خواہش پرواز ہے مگر ۔۔۔!
قلم
کار خواہ کالم نگار ہو یا افسانہ نگار ، شاعر ہو یا نثر نگار اپنی تحریر پر رائے ،
تبصرے یا حوصلہ افزائی کا منتظر رہتا ہے! یہ ایک ایسی خواہش ہے جس سے کوئی تخلیق
کار مبرا نہیں چاہے وہ پختہ اور مستند ہو یا نو آموز اور ناتجربہ کار !
ایک فردنے تحاریر کا پہاڑ کھڑا کیا ہو اور دوسرا ذرہ ذرہ جمع کر رہا ہو دونوں
مشتاق نظر ہوتے ہیں اپنے قارئین کی توجہ کے! صاحب کتاب سے لے کرمحض مراسلہ نگاربھی اس دوڑ ( میرا تھن ) میں یکساں کھڑا نظر آتا ہے ۔
پھر ہفتہ وار، ماہانہ یا روزانہ کی بنیاد پر لکھنے
والوں کی تمنائیں بھی ان کی اشاعت کے لحاظ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ دوسری تخصیص مختلف
اخبار و رسائل ، میگزین ، ڈائجسٹ ، خصوصی
نمبرز وغیرہ کی معیار کے لحاظ سے درجہ بندی بھی ایک قلم کار کو اس معاملے میں حساس
رکھتی ہے ۔ اور انٹر نیٹ کے اس دور میں جب
دنیا ایک عالمی گاؤں کا منظر پیش کرتی ہے اور فاصلوں اور زبان کے مسئلے کی رکاوٹ نہیں ، اشاعت محض
ایک انگوٹھے کی جنبش کی
مر ہون منت ہو تو یہ خواہش کا یہ
جزیرہ وسیع سے وسیع تر نظر آتا ہے ۔
آئیے
ایک نظریاتی میگزین کے حوالے سے اس کے
عوامل اور اس سے جڑے حقائق کا جائزہ قاری، قلم کار اور ایڈیٹر کی مثلث سے لیتے ہیں ۔
کسی بھی میگزین کے باقاعدہ
قلم کار نہایت محنت اور تن دہی سے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ہر ہفتہ اپنا
قلم اٹھاتے ہیں تو ان کا حق ہے کہ انہیں اپنے اسلوب ، تحریر کے معیار اور مواد پر
فیڈ بیک ملے مگر ایسا ہوتانظر نہیں آتاکہ:
·
ہر قاری ہر صفحے پر توجہ نہیں رکھ سکتا یہ بلحاظ
عمر ، دلچسپی اور مہلت پر منحصر ہے ۔
·
ممکن ہے کہ قارئین کو اس مقصد کے لیے مناسب فورم
دستیاب نہ ہو۔
·
قارئین کی عدم دلچسپی اور سستی بھی تبصرہ دینے
میں مانع ہوتی ہے ۔
· ذوق مطالعہ کی کمی بھی سمجهی جاتی ہے (مگر
یہ عذر اس لیے قابل قبول نہیں کہ اگر تحریر جان دار اور چمکدار ہو تو وہ بار بار پڑھی اور شئیر کی جاتی ہے .
پرنٹ میں ہو تو انٹر نیٹ پر اور ڈیجیٹل ہو تو پرنٹ میں شائع ہوتی ہے .)
ایسا کیوں ہے کہ کسی قلم
کار کا نام دیکھ کر قاری وہ صفحہ کھول لے یا پھر اس کا نا م دیکھ کر صفحہ پلٹ دے !
یہ صرف موضوع کی بات نہیں بلکہ انداز تحریر پر بھی منحصر ہے ۔کسی بھی قلم کار کے
لیے جائزہ لینے کی بات ہے کہ اسے کتنے قاری دستیاب ہیں ؟ خصوصا جو قلم کار کثرت سے
لکھتے اور شائع کیے جاتے ہیں انہیں تو اس کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے کہ قاری کو کس
حد تک مائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ؟ سپاٹ انداز تحریر اور بے جان اسلوب کسی بھی
قسم کی ہلچل مچانے میں ناکام رہتا ہے بلکہ کسی حد تک منفی تاثرکا باعث بن جاتا ہے،چنانچہ جو نظریہ منتقل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی مجروح ہوتا ہے ۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ
ہے کہ ہمیں زبان سے نکلے الفاظ کی جواب دہی کرنی ہے تو یہ ہدایت تحریر کے ضمن میں
بھی اسی طرح لاگو ہوگی !
تحریر ادبی ہو یا سیاسی ، تفریحی ہو یا مذہبی اس میں قاری کی دلچسپی کو مد نظر
رکھنا ازحد ضروری ہے ..مولانا مودودی نے دقیق ایشوز تک کو بھی اتنے اچھے
پیرائے میں بیان کیا ہے کہ قاری لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ..بھلا اسلامی
زندگی اور اس کے بنیادی تصورات کو عام فہم الفاظ میں ڈھالنا آسان تھا؟ سود اور
پردہ جیسے موضوعات پر مربوط اور مدلل تحریر لکھ کر قارئین کو مائل کرنا اور کرتے
ہی رہنا اس بات کا مظہر ہے کہ قلم کار کے الفاظ ضرور جادو جگا سکتے ہیں ! خرم مراد نے بہت سے تنظیمی اور بوجھل
امور کو اتنے ہلکے پھلکے انداز میں قلم زد کیا ہے کہ دل پر اثر انداز ہوتی ہے اور
بار بار پڑھنے سے بھی طبیعت مکدر نہیں ہوتی .. دوسری طرف ہمیں میگزین کی
اشاعت میں تکرار کے ساتھ اکثر تحاریر میں ربط کی کمی اور مواد کا سر
سری اور سطحی ہونا نظر آتا ہے ...
