جمعرات، 29 نومبر، 2018

آبادی سے بر بادی

                                  
                                



بچپن میں ایک کہانی سنی اور پڑهی تهی!

بادشاہ کو اپنا محل تعمیر کرنا تھا مگر اس کی راہ میں ایک بڑهیا کا جهونپڑا حائل تها جس سے دست برد ہونے کو وہ ہر گز تیارنہ تهی. بادشاہ نے اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کے بجائے وہ کونا ایسے ہی چهوڑ دیا تها!اس کہانی کا سبق/عنوان *بادشاہ کا  انصاف* تها..

یہ کہانی میں اپنی کزن کو سنا رہی تهی جب ہم دونوں شاہراہ قائدین پر کهیل رہے تهے !!آپ کی حیرانگی بجا ہے ! نہ ہماری عمریں ہیں کهیلنے کی اور نہ ہی یہ جگہ ہے کهیلنےکی !  پهر؟؟دراصل یہ بہت پرانی بات ہے!
شاہراہ قائدین !0.9میٹرلمبی یہ سڑک ہمیشہ سے ایسی نہ تهی ..پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کو ٹهہرانے کے لیے شایدجهگیاں بنائ گئی تهیں اور بعد میں  انہیں الاٹ کر دی گئی تهیں ۔ایک بڑا سا خطہ ہمارے نانا جان کو بهی ان کے متروکہ جائیداد کے کلیم میں ملا .اس پر انہوں نے تعمیر ملت کے نام سے اسکول بنایا جس کا افتتاح عبد الرب نشتر نے کیا تها .بعدمیں یہ اسکول بند ہوگیا یا قومیا لیا گیا (یاد نہیں ہے! )  چنانچہ نانا جان نے اسے رہائشی عمارت میں بدل دیااور برنس روڈ کے فلیٹ سے خود بھی یہاں شفٹ ہوگئے  

یادوں کی چلمن اٹهاو تو ایک تصویر ابهرتی ہے!

