ہے، مگر عملاً اس کی حیثیت ڈیکوریشن پیس سے زیادہ نہیں اور جہاں بچے حیرت سے پوچھتے ہیں کیا سلائی گھر پر بھی ہو سکتی ہے؟؟ درزی سے بحث و تکرار کے بعد اب سیما اپنی بیٹی صبا کی ٹیچر سے بات کرنا چاہ رہی تھی، مگر ان کا موبائل آف مل رہا تھا۔ خوامخواہ کی ٹینشن ہو گئی بجائے پروگرام پر ڈسکشن کے! اتفاق سے پہلے بھی ایک مسئلہ رہا اب یہ دوسرا!! اُف یہ جدید دور کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے بڑے بڑے دائرے!!! تھوڑی ہی دیر کے بعد ان کی فلائٹ کا وقت ہو گیا۔

 دو گھنٹے کے سفر کے بعد جب وہ ایئرپورٹ سے باہر آئیں تو ان کو لینے شوہر اور بیٹی تانیہ موجود تھے۔ روشنیوں کا شہر جگمگا رہا تھا زندگی رواں دواں تھی۔ جہاں سے آئیں وہاں تو لوگ سونے کی تیاریاں کر رہے تھے اور یہاں ابھی آؤٹنگ کے لیے نکل رہے تھے۔ کتنی مختلف ہوتی ہے دو شہروں کی زندگی!! آدھ گھنٹے بعد جب گھر کے قریب پہنچے تو تانیہ بول پڑی ”.......امی! درزی کو کپڑے سلنے دے دیں۔ اگلے ہفتے نادیہ آپا کی منگنی میں پہننا ہے!...“ وہ بہت تھکاوٹ محسوس کر رہی تھیں کسمسا کر مسکراتے ہوئے بولیں ”...........بعد میں! ذرا فریش ہو لوں........“ مگر ان کی بات درمیان میں ہی کٹ گئی جب ان کے شوہر نے چمک کر کہا ”......رش دیکھ رہی ہیں ویک اینڈ کا؟؟ گھر جاکر دوبارہ آنا ممکن ہے.......؟“ شوہر نام کی مخلوق بیوی کے آگے اسی طرح شیر ہوتا ہے۔ ”......ہاں امی! آج ہی دے دیں ورنہ وہ وقت پر نہیں دے گا.........“ اُف یہ درزی کا مسئلہ!! ہر شہر کی ایک ہی کہانی؟ ڈاکٹر شمع نے اپنی کنپٹیاں پکڑ کر دل ہی دل میں بہت بڑا اُف کیا۔ جیسے ہی درزی کی دکان کے سامنے پہنچے یکایک تمام بتیاں گل ہو گئیں بوجہ لوڈشیڈنگ!! مگر اگلے ہی لمحے جنریٹر آن ہو چکے تھے۔ شور کی آلودگی تو ناقابل برداشت ہو چکی ہے!

ڈاکٹر شمع اپنی بیٹی کے ساتھ دکان میں داخل ہوئیں تو فل والیم میں گانا بج رہا تھا اور کئی لڑکے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ کوئی کپڑا بچھائے کسی باجی کی کمر کا نشان لگا رہا تھا تو کوئی کسی آنٹی کی شلوار میں چنٹ ڈال رہا تھا۔ خواتین کا ایک گروپ ٹیلر سے تکرار میں مصروف تھا۔ پوری بات تو وہ نہ سمجھ سکیں، مگر یہ جملہ ضرور کان میں پڑا

”.......آپ یہ کام تو خود کرلیں........“ گویا درزی نہ ہوا ساس بن گیا...اتنا سا کام بھی تم نہیں کرسکتیں...........“!