·
موجودہ دور اسٹار ڈم کا دور ہے ۔ہر فردپذیرائی
چاہتا ہے ۔اس ضمن میں اقبال بہت پہلے کہہ
چکے ہیں کہ
ہر فرد ہے ملت کے مقدر
کا ستارہ !
تو اس صورت حال میں
قارئین کو اپنے طرف مائل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ یہ ہوسکتا ہے کہ تحریر میں اس
کا ذکر ہو! پڑھنے والے کو اپنی جھلک نظر آئے ! کتابی باتیں یا تصورات قاری کو
بوجھل کر دیتے ہیں ۔ پھر اس تحریر میں شگفتگی اور امید کا رنگ بھی حاوی رہے تووہ
قاری کے دل میں اتر تی ہے ۔
پچھلے ہفتے ایک میگزین میں تحریر پڑھنے کو ملی جو بچوں کے ایک پروگرام کی روداد ہے ایک تو اس میں زبان و بیان کی چاشنی ہے اور
دوسری طرف ایک شعبے کی کارکردگی نمایاں اور واضح ہوکر نظر آتی ہے تو اس حوالے سے اس روداد میں ایک اپنائیت کا احساس بھی جاگتا ہے ..اس طرح
زیادہ سے زیادہ افراد کی تسکین اور ربط ممکن ہے ۔کچھ منعقدکرنے والے ، کچھ شریک ہونے
والے اور اور کچھ قلم بند کرنے والے !
صرف کراچی میں ہی روزانہ درجنوں سر گرمیاں مختلف شعبہ جات اور اضلاع کی ہوتی ہیں
وہ آخر میگزین کا حصہ کیوں نہیں بنتیں ؟ یہ تشہیر اور ترغیب کا ایک بہترین ذریعہ
ہے ..سوشل راونڈ اپ یا کسی اور عنوان سے ایک صفحہ مختص کیا جاسکتا ہے .. ہر سطح کے
نظم/ شعبہ میں کچھ نہ کچھ تخلیقی صلاحیت کے افراد ضرور ہوتے ہیں اور اگر نہیں تو
نئے افراد کو سکھایا بهی جاسکتا ہے .
اس سلسلے میں ادبی
تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سال میں ایک دو تقریبات یا مقابلے کروانے کے
ساتھ ساتھ قلم کاروں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائ کا فریضہ انجام دیں ! تربیت کے ضمن میں سکھانے کا کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے
۔اس میں بہترین بات یہ ہے کہ مستند قلم کاروں کی تحریر قاری اور قلم کار دونوں کو
پڑھوائی جائے ۔اور اس پر سوالا جوابا نشست ( کوئی بھی شکل ہو ) کے ذریعے محاسن
تحریر کی طرف توجہ دلائی جائے ۔
قلم کار کے بعد کسی
میگزین کی کامیابی کا سہرا اس کے ایڈیٹر کو جا تا ہے جس کا کردار کسی جہاز
کے پائیلٹ کی طرح ہوتا ہے ۔وہ اپنی توجہ اور دلچسپی سے اس کا معیار بلند کر
سکتا ہے ۔ ضروری ہے کہ تنوع کا خیال
رکھتے ہوئے کسی بھی کمی بیشی کو بحسن خوبی پورا کر
نے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ ہر تحریر کے ہر جملے
کی ساخت ، پیراگراف کی تقسیم ، اس پر لگنے والی تصاویر پر اس کی بھر پور اور
تجزیاتی نظر ہو! تمام تحاریر مربوط، منضبط
اور تناسب میں ہوں ! قاری کے ذہن میں ابہام یا الجھن کا باعث نہ بنیں ۔
میگزین کے حوالے سے دو
نکات بہت اہم ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا
معاشی استحکام اور نظر یا تی
تشخص
ان دونوں مقاصد کے حصول
کے لیے میرٹ پر عمل ضروری ہے ۔
تحریر علمی ہو تفریحی
ہو یا ادبی ، تحقیق ہو یا ترجمہ ، مقالہ
ہو یا افسانہ معیاری اور اوریجنل ہوں ۔
مالیاتی مسائل
پر قابو پانے کے لیے مناسب اشتہارات
کی کوشش ، فنڈنگ کے علاوہ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی جائے۔اس کے علاوہ اخبارات کے صفحات کم کر کے
معیاری مواد بڑ ھا یا جائے ۔ مسابقت معیار کی بہتری کی ضمانت ہے ۔
آخری بات:
پچھلے دنوں ایک تمثیلی
کہانی پڑھنے کو ملی جس میں چند افراد محنت، توجہ ، وسائل سے میگزین چلارہے ہیں ۔
تشہیر کے لیے بھی اچھا خاصہ سرمایہ خرچ کرتے ہیں ۔کامیابی کے اس سفر میں
انہیں اس وقت دھچکہ لگتا ہے کہ جب میگزین
کی فروخت میں اچانک کمی آتی ہے ۔ جب جائزہ لیا جا تا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا میگزین مطلوبہ تعداد
میں اسٹالز پرترسیل ہورہا ہے مگر فروخت کیوں نہیں ہوتا ؟ اور تحقیق پر انکشاف ہوتا
ہے کہ کچھ عناصر اس میگزین کو ہر اسٹال
سے اٹھوانے پر مامور کیے گئے ہیں ۔ ہر ادارے کی طرح منفی ہتھکنڈوں اور عناصر کے خطرات سے بچاؤ بھی کسی میگزین کا چیلنج ہو سکتا ہے !مثبت اور تعمیری کوششوں کے ساتھ ساتھ تخریبی اور منفی
عناصر پر نظر رکھنا بھی مومنانہ شیوہ اور
کامیابی کی ضمانت ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر