گھر
میں ایک ایمرجنسی سی نظر آنے لگی۔ تما م ممکنہ رابطے کیے جارہے تھے مگر کہیں سے
مدد نہ مل پارہی تھی کہ یہ جھگڑا ختم ہو ! مگر نہیں اسے جھگڑے کے بجاۓحملہ
کہنا چاہیے!! جی ہاں !بڑے پرندے نومولود بغیر پر والے پرندوں کو بری طرح زخمی
کررہے تھے۔ گھر میں موجود سب بچے اور لڑکیاں اس منظر کودیکھ کر بہت پریشان تھےاور
ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح ان معصوم بچوں کو ان ٹھونگوں سے بچایا جاۓ!!!!!!
ٹھہریں پہلے پوری بات بتاتے ہیں
سردیوں
کی ایک خوبصورت دوپہر تھی جب ہمارے شوق کی
تکمیل ہویئ کہ ہم پرندے پالیں ۔ خوبصورت آسٹریلین طوطے کے دو جوڑے مع پنجرے کے ساتھہ
ہمارے گھر آیا ۔بہت خوشی کے ساتھ ان کا استقبال ہوا۔ایک جوڑا سبز رنگ کا تھا جبکہ
دوسرا فیروزی اورلیمن کلر کا۔ ان کی غذا، پانی، آرام کا خیال رکھا جانے لگا۔
بڑے نازک اندام پرندے تھے ہر ایک کا دل موہ رہے تھے۔ان کی آواز سے لے کر ادائیں گھر بھر کو بھا رہی تھیں ۔کسی کو وہ شرمیلے لگتے اور کچھ کی نظر میں نخریلے
تھے۔ موسم کی شدت کے باعث ان کا خصوصی خیال رکھا جارہاتھا۔ شہر سے باہر جانا
ہوا تو ان کی دیکھ بھال کسی کے سپرد کر کے گئے۔
موسم بدلا تو ان کے انڈے
دینے کاوقت آ گیا۔اب تو بہت زیادہ توجہ دی جانے لگی۔اور پھر انڈے بھی آگئے۔ اب
مادائیں زیادہ تر مٹکی کےاندر قیام کرتیں ہاں کبھی کبھار خانگی امور پر اپنے نر کو
گھرکنے یا تبدیلی کی غرض سے باہر بھی آ جاتیں۔ سب کی توجہ فیروزی اور لیمن جوڑے پر
تھیں۔ وہ نسبتاً نرم خو بھی تھے۔کچھ عرصے بعد فیروزی والے کے یہاں انڈوں سے بچے
نکل آ ئے۔یہ تعداد میں پانچ تھے۔اب ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ۔غذا ااور
پانی کااستعمال بھی بڑھ گیا۔سب ان بچوں کے پروں کے رنگ کے بارے میں پر تجسس تھے ۔
سبز طوطے کے انڈے ہنوز جوں کے توں پڑے تھے ۔تشویش بھی تھی۔ دونوں والدین بھی فکر
مندی میں ڈوبے نظر آ تے۔
ایک
دن صبح پنجرے میں سارے انڈے مٹکی سےباہر ٹوٹے پڑے تھے ۔گویااب ان میں زندگی کی امید
نہیں باقی رہی۔ تھوڑا افسوس ہوا۔ اس جوڑے کے مزاج میں بھی رنج اور افسوس
نظرآیا۔ اگلے ہی دن دو بچے مرگئے۔ ہم سب بہت افسر دہ ہوئے۔پنجرے کی صفائی وغیرہ کی تو تھوڑی دیر میں ایک بچہ زخمی حالت میں مٹکی سے باہر گر گیا۔فوراً اسے
مدد فراہم کر کے واپس رکھا گیا،۔ تھوڑی دیر میں پنجرے سے بہت آ وازیں آ نے لگیں
۔جاکر دیکھا تو سبزمادہ خوب جھگڑا کر رہی تھی۔
اس معاملے کو حل کرہی رہے تھےکہ
فیروزی والی ماں پنجرے سے باہر اڑ گئی۔ ابھی ہم اس صد مے سے باہر نہ آ ئے تھے کہ
دیکھا کہ بچے خونم خون ہورہے ہیں اور سبز مادہ کی چونچ خون آلود ہے۔آپ صورت حال کا
اندازہ کر سکتے ہیں؟
یہ
تھا واقعہ جس کاذکر بلاگ کے آغاز میں ہوا تھا۔۔ کچھ دیر کی پریشانی کے بعد
پڑوسی کا بیٹا ہاتھوں میں دستانے پہن کر پنجرے کی طرف لپکا ۔سب سے پہلے تو خونخوار
جوڑے کوعلیحدہ کیا گیا ۔ پھر باقی بچوں کی طرف توجہ کی گئی۔
ان کے زخم پر مرہم رکھاگیا۔اس دوران ہم نے پرندوں کی ماہر سمیرا ابراہیم سے رابطہ
کرلیاتھا۔تھوڑی دیر میں وہ آ پہنچیں۔ انہوں نے محبت اور پیا رسے ان کی ٹکور کی
۔معصوموں کی چونچیں اس حملے میں توڑ دی گئیں ۔ اب کیسے کھلایا جائے گا ؟ ماں تو
پہلے ہی پنجرے میں نہیں ہے؟ ہم سب پریشان تھے۔ خیر وہ ان زخمی بچوں اور ان کے باپ
کو اپنے ہمراہ لے گئیں اور ہمارا پنجرہ خالی ہو گیا۔ ابھی تک وہ بچے زندہ ہیں دعا
کریں کہ خیریت رہے اگر چہ امید کم ہے ۔( جسے اللہ رکھے اسے کون مارے؟ وہ کافی بہتر ہوگئے تھے)
عزیز قارئین! ، یہاں پر اس
بلاگ کا خاتمہ ہو جا نا تھا۔ مگر کچھ باتیں اس واقعے سے سامنے آئیں ان کا ذکر کرتے ہیں ! یعنی کہ ان
جوڑوں کو الگ الگ رکھنا تھا۔ جی ہاں ! دونوں جوڑوں کو الگ الگ رکھنا تھا۔غلطی ضرورہوئی لیکن پچھلے چند ماہ سے وہ اتنے خوشگوار
ماحول میں تھے کہ ضرورت ہی نہ محسوس ہوئی۔ لیکن اس بات سے آگہی کے نئے در کھلے ۔
جی ہاں! اس حیوانی جبلت کا اندازہ ہوا جو انسان میں بھی من و عن موجود ہے یعنی
حسد کا جذبہ ! قرآن میں ہابیل و قابیل کے واقعے میں یہ جبلت بھائی کا قتل کرتی ہے تو حضرت
یوسف کے قصے میں کنوئیں میں پھینکتی نظر آ تی ہے۔ اور آج کے دور میں حسد کی
کارستانی بابوں اور عاملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور قتل و خود کشی کے واقعات سے
عیاں ہے۔ کیا اس کے حل کے لیے کوئی بات ہے آپ کے پاس؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭ فر حت طاہر ٭٭٭