ماسٹر صاحب ان کی طرف متوجہ ہوئے تو سب سے پہلے ڈاکٹر شمع نے اپنی شکایت نوٹ کروائی اور جواب میں اس کی معذرت ہی قبول کرنی پڑی۔ اس دوران ماسٹر صاحب نے وہ رجسٹر نکالا جس میں تمام خواتین اور لڑکیوں کی جسمانی پیمائش کا ریکارڈ درج تھا۔ تانیہ اپنا نیا سائز نوٹ کروانے لگی تو ماں نے اپنی بڑھتی ہوئی نوعمر بچی کو کچھ ناگواری اور الجھن سے دیکھا۔ اس نے کچھ محسوس تو کیا مگر سمجھ نہ سکی کہ معیوب اور قابل اعتراض بات کیا ہے؟ ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہا ہے؟ ٹھیک اسی لمحے ان کو اپنے رشتے کے ایک چچا یاد آئے جو قیام پاکستان کے بعد یہاں سے آکر واپس پلٹ گئے جب انہوں نے درزی کی دکان پر اسے عورتوں کے جسم کا ناپ لیتے ہوئے دیکھا تھا یہ کہہ کر کہ۔ ”......آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ حیا سے بھی جائے آدمی........“ ڈاکٹر شمع نے ایک جھرجھری لی اور تانیہ کو جلدی کی تلقین کر کے اس ڈسکشن کو مختصر کرنے لگیں۔ اب بات معاوضہ پر آگئی تھی۔

”.........جی! ایک کلی کے دو سو ہوتے ہیں! گیارہ کلیوں کا کرتا ہے......آپ خود حساب کرلیں..........“ ”....کیا؟؟....“ ڈاکٹر شمع چونکیں۔ اس سے پہلے انہوں نے ٹیلر کے بلز کے بارے میں کبھی نہ سوچا تھا۔

”.....جی باجی! پورا دن لگ جاتا ہے!! بجلی کا تو آپ کو پتا ہی ہے؟؟“



کیا غلط کہہ رہا تھا وہ؟ وہ درزی سے متعلقہ مسائل پر بہت سنجیدگی سے سوچ وبچار کر رہی تھیں ”....کام واقعی بہت بڑھ گیا ہے۔ خواتین نے تو سلائی سے ہاتھ بالکل ہی روک لیا ہے کہ شمیزیں تک بے چارہ سی رہا ہے! اوپر سے فیشن ایسا کہ شرٹ کی سلائی ایسی اور اتنی کہ پورا خیمہ سل جائے اس میں!!!.گھر میں بیٹھی خاتون بھی سلائی کے جھنجھٹ سے آزاد نظر آتی ہے.........“ انہیں اپنی پیشنٹ راحیلہ یاد آئی جس کے معصوم چھ سالہ بچے نے ان سے بک شاپ لے جانے کی فرمائش کی تھی یہ کہہ کر کہ امی تو بس بیوٹی پارلر جاتی ہیں یا ٹیلر کے پاس! ان کی سوچوں اور تانیہ کی تکرار کو باہر سے آتے تیز ہارن نے مختصر کر دیا۔ جنریٹر کے شور اور گرمی میں اسٹیئرنگ پر بیٹھے ایک بے چین شخص کا صبر جواب دے رہا تھا۔ وہ دونوں جلدی سے گاڑی میں آبیٹھیں مگر ڈاکٹر شمع اپنی سوچوں کو روک نہ سکیں۔ وہ بدلتے ہوئے سماجی رویوں پر غور کر رہی تھیں ”....یہ کب اور کیسے ہوا؟ جب خالصتاً عورتوں کا شعبہ ان کے ہاتھ سے نکل کر مردوں کے پاس آیا اور اب تو کمرشلائزیشن کی وجہ سے ملٹی نیشنل کے ہاتھوں میں ہے! وہ ایسے فیشن ایجاد کرتی ہیں جو گھر بیٹھ کر سلائی کرنے والی خواتین کے بس سے باہر ہو! لیکن یہ بھی ایک پہلو ہے کہ ہر فیشن، نہ ہر ایک کے لیے ہوتا ہے نہ اسے زیب دیتا ہے۔ بیس سالہ نوجوان لڑکی ہو یا چالیس سالہ ماں، اور تو اور نانی تک ٹراؤزر میں ملبوس نظر آتی ہیں۔ اس بات پر وہ زیرلب مسکرا دیں کچھ خواتین کو یاد کر کے! وہ سوچتی رہیں اور کڑھ کر رہ گئیں ”....مگر میں بھی تو اسی معاشرت کا حصہ ہوں۔ بدلتے فیشن کا ساتھ تو دینا پڑتا ہے اور اس قسم کی سلائی گھریلو خواتین کے بس میں کہاں؟.........“ جب سوچیں کسی جگہ مرتکز ہو جائیں تو کوئی نہ کوئی نتیجہ نکل ہی جاتا ہے۔ خاص طور پر اگر آپ حل کرنے کی پوزیشن میں ہوں! چنانچہ ڈاکٹر شمع رات گئے تک اس معاملے میں کچھ فیصلے کر کے مطمئن ہو چلی تھیں۔ دوسرے دن گھر میں توجہ رہی۔ بہت سے امور نبٹائے۔ رات گئے وہ اگلے دن اور ہفتے کا شیڈول تیار کر رہی تھیں تو تانیہ کا مطالبہ سامنے آگیا ”.....امی! مجھے کوچنگ سینٹر میں داخلہ لینا ہے۔ میری چھٹیاں ضائع ہو رہی ہیں!........“ بس یہ ہی لمحہ تھا جب ان کو فیصلہ کرنا تھا بلکہ اپنی بیٹی کے ذریعے اس کو عملی جامہ پہنانا تھا ”....ہاں میں تمہارے لیے کسی ٹیلرز ٹریننگ کورس میں داخلہ کی معلومات لیتی ہوں.........“ وہ مسکراتے ہوئے بولیں ”.....ٹیلرنگ کورس؟؟؟.......“ تانیہ سر سے پیر تک استعجاب میں تھی ”...ہاں میری پیاری بیٹی اب اپنے کپڑے خود ڈیزائن کرے گی اور اپنے ہاتھوں سے تیار کرے گی........“ اپنی بات منوانے کے لیے مانوس کرنا مرعوب کرنے سے زیادہ موثر فارمولہ ہے! کسی ورکشاپ کا جملہ انہیں بروقت یاد آگیا۔

