!سہارا....
سب لوگ دوپہر کے کھانے پر بیٹھے تھے۔عجب مصنوعی قسم کی گفتگو
ہورہی تھی۔کبھی صدر کو زکام ہوجانے کا ذکر چھڑ جاتا اور کبھی کسی غیر ملکی سفیر کے
ساتھ جو ”دوستانہ“گفتگو ہو چکی ہوتی،اسے تفصیل سے بیان کیا جا تا۔انداز کلام ایسا
ہو تا گویا صاف صاف کہا جا رہا ہو کہ ذرا غور کرو کہ اس ”آسمانی مخلوق“ کے ساتھ
ہمارے تعلقات کتنے گہرے ہیں.........
......اس کا تو یہ عالم تھا
کہ وہ نیویارک، جینوا، پیرس،، سوئٹزرلینڈ سے کم کوئی بات ہی نہیں کرتا تھا۔وہ کہاں
کہاں گیا، کس کس سے ملا،کیا کیا دیکھا، وہاں اس کے کمالات کی کیسی کیسی قدر دانی
ہوئی اور پھر ہر پانچ دس منٹ کے بعد وہ اس”نا قدرشناس“ ملک کی مذمت کرتا جس نے
اپنا قیمتی زر مبادلہ دے کر اسے بار بار دوسرے علاقوں میں اسی غرض سے بھیجا تھا کہ
وہ وہاں سے اپنے لیے نئی موٹر، فرج، ائر کنڈیشنر، سوٹ،بیوی کے لیے ساڑھیاں اور
انواع و اقسام کے دوسرے سامان تعیش بھی خرید لائے اور حکومت کے خرچ پر خوب خوب
سیریں بھی کرآئے،اور پھر واپس آکر اس غریب ملک کو صلواتیں بھی سنائے، جس نے اپنی
خون پسینے کی کمائی گلچھڑے اڑانے کے لیے اس کے حوالے کر دی تھی۔
.......باوجود اس کے کہ واپس
آئے ہوئے چند ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے،وہ ملازمت نہ ملنے پر اس طرح کھول رہا تھا
اور پاکستان کی ناقدرشناسی کے رونے اس سوز و گداز سے رو رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا
کہ اس کے سینے میں اس غم نے گھاؤ ڈال دیا ہے کہ جب وہ حکومت ہی کے خرچ پر
FRCSکر کے کراچی کے ہوائی اڈے پر اترا تو آخر حکومت
پاکستان اور پاکستان کے کروڑوں باشندے اس کی پیشوائی کے لیے ہوائی اڈے پر کیوں نہ
پہنچے اور آتے ہی ایک بڑے سے عہدے کو سونے کی پلیٹ میں رکھ کر اس کے سامنے پیش
کیوں نہ کیا گیا جو ملک ایسے ہیروؤں کی ایسی بے قدری کرے، وہ آخر کس طرح پھل پھول
سکتا تھا........
عزیز قارئین! آپ کا اندازہ درست ہے کہ
یہ اشرافیہ کی محفل میں ہونے والی گفتگو کا ایک حصہ ہے!