اس بڑے سے احاطے میں پانچ گهر، جن میں سے ایک میں نانا جان اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تهے.یہ بقیہ چاروں سے زیادہ کشادہ اور گنجائش رکهتا تها .اس میں ایک گول  کمرہ جو آفس کہلاتا تھا ( اسکول کے زمانے میں یہ آفس ہوگا ) دراصل بیٹهک (ڈرائینگ روم) تھا .وہاں قدیم طرز کا فرنیچر نانا جان کی نفاست کا آئینہ دار تها ..
مجهے اچھی طرح یاد ہے !بهائی کے ساتھ کرسی کے ہتهے پر چڑھ کر روشن دان سے باہر جهانکتے اور راہگیروں خصوصا پهیری والوں سے گفت و شنید کرتے تھے...خالو جان کا تبادلہ پنڈی سے کراچی ہوا توکونے والے مکان میں خالہ جان رہائش پذیر ہوگئیں.اب ہماری دلچسپی اس بڑے سے کمپاونڈ کے آخری مکان میں سب سے زیادہ ہوگئی جہاں خالہ زادکے ساتھ کهانے ،کهیلنے اور باتوں شرارتوں کا اپنا لطف تهااس کے کونے میں ایک   کھجور کا درخت تھا جس میں جنات کی رہائش کا خوف ہم بچوں کو دلا یا جاتا مگر بچوں سے تو جن بھی ڈرتے ہیں شاید ۔۔۔۔۔اس گهر سے جڑے بچپن کی یقینا  ڈھیروں یادیں ہیں مگر اس وقت موضوع وہ عمارت ہے جو شاید منی پاکستان تها.! 
یہ عمارت ایسی تھی جیسا کہ ہم کتابوں  میں ایک مثالی درسگاہ  کی تصویر دیکھتے ہیں  !۔درمیان میں پهاٹک ،پهر میدان اور اونچی بنیادوں پر بنے کمرے جنہیں رہائشی صورت میں ڈهالنے کے لیے ہر گهر کو ایک دیوار کے ذریعے تقسیم کیا گیا تها یوں وہ اس  کا صحن بن گئی تهی ۔  کچھ نے تخت بچهائے ہوئے تهے اور کچھ نے کرسیاں اور مونڈھے ،جہاں دهوپ اور چاندنی سے لطف اندوز ہوا جاتا تها ..نانی کے گهر سے خالہ کے گهر تک ہمارا ریسنگ ٹریک ہوتا جس پر ہم بچے دوڑتے، چهوٹے بہن بهائی تالیاں پیٹتے .اور بڑے سکون کا سانس لیتے ماسوائے ایک گهر کے جہاں کوئی بچہ نہیں تها وہ یقینا پیچ وتاب کهاتے ہوں گے ..  ! .
یہ کوئ 1971 ء یا  1972 ء کی بات ہے!  .ملک مشرقی پاکستان کے سانحے سے گزر رہا تها .اس وقت کی حکومت کو ایر پورٹ سے قائد اعظم کے مزار تک ایک اچهی سڑک بنانے کا خیال آیا ..اس کے لیے ضروری تها کہ اس پوری بستی کو بلڈوز کیا جائے ! چنانچہ سروے اور کاروائی مکمل کرکے نوٹس جاری کر دیے گئے اور لوگوں کو کورنگی میں  بسانے کا فیصلہ ہوا .اس پر احتجاج تها اور بڑوں کی گفتگو سن کر ہم بچے بهی کهیل کهیل میں وہ کہانی دہرا رہے تهے جو اس پوسٹ کے آغاز میں  تحریر کی ہے ..
مختصر یہ کہ کچھ مذاکرات وغیرہ ہوئے جس کے نتیجے میں  گلشن اور فیڈرل بی ایریا کے درمیان کا علاقہ گلشن مصطفیٰ کے نام سے مختص ہوا کہ یہاں متاثرہ افراد کو 80 اور 120 گز کے پلاٹس سستی قیمت پر ( مفت نہیں !) متبادل کے طور پر الاٹ کیے گئے . اس فارمولے کے تحت نانا اور ان کی 3 اولادیں بڑے پلا ٹس جبکہ  کرایہ دار اور دیگر رشتہ دار جو نانا کے گهر مقیم تهے . ( یہ گهر ٹوٹے بچهڑے مصیبت زدگان کے لیے پناہ گاہ بهی تها ..یہ ایک الگ کہانی ہے!) چهوٹے پلاٹس کے حقدار ٹهہرے  اور یوں یہ بستی اجاڑنے  کی تیاری ہونے لگی ...سڑک کی تعمیر میں نانا کے مکان کا ایک حصہ (جس میں مقیم تهے ) پیمائش سے باہر تها اور بچنے کی امید تهی مگر حاسدین کی نظریں اور حکومتی فیتہ اس بات پر مر تکز  ہوگئیں کہ جب سب ٹوٹ رہا ہے تو اس کو بهی توڑیں !! بالآخر اس کام کا آغاز ہوا ..
کتنے عرصے یہ سلسلہ رہا میری یاد داشت میں نہیں... ہاں یہ یاد ہے کہ جس دن وہاں آخری دن تها امی اور خالہ نانی کو ٹیکسی میں لے کر آئیں تو امی نے مجھ سے پڑوس سے برف کے کیوبز منگوائے جو گلوکوز میں ڈال کر انہیں پلا رہی تهیں ...( یہاں پر میں وقفہ لوں گی.. کہ  ٹائم مشین میں بیٹھ کر ایک  ایسے سفر پر روانہ ہونا جو خاصہ درد ناک ہو آسان نہیں ہوتا  !)
نانا اور ماموں وہیں مقیم تهے دن بهر دهول مٹی کهاتے اور ملبے کے ڈهیر پر اپنے سامان کی باقیات  سمیٹتے ...کهانےاور آرام  کے لیے قریب کے افراد مدد کر تے .. بالآخر یہ مرحلہ بهی گزرا ہوگا اور سڑک کی تعمیر شروع ہوگئی ہوگی ... اور وہ لوگ بهی ہمارے گهر آگئے کیونکہ ابا جان ان دنوں جر منی میں تهے اس لیے امی کو بهی دوسراہٹ ہوگئی ..
 یہاں پھر یادداشتیں روکتے ہوئے اصل موضوع پر آتے ہیںمیں کوئی جذباتی ٹانکا نہیں لگانا چاہتی بلکہ as a matter of fact  بیان کرتی ہوں ۔۔۔
ڈان اخبار میں فرنٹ  صفحے پر  یہ اسٹوری  مع تصاویر شائع ہوئی تھی جس میں  نانا اور ماموں اپنے گھر کے ملبے پر بچھی پلنگ پر بیٹھے ہیں ۔اور شہ سر خی چیخ رہی تھی
                    یہ بوڑھا شخص اپنے لاکھوں کے ملبے پر اداس بیٹھا ہے ۔
چونکہ بلحاظ تخمینہ نانا کا نقصان سب سے بڑا تھا لہذا ان کا انٹرویو  شائع ہوا تھا ۔۔برسوں تک یہ اخبار ہم نے اپنے گھر میں دیکھا پھر نہ جانے کہاں چلا گیا ۔۔کچھ رشتہ داروں نے جو قیام پاکستان پر ناخوش تھے وہ نانا کو کوچتے تھے:
''،،،،،اور بناؤ پاکستان ۔!۔''  
