جمنازیم میں لگنے والے کتب میلے میں پہلی دفعہ کب شر کت کی ؟ یاد
نہیں ! ہاں مگرالماری میں رکھی وہا ں سے
خریدی گئی کچھ کتب پر لکھی تاریخ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے تعلیمی دور سے
ہی وہاں کا دورہ کرتے رہے ہیں ! ان تاریخی کتب میں کچھ تو ہماری تدریسی بنیادی کتب تھیں اور کچھ دستکاری کی کتب جو ہم نے اپنی والدہ کے لیے وہاں سے خریدی تھیں ۔
کتب دوستی کی ایک روایت جس کی امین برسوں سے اسلامی جمیعت طلبہ ہے ۔حسب معمول فروری 2009 ء میں اس کا انعقاد ہوا جس کی خبر اخبار میں پڑھ کر ہماری والدہ نے ہمیں وہاں جانے کی ہدایت کی ۔ ظاہر ہے ماں کا شوق ہی ہوتا ہے جوبچوں میں منتقل ہوتا ہے !یہ وہ وقت تھا جب گھر میں مصروفیت عروج پرتھی۔اگلے ماہ بھائی کی شادی اور اس میں شرکت کے لیے باہر سے آنے والےمہمانوں کے لیے رہائشی انتظا مات کو حتمی شکل دی جارہی تھی ۔ ایسے میں امی کا یہ مطالبہ سخت شاق گزرا چنانچہ ہم اس پر عمل درآمدنہ کرسکے۔ انہوں نے اصرار نہ کیا اور خاموش ہوگئیں جس کا ملال ہمیں تازندگی رہے گا کیونکہ یہ ان کی آخری فرمائش تھی ( چند ماہ بیمار رہ کر وہ ماہ جون میں انتقال کر گئیں )اور یہ افسوس اور گہرا ہوا جب کئی سال تک ہم مختلف وجوہ کے باعث کتب میلے میں شرکت سے محروم رہے۔
خیر اس کی تلافی کے لیے ہم بہنیں اس میں بھرپور شرکت کرتے ہیں ۔ اس سال بھی کچھ ایسا ہی ارادہ تھا۔ گھر کے بچے بھی اس میں شامل ہونے کی ضد کرنے لگے ۔ان کی بات بجا تھی کہ وہ ایکسپو میں ہونے والے عالمی کتب میلے میں وہ سڑک کی تعمیر کے رش کی وجہ سے نہ جاسکے تھے ۔ چونکہ یہ میلہ طلبہ کے لیے ہوتا ہے لہذا ان کی سہولت کے لیے دوران ہفتہ ہی منعقد ہوتا ہے اور اسکولوں میں پڑھائی زوروں پر ہےلہذا آپ لوگ تو شرکت نہیں کر پاؤ گے ! ہم نے بچوں کو دلاسہ دیا کہ آئندہ سہی ! مگر بچے دھن کے پکے !
7 /فروری کی صبح ہماری بھانجی کا فون آیا کہ ہم کتب میلے میں شرکت کے لیے آرہے ہیں ! یاحیرت؟آج تو افتتاح ہی ہے رش ہوگا اور امتحان اتنے قریب ہیں تیاری؟ پتہ چلا کہ کل ٹسٹ ہے اور پرسوں اسپورٹس ! لہذا بچے آج ہی کے دن چھٹی کر سکتے ہیں۔آج کل بچوں کے شیڈول کے مطابق پروگرام بنتے ہیں لہذا ہمیں بھی راضی ہونا پڑا ۔ ان کی سواری پہنچی تو مختصر سے کھانے کے بعد ہم سب یونیورسٹی جانے کے لیے تیار تھے۔ یونیورسٹی روڈ پر تعمیراتی کام جاری ہے اور اس پر سفرکرنا کار محال ہے ! بڑے بڑے مٹی کے ڈھیر اور اطراف میں کھدے ہوئے گڑھے! پل صراط کا منظر ذہن میں آ گیا ۔
خیر منزلیں طے کرتے جمنا زیم میں پہنچے تو خلاف توقع کم رش نظر آیا ۔پچھلے تجربات کی روشنی میں ہم نے ہاتھ میں صرف والیٹ اور موبائیل ہی رکھا تھا ۔وجہ ؟ واپسی میں بیگ کے لیے وقت بچانا تھا ۔ بیگز کے اسٹال پر رش دیکھ کر اپنے اس فیصلے پر خود کو داد دی۔
