ہفتہ، 26 دسمبر، 2020

ہم دیکھیں گے ۔۔

 




ہم دیکھیں گے ۔۔!

 

 "۔۔۔ماما ! آپ  روئیں بالکل نہیں ! ماموں جان نے کہا ہے کہ ہم سب خیریت سے ہیں ۔الماس سے کہو ہمیں فون نہ کرے ۔۔۔! 

ماہم نے  روتی بلکتی ماں  کو فون پر تسلی دی  دوسری طرف اپنے شور مچاتے بچوں کو چپ کرانے کی کوشش کی۔ ہمیشہ قہقہے انڈیلتی الماس وحید  اس وقت آنسوؤں سے رندھی آواز میں   سلمیٰ بانو کو فون پر بتارہی تھیں۔

"۔۔۔۔۔  بھائی تو  میرا فون ہی نہیں  اٹینڈ کر رہے تھے کہ انڈین فورس نے گھر کو محاصرے میں لیا ہو اتھا ۔ماہم  انگلینڈ سے فون کر رہی تھی  تو اس کے ذریعے رابطہ ہورہا تھا ۔۔۔اور میں پورا دن روتی رہی ۔۔۔" سلمیٰ بانو   تفصیل سنتے ہوئے سامنے کیلنڈر پر نظر  ڈال رہی تھی ۔25 دسمبر  ۔۔یوم قائد اعظم  !

" ۔۔۔قائد اعظم کتنے دور اندیش تھے  کہ انہوں نے ہمارے لیے پاکستان بنایا ۔۔۔۔!" یہ بات اس نے الماس وحید  سے کی تو اس نے تائید میں مزید واقعات سنائے ۔ 

الماس  وحید اور سلمیٰ بانو  برسوں سے ہم محلہ ہیں ۔  تعلق تو خیر بنتا ہے  مگر مزاجوں اور ذہنی فرق کے باوجود ان کی دوستی حیران کن ہے ۔ الماس وحید پر جوش ،فعال  اور سماجی  شخصیت !  خوش باش  ہر ایک  کے کام آنے والی الماس اپنے ہم مزاج شوہر  اور  دو پیاری بیٹیوں ماہم اور صدف  کے ساتھ آسودہ زندگی گزار رہی  ہیں ۔ ماہم  شادی کے بعد  انگلینڈ میں ہے  اور رابطوں کی سہولت نے دوری کو ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔ دوسری طرف سلمیٰ بانو اپنے آپ میں مگن ایک قلم کار ! اپنے مشاغل کے باعث کسی حد تک  تنہائی پسند ! ایک قلم کار کے جہاں مداح ہوتے ہیں وہیں اس کے قریبی  افراد جھجکتے بھی ہیں  کہ کہیں ہمارے اوپر نہ کہانی لکھ دیں !             اس کے بر عکس بہت سے لوگ خود رابطہ کر کے  اپنی کہانی لکھنے کو کہتے ہیں !  خیر ان دونوں خواتین کے درمیان رسمی تعلق میں تغیر اس وقت آیا جب  حج سے واپسی  پر تقریب کے موقع پر الماس وحید بڑے زور و شور سے اپنی داستان سفر بتا رہی تھی ۔

"۔۔۔ بھائیوں اور کزن سے مدینے میں ملاقات ہوئی ۔وہ انڈیا سے  حج کرنے آئے  تھے ۔۔۔۔"

  سلمیٰ بانو نے دلچسپی سے اس کی باتیں سنیں ۔ان کو انڈیا پاکستان کے پس منظر میں لکھی گئی اپنی کہانی کا سیکوئل  لکھنا تھا ۔آزادی کے بعد بیاہ کر پاکستان آنے والی خاتون اپنے بچوں کی شادی کے تناظر میں انڈیا جاتی ہیں ۔وہاں  کے موجودہ  معاشی ، سماجی اور سیاسی حالات  کی تفصیل  الماس وحید سے جاننی چاہی ۔

 " آپ  آخری بار کب گئی تھیں انڈیا ؟۔۔۔۔   "  سلمیٰ بانو نے تجسس سے سوال کیا

 "۔ مجھے تو  دس سال سے زیادہ ہوگئے ۔۔ فون اور واٹس اپ سے رابطہ ہتا ہے ۔  بہت بلارہے ہیں کہ انڈیا  آکر ملاقات کرو ۔۔۔میں نے صاف انکار کر دیا جب تک مودی ہے میں نہیں آؤں گی ۔۔۔؛ "   اتنی  کرب انگیز حقیقت  الماس وحید نے ایک قہقہے میں بیان کردی ۔  انسان  عید الاضحیٰ میں اپنے جانور کی  قربانی بھی نہ کر سکے ! اس سے بڑا کوئی انسانی حقوق کا مذاق ہوسکتا ہے بھلا !   ۔ گئو ما  تا سمجھنے والوں  کے دیش میں لنچنگ عام تھی یا  اس کی ویڈیو وائرل کر کے اپنے عزائم کا اظہار تھا ؟ گفتگو کا موضوع بدل گیا تھا ۔۔شرکاء نے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر اور شکر کا اظہار کیا ۔سلمیٰ بانوکو الماس  سے اپنی یہ گفتگو حرف بہ حردف یاد تھی امگر انہیں یقین نہیں تھا کہ الماس وحید نے بھی اسے دل سےیاد رکھا ہوا ہے ۔!

انڈیا میں مودی کی دوبارہ کامیابی خطے  میں امن کے حوالے سے  خطرے کی گھنٹی تھی !                       پھر کشمیر                          پر غاصبانہ  قبضے کے بعد تو  بد ترین اندیشوں کی تصدیق ہوتی گئی ۔ اس پر  اپنی حکومت کی بے حسی کے بر خلاف پاکستانی عوام     کشمیر ایشو پر مارچ  بھی کر رہے تھے اور  سائبر  وار میں حصہ بھی  لے رہے تھے !                                                                                  10 / دسمبر ! عالمی انسانی حقوق کادن  اتنے بڑے انسانی حقوق کی پامالی  پر بڑی کفایت سے اپنے تبصرے کر رہا تھا ۔ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی ۔ چار ماہ سے مقید کشمیری  کیا سوچ رہے ہیں کسی کو نہیں معلوم ہورہا ! تاریخ نے یہ دور بھی دیکھنا تھا !