جی ہاں! یہ اقتباس محترمہ بنت الاسلام
کے ناول ”سہارا“ سے لیا گیا ہے۔ستر کی
دہائی میں لکھے گئے اس ناول کا موضوع کرپشن یا فساد ہے جس کا خد شہ فرشتوں نے ظاہر
کیا تھا۔یہ فساد ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی، اخلاقی بھی ہے اور مادی بھی! اس وقت
جب پاکستانی وزیراعظم اس الزام میں نا اہل ہوچکے ہیں، ان کی نصف بہتر ایک موذی مرض
کا شکار ہونے کے باوجود ان کی جگہ منتخب ہوچکی ہیں اور ان کی بیٹی اپنے باپ کی بے
گناہی کی دہائی دیتی پھر رہی ہے! مگر کیا واقعی یہ گھرانہ حلال کمائی کی اس چمک
اور روشنی کو محسوس کر سکے گا جیسا کہ اس ناول سہارا میں منیرہ کا خاندان کر تا
ہے۔ کون منیرہ؟ جی اس ناول کی ہیروئین!اس
ناول پر تبصرہ کرنے سے پہلے ایک تمہید ی بات کرنی ہے:
یہ ذکر ہے اس بحث کا کہ کیا ادب معاشرتی اصلاح یا انقلاب میں
معا ون ثابت ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے متنوع
اور متضادجوابات ہوسکتے ہیں۔ تائید
میں کمیونزم کے انقلاب کی راہ ہموار کرنے والے ناول ”ماں“ پیش کیا جاسکتا ہے
جبکہ عدالتی فیصلے میں جج کی زبان سے "گاڈ فادر " کے معرکۃ الآرا جملے کی بازگشت سنائی دیتی ہے جبکہ معاشیات کی نوبل انعام یافتہ کتاب
"The Idea of Justice "
جس کے پیش لفظ کا آغاز چارلس ڈکنز کے شہرہ آفاق ناول"
"The Great Expectationکے ایک کردار کے بولے گئے جملے سے ہوتا ہے
" In the little world in which children have
their existence, there is nothing so finely perceived and finely felt, as
injustice "
مصنف
اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے دیگر مثالیں عملی زندگی سے دے کر ثابت
کرتا ہے کہ کوئی نظریہ پیش کرتے وقت معاشرتی اقدار اور بنت کوتمثیل استعمال کی
جاسکتی ہے۔ قصص القرآن اس کی بہترین اور نادر مثال ہے۔
اس بحث میں دلیل کے طور پر
”سہارا“ جیسا ناول بصدفخر پیش کیا جا سکتا
ہے جس میں رشوت بطورایک معاشرتی لعنت (جو بہت سی برائیوں کا دروازہ ہے)بہت واضح
انداز میں نظر آتی ہے۔ اس ناول کے ذریعے کرپشن کی وجوہات اور اس کے معاشرے پر
پھیلے اثرات بہت عام فہم اور دلچسپ انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ایک بہترین ناول کے
اجزائے تر کیبی کردار نگاری، جذبات نگاری، اور منظر نگاری اپنے بہترین امتزاج کے
سا تھ”سہارا“ میں موجود ہے۔
ناول کا آغاز موسم برسات کے ایک
خوشگوارمنظر سے ہوتا ہے جہاں ناول کی ہیروئین منیرہ تین ننھے بچوں کے ساتھ میکے آتی ہے اور اپنے
تمام احباب سے ملنے کا پروگرام بناتی ہے مگر اس کا شوہر ماجد اپنے موعودہ مدت سے
پہلے ہی اسے واپس لینے آجاتا ہے۔منیرہ کا
شوہر ماجد ایک وکیل سے ترقی کرتے ہوئے سیشن جج کے باعزت عہدے تک پہنچا ہے۔
ماجد کا خاندانی پس منظر کچھ یوں ہے
کہ اسکے والد اپنے بھائی بہنوں کی بہ نسبت معاشی اور معاشرتی طور پر کمزور حیثیت
کے مالک تھے۔جس کے اثرات ان کے رہن سہن سے نظر نمایاں تھے۔والدین کی زندگی تک تو
یہ فرق انیس بیس رہے مگر علیحدہ ہونے کے بعد یہ خلیج واضح اور گہری ہوتی گئی اور
ماجد کے بڑے ہونے تک تو یہ فرق ۱یک سے سو کی نسبت تک پہنچ گیا۔ ان حالات
میں ماجد نے اپنے سماجی رتبے کو اپنے خاندان سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سر توڑ کوشش