نانا مسلم لیگ کے کارکن تھے چنانچہ قائد اعظم کے بارے میں ہتک آمیز الٖفاظ کہہ کر نانا کواشتعال دلاتے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ ہندوستان سے سب کچھ چھوڑ کر آنے کی حماقت کیوں کی ؟ ۔۔۔۔۔ان ساری بحثوں کو دہرانے کا فائدہ  ہےبھی نہیں اور اصل میں کچھ یاد بھی نہیں ہے  سوائے ایک جملے کے جو نانا جان اکثر دہراتے تھے
" ،،،،مشرقی پاکستان میں (مجیب )   مکتی باہنی لوگوں کو قتل کر رہی ہے اور یہاں ہمیں در بدر کیا جارہا ہے ،،،،’'
۔۔۔بہر حال کچھ دن وہ ہمارے ساتھ رہے پھر ناظم آباد میں اپنا مکان  کرایہ دار سے خالی کروا کر وہاں شفٹ ہوگئے  ،مگر اس کے بعد انہیں بیماریوں نے ایسا گھیرا کہ وہ پلاٹس جو انہیں مداوے کے طور پر ملے تھے ڈاکٹرز کے بلوں کی ادائیگی میں خرچ  کرکے  یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہوگئے اوریہ مکان کرایہ داروں کے ہتھے چڑھ گیا ( ضیا الحق کی کرایہ داروں کی حق میں پالیسی نے اس پر قبضہ کی راہ ہموار کر دی تھی)۔دو منزلہ عمارت کے 4 رہائشی یونٹس پر  ملکیت کا دعوی مضبوط مگر ہمت پست ہوچکی تھی۔ 20 سال کی طویل عدالتی جنگ کے بعد وارثوں نے کرایہ داروں کو لاکھوں روپے  دے کر خالی کروا یا  ( عدالتی نظام کی ناکامی !) ۔۔ اس وقت تک ورثاء اپنے اس ترکے سےخاصے بے نیاز ہوچکے تھے ۔
بچپن کی یاد اور  اپنی ماں کے ذکرسے پہلو تہی ممکن نہیں لہذ ا متعلقہ بات تو کر نی ہوگی !!حیرت کی بات ہے کہ ہم نے اپنی ماں کے منہ سے اپنے اس گھر کی باتیں تو بارہا سنیں جو وہ ہجرت پر چھوڑ آئی تھیں ۔۔۔یعنی وہ کارنس پر سجی گڑیاں ، صحن میں رکھے گھڑے اور بیٹھک میں لگے قد آدم گھڑیال ۔کی باتیں تو کرتیں  مگرہم نے کبھی ان نقصانات پر کوئی خاص باتیں نہ سنی!  امی ایک جذباتی خاتون تھیں  مگر ان کی حساسیت کا انداز بالکل جدا تھا ! ان کی الماری میں بہت سی ایسی چیزیں نظر آتیں جن سے کھیلنے اور استعمال کرنے پر ہم بہت للچاتے۔وہ ہمیں دے تو دیتیں مگر ساتھ یہ بھی بریف کرتیں ۔یہ فلاں ٹیچر نے شادی میں تحفہ دیا تھا ! ایک کالا مخمل کا موتیوں سے سجا پاؤچ  جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ اسٹاف نے دیا تھا انہیں بہت عزیز تھا ! بہت سے برتن اور ڈیکوریشن کسی نہ کسی سر یامس کی یاد دلاتا جو نشتر ماڈل اسکول سے تعلق رکھتا تھا !
اب اس تحریر کو قلم بند کرتے ہوئے سوچ رہی ہوں کہ کیا انہیں بلڈوز ہونے والے گھر کی دیواریں نہیں یاد آتی ہوں گی جس کو انہوں نے درجہ بہ درجہ قائم ہوتے دیکھا تھا ؟ کھجور کا وہ درخت  اور مختلف بیلیں اور ہر یالی جو ان کی والدہ اور دادی نے اگا رکھی تھیں انہیں نہیں یاد ہوگا ؟ اسکول کا میدان جہاں ان کی شادی کے بعد استقبالیہ دیاگیا تھا  شاہراہ قائدین سے گزرتے ہوئے انہیں یاد نہ آتا ہوگا !
  ہماری ماں کا جذباتی پن چیزوں اور زمین و  جائیداد کے بجائے افراد اور تعلقات سےجڑا  تھا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس پر گفتگو کم سے کم رہی اور ہمارے ذہنوں سے بھی وہ عمارت محو سی ہوگئی اور ہم کسی نقصان کے احساس کے بغیر بڑے ہوگئے !  وہ تو برسوں بعد ہماری چھوٹی بہن کی ایک سسرالی  عزیزہ کی شادی ہمارے ننھیالی خاندان میں ہوئی تو انہوں نے شاہراہ قائدین سے گزرتے ہوئے ہماری امی کا نام لے کر  اپنی بیگم سے کہا  کہ یہاں سے یہاں تک روڈ ان کی تھی تو اس بے چاری کا منہ  حیرت سے کھلا رہ گیا کہ بھابھی ( ہماری بہن ) نے تو کبھی نہیں بتا یا ۔۔۔؟ الحمد للہ !زمین اور جائیداد سے اغماض ہم سب کی فطرت میں ہے ۔ بات امی کی جذباتیت کی کرنی ہو تو یہ واقعہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔کہ ناظم آباد کے مکان پر برسوں قابض رہنے والے ڈاکٹر کے نوعمر بیٹے کی (جومیڈیکل کا طالب علم تھا  ) حادثے میں موت کی خبر پر امی نے دل پکڑ لیا تھا اور رو رو کر کہہ رہی تھیں  کہ ہم نے تو بد دعا نہیں کی تھی اللہ ! بار بار اس بچے اور اس کی ماں کا نام لے کر سسکتی رہیں ۔۔۔ہمارے لیے یہ بات بڑی ہکا بکا ہونے والی تھی کیونکہ اس ڈاکٹر نے مقد مے کے دوران  نہ صرف  زبان سے بہت تکلیف دہ بات کہی تھی بلکہ ہزاروں روپے لے کر مکان خالی کیا تھا ۔۔زبان سے نہ کہی جائے مگر مظلوم کی آہ تو اللہ تک ضرور پہنچتی ہے !
عزیز قارئین ! یہ تحریر نہ تو ہمدردی  حاصل کرنے لیے لکھی گئی ہے اور نہ ہی اپنے خاندان کی بڑائی بیان کر نے کے لیے ! بلکہ تجاوزات کو ہٹانے کے ظالمانہ طریقے پر بے روز گار اور بے گھر افراد کی بے بسی کا سوچ کر کچھ یادیں شئیر کی ہیں  جن کو ضبط تحریر کرنے میں تو شاید وقت لگا ہو مگر یادوں کی چلمن ہٹانے کی دیر تھی اور  آنکھوں کے سامنے ویڈیو کی صورت میں سارے مناظر گھوم گئے ! 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر
کراچی