یہ 15/ 16 دسمبر کی درمیانی رات تھی ۔ محلے میں ولیمہ کی تقریب  میں  وہ دونوں ایک ہی میز پر بیٹھی تھیں ۔انڈین میوزک پر دلہن دلہا کیٹ واک میں مصروف   تھے ! اندھیرے میں اچانک قمقمے جل اٹھے ۔ اس سارے منظر سے  بے نیاز وہ دونوں  اپنی باتوں میں مصروف تھیں ۔  الماس انڈیا میں ہونے والے جھگڑوں سے آگاہ کر رہی تھی۔سلمیٰ بانو نے  خبروں سے دور رہنے   کے باعث اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ۔

"۔۔۔میں نے بھائی سے کہا ہے کہ میں اپنے محلے میں آپ لوگوں کے لیے کرایہ کے گھر دیکھ رہی ہوں ۔۔۔" حسب عادت الماس قہقہ لگا کر بولی۔

" ۔۔۔یعنی ۔۔؟ "                   

"۔۔۔۔۔نیا شہری قانون  جس کی رو سے ۔۔۔۔۔"

اگلے دن کے اخبارات اور سوشل میڈیا چیخ رہے تھے۔ 16 / دسمبر ۔۔یوم سقوط ڈھاکہ  پر اندرا گاندھی کے بیان 

''۔ہم نے دو  قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے ۔"                کونمایاں کر کے  انڈیا کے تعلیمی اداروں میں ہونے والے  احتجاجی مظاہروں کی جھلکیاں تھیں اس  عنوان کے  ساتھ "  دو قومی نظریہ  ڈوبا ہر گز نہیں ہے   زندہ و تابندہ ہے "

الماس سے ملاقات کے بعد سلمیٰ نے گزشتہ دنوں کے اخبارات اٹھائے ۔پھر اس کی سوچوں میں  کتنے بھنور آئے ۔انڈیا کتنا بھی زور لگا لے پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر وہاں رہنے بسنے والے مسلمانوں کا قتل عام کا سوچ کر قلم کانپ گیا!

وہ نسل جس  کے والدین تک نے انڈیا میں جنم لیا آج کیسے اپنے حقوق کے لیے میدان میں مودی کو للکار رہی تھی ۔!  نظریہ بھلا کبھی مرتا ہے اسے تو جتنا دبایا جائے اتنا ہی ابھرتاہے ! شناخت کا مسئلہ ہندوستان کے چپے چپے میں آزادی کی شمع روشن کر گیا تھا۔ دہلی سے علی گڑھ تک ایک ہی نعرہ گونجنے لگا ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے آزمائش کی بھٹیاں تیز تر ہونے لگیں !  وہ رب جس نے موسیؑ کو فرعون کے دربار میں بھیجا تھا آج ان نہتے اور کمزور بندوں کو وقت کے فرعون کو للکارنے کی ہمت دے دی تھی !

25 دسمبر کی صبح قائد اعظم کی چھٹی تھی اور پاکستانی قوم کام ، کام اور صرف کام کے سلوگن اپنی ڈی پی پر لگا کر نیند مکمل کر رہے تھے۔ ایسےمیں الماس کا فون سلمیٰ کے لیے حیرت کا باعث تھا اور آواز اور لہجہ بھی نارمل نہیں تھا ۔  اس نے اپنی بات کا آغاز ماہم کے پیغام سے کیا جو اس نے اپنی ماں کو دیا تھا ۔

''۔۔۔۔ پتہ ہے انڈیا میں میرے مکان پر انڈین آرمی نے حراست میں لے لیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کچھ نہیں کہیں گے بس آپ سب  تاحکم ثانی گھر پر رہیں گے۔ تین منزلہ گھر ۔۔ میری بہنوں بھائیوں کے  خاندان آباد ہیں ۔کانگریس کے حامی ہیں  مگر اس لیےعتاب کا شکار ہیں کہ مودی کے جلسے کے خلاف کالا جھنڈا نہ لہرائیں  ۔۔۔۔۔۔"  سلمیٰ اس کی باتیں سنتی رہی  اور سوچ کر رہ گئی   This is incredible India !

"۔۔۔خاندان کے سارے لڑکے اور لڑکیاں یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ۔۔اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں اس قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں ۔۔میری بھتیجی راحمہ نے ٹو ئٹ کی ہے  میں آپ کو بھیجتی ہوں سلمیٰ ۔۔۔!"  وہ سسکیوں بھرے لہجے میں بول رہی تھی ۔

۔۔۔" میرے دادا کا گھر جو پچھلے 70 سال سے انڈیا کی ترقی اور جمہوریت کا گن گا رہا ہے آج جیل کا منظر پیش کر رہا ہے ۔۔۔۔"   ٹو ئٹ   کہہ رہی تھی۔سلمی بانو نے سکرین نزدیک کرکے چشموں کے اوپر سے ٹیکسٹ میسج دیکھا سانسوں کی نمی نے عبارت کو دھندلا دیا مگر جوں ہی واضح ہوئی ۔ان کی نیند اڑانے کے لئے کافی تھی۔  

الماس کی گفتگو جاری تھی                    ۔۔۔" میرے نانا  شرافت حسین  نے  نیو دہلی میں پلاٹ  لے کر گھر بناناشروع کیا ۔اس ویرانے میں گارے اور مٹی سے گھر کی بنیادیں کھڑی کرنے کےدوران  ایک قطعہ  نماز پڑھنے کے بنا دیا۔ یہاں وہ اور مزدور اللہ کی کبریائی بیان کرتے۔  جیسے جیسے گھر تعمیر ہوتا گیا نمازیوں کی تعداد بڑھنے سے زمین کا وہ ٹکڑا بھی  مسجد کی شکل اختیار کرتا گیا ۔ دور تک کوئی آبادی نہیں تھی گھر کی تعمیر کے ساتھ ہی مسجد بھی مکمل ہوگئی ۔ لوگ عقیدت سے اس جگہ کو دیکھتے ہوئے گزرتے کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ ہاں مگر اذان کی آواز دور بنے ہوئے مندر کے پنڈت کو شعلہ بار کرتی گئی ۔۔ اور جب یہاں  لاؤڈ اسپیکر لگانے کی بات ہونے لگی تو وہ عدالت چلے گئے کہ اذان کی آواز ہماری گھنٹیوں سے کیوں ٹکراتی ہے ؟ اس بحثا بحثی میں اس وقت ایک ڈرامائی کیفیت پیدا ہوگئی جب  کیس کرنے والے پنڈت نے اپنے مندر کی تمام چیزیں توڑ کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر دیا ۔ اور پھر اس کو پاگل قرار دے کر پاگل خانے داخل کروادیا گیا۔ ۔۔۔۔،"                                                                                                                                           

    اس گھر کے مکینوں نے  اپنے وطن انڈیا کو 70 سال سے  اپنی محنت اور قوت سے یکجائی دی ہوئی تھی  مگر جنونیوں کے ہاتھوں آج  وہ  بھی اذیت کا شکار تھا ۔  