" کتب میلے میں تو خواتین جاتی ہیں کیونکہ ان کو ناولز خریدنے ہوتے ہیں ،،،"
نہ جانے کس دل جلے شخص کا یہ جملہ ہمیں لڑکیوں کو دھڑا دھڑ عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کےاپنے وزن کے برابر ضخیم ناول خریدتے دیکھ کر یاد آیا اور مسکرا اٹھے ۔
بہت بڑے وفد کے ساتھ خریداری ممکن نہیں ہوتی کہ ایک دوسرے کی پسند کو تنقید کا نشانہ بنا کر سودا واپس کر دیا جاتا ہے ۔ اس چکر میں اسٹال سے اسٹال گھوم رہے تھے ۔چینلز سے بچنا بھی ضروری تھا کہ وہ ہمارا شعبہ پوچھ بیٹھتے اور بچے بھی ہمارے ساتھ تھےجو اس ماحول میں اجنبی سی بات تھی۔
خیر کچھ نہ کچھ کتابیں لے ہی لی گئیں ۔ کچھ کی قیمتیں نوٹ کر کے فرمائشیں بھی کر دی گئیں ۔جمنازیم کے شمالی کونے میں اسٹیج سجا تھا جہاں سے مستقل اعلانات ہورہے تھے ۔خاص طور پر کسی اہم شخصیت یا استاذ کی آمد پر خوش آمدید اور اور استقبال ! جمنازیم سے باہر بھی اسٹالز تھے بلکہ بچوں کی دلچسپی کی بہت چیزیں یہیں تھیں جن کو دیکھ کر یوسف کا موڈ کچھ بحال ہوا اور بیزاری خوش دلی میں بدل گئی جب اس نے کچھ خریداری کر لی اوراس وقت تو اس کی خوشی دیدنی تھی جب اس نے چاول کے دانے پر اپنا نام لکھوانے کاآڈر دیا ۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ آخری اسٹال تھااور ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے تھے چنانچہ یہ طے پایا کہ کل لے لیا جائے گا ۔ اگلے دن ہم تنہا کتب میلے پہنچ گئے۔ اپنی لائبریری کے لیے کچھ لازمی کتب لینی تھیں ۔اس کے علاوہ چاول کا دانہ لینا تھا جس کے لیے یوسف نے کئی دفعہ یاد دہانی کروائی ساتھ ساتھ گوریلا فائٹر دوم لینے کی بھی تاکید تھی ۔ آج رش زیادہ تھا۔ لڑکیوں کےجلو میں جمنازیم کے تنگ سے دروازے کے ذریعے ہم اندر جاپہنچے۔ اہم شخصیات اسٹیج کی رونق بنے ہوئے تھے۔ رش کی وجہ سمجھ آ گئی ۔ ہم نے جلدی جلدی اپنی مطلوبہ کتب لیں ۔ سب سے زیادہ خوشی سلمیٰ اعوان کے سقوط ڈھاکہ کے پس منظرمیں لکھے ناول تنہا کو پاکر ہوئی ۔ نہ جانے کتنے سالوں سے اس کی تلاش تھی حالانکہ آن لائن پڑھ چکے تھے مگر ہاتھ میں لے کر پڑھنے کی بات ہی کچھ اور ہے اس کے علاوہ صدیق سالک کی ہمہ یاران دوزخ اگر چہ کئی دفعہ پڑھی ہوئی ہے مگر اپنی الماری میں ہونے کی بات ہی کچھ اور ہے ۔اسی طرح بنات النعش ڈپٹی نذیر احمد کا وہ ناول جس میں اصغری کے مدرسے کا حال بتا یا گیا ہے ( ہوم اسکولنگ کے حوالے سے آج بھی اس کی اہمیت ہے ) ۔ ٹالسٹائی کے ناولٹ کا مجموعہ دل کڑا کر کے لے ہی لیا ۔اس کے علاوہ بھی اور کتب لیں مگر ایک کتاب جس کو خرید کر افسوس ہوا وہ جاپانی ناول کا تر جمہ کچن ہے ۔ ادب کے نام پر ایک معاشرے کی گند جو بظاہر خوبصورت جذبات میں ملفوف ہے ۔
تو یہ تھی جمنازیم میں کتب میلہ کی روداد! اللہ اس رونق کو ہمیشہ دائم رکھے ! آنے والی نسلیں اس تابندہ روایت کو آگے بڑھانے والی ہوں ۔ آمین