جمعہ، 9 نومبر، 2018

میرے محمد ﷺ



Image result for pic of masjid nabvi
محمدﷺ تو میرے ہیں !

سخت گر می کی دوپہر تهی امی نے بچوں کو کمرے میں لیٹنے کو کہا اور خود کام میں لگ گئیں.6/7 سالہ ننهی کھڑکی میں بیٹھ گئی جہاں برابر والے گهر سے بچوں کی آوازیں آرہی تھیں. دونوں گھروں کو صحن کی دیوار جدا کرتی تھی توملحقہ کمروں کو لان میں لگی باڑ! جس کے کونے میں جگہ بنا کر بچوں نے آمدورفت کا ذریعہ بنا یا ہوا تها..اگر کھڑکی میں گرل نہ لگی ہوتی تو وہ کود کر وہیں جا پہنچتی ..بہر حال گفتگو میں تو کچھ بھی حائل نہ تھا!
            "یہ کیا ہے ؟  ۔۔"      ننهی نے اپنی ہم عمر سہیلی کے ہاتھ میں  زرق برق کپڑے کی دهجی دیکھ کر  سوال کیا..
"محمد ﷺکا جشن ہے نا.اس کے لیے میری امی کپڑے سی رہی ہیں ...اس نے فخریہ دهجی دکھائی. ..ننهی نے مزید تجسس کیا تو اسے مشین چلنے کی آواز بھی سنائی دی. .اب تو اس کی حسرت مزید بڑھ گئی ...امی کمرے میں داخل ہوئیں تو ننھی کی سسکیاں سن کر قریب آگئیں.۔
                "کیا ہوا ؟   "پوچھنے بھی نہ پائی تھیں کہ وہ پهٹ پڑی..
"
امی..امی ..بنو .....اور وہ کہہ رہی تھی کہ محمدﷺ تو ہمارے ہیں ..میرے بھائی کا نام بھی محمد ہے !امی ۔۔۔۔! آپ تو کہتی ہیں ہمارے محمد .؟. نہیں اس کے نہیں ہیں .. ہمارے ہیں محمد... "
ضدی لہجے میں بمشکل بات مکمل کر کے باقاعدہ ہچکیاں لینے لگی .۔امی نے گلے سے لگایا اور اس کی نادانی پر دل ہی دل میں ہنستے ہوئے پیار سے بولیں ..
"..
محمدﷺ تو سب کے ہیں! بلکہ ساری دنیا کے لیے ہیں! ہمیشہ کے لیے ہیں ! اور تمہارے ابو اور بھائ کے نام کے ساتھ بھی محمد ہے.. "    باقی باتیں اس کا ننها ذہن تو نہ جذب کر سکا مگر آخری بات اس کے دل کو بھا گئی .. اب میں بنو کو خوب  جواب دوں گی محمد ﷺ تو میرے ہیں ! ..."