کی۔ ہر حربہ آزمایا۔منیرہ سے شادی بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔بظاہر بہت شاندار شخصیت
کا مالک اپنی بہترین پیشہ ور صلاحیت سے مالا مال ماجد باکردار، سنجیدہ اور معتدل
مزاج ہے مگراپنے پیشے کے تقاضہ کے مطابق چالاک، مستعداور لچھے دار گفتگو کا ماہر
ہے۔
منیرہ کا خاندان اعلٰی سماجی رتبے کے
باوجود شریفانہ اور معتدل مزاج ہے وہ اپنے والدین کے مقابلے میں زیرک اور حساس ہے
ماجد کے پر اسرار رویے سے خائف رہتی ہے اور اس بات کا ادارک ہونے کے بعدکہ اس کے
شوہر کی آمدنی میں حرام کی ملاوٹ ہے سخت آزردہ رہنے لگتی ہے ۔ان حالات میں اس کا میکے کا دورہ
ہے جس سے ناول کا
آغاز ہوتا ہے وہ اپنی استانی اور رہنما اصغری خانم سے مل کر کچھ حوصلہ پاتی ہے جسے
خط کتابت کے ذریعے جاری رکھنے کا وعدہ لیتی ہے۔
ہر کلاسک ناول کی طرح اس میں بھی قاری
کرداروں کے ساتھ ٹرین کاسفرکرتا ہے۔منیرہ اپنے گھر واپس جارہی ہے اس منظر میں زنانہ ڈبے میں ہونے والی جھڑپیں
جہاں قاری کو مسکرانے پر مجبور کرتی ہیں وہیں جذباتی بھی کردیتی ہیں!جب ڈاکو اندر
گھسنے کی کوشش کرتا ہے تو تمام خواتین اپنے جھگڑے اور سماجی رتبے کو بھلاکرمتحد
ہوکر اس کوناکام بناتی ہیں۔۔۔پھر خوب خوب باہمی خلوص و محبت کی باتیں ہوئیں اور مل
جل کر پاکستان کی خیر مانگی گئی اور اس کی سر بلندی اور استحکام کی تمنائیں ظاہر
کی گئیں س موقع پر قاری ایک متحد قوم ہونے کا فخر محسوس کرتا ہے (گویا یہ بات طے
ہوئی کہ ادب جذبے کی افزائش میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے!)
چونکہ ناول کی تیکنک میں تجسس بھی
لازمی ہے لہذا سفر کے اختتام پر وہ ایک دوسرے کے پتے حاصل کرلیتی ہیں اور جب وہ
انگریزی بولنے والی لڑاکا خاتون منیرہ کے گھر پہنچتی ہیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ وہ
ماجد کی چھوٹی پھپھی طاہرہ ہیں۔وہ ماجد کا خاندان والوں سے ملاپ کرواتی ہیں۔ یہ
ماجد کی زندگی کا حاصل تھا کہ وہ اپنے ددھیال والوں کے ساتھ برابری بلکہ کچھ اونچے
مرتبے کے ساتھ روابط رکھے۔ جب تعلقات استوار ہوتے ہیں تو آمد ورفت کے ساتھ میل
ملاپ بھی بڑھتا ہے۔ایسی ہی ایک محفل کے ذکر سے اس مضمون کا آغاز کیا گیا ہے۔
محفل کی گفتگو سے منیرہ سخت جز بز ہے۔ اس کے علاوہ گھر کا نظام
درہم برہم، بچے بے قابواور بجٹ آؤ ٹ ہونے کی فکر مندی ہے ایسے میں ماجد کی کزن کی
بیوی منیرہ کو ماجد اورایک رشتہ دار لڑکی سے بڑھتی ہوئی قربت کا احساس دلاتی ہے تو
وہ تفکر کا شکار ہوتی ہے۔ بے بسی کے عالم میں وہ بڑی جٹھانی عابدہ کو اپنے گھر
بلالیتی ہے جس کا ماجد پر کافی رعب ہے۔ وہ گھر کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر ماجد اور اس
لڑکی کو خوب لتاڑتی ہے ۔نتیجتا یہ محافل بکھرتی ہیں مگر اس کے بعد ماجد بہت پریشان
سا رہنے لگتا ہے۔منیرہ بد گمان ہوتی ہے اورماجد کا چپ چاپ رویہ دیکھ کر الجھتی
رہتی ہے۔
ایسے میں منیرہ کو اپنے بہن بھائیوں
کی شادی کی اطلاع ملتی ہے وہ اپنی الجھن کے باعث جانے میں تذبذب کا شکار ہے مگر
خلاف توقع ماجد
با اصراراور بخوشی منیرہ اور بچوں کو روانہ کردیتا ہے اس وعدے
کے ساتھ کہ وہ عین وقت پر پہنچے گا۔منیرہ بادل ناخوستہ چلی تو گئی مگر اس کا دل