الماس اور سلمیٰ کی گفتگو آدھ گھنٹے  سے زیادہ   کی ہوچکی تھی مگر ہنوز  تشنگی باقی تھی۔ سلمیٰ نے اپنا اسمارٹ فون اٹھا یا اور بلاگ مکمل کر نے لگی ۔ انھیں الماس کی کہانی کو بالی وڈ کی فلم  کا انجام دینے کا خیال گذرا مگر اس حقیقت کا کیا کریں کہ ہند کی زمین پر ایک بھی مسلمان کا ہونا انتہا پسندوں کو گوارا نہیں !   انھیں کچھ عرصہ قبل چلنے والی سٹوڈنٹس مہم  ہند بنے گا پاکستان کا حشر  یاد آگیا جسے اپنے تئیں باشعور لوگوں نے محتاط رہنے کے مشورے کے ساتھ مسترد کردیا تھا ۔ مگر اب ہند میں مسلم سٹوڈنٹس کی تحریک کو زور و شور سے  حمایت کررہے تھے۔ ذہن میں بچوں کے لگائے نعرے گونج رہے تھے

                                                                                                                                                                                                                                                                                        ''ہند بنے گا ۔۔۔۔! "                                                                                   مسئلہ جب شناخت کا آجائے تونظریہ جیت جاتا ہے !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

اتوار، 22 نومبر، 2020

شہر میں قحط ہے اب،بخیہ گروں کا!




شہر میں قحط ہے اب،بخیہ گروں کا!

 

 بات بہت معمولی تھی مگر تھی بہت اہم! غضب خدا کا ہال میں  سینکڑوں خواتین موجود اور کسی کے پرس میں سوئی دھاگا موجود نہ ہو! یادش بخیر نیلام گھر شو میں طارق عزیز ایسی انوکھی اور بلاسبب چیزیں خواتین کے پرس سے نکلوا لیا کرتے تھے کہ جس کا جواز تک نہ ہوتا تھا۔ مگر یہ ایسا کوئی شو نہیں تھا بلکہ ڈاکٹر شمع کو اپنی NGOکے ریجنل آفس کا افتتاح کرنا تھا جس کے لیے وہ آج صبح ہی کراچی سے یہاں پہنچی تھیں۔ پنج ستارہ ہوٹل میں تیاریاں مکمل تھیں۔

لباس تبدیل کرکے وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئیں تو گریبان کے بٹن ندارد تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ رواروی میں ٹیلر صاحب لگانا بھول گئے ہیں۔ اگر یہ کسی اداکارہ یا ماڈل گرل کی پریس کانفرنس ہوتی تو یہ ہی اسٹائل بن جاتا کسی کی مجال تھی کہ کوئی تبصرہ کرتا! مگر یہ تو ایک ایسی این جی او کی بریفنگ تھی جس کا ماٹو ہی ہے کہ ”ہمیں عورت کی نسوانیت برقرار رکھنا ہے!“ پریشانی کی ایک لہر دوڑ گئی کہ سارا میڈیا مدعو ہے! ہوسکتا ہے کہ کسی صحافی کا دماغ اس طرف نہ جائے مگر اب تو صحافنوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ رسک نہیں لیا جاسکتا! ایسا نہ ہو کہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی تنقید کی زَد میں آجائے؟؟ چنانچہ سوئی دھاگے کی تلاش شروع ہوئی۔ یوں تو یہ کوئی متروک چیز نہیں ہے مگر اسے اب صرف خواتین سے منسوب کرنا بھی کچھ ایسا درست مفروضہ نہیں رہا۔ ڈاکٹر شمع کو اپنی الماری کے پیچھے والے خانے میں جس پر غیر استعمال شدہ اشیا کا لیبل لگا ہوا تھا رکھی، وہ بقچی یاد آئی جو آج سے چھبیس برس پہلے ان کی پھوپھی نے ان کی شادی کے دن ان کے ہاتھ میں دی تھی یہ کہہ کر کہ یہ ایمرجنسی میں تمہارے کام آئے گی! اس کے اندر سوئی دھاگے، پن وغیرہ تھے۔ اب بقچی کا نام بدل کر پاؤچ رکھ دیا گیا ہے جس میں دلہنیں موبائل رکھتی ہیں جو ہر قسم کی ایمرجنسی میں کام آتا ہے۔ یہ یاد آنے پر انہوں نے اپنے ٹریولنگ باکس کی طرف دیکھا۔ اب تو ایئرلائن کمپنیاں بھی ایسی کٹ نہیں دیتیں جس میں سوئی دھاگا، بٹن وغیرہ ہو!! چند سیکنڈ میں بہت کچھ سوچ لیا، مگر مسئلہ وہیں کا وہیں! ہال میں ممبران سمیت شہر کی نمایاں خواتین موجود تھیں۔ شاید کسی نہ کسی کے بیگ میں تو مل ہی جاتا لیکن ظاہر ہے ہر خاتون سے تو پوچھا نہیں جاسکتا۔ نہ اس کی مہلت تھی اور نہ ضرورت! خواہ مخواہ اسکینڈل بنتا!!

ڈاکٹر شمع نے پن لگا کر کسی نہ کسی طرح اس خلا کو پُر کیا اور دوپٹہ اس زاویے سے سیٹ کیا کہ نظر نہ آسکے۔ کام تو چل گیا مگر بہت سی خواتین دل ہی دل میں یہ سوچ کر حیران تھیں کہ ڈاکٹر شمع اتنے مضحکہ خیز انداز میں اپنے گلے کا خوبصورت ڈیزائن چھپائے بیٹھی رہیں۔ اگر چھپانا ہی تھا تو بنوانے کی کیا ضرورت تھی؟؟ ان کی حیرانگی بجا تھی۔ بہرحال پریس کانفرنس بڑی خوشگوار رہی۔ کامیاب پریس بریفنگ کے بعد وہ اپنی سیکریٹری کے ساتھ مسرور سی ہوٹل کے کمرے میں پہنچیں۔ لباس تبدیل کرکے باہر آئیں تو دیکھا کہ سیکریٹری سیما موبائل پر کسی سے تکرار میں مصروف ہے۔ کئی منٹ کی لاحاصل بحث کے بعد جب فون بند ہوا تو سیما بُری طرح پریشان نظر آئی۔ پتا چلا کہ اس کی بیٹی کے اسکول میں فنکشن ہے جس کے لیے خصوصی لباس درزی کو تیار کرنا تھا مگر وہ انکاری ہے کہ ہنگاموں اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا ہے!! بچی کئی گھنٹے سے فون کھڑکھڑا رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ گھر میں موجود کوئی بھی فرد اس مسئلے کو حل کرنے سے قاصر تھا۔ ڈاکٹر شمع جو سیما سے پروگرام پر تبصرہ اور بحث کرنا چاہ رہی تھیں اس ناگہانی پر سٹپٹا کر رہ گئیں اور اسے تسلیاں دینے لگیں۔ انہیں سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے سے بچی کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔

”........... ماما! آج فائنل ریہرسل تھی، فل ڈریس کے ساتھ!!.... مجھے ٹیبلو سے ڈراپ کر دیا گیا ہے...........“

”.......تم گھر پر ہوتیں تو کسی طرح سی سلا کر مکمل کروا دیتیں......“ ڈاکٹر شمع کے ذہن میں اپنی ماں گھوم گئیں جو عید یا تقریب پر رات گئے تک اپنی بیٹیوں کا سوٹ مکمل کرکے ہی اٹھتیں تھیں، مگر یہ تو پچھلے لوگ تھے اور سیما تو اس نسل سے تعلق رکھتی تھی جہاں علامتی طور پر سلائی مشین تو جہیز کا حصہ ہوتی ہے، مگر عملاً اس کی حیثیت ڈیکوریشن پیس سے زیادہ نہیں اور جہاں بچے حیرت سے پوچھتے ہیں کیا سلائی گھر پر بھی ہو سکتی ہے؟؟ درزی سے بحث و تکرار کے بعد اب سیما اپنی بیٹی صبا کی ٹیچر سے بات کرنا چاہ رہی تھی، مگر ان کا موبائل آف مل رہا تھا۔ خوامخواہ کی ٹینشن ہو گئی بجائے پروگرام پر ڈسکشن کے! اتفاق سے پہلے بھی ایک مسئلہ رہا اب یہ دوسرا!! اُف یہ جدید دور کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے بڑے بڑے دائرے!!! تھوڑی ہی دیر کے بعد ان کی فلائٹ کا وقت ہو گیا۔

 دو گھنٹے کے سفر کے بعد جب وہ ایئرپورٹ سے باہر آئیں تو ان کو لینے شوہر اور بیٹی تانیہ موجود تھے۔ روشنیوں کا شہر جگمگا رہا تھا زندگی رواں دواں تھی۔ جہاں سے آئیں وہاں تو لوگ سونے کی تیاریاں کر رہے تھے اور یہاں ابھی آؤٹنگ کے لیے نکل رہے تھے۔ کتنی مختلف ہوتی ہے دو شہروں کی زندگی!! آدھ گھنٹے بعد جب گھر کے قریب پہنچے تو تانیہ بول پڑی ”.......امی! درزی کو کپڑے سلنے دے دیں۔ اگلے ہفتے نادیہ آپا کی منگنی میں پہننا ہے!...“ وہ بہت تھکاوٹ محسوس کر رہی تھیں کسمسا کر مسکراتے ہوئے بولیں ”...........بعد میں! ذرا فریش ہو لوں........“ مگر ان کی بات درمیان میں ہی کٹ گئی جب ان کے شوہر نے چمک کر کہا ”......رش دیکھ رہی ہیں ویک اینڈ کا؟؟ گھر جاکر دوبارہ آنا ممکن ہے.......؟“ شوہر نام کی مخلوق بیوی کے آگے اسی طرح شیر ہوتا ہے۔ ”......ہاں امی! آج ہی دے دیں ورنہ وہ وقت پر نہیں دے گا.........“ اُف یہ درزی کا مسئلہ!! ہر شہر کی ایک ہی کہانی؟ ڈاکٹر شمع نے اپنی کنپٹیاں پکڑ کر دل ہی دل میں بہت بڑا اُف کیا۔ جیسے ہی درزی کی دکان کے سامنے پہنچے یکایک تمام بتیاں گل ہو گئیں بوجہ لوڈشیڈنگ!! مگر اگلے ہی لمحے جنریٹر آن ہو چکے تھے۔ شور کی آلودگی تو ناقابل برداشت ہو چکی ہے!

ڈاکٹر شمع اپنی بیٹی کے ساتھ دکان میں داخل ہوئیں تو فل والیم میں گانا بج رہا تھا اور کئی لڑکے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ کوئی کپڑا بچھائے کسی باجی کی کمر کا نشان لگا رہا تھا تو کوئی کسی آنٹی کی شلوار میں چنٹ ڈال رہا تھا۔ خواتین کا ایک گروپ ٹیلر سے تکرار میں مصروف تھا۔ پوری بات تو وہ نہ سمجھ سکیں، مگر یہ جملہ ضرور کان میں پڑا

”.......آپ یہ کام تو خود کرلیں........“ گویا درزی نہ ہوا ساس بن گیا...اتنا سا کام بھی تم نہیں کرسکتیں...........“!




ماسٹر صاحب ان کی طرف متوجہ ہوئے تو سب سے پہلے ڈاکٹر شمع نے اپنی شکایت نوٹ کروائی اور جواب میں اس کی معذرت ہی قبول کرنی پڑی۔ اس دوران ماسٹر صاحب نے وہ رجسٹر نکالا جس میں تمام خواتین اور لڑکیوں کی جسمانی پیمائش کا ریکارڈ درج تھا۔ تانیہ اپنا نیا سائز نوٹ کروانے لگی تو ماں نے اپنی بڑھتی ہوئی نوعمر بچی کو کچھ ناگواری اور الجھن سے دیکھا۔ اس نے کچھ محسوس تو کیا مگر سمجھ نہ سکی کہ معیوب اور قابل اعتراض بات کیا ہے؟ ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہا ہے؟ ٹھیک اسی لمحے ان کو اپنے رشتے کے ایک چچا یاد آئے جو قیام پاکستان کے بعد یہاں سے آکر واپس پلٹ گئے جب انہوں نے درزی کی دکان پر اسے عورتوں کے جسم کا ناپ لیتے ہوئے دیکھا تھا یہ کہہ کر کہ۔ ”......آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ حیا سے بھی جائے آدمی........“ ڈاکٹر شمع نے ایک جھرجھری لی اور تانیہ کو جلدی کی تلقین کر کے اس ڈسکشن کو مختصر کرنے لگیں۔ اب بات معاوضہ پر آگئی تھی۔

”.........جی! ایک کلی کے دو سو ہوتے ہیں! گیارہ کلیوں کا کرتا ہے......آپ خود حساب کرلیں..........“ ”....کیا؟؟....“ ڈاکٹر شمع چونکیں۔ اس سے پہلے انہوں نے ٹیلر کے بلز کے بارے میں کبھی نہ سوچا تھا۔