وقت کے ساتھ شعور آتا گیا .بچپن کی معصوم باتیں خوبصورت یادیں بن کر رہ گئیں دنیا کی رنگینیوں میں محمد کی محبت کچھ دب کر رہ گئی یا شاید اظہار کا طریقہ بدل گیا ۔ جذباتیت کم ہونے لگی  تھی  یا ٹھہر گئی تھی ! بہرحال جو بھی وجہ ہو ، اب اسے ننھی کہنے والا  کوئی نہ رہاتھا  اب تو وہ درجنوں کی باجی اور آپا تھی تو  سینکڑوں کے لیے  آنٹی اور میڈم ! جی ہاں ! اب   وہ ایک پرائمری  اسکول کی نگران تھی میڈم راحیلہ ! اسٹاف کے لیے ایک شفیق اور مہربان پرنسپل  جو کسی بھی ٹیچر کی عدم موجودگی میں اس کی کلاس بخوشی لے لیتی کہ معصوم بچوں کے ساتھ وقت گزارنا اسے بہت پسند تھا ۔
آج  مس سارہ غیر  حاضر تھیں  اور کلاس ٹو میں اسلامیات کا پیریڈ فارغ تھا ۔ انہوں نے  نصاب پر نظر ڈالی اور کلاس لینے چل دیں ۔ آج کل سیرت نبی ﷺ پڑھائی جارہی تھی ۔ بچے سنت رسول ﷺ کے حوالے سے عملی مشق کی دہرائی کر رہے تھے ۔ میڈم راحیلہ کے ذہن میں جھماکہ سا ہوا اور  ان کے سامنے  ایک  سسکتی ہوئی بچی آگئی ۔۔جو ٹو ٹ ٹوٹ کر کہہ رہی تھی۔

  " محمد ﷺ  صرف میرے ہیں !!کسی اور کے نہیں ہیں ۔۔۔۔"
   انہوں نے جھر جھری لی  اور بچوں کی طرف متوجہ ہوگئیں جو اب  سنتوں کی چیک لسٹ   والی ورک شیٹ پر کام کر رہے تھے ۔بچے خاموشی سے کا م کر رہے تھے بس کبھی کبھی ایک خوشی بھری یا پھر   اوہ والی سسکی نکلتی!    ادب نے پوری کلاس کو اپنے گھیرے میں لیا ہو اتھا ۔ وہ بھی اپنی سیٹ پر بیٹھ کر ورک شیٹ  پر مصرو ف ہوگئیں ۔۔   
       "میں کون کون سی سنت پر عمل کرتی ہوں ؟ / کر سکتی ہوں ؟  "     سوال کا مفہوم واضح تھا مگراکثر  جواب لکھتے ہوئے بڑی مایوسی طاری ہورہی تھی
 آٹاگوندھنا ۔۔۔۔۔۔رسول اللہ گوندھ لیتے تھے ۔۔اور میں ؟     اپنی چالیس سالہ عمر کا حساب لگا یا ۔ یہ کام تو میں کر سکتی تھی ! مگر وہ کیا ہو کہ آٹا گوندھنے سے اسے  چڑ تھی   اور اللہ کی مہربانی سے ماں ، بہن ، بھابھی ، کزنز اور خادمہ کی سہولت کی وجہ سے اسے کبھی  زحمت نہیں ہوئی ۔ کبھی انتہائی ضرورت کے وقت  ہاتھ ڈالنا بھی پڑا تو  لئی نما آٹے سے  روٹی پکا نا دشوار ہوجاتا اور وہ گھنٹوں  ہاتھوں سے آٹا چھڑاتی رہ جاتی ۔ سارے مناظر آنکھوں کے سامنے آکر دھندلا رہے تھے ۔اس نے قلم  رکھ کر اپنے ہاتھوں کو بغور دیکھنا شروع کردیا
   " کیا میرے ہاتھ ان ہاتھوں سے زیادہ قیمتی ہیں جن کی ہتھیلیوں کی نرمی  مخمل کو ماند کرتی تھی ؟  افسوس کی لہر اس کے جسم میں دوڑ رہی تھی ۔اس نے بھیگی پلکوں سے ایک فیصلہ کر لیا !
Image result for how to knead chapati dough

ارادہ باندھنا مشکل نہیں ہوتا جتنا  ان پر عمل دشوار !  وہ بھی ڈٹ گئی ۔ روز آٹا گوندھنے کی کوشش کرتی ۔محنت لگتی کیونکہ انگلیاں سخت اور موٹی ہوکر لچک کھو بیٹھی تھیں ۔ وہ تو شکر ہے کہ زندگی بھر  ساتھ رہنے والے بدل گئے تھے ورنہ مذاق بھی راہ کی رکاوٹ بنتا۔ اب بھی آٹا گوندھنے کی مشقت کے بعد وہ خود ہی پکاتی کہ اس کے گوندھے آٹے کی روٹی بنانا کسی اور کے بس کی بات نہیں تھا۔
آٹا گوندھنا آج بھی اتنا دشوار ہے جتنا پہلے تھا ہاں جس لگن سے وہ گوندھتی ہے کچھ نہ کچھ ضرور اثر دکھائے گا کہ یہ سنت جس کی نسبت سے اپنائی ہے آٹے میں ہاتھ ڈالتے ہی  زبا ن خود بخود اس پر درود و سلام بھیجنے لگتی ہے اور پھر اس کو لگتا ہے کہ شاید یہ ایک سنت اسکو اپنے محبوب کے ہاتھوں جام کا حقدار ٹھہرادے !!  صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر


اتوار، 7 اکتوبر، 2018

میرا ماحؤل میری ذمہ داری


    




                           میرا ماحول  میری ذمہ داری                               
 
تین پیریڈ تک بچوں کو پڑھا کر اپنے فارغ پیریڈ کی خوشی لیے میں ٹی روم کی طرف بڑھی۔صاف ستھرے کوریڈورز سے گزرنے کے بعد باہر کی طرف جہاں بچوں کے کھیل کی جگہ ہے،درختوں کے نیچے بھی ایک نظم اور تر تیب نظر آئی ماحول پر سکون تھا اور کلاسز سے بچوں کی دھیمی دھیمی آوازیں ایک خاص ردہم پیدا کر رہی تھیں۔ طمانیت بھرے اس پیریڈ کے بعد وقفہ تھا جس میں اسکول بچوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ نظم و ضبط کی ذمہ داران اساتذہ اور معاون طالبات اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے لگیں جو وقفہ ختم ہونے کی گھنٹی کے ساتھ ہی ایک نئے انداز میں بدلا اور اساتذہ کے گروپ کے ساتھ میں بھی اپنی کلاس لینے چل پڑی۔خوش گپیوں میں چلتے چلتے جو نظر پڑی تو سٹی گم ہوگئی۔ اب منظر بدلا ہوا تھا۔جہاں وقفے سے پہلے محض پھول اور درختوں کی چند پتیاں نظر آئی تھیں اب ہر قسم کے ریپرز سے اٹا ہوا تھا!
سوچا کہ کینٹن والے کو جا کر بتاؤں کہ آج آپ کی کتنی آمدنی ہوئی ہے؟ کتنے  بسکٹ، چپس، چاکلیٹ، ویفرز،کولڈ ڈرنک....وغیرہ وغیرہ! سارے ریپرز گننا مشکل تو تھا مگر ناممکن نہیں!  ذہن میں خیال آیا کہ چھوٹی کلاسز میں گنتی کرانے، چیزوں میں فرق، مختلف اشیاء کو علیحدہ کرنے کی سر گرمی ان ریپرز سے کتنی اچھی طرح کروائی جاسکتی ہے مگر جس طرح وہ گیلے کوڑے سے لتھڑی ہوئی تھی یہ بات ناممکن تھی اور مزیدیہ کہ صفائی پر مامور خواتین اسے کنگ سائز جھاڑؤں کے ذریعے ہر قسم کے کوڑے کوکوڑے دان میں دھکیل رہی تھیں یہ بات صرف سوچی ہی  جا سکتی تھی۔اسکول میں موجود تمام کوڑے دان ابل ابل کر اس ماحول کو آلودہ کر رہے تھے جو محض گھنٹہ بھر پہلے فطرت سے ہم آہنگ تھا۔
اس منظر نے  ایک تحریک پیدا کی اور جیسے ہی اسکول اسمبلی کی باری آئی ”صفائی نصف ایمان ہے“  کی حدیث کو تھیم بنا کر کچھ بریفنگ رکھی
 اور ساتھ ساتھ بچوں کو کچھ پراجیکٹ بھی دیے۔ان میں سے ایک تھا کہ آپ جو بھی چیز کھائیں اس کے ریپر کو تہہ کر کے ربر بینڈ سے باندھتے چلے جائیں اور ہفتے بھر بعد ایک جگہ جمع کردیں تو یہ یہ ڈھیر ردی میں بک جائے گا!  ایک مشہور NGO کا تھیم ہے
                                       ردی کو سونے میں بدلیں!“ 
ایک تقویت بخش خیال تھاجو آپ کی داد کا مستحق ٹھہر تا.....مگر یہ منصوبہ ناکام ہوا کہ ایک تو اسکول انتظامیہ کے سامنے والدین کی شکایات آنے کا خدشہ (ہم بچوں کو اسکول پڑھنے بھیجتے ہیں کوڑا چننے نہیں!)دوسرے صفائی پر مامور خواتین کی ہڈ حرامی کا  خد شہ ...اور اس سے بڑھ کر اساتذہ کا عدم تعاون!...ہوں! ہم تنخواہ پڑھانے کی لیتے ہیں ماحول کی نگرانی کی نہیں...دلچسپ بات کہ یہ وہی ٹیچرز تھیں جوبچوں کو سائنس کے مضمون میں ماحول پر سبق پڑھا تے ہوئے تین الفاظ رٹوا رہی تھیں! کون سے الفاظ؟ اس کے لیے آپ کو مکمل بلاگ پڑھنا پڑے گا!
آئیے ایک اور منظر اپنے زمانہ طالبعلمی کا دکھاتے ہیں!  سالڈ ویسٹ پر لیکچر سننے کے بعد ہم سب اگلی کلاس کے منتظر تھے۔ایک دم کلاس فیلو صباحت کے ہسٹیریائی انداز میں چیخنے پر ہم سب متوجہ ہوئے:
 ”...اف !  اس حساب سے اگر زمین پر کوڑا کرکٹ بڑھتا رہا توبیس سال بعد ہماری اگلی نسلیں کہاں ہوں گی؟ ہم ان کے لیے کیسا ماحول چھوڑ رہے ہیں؟..ہم کہاں ہوں گے...!“ 
  ”...کہیں نہیں!! ہم extinct   (ناپید)  ہوچکے ہوں گے...یا پھر endanger species (معدومیت کے خطرات سے دوچار  نسل) بن چکے ہوں گے...“
بات قہقہوں اور مذاق میں اڑادی گئی مگر اس کا خوف زدہ چہرہ آج بھی نظروں میں ہے اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر دیکھتے ہوئے ہوئے سوچتے ہیں وہ کہاں ہوگی؟کیا کر رہی ہوگی؟ کہیں ناپید تو نہیں ہوگئی  بے چاری!
تلمیذ فاطمہ کا ذکر بھی اس ضمن میں ناگزیر ہے جس کے ساتھ فکری اور علمی بحثوں کے درمیان مادی  ترقی کے حوالے سے پولی تھین بیگز کے متبادل نہ ہونے پر تشویش کا اظہار ہوتا تھا! سوچوں کے بھنور میں اپنے کزن کا چہرہ ابھرتا ہے جو شپ سے واپسی پر دوستوں اور رشتہ داروں کے اپنے گھر والوں کو بھجوائے گئے سوٹ کیس میں بھرے سفید سفید پیکٹ دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے تھے! کچھ اندازہ لگایا؟ جی ہاں ڈائیپرز!  اس کی ایجاد سے پہلے گویا بچے فارغ ہی نہیں ہوتے تھے ! یہ ضروریات زندگی میں اس طرح داخل ہوئے کہ اہل کراچی کی ہڑتال کے دوران ہنگامی فہرست میں غذا اور ادویات کے ساتھ پیمپرز کی خریداری بھی لازمی تھی۔ اور یہ ایک منافع بخش آئٹم بن چکا ہے۔والدین کی محبت کے اظہار کی علامت! ایک دفعہ گھرمیں کام کر نے والی خاتون اپنی بہن کو لائیں جس کی گود میں چھوٹا بچہ تھا۔معلوم ہوا شوہر سے جھگڑ کر آئی ہیں.جو اپنے بچے کا بالکل خیا ل نہیں رکھتا..اب وہ نوکری کر کے بچے کے لیے سیریلیک اور پمپرز خریدے گی۔۔یقینا جھگڑے کی وجوہات اور بھی ہوں گی مگر سر فہرست پیمپرز کی فراہمی تھا۔
ایک نامور شخصیت مسز نسیمہ تر مذی ”اللہ معاف کرے“ کے نام سے جنگ میں کالمز لکھا کرتی تھیں۔وہ سبھی نے پڑھے ہوں گے اور سر دھنا ہوگا مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں ردی کاغذکے ٹکڑوں کو بطور رائٹنگ پیڈ استعمال کرتے ہوئے دیکھا تھا اور اپنایا بھی ہے کہ ہماری پرائمری اسکول  پرنسپل مسز شاہ ہمیں کاغذ پھاڑتے دیکھ کر آگ بگولہ ہوجاتی تھیں .....(.. مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا ہے۔اب ہمیں کاغذ نہیں ملے گا!)...رقیہ آنٹی مرحومہ بے کارگتے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر رکھتی تھیں اور کھانا پکانے کے دوران بار بار نئی ماچس جلانے کے بجائے انہیں استعمال کرتی تھیں۔نہ جلی ہوئی ماچسوں کا ڈھیر نظر آتا نہ ہی....جی ہاں! ماچس ہو یا کاغذ دونوں درخت کاٹ کر حاصل کیے جاتے ہیں۔انسان اور جانور تو کنزیومر ہیں۔درخت ہی تو پروڈیوسر ہیں! ماحول کے تحفظ اور غذا کی فراہمی کے ذمہ دار!اب تو آپ کو وہ تین الفاظ بتادینے چاہییں جو ہم نے اسکول کے ذکر میں کیے تھے!  وہ ہیں...