گھر میں ہی اٹکا رہا اور پھر جب حسب وعدہ
وہ نہ پہنچا تو اس کی تشویش عروج پر تھی۔فون کرنے پر سرکاری کام سے کراچی جانے کو
عذر بتا تا ہے۔ تقریب کے بعد اصغری خانم اس کو بہت اطمینان اور تسلی کے بعد بتاتی
ہیں کہ ماجد کسی رشوت کے مقدمے میں ماخوذ ہے اور اس کی انکوائری ہورہی ہے یا ہونے
والی ہے۔
اس کے بعد ناول کا رنگ بدلتا ہے جب
شادی کے تیسرے دن ماجد کا خط ملتا ہے وہ اپنے تمام گناہوں، کوتاہیوں کا اعتراف
کرتا ہے۔اس کے بعد مقدمہ عدالت میں چلاگیا اور رسواکن تفصیلات سامنے آتی ہیں تو
منیرہ کے والد جان بر نہ ہوسکے جبکہ والدہ فالج کا شکار ہوگئیں۔ مصیبتوں یا بقول
اصغری خانم آزمائشوں کا پہاڑ منیرہ پر ٹوٹ پڑا۔اور پھر والدہ بھی انتقال
کرگئیں۔بھاوج کا بدلتا رویہ، دوچھوٹے بہن بھائی کی ذمہ داری کے ساتھ باپ کی غیر
موجودگی اور گھر سے بچھڑنے کے باعث چڑ چڑا ہٹ کا شکار اپنے تین بچے! منیرہ کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس کس بات پر
روئے! یسے میں اس کی پرستارممانی اور استانی اصغری مادی، جذباتی اور روحانی سہارا
بنتی ہیں اوپھرمنیرہ کی با حیثیت پھپھی آمنہ افریقہ سے اچانک پہنچتی ہیں تو اس کے
کافی دکھ اور ذمہ داریاں کم ہوجاتی ہیں مگر اپنے گھرسے در بدری اور شوہر کی قید کی
آزمائش ابھی اس کے سامنے پہاڑ کی طرح کھڑی ہے۔
ایسے ہی ایک برسات کے موسم میں ماجد
جیل سے رہا ہوکر آجاتا ہے۔ جیل سے لکھے جانے والے خطوط سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس
کی قلب ماہیت ہو چکی ہے مگر بہر حال وسوسے منیرہ کے سامنے ہوتے ہیں۔ ماجد کی واپسی
کے بعد سب سے بڑا معرکہ اپنے خاندان میں اس کے وقار کی بحالی ہے جس میں کامیابی
ہوتی ہے۔
ناول کا خوشگوار اختتام ایک قصباتی
زندگی کے ایک منظر سے ہوتا ہے۔ جہاں رزق حلال زندگیوں میں شہد گھولتا نظر آتا ہے
جس میں مصنفہ اس چابک دستی سے رنگ بھرتی ہیں کہ قاری اس کے سحر میں ڈوب جا تا
ہے۔اس منظر میں منیرہ کی زبانی ایک خوشحال اور سکھی پاکستان کے لیے مانگی گئی
دعائیں اس بات کا مظہر ہیں کہ انفرادی دکھ سکھ
اجتماعی معاملات کے بڑے کینوس کے آگے ہیچ ہیں اس طرح وہ قارئین کے دل میں
حب الوطنی کے بیج بوتی نظر آتی ہیں۔
محترمہ بنت الاسلام نے جذبہ خیر کے
تحت کی گئی کوششوں کو بھی اس ناول میں اجاگر کیا ہے۔ جب جیل سے ماجد کے خطوط کی
بابت وہ اصغری خانم سے استفسار کرتی ہے کہ:
”آپاجان! کیا دنیا میں صرف
سزاؤ ں ہی سے انسان کی اصلاح ہوا کرتی ہے اور کسی شئے سے نہیں ہوتی؟“
جواب میں وہ بتاتی ہیں کہ یہ فارمولہ درست نہیں کیونکہ جیل سے
اکثر کچے مجرم پکے بد معاش بن کر نکلتے ہیں......اس مکالمے میں وہ بہت اچھی طرح
اسے باور کرواتی ہیں کہ مخلصانہ کوششیں ہر گز رائیگاں نہیں جاتیں۔گویاادب نظریے کی
ترویج میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس تحریر میں ناول کے ہر کردار کا
جائزہ ممکن نہیں مگرمنیرہ کا مثالی کردار ہر دور کی طرح آج کی عورت کے لیے بھی
راہنما ہے۔ اگر ہر گھر میں کلثوم اور مریم نواز کے بجائے منیرہ جیسی عورت ہو تو
یقین رکھیں کرپشن نامی ناگ کا سر خود بخود کچل جائے۔
فرحت طاہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