”.....جی باجی! پورا دن لگ جاتا ہے!! بجلی کا تو آپ کو پتا ہی ہے؟؟“



کیا غلط کہہ رہا تھا وہ؟ وہ درزی سے متعلقہ مسائل پر بہت سنجیدگی سے سوچ وبچار کر رہی تھیں ”....کام واقعی بہت بڑھ گیا ہے۔ خواتین نے تو سلائی سے ہاتھ بالکل ہی روک لیا ہے کہ شمیزیں تک بے چارہ سی رہا ہے! اوپر سے فیشن ایسا کہ شرٹ کی سلائی ایسی اور اتنی کہ پورا خیمہ سل جائے اس میں!!!.گھر میں بیٹھی خاتون بھی سلائی کے جھنجھٹ سے آزاد نظر آتی ہے.........“ انہیں اپنی پیشنٹ راحیلہ یاد آئی جس کے معصوم چھ سالہ بچے نے ان سے بک شاپ لے جانے کی فرمائش کی تھی یہ کہہ کر کہ امی تو بس بیوٹی پارلر جاتی ہیں یا ٹیلر کے پاس! ان کی سوچوں اور تانیہ کی تکرار کو باہر سے آتے تیز ہارن نے مختصر کر دیا۔ جنریٹر کے شور اور گرمی میں اسٹیئرنگ پر بیٹھے ایک بے چین شخص کا صبر جواب دے رہا تھا۔ وہ دونوں جلدی سے گاڑی میں آبیٹھیں مگر ڈاکٹر شمع اپنی سوچوں کو روک نہ سکیں۔ وہ بدلتے ہوئے سماجی رویوں پر غور کر رہی تھیں ”....یہ کب اور کیسے ہوا؟ جب خالصتاً عورتوں کا شعبہ ان کے ہاتھ سے نکل کر مردوں کے پاس آیا اور اب تو کمرشلائزیشن کی وجہ سے ملٹی نیشنل کے ہاتھوں میں ہے! وہ ایسے فیشن ایجاد کرتی ہیں جو گھر بیٹھ کر سلائی کرنے والی خواتین کے بس سے باہر ہو! لیکن یہ بھی ایک پہلو ہے کہ ہر فیشن، نہ ہر ایک کے لیے ہوتا ہے نہ اسے زیب دیتا ہے۔ بیس سالہ نوجوان لڑکی ہو یا چالیس سالہ ماں، اور تو اور نانی تک ٹراؤزر میں ملبوس نظر آتی ہیں۔ اس بات پر وہ زیرلب مسکرا دیں کچھ خواتین کو یاد کر کے! وہ سوچتی رہیں اور کڑھ کر رہ گئیں ”....مگر میں بھی تو اسی معاشرت کا حصہ ہوں۔ بدلتے فیشن کا ساتھ تو دینا پڑتا ہے اور اس قسم کی سلائی گھریلو خواتین کے بس میں کہاں؟.........“ جب سوچیں کسی جگہ مرتکز ہو جائیں تو کوئی نہ کوئی نتیجہ نکل ہی جاتا ہے۔ خاص طور پر اگر آپ حل کرنے کی پوزیشن میں ہوں! چنانچہ ڈاکٹر شمع رات گئے تک اس معاملے میں کچھ فیصلے کر کے مطمئن ہو چلی تھیں۔ دوسرے دن گھر میں توجہ رہی۔ بہت سے امور نبٹائے۔ رات گئے وہ اگلے دن اور ہفتے کا شیڈول تیار کر رہی تھیں تو تانیہ کا مطالبہ سامنے آگیا ”.....امی! مجھے کوچنگ سینٹر میں داخلہ لینا ہے۔ میری چھٹیاں ضائع ہو رہی ہیں!........“ بس یہ ہی لمحہ تھا جب ان کو فیصلہ کرنا تھا بلکہ اپنی بیٹی کے ذریعے اس کو عملی جامہ پہنانا تھا ”....ہاں میں تمہارے لیے کسی ٹیلرز ٹریننگ کورس میں داخلہ کی معلومات لیتی ہوں.........“ وہ مسکراتے ہوئے بولیں ”.....ٹیلرنگ کورس؟؟؟.......“ تانیہ سر سے پیر تک استعجاب میں تھی ”...ہاں میری پیاری بیٹی اب اپنے کپڑے خود ڈیزائن کرے گی اور اپنے ہاتھوں سے تیار کرے گی........“ اپنی بات منوانے کے لیے مانوس کرنا مرعوب کرنے سے زیادہ موثر فارمولہ ہے! کسی ورکشاپ کا جملہ انہیں بروقت یاد آگیا۔

”...مگر امی! اگلے سال میرے بورڈ کے امتحانات ہیں۔ تمام لڑکیوں نے کوچنگ جوائن کرلی ہے..........“ اس نے عذر کیا مگر ڈاکٹر شمع کا ہوم ورک بھی مکمل تھا ”.....ارے خواہ مخواہ کی دردسری! اتنے گھنٹے اسکول کی پڑھائی کافی نہیں؟ میری بیٹی تو بہت ذہین ہے! مشغلہ کام سے مختلف ہونا چاہیے۔ ورنہ انسان بور ہو جاتا ہے....“ انہوں نے اپنی بیٹی کو دلچسپی دلائی اور یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں اس پر عبور ہے اور کیوں نہ ہو قائدانہ صلاحیتوں سے مالامالہیں وہ! تانیہ کو انگیز کرنے کے لیے انہوں نے اپنی مثال پیش کی ”......تمہارے نانا نے مجھے میڈیسن کی تعلیم دلوائی کہ عورتوں کو مرد معالج کے پاس نہ جانا پڑے اور فرح خالہ ٹیچر ہیں۔ وہ پیشے جو معاشرے کی ضرورت ہوں!!! اب جہاز اڑانے، ٹائر اور بلب بنانے کا کام لڑکیوں کے لیے مناسب ہے؟؟ بھیڑ چال کا کوئی فائدہ ہے؟.......“ انہوں نے اس کو سوچ میں ڈال دیا ”....... اور اب تو منیجرز بھی اداروں سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ بیکار پھرتے ہیں بے چارے....!!! ہنستے ہوئے انہوں نے اس کے ایم بی اے کی پلاننگ پر پانی پھیر دیا ”مگر باجی اور اپیا تو..........“ تانیہ نے قائل ہونے کے باوجو آخری حربے کے طور پر اپنی بڑی دو بہنوں کی مثال دی جو ایم بی اے اور انجینئر ہیں۔ ”....ان کا حال دیکھا ہے تم نے؟ زندگی میں کوئی سکون اور مزا نہیں! ان کے شوہر کتنے لاپروا ہیں گھروں سے! مردوں اور لڑکوں کو بے روزگار بناکر نکھٹو اور کاہل کیوں بنا دیا جائے؟ خواتین اگر......“ تانیہ نے ان کی بات کاٹ دی ”.......اور آپ؟؟......“ ”..... میری گڑیا! میرا وقت تو اس لیے اچھا گزر گیا کہ میرے ان مسائل کے لیے تمہاری نانی اور دادی موجود تھیں..... یاد ہے نا دو سال پہلے تک انہوں نے اپنی نواسی کی بیٹی کے لیے غرارہ سیا تھا۔ اب صحت سے مجبور ہیں!......“ کچھ بحث اور مباحثہ کے بعد یہ ہی طے ہوا کہ فی الحال وہ شوقیہ سلائی سیکھ لے گی اور پھر باقاعدہ پروفیشنل ٹریننگ لے گی۔ لیکن بہرحال اس کے argument ہیں۔ جنہیں وقت ہی دور کر سکتا ہے!!