”...مگر امی! اگلے سال میرے بورڈ کے امتحانات ہیں۔ تمام لڑکیوں نے کوچنگ جوائن کرلی ہے..........“ اس نے عذر کیا مگر ڈاکٹر شمع کا ہوم ورک بھی مکمل تھا ”.....ارے خواہ مخواہ کی دردسری! اتنے گھنٹے اسکول کی پڑھائی کافی نہیں؟ میری بیٹی تو بہت ذہین ہے! مشغلہ کام سے مختلف ہونا چاہیے۔ ورنہ انسان بور ہو جاتا ہے....“ انہوں نے اپنی بیٹی کو دلچسپی دلائی اور یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں اس پر عبور ہے اور کیوں نہ ہو قائدانہ صلاحیتوں سے مالامالہیں وہ! تانیہ کو انگیز کرنے کے لیے انہوں نے اپنی مثال پیش کی ”......تمہارے نانا نے مجھے میڈیسن کی تعلیم دلوائی کہ عورتوں کو مرد معالج کے پاس نہ جانا پڑے اور فرح خالہ ٹیچر ہیں۔ وہ پیشے جو معاشرے کی ضرورت ہوں!!! اب جہاز اڑانے، ٹائر اور بلب بنانے کا کام لڑکیوں کے لیے مناسب ہے؟؟ بھیڑ چال کا کوئی فائدہ ہے؟.......“ انہوں نے اس کو سوچ میں ڈال دیا ”....... اور اب تو منیجرز بھی اداروں سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ بیکار پھرتے ہیں بے چارے....!!! ہنستے ہوئے انہوں نے اس کے ایم بی اے کی پلاننگ پر پانی پھیر دیا ”مگر باجی اور اپیا تو..........“ تانیہ نے قائل ہونے کے باوجو آخری حربے کے طور پر اپنی بڑی دو بہنوں کی مثال دی جو ایم بی اے اور انجینئر ہیں۔ ”....ان کا حال دیکھا ہے تم نے؟ زندگی میں کوئی سکون اور مزا نہیں! ان کے شوہر کتنے لاپروا ہیں گھروں سے! مردوں اور لڑکوں کو بے روزگار بناکر نکھٹو اور کاہل کیوں بنا دیا جائے؟ خواتین اگر......“ تانیہ نے ان کی بات کاٹ دی ”.......اور آپ؟؟......“ ”..... میری گڑیا! میرا وقت تو اس لیے اچھا گزر گیا کہ میرے ان مسائل کے لیے تمہاری نانی اور دادی موجود تھیں..... یاد ہے نا دو سال پہلے تک انہوں نے اپنی نواسی کی بیٹی کے لیے غرارہ سیا تھا۔ اب صحت سے مجبور ہیں!......“ کچھ بحث اور مباحثہ کے بعد یہ ہی طے ہوا کہ فی الحال وہ شوقیہ سلائی سیکھ لے گی اور پھر باقاعدہ پروفیشنل ٹریننگ لے گی۔ لیکن بہرحال اس کے argument ہیں۔ جنہیں وقت ہی دور کر سکتا ہے!!