REDUCE, RECYCLE and REUSE  
ہماری اب تک کی گفتگو کو بھی آپ ان ہی تین عنوانات کے تحت سمجھ سکتے ہیں!
REDUCE یعنی کوڑے کرکٹ کی مقدار کم سے کم ہو
! RECYCLEیعنی ایک چیز کی شکل بدل کر استعمال کی جائے!
REUSE   یعنی کسی بھی چیز کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے!

ماحول کے تحفظ سے متعلق بے شمار تجاویز، مشورے، نصیحتیں، طریقے لکھے جاسکتے ہیں۔ اگر انٹر نیٹ کھولیں تو اعداد و شمار، ویڈیو، اور مضامین کی بھر مار ملے گی مگر ہم نے اس سے اپنے مضمون کو سجانے کے بجائے محض سر سری طور پر مشاہدات اور تجربات کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ اپنی تحقیقی رپورٹوں اور معلومات کا سہارا بھی نہیں لیا ہے بلکہ انفرادی اور ذاتی تاثرات کے ذریعے بات کہنے کی کوشش کی ہے۔اداروں کو ان کی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر کوسنا بہت آسان ہے مگر ہر کام حکومت پر چھوڑناایک معقول رویہ نہیں ہے بلکہ بحیثیت ایک فرد اور متمدن شہری ہم سب کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام ضرور کرے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
   فر حت طاہر 


منگل، 17 جولائی، 2018

انتخابات کا سیزن ۔۔۔ماضی سے حال تک !



عزیز قارئین !
اس بلاگ میں خود تو کچھ نہیں لکھا  ہے مگر محتر مہ بنت الاسلام کے شہرہ آفاق ناول " ذرا نم ہو تو یہ مٹی ۔۔" میں سے وہ حصہ  پیش خدمت ہے جو70ء کے  الیکشن کی منظر کشی کر رہا ہے ۔
ذرا پڑھیے اور لطف اٹھا ئیے ایک فکر مندی کے ساتھ کہ آج پھر وہی معرکہ درپیش ہے ۔۔۔۔!!
 








                                                                       



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عزیز قارئین ! ماضی کا انتخابی منظر آج بھی جوں کا توں ہے !
حالات و واقعات اور خدشات دونوں اسی طرح ہیں !! اس امید کے ساتھ یہ کاوش پیش خدمت ہے کہ ہماری قوم درست فیصلہ کر کے پاکستان کو سیکولربنانے کے ایجنڈے پر پانی پھیر دے ۔آمین 
آئیے دعاکریں کہ ایسا ہی ہو کہ اسی میں ہماری بقا ہے ورنہ آنے والی نسل میں نہ حیا بچے گی نہ ایمان او راس سے بڑا کوئی خسارا نہیں ہو گا ! 







منگل، 26 جون، 2018

جوش قدح سے بزم چراغاں کے منتظر !