اپنی NGO کی اگلی نشست کا ایجنڈا جب انہوں نے سیکریٹری کے سامنے رکھا تو اس کے ماتھے پر بَل پڑ گئے۔ بات ہی ایسی انوکھی تھی! تمام ممبران کے لیے سلائی کورس لازمی!

”........یہ کیا میڈم! ہمیں تو کمپیوٹر کے ریفریشر کورس کے لیے فنڈ allocate کروانے ہیں   ..........“

”.....ہاں مگرپہلے اپنی ترجیحات درست کرنی ہیں۔ ہمیں ایکسپرٹ ہر طرح کے چاہئیں۔ دیکھو سیما! غذا اور پوشاک بنیادی ضروریات ہیں۔ اب جس طرح ہم روزمرہ کا کھانا ہوٹل یا ریڈی میڈ فوڈز پر نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ہر کوئی اپنی سہولت اور حالات کے حساب سے انتظام کرتاہے اسی طرح عام ملبوسات کے لیے ٹیلرز کے پاس رش لگانا نہ مناسب ہے اور نہ سہل.......“ اور بہت سے دلائل دونوں طرف سے پیش کیے گئے۔ پھر سیما نے کہا ”.......ایسا نہیں ہے میڈم! خواتین گھروں میں بھی سلائی کرتی ہیں اور کرواتی ہیں مگر کوئی بتاتا نہیں کیونکہ یہ اب اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے کہ کون سے ٹیلر سے کپڑے......“ ”...یہ ہی تو ہمیں ختم کرنا ہے! اس احساس کمتری سے عورت کو نکالنا ہے! اسے اپنے کام کی حیثیت یاد دلانی ہے۔ کیا یہ ہنر کم وقعت رکھتا ہے جو انسانوں کو جانوروں سے ممیز کر سکے؟................ہمیں تو trend setter بننا ہے! اور فیشن کو اپنے تابع کرنا ہے یہ نہیں کہ جو بھی آڑا ترچھا ہو اسے من و عن پہن لیں! یہ جبھی ممکن ہے جب یہ ہنر ہمارے پاس ہو! اب دیکھو حجاب عام ہوا تو اس کے حوالے سے شیمپو بھی متعارف ہو گیا اور اب تو باحجاب کھلاڑنوں کے لیے اسپیشل ڈریس ڈیزائن ہونے لگے ہیں..........“ اور سیما پوائنٹ نوٹ کرتے ہوئے سوچ رہی تھی  ”........ ڈاکٹر شمع کو قائل کرنا مشکل ہے۔ یہ ہے لیڈر شپ کوالٹی.......“ اس کو اب یہ فکر پڑ گئی کہ وہ سلائی مشین کہاں سیٹ کرے گی؟

شہر میں قحط ہے اب، بخیہ گروں کا زلفی!

اپنے ہا تھوں میں ذرا،اپنا گریباں ٹہرے

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



 

 

 

 

 

 


منگل، 13 اکتوبر، 2020

 

                                                                                   



            ٹوئنٹی ٹوئنٹی

 

عظمیٰ آپا کی آمد پر ملا جلا  جذباتی رد عمل دیکھنے پر آیا ۔ کچھ  نے کم یا  زیادہ خوشی کا   اظہار کیا ، کچھ خدشات کا شکار ہوئے  اور کچھ  تو باقاعدہ سوچ میں پڑ گئے ۔ تین سا ل پہلے وہ  دو ماہ گزار گئی تھیں۔اس دفعہ بھی ایک مہینے کی چھٹی لے کر آئی تھیں کیونکہ گھر کے بڑے  عمرے کی ادائیگی کے لیے جانے والے تھے تو انہیں بچوں کے ساتھ رہنا تھا۔

اگر اسے ان کی واپسی کا عنوان دیا جائے تو اتنے  وقفے کے بعد گھر میں خاصی تبدیلیاں واقع ہوچکی تھیں ۔ ننھا جبران اب ساتویں جماعت میں تھا ۔پرائمری سے سیکنڈری میں آنے کے باعث ننھے جبران کی معصومانہ حرکتیں   شوخی کی طرف مائل ہوچکی تھیں اور بڑے بہن بھائیوں کی وجہ سے  کچھ زیادہ ہی ہوشیار تھا ۔ ایک جبران پر ہی کیا منحصر سارے بچے ہی تبدیلی کے مراحل سے گزرے ۔ کالج کے لڑکے عرفان اور یاسر اب انجینیرنگ یونیورسٹی کے طالب علم تھے ۔ہبہ اور ماہا انٹر پاس کر کے این ٹی ایس کی تیاریوں میں مصروف تھیں ۔ صبا  اور شارق اسکول کی پڑھائی مکمل کرکے کالج میں  بالترتیب   سیکنڈ اور فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے۔یہ سارے بچے عظمیٰ آپا  کی  بہن اسما اور بھائی عارف کی اولادیں تھے ۔اتفاق سے اسماءکے شوہر ظفر اور عارف کی بیگم شہلا بھی آپس میں بہن بھائی تھے اور یہ دونوں خاندان  ایک ہی گھر میں اوپر نیچے رہتے تھے۔

عمر اور تعلیم کے مدارج بڑھنے کے ساتھ ہی ان سب کے مزاج ، انداز اور عادتوں میں بھی نمایاں تبدیلی محسوس کی جاسکتی تھی جسے عظمی آپا کی زیرک نگاہوں نے ایک  نظر میں ہی بھانپ لیا ۔وہ ایک پہاڑی علاقے میں  گرلزہوسٹل کی وارڈن تھیں  اوران کی ذمہ داری کی جھلک ان کے مزاج میں خوب اچھی طرح رچی بسی تھی  ۔ ہر ایک کے معاملے میں جزئیات تک سے واقفیت  ان کی جاب کا تقاضہ تھاجس کی وجہ سے ہر لڑکی ان سے تعلق  محسوس کرتی ۔ جس کی روشنی میں نسل نوکی نہ صرف جسمانی و ذہنی بلکہ جذباتی ،نفسیاتی اور رو حانی   رحجانات  و ضروریات سے بخوبی واقف تھیں۔

 ان کی آمد کا پہلا دن تو تکلفات میں گزر گیا ۔ عمرہ زائرین کو ائیر پورٹ روانہ کر کے اصل معاملات شروع ہوئے  ۔رات کے کھانے پر سب خوش گپیوں میں مصروف تھے اور پچھلی ملاقات کے خوشگوار لمحات کو یاد کر رہے تھے۔

"                             اب تو ٹوئنٹی ٹوئنٹی بھی آنے والاہے …………."

 عظمیٰ آپا کے منہ سے یہ جملہ سن کرسب چونک گئے خصو صا شارق کے ہاتھ سے تو باقاعدہ  چمچہ چھوٹ کر سوپ کے پیالے میں جا گرا ۔ اس نے جبران کو استفہامیہ نظروں سے دیکھا !گویا کر کٹ کے اتنے اہم ایونٹ پر اس کی لاعلمی پر اس کو گھرکا۔

  کالج میں آنے کے بعد بے چارے شارق پر پڑھائی کا اتنا دباؤ ہے کہ   کھیل کے معاملات میں بے اعتنائی دکھانا ا س کی مجبوری بن  گئی  ہے۔ اس کی لاپروائی اور کھلنڈرے پن کی وجہ سے والدین کے علاوہ بڑے بھائی بہنیں ہمیشہ نصیحتوں سے نوازتے ۔اسے  بظاہر کھیل سے لاپروائی دکھانی پڑتی لیکن جب وہ اپنے کمرے میں جب ہوتا تو بلے سے ہوا میں بے آواز شاٹ لگارہاہوتا ۔وہ تو کبھی   اس کے ہاتھ سے بلا چھوٹ کر فرش سے ٹکراتا  تو دونوں منزلوں کے باسی سمجھ جاتے کہ وہ   اپنے بلے سے  لطف اندوز ہورہا ہے ۔ باقی سب تو مسکرادیتے مگر صبا اس کے خلاف ایک او ر مواد جمع کر لیتی جو وقت پر بہت اچھی طرح استعمال ہوتا ۔

صبا اور شارق  اوپر تلے کے ہونے کے باعث ایک دوسرے قریب بھی تھے مگر ان میں لڑائی بھی خوب ہوتی ۔  میٹرک میں دونوں کے یکساں نمبر آئے تھے مگر ان دونوں  کا رد عمل بالکل مختلف رہا تھا۔ صبا نے تو رونا شروع کردیا تھا کہ اتنی محنت کی تو کیا رہا جبکہ اگلے سال شارق بھی اتنے ہی نمبروں سے پاس  ہوا تو  کھلکھلا رہا تھا ۔ یہ ایسی بات تھی جس پر صبا خود حیران رہتی کہ اتنی کم محنت اور توجہ کے باوجود اس کے نمبر اتنے ہی آئے  تو کیوں اور کیسے ؟ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اس کو پڑھائی پر زیادہ متوجہ نہیں کر پاتی تھی جبکہ بقیہ گھر والے اپنا دباؤ جاری رکھنے میں ہی مصلحت سمجھتے ورنہ تو وہ فیل ہوکر بیٹھے گا تو بھی اطمینان سے ہی رہے گا !! لہذا  اسے اسپورٹس سے محبت کے مظاہرے کو چھپانا پڑتا ہے  سوائے جبران کے ! ان دونوں کی ذاتی گفتگو کر کٹ سے شروع ہوکر کرکٹ  پر ہی ختم ہوتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسےاپنی حیرت کو جبران کی طرف منتقل کرنا پڑا ۔

"ارے میں کر کٹ کی  بات تھوڑی کر رہی ہوں …..میں تو شروع ہونے والے نئے عیسوی سال کی بات کر رہی ہوں ۔۔ دو ہفتے بعد ہی تو شروع ہونے والاہے2020  ء  ……."

اللہ ہم تو بالکل بھولے ہوئے  ہیں کہ نیا سال شروع ہونے والا ہے ……ماہا کی بات کاٹ کر ہبہ بول پڑی  

"…. اور وہ بھی کہ اب ٹو تھاؤزنڈ ٹوئینٹی شروع ہوجائے گا…." دونوں کی آواز میں تجسس کے ساتھ خبریت تھی ۔

" ہاں تم لوگ پڑھائی  وغیرہ میں اتنے دھت  ہو کہ زمان و مکان سے بے نیاز ہوچکے ہو ۔"  پڑھائی کے مقابلے میں وغیرہ کے لفظ پر جو  زور تھا وہ ان کی تنبیہ کے لیے کافی تھا !دونوں نے سر جھکا لیا ۔عرفان اور یاسر نے  اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ اگلی بات کیا ہوگی ؟

" ….. اکیسویں صدی  بھی انیس سال گزار کر بیسویں سال میں لگ گئی ۔۔تم سب تو اکیسویں صدی  کی پیداوار ہو …."عظمیٰ آپا  گویا ہوئیں "….ہماری نسل بڑی منفرد ہے کہ اس نے  ہجری اور عیسوی دونوں صدی کوتبدیل ہوتے دیکھا ….."                                        ان کے لہجے میں تھوڑا فخر کا احساس تھا ۔ "….ہاں ہم روز گنتے تھے کہ اب پندرھویں صدی شروع ہونے میں کتنے دن  رہ گئے ہیں ……" 

 ' کیا مطلب خالہ ! آپ کتنی صدیاں دیکھ چکی ہیں ؟ ….."                                    صبا نے آنکھیں اور منہ دونوں کو آخری حد تک  کھول کر پوچھا ۔

صبا ان کے رکنے پر فورا بول پڑی              "….آپ اس وقت کتنے سال کی تھیں خالہ جان    ؟ "                                                        

اور اس کا مقصد جان کرعظمیٰ آپا گویا  ہوئی

 " پندرھویں  صدی شروع ہوئی تو ہم سب اسکول میں تھے !میں بڑی کلاس میں اور تمہاری امی اور تمہارے ابو چھوٹی کلاسز میں تھے " وہ صبااور جبران  کی طرف اشارہ کر کے گویا ہوئیں

"….ہم لکھتے 1400 ء  ہیں تو پھر پندرھویں صدی کیوں کہتے ہیں ؟ اور یہ دو ہزار ہے مگر اکیسویں صدی کہتے ہیں ….؟      سوال تو جبران کا تھا لیکن سب  ہی اس کے درست اور مکمل جواب کے منتظرتھے۔

" صدی کے آغاز پر پہلا سا ل گزرا …..دوسرا ، تیسرا …..اور پھر جب  100 سال گزر گئے تو پہلی صدی کہلائی پھر 101 شروع ہو تو دوسری صدی کاآغاز ۔۔اور جب عیسائیت کو دو ہزار سال گزر گئے تو  نئے ہزاریے کو اکیسویں صدی  کہا گیا ……" عظمیٰ آپا نے غورکیا سب ہی توجہ سے ان کی بات سن رہے تھے  ……." اور اسی طرح ہجرت کے 1400 سال گزر گئے تو پندرھویں صدی  شروع ہوئی  ……"

''….بھئی  ہم تو اگلی صدی  تک  نہیں زندہ رہ سکتے ……! ۔ماہا نے حسرت سے کہا ۔

"…..۔2100 ء  تک  جو زندہ رہے گا  سنچری بنا لے گالیکن  اتنی عمر کہاں ہوگی ؟ "   ہبہ نے جواب دیا

"" ہجری سال 1441 ھ  ہے  نا!....."    عرفان نے  اپنی معلومات جھاڑی "۔۔۔۔آئندہ  59 سال بعد نئی صدی ہجری شروع ہوگی  تو ہم سب 80   /75سال کے ہوں گے …….! "

" نا با با نہ ! اتنی بوڑھی ہوکر کیسی لگیں گے ؟ ‘”…..ماہا نے جھر جھری لی ۔

" …….کوئی بات نہیں ! کوئی پوتے کا پوتا  آپ کے چہرے پر استری پھر کر جھریاں ہٹا دے گا …….! " اتنا بد تمیز شارق ہی ہو سکتا تھا اور قریب تھا کہ لڑائی کا آغاز ہوجاتا جبران  نے سوال داغ د یا جسے  تاریخ میں دلچسپی پیدا ہوچکی تھی

 " بڑی پھوپھو !  قبل مسیح  کیوں کہتے ہیں ؟….."

" …..حضرت عیسیٰ سے پہلے کے زمانے  کو بتانے کے لیے قبل مسیح کہتے ہیں اور لکھتے ق م ہیں ۔"

 اب ایسا لگا کہ ان سب کی آپس میں چپقلش شروع ہوجائے گی کیونکہ کسی نہ کسی کو قبل مسیح  کا طعنہ یاد آجاتا جو کبھی دیا گیا تھا   لیکن عظمیٰ آپا نے مہلت ہی نہ دی اور اپنے  نکتے پر آگئیں ۔

" ……ایک کھیل کھیلتے ہیں ….! "                          عظمیٰ آپا کے لہجے میں اتنی  مہمیز  تھی کہ سب ہی متوجہ ہوگئے ۔آخر وہ بھی تو لگے بندھے انداز سے ہٹ کر ہی کام کرتی ہیں ،یہ سب کو اندازہ ہے !!

" …..سال 2020ء کے لیے سب اپنی اپنی منصوبہ بندی پر چیوں پر لکھیں ۔یہ منصوبہ بندی شارٹ ٹرم یعنی صرف 2020 ء کے لیے ہو یا لانگ ٹرم  پورے  عشرے کے لیے یعنی 2020 ء سے لے کر 2029 ء ………………" انہوں نے کھیل کی تفصیلات بتائیں تو سب  کی دلچسپی بڑھ گئی ۔''…..ایک سے زائد منصوبہ بندی بلکہ جتنی چاہیں لکھیں ……"

" ہرا ……" سب نے مشترکہ نعرہ لگایا ۔



….’’اور اس کی شرائط بھی سنیں ۔۔۔۔منصوبہ ایسا لکھا ہو کہ پہچانا نہ جاسکے کس نے لکھا ہے ؟  جس کا منصوبہ بے نقاب ہوگیا وہ کھیل سے  باہر ….."  پہلے تو سب سوچ میں پڑ گئے مگر بالآخر بخوشی راضی ہوگئے ۔

اگلے رات  سب لاؤنج میں جمع تھے اور کھیل کا آغاز ہوا ۔سب  بچے جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے تھے  ۔انہوں  نے اپنی اپنی پر چیاں عظمیٰ آپا کے حوالے کردیں ۔ شرکاء تو سات تھے مگر پرچیاں 25 تھیں گویا فی بچہ 3 سے زیادہ منصوبے ہیں  ۔عظمیٰ آپا معنی خیز انداز سے مسکرائیں ۔

پہلی پر چی پر لکھا تھا " قرآن کو ترجمے سے پڑھنا ہے ……"   

                                          واہ بسم اللہ تو اچھی ہوئی ہے  اور ابتدا بھی کہ لکھنے والا بے نقاب نہ  ہوا   !....''

"….پڑھائی میں بہت محنت کرنی ہے ….!"                                                                        

       "  …..انٹر نیٹ کا استعمال کم کرنا ہے ……."

''….. وقت کی پابندی کرنی ہے ……."                                                                                    

          " وعدہ خلافی نہیں کرنی ہے ……."

"…..والدین کا کہنا ماننا ہے ……

         " زبان کی حفاظت کرنی ہے ۔۔"

پر چیاں کھلتی رہیں اور بچوں کی طرح عظمیٰ آپا بھی  یکسانیت اور عمومی منصوبوں پر اکتاہٹ محسوس کر نے لگیں مگردل ہی دل میں  بچوں کی عقلمندی   پر داد  دے رہی تھیں ۔

" مجھے گھریلو کاموں پر عبور حاصل کرنا  ہے ……"   (ارادے اچھے ہیں  مگر زندگی گزارنے کے لیے مہارتیں سیکھنا  کسی کے لیے مخصوص نہیں کیا جا سکتا !)

" میرا پلان ہے کہ ماحولیات کے لیے کچھ کام کروں ….."    (اس پرچی پر سب سوچ میں پڑ گئے ! مستقبل کے انجینیرز  کے علاوہ   بھی کوئی ہوسکتا ہے مگرواضح نام  بوجھنا مشکل تھا!)

" 2020 ء میں مجھے شناختی کارڈ مل جائے تو ڈرائیونگ  شروع کر دوں ……"   (سب کی نظریں ماہا اور ہبہ کی طرف اٹھ گئیں ۔ان میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے !؟اندازہ لگا نے کی گنجائش نہیں ………….)

"  تو ہر وقت اسٹیرنگ پر بیٹھے رہیں گے ……! " یاسر نے مزاحیہ انداز میں ٹٹولنے کی کوش کی کہ یہ پلان کس کا ہوسکتا ہے ؟

"….میرا ارادہ ہے کہ فیشن ڈیزائنگ کروں تاکہ معقول ڈریسز  دیکھنے کوملے ……..'' (واضح طور پر صبا کا پلان ہو سکتا ہے  مگر وہ ایسے انجان تھی کہ کچھ کہنا محال تھا!)

'ہاں امی نے کہا ہے کہ اگر نمبر کم آئے تو میرج بیورو والی آنٹی سے رابطہ کروں گی ……"                     شارق نے صبا کی طرف منہ کر کے کہا گویا   بارود میں چنگاری پھینکی  لیکن صبا اتنی بے وقوف ہر گز نہ تھی کہ اس کو ترکی بہ ترکی جواب دے کر اس کھیل سے باہر ہوجاتی ! اسی طرح مختلف منصوبے سامنے آتے رہے مگر کسی واضح فرد کی طرف سے محسوس نہ ہوتے ۔اب چند ہی پر چیاں رہ گئی تھیں ۔ بچے حیران تھے کہ کھیل کا انجام کیا ہوگا ؟  عظمیٰ آپا کی پٹاری سے