اپنی NGO کی اگلی نشست کا ایجنڈا جب انہوں نے سیکریٹری کے سامنے رکھا تو اس کے ماتھے پر بَل پڑ گئے۔ بات ہی ایسی انوکھی تھی! تمام ممبران کے لیے سلائی کورس لازمی!

”........یہ کیا میڈم! ہمیں تو کمپیوٹر کے ریفریشر کورس کے لیے فنڈ allocate کروانے ہیں   ..........“

”.....ہاں مگرپہلے اپنی ترجیحات درست کرنی ہیں۔ ہمیں ایکسپرٹ ہر طرح کے چاہئیں۔ دیکھو سیما! غذا اور پوشاک بنیادی ضروریات ہیں۔ اب جس طرح ہم روزمرہ کا کھانا ہوٹل یا ریڈی میڈ فوڈز پر نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ہر کوئی اپنی سہولت اور حالات کے حساب سے انتظام کرتاہے اسی طرح عام ملبوسات کے لیے ٹیلرز کے پاس رش لگانا نہ مناسب ہے اور نہ سہل.......“ اور بہت سے دلائل دونوں طرف سے پیش کیے گئے۔ پھر سیما نے کہا ”.......ایسا نہیں ہے میڈم! خواتین گھروں میں بھی سلائی کرتی ہیں اور کرواتی ہیں مگر کوئی بتاتا نہیں کیونکہ یہ اب اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے کہ کون سے ٹیلر سے کپڑے......“ ”...یہ ہی تو ہمیں ختم کرنا ہے! اس احساس کمتری سے عورت کو نکالنا ہے! اسے اپنے کام کی حیثیت یاد دلانی ہے۔ کیا یہ ہنر کم وقعت رکھتا ہے جو انسانوں کو جانوروں سے ممیز کر سکے؟................ہمیں تو trend setter بننا ہے! اور فیشن کو اپنے تابع کرنا ہے یہ نہیں کہ جو بھی آڑا ترچھا ہو اسے من و عن پہن لیں! یہ جبھی ممکن ہے جب یہ ہنر ہمارے پاس ہو! اب دیکھو حجاب عام ہوا تو اس کے حوالے سے شیمپو بھی متعارف ہو گیا اور اب تو باحجاب کھلاڑنوں کے لیے اسپیشل ڈریس ڈیزائن ہونے لگے ہیں..........“ اور سیما پوائنٹ نوٹ کرتے ہوئے سوچ رہی تھی  ”........ ڈاکٹر شمع کو قائل کرنا مشکل ہے۔ یہ ہے لیڈر شپ کوالٹی.......“ اس کو اب یہ فکر پڑ گئی کہ وہ سلائی مشین کہاں سیٹ کرے گی؟

شہر میں قحط ہے اب، بخیہ گروں کا زلفی!

اپنے ہا تھوں میں ذرا،اپنا گریباں ٹہرے

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