       


                                                                                                                                        
      ٭  ہم جو سوچا کرتے ہیں ۔۔۔ وہ لوگ کیا کرتے ہیں !

21 جون ِ، سال کا طویل ترین دن !   بہر حال  ایسا بھی نہیں کہ 48 گھنٹے کا ہوگیا ہو ! لیکن مصروفیات کا شیڈول  تو کچھ اسی طرح سامنے آرہا تھا کہ جیسے ایک دن میں کئی دن گزارنے ہیں صبح ایک تعزیت،دوپہر میں ضروری خریداری ،سہ پہر کی دو تقریبات تهیں:
ایک بیرون شہر سے آئی ہوئ  مصنفہ  قانتہ رابعہ کے ساتھ نشست اور دوسری عید ملن پارٹی جسے انتخابی مہم کے طور پر برتنا تھا ۔کارنر میٹنگ سمجھ لیں ! .رات کو ولیمہ میں شرکتاوپر سے خواب آور موسم میں نیند کا زور اور ظالم مرطوب بھی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر موقع پر لباس کی تبدیلی پر مجبورتهے  ! نہلے پر دہلا الیکشن کی قربت کے باعث اپنی ذمہ داریوں کے حساب سے حاضر باش  رہنا اور رکهنا ..
انسان تو انسان ہے !نازک ہے پرwarm blooded ہونے کے ناطے  ڈهیٹ بهی بہت ہے !.موسم اورحالات کے لحاظ  سے اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہےچنانچہ صبح سے ہی  دعا کے سہارے پھرتی کا مظاہرہ شروع کردیا ..
 اصل چیلنج   سہ پہر کی تقریبات میں تھی .کم و بیش ایک ہی اوقات میں اتنے فاصلوں کے ساتھ دونوں جگہ اپنی حاضری کو ممکن بنانا ! خیر سوچ و بچار سے اس کا بھی حل   نکل آیا ..یعنی دونوں میں شرکت کی کوشش 
قانتہ رابعہ سے  واقفیت بذریعہ ان کی تحاریرتو برسوں سے تھی مگر ذاتی راہ ورسم اجتماع عام سے ہوئی جسے واٹس آپ کی سہولت  نے مستقل رابطہ کی شکل دے دی ہے .۔عید سے دو دن قبل ان کا میسج آیا کراچی آرہی ہوں .مگر اس میں ملاقات کا امکان بہت کم جهلک رہا تھا. اور یہ معلوم ہو نے کے بعد کہ محض 3 دن  کا پروگرام ہے ملنے کی امید بالکل معدوم ہوگئی ..ظاہر ہے کچھ ذاتی پروگرام سے آئی ہوں گی !! مگر پھر عید کے چوتھے دن میسج آیا!  حریم ادب کی طرف سے ان کے اعزاز میں تقریب کی اطلاع! دل خوشی سے معمور ہوا مگر جگہ اور دن دیکھ کر الجھن کا شکار بھی.
مگر ٹھیک 3.30 پر جب ہم ادارہ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے معصوم سے بچے کی تلاوت کانوں میں سنائی دی .یقینا یہ پروگرام کا آغاز تھا ..تلاوت کے بعد نعت پڑهی گئی  اس دوران مہمان خصوصی قانتہ رابعہ تشریف لا چکی تھیں۔ ..بیرون شہر کی مصنفات کے ساتھ نشست منانے کا آغاز کب سے ہوا؟ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا ..
ماضی قریب 2012 کی بات ہے ..صائمہ اسما ( مدیرہ بتول ) اپنے شوہر کے ہمراہ  کراچی آئی ہوئی تھیں جو ایک ورکشاپ کے لیے تشریف لائے تھے. .پچھلی نشستوں پر ساتھ بیٹھی ہوئی رائٹرز فورم کراچی کی نگران کو ایک نوٹ لکھ کر متوجہ کیا .
"صائمہ اسما کراچی میں ہیں !                            موقع سے  فائدہ اٹھا کر ا ن کے ساتھ ایک نشست رکھ لی جائے! "
 (یہ نوٹ اب بھی پرانی ڈائری میں موجود ہے ) اس کے جواب میں اس نے ہمیں ایسی اجنبی نظروں سے دیکھا گویا ہم نے کسی نامعلوم زبان میں لکھا ہو یا دہشت گردی کا کوئی اشارہ ہو! خیر کچھ عرصے بعد رائٹرز فورم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر صائمہ اسما کو بطور خاص لاہور سے بلوایا گیا تو ہمیں اپنے اسی نوٹ کا کارنامہ محسوس ہوا .
پهر اپریل 2014ء کی بات ہے جب حریم ادب کی ذمہ داری سنبھالے چند ہفتے ہی ہوئے تھے .صائمہ اسما کا فون آیا کہ دو دن کے لیے کراچی آرہی ہوں اگر باہم  ملاقات کا انتظام ہو سکے توَََََََ۔۔۔؟  دل اس بات پر جھوم اٹھا !  اور محض دو گھنٹے کے نوٹس پر ہم نے نشست طے کر لی ۔ جلدی یوں بھی تھی کہ اسی لحاظ سے صائمہ اسماء کو اپنی واپسی کی بکنگ کروانی تھی ۔اپنی پھرتی پر خود کو داد کہ اس زمانے میں واٹس اپ  گروپس کی سہولت اتنی عام نہ تھی لہذا متعلقہ افراد سے بذریعہ فون ہی رابطہ کرنا تھا ۔۔اور یوں بظاہر ایک ناممکن نشست منعقد ہوسکی جو اس وقت کی ناظمہ صوبہ افشاں نوید جو خود ایک علمی اور ادبی شخصیت ہیں   کےتعاون کے بغیر ممکن نہ تھی !  قلم کار بہنوں نے غیر معمولی دلچسپی لے کر اسےکامیاب بنا یا اور  یوں ایک غیر رسمی نشست کی بنیادوجود میں آئی ۔اس کی روداد ایک شام گل دوپہر کے نام سے شائع ہوئی تھی ۔۔شرکاء برسوں اس کےخمار میں رہے تو شریک نہ ہونے والے افسوس کا شکار !۔۔
یادوں کی پٹاری میں ایک چمک دار سا موتی ابھرتا ہے !
یہ ہے اجتماع عام 2014 ء جو نومبر کے آخری ہفتے میں مینار پاکستان تلے منعقد ہوا ۔ اس میں  شعبہ حریم ادب کے تحت اسٹال پر پورے پاکستان سے آئی ہوئی ادبی شخصیات  کے باہم ملاقات کا انتطا م تھا ۔اس کے علاوہ ایک ادبی نشست رات گئے منعقد ہوئی جس میں بھی مصنفات اور شاعرات ایک دوسرے سے واقف ہوئے ۔ 
http://www.qalamkarwan.com/2014/12/shauq-ki-shidat-ko-aazmana.html
دلچسپ بات یہ تھی کہ کراچی سے آنے والے بیشتر افراد بھی پہلی دفعہ بالمشافہ ملاقات کر رہے تھے۔ اس تقریب سے اتنی مہمیز ملی کہ حریم ادب پاکستان کی اولین نگران عذرا جمال  کی صاحب زادی انجم خالق نے اپنے گھر ایک ادبی نشست رکھنے کا پروگرام بناڈالا اور یہ محض سر سری بات نہیں تھی بلکہ اس کو فوری عملی جامہ  بھی  پہنا ڈالا ۔  جنوری 2015 ء میں ایک خوبصورت تقریب منعقد ہوئی ۔جس میں جنوب سے شمال اور شرق سے غرب تک کراچی کی ادبی شخصیات جمع تھیں ۔ شرکاء کا اصرار تھا کہ ہر ماہ نہ سہی تو ہر تین ماہ پر ایسی بیٹھک  ہو ! بات سالانہ پر آگئی کیونکہ کراچی کے فاصلے اور مصروفیات  اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتے  ۔۔۔ویسے سالانہ بنیاد پر تو انعقاد ہوتا ہی ہے مگر تقاضہ  باہم ملاقات اور غیر رسمی  تقریب کا تھا ! 
جی ہاں ! اور یہ وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ یہ ساری روداد اسی حوالے سے ہے ورنہ بیرونی سرکل کو راغب کرنے کے لیے تو ڈھیروں کاوشیں بہت جانفشانی سے  حریم اد ب  آئے دن کرتا رہتا ہے !
یادوں کے سلسلے کو  جوڑتے ہوئے آگے بڑھتےہیں !!
یہ ہے 2016ء ! 27/  جولائی کو  قانتہ رابعہ  کے اعزازمیں تقریب منعقد ہوئی جس میں اہل کراچی کی باذوق خواتین جوق در جوق شریک ہوئیں ۔پھر 2/3 ستمبر صائمہ اسماء کے ساتھنشست رہیں ۔ عید الاضحیٰ  سے متصل  ہونے کے باوجود قارئین بتول اپنی مدیرہ  کی پذیرائی کو موجود تھیں ۔ پھر اکتوبر 2017ء میں صائمہ اسماء کے ساتھ  فاران کلب میں  خوب صورت رنگا رنگ غیر رسمی  محفل رہیجس کی ہنگامی بنیادوں پر انعقاد  واقعی حریم ادب داد کا مستحق ہے ۔ 24 نومبر  2017 ءکو کاشانہ اسماعیل  میں کراچی کی قلم کار بہنیںصائمہ اسماء کے ساتھ زانوئے تلمذ طے کر رہی تھیں اور اب 2018 ء میں شوال کی 6 تاریخ قانتہ کے ساتھ عید ملن منانی تھی ! !
اور  ہم اس تقریب میں موجود تھے  جس میں آہستہ آہستہ شرکاء تشریف لارہے تھے اور فرشی نشست تنگی داماں کا شکار تھی ۔ میزبان ثمرین احمد نے ہمیں مہمان خصوصی کے برابر میں خالی کرسی پر براجمان کر کے الجھن میں ڈال دیا تھا ۔ذہن میں کھچڑی سی پک رہی تھی اور اس پر مائک اچانک سے ہاتھ میں دے دیا جائے تو خدشہ ہوتا ہے کہ دوسری تقریب  کے لیے سوچے گئے جملے یہاں نہ دہرادیں ۔ کاش منتظمین چائے پہلے ہی پلوانے کا انتظام کردیتے مگر خیر رہی اور ناگفتنی نہ ہوسکی حتی کہ ہماری روانگی کا وقت آگیا ۔جی ہاں ! یہ ہی پروگرام سوچا تھا کہ 5 بجے دوسری تقریب میں شریک ہوں گے !
ایک بھری محفل سے اٹھنا آسان نہیں تھا ۔بہت سے چہرے رو برو  تھے جن سے عید کا سلام لینا اوردینا تھا مگر اس ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے ہال میں یہ ناممکن تھا اور یوں ہم تشنگی لیے سیڑھیاں اتر آئے ۔ بہت سے شناسا تو ہماری روانگی کے بعد ہی پہنچے تھے ! رات کو تقریب  کی روداد پڑھ کر ہمیں بھی خیال آیا کہ کچھ اس کاحوال درج کریں !
اہل کراچی سمندر کے کنارے رہائش پذیر ہونے کے باعث  اس جیسی کشادگی اور وسعت دل بھی رکھتے ہیں لہذا ادب کی پرورش میں ہر بار مہمان نوازی خوب نبھائی ! حریم ادب اپنی موقع شناسی پر بجا طور پر تحسین کی مستحق  کہ انتہائی مختصر عرصے میں بھی تقریب کا انتظام کر لیتی ہے ! اس بہانے کراچی والے بھی ایک دوسرے کی دید حاصل کر لیتے ہیں !
حریم ادب اور شعبہ نشر و اشاعت کی نظر کرم اہل کراچی پر کب ملتفت ہوتی ہے ؟ سب منتظر ہیں جوش قدح کو بزم چراغاں کر نے کو ! کسر نفسی سے قطع نظر ہر فرد جواہر سے کم نہیں ! 
٭ فرحت طاہر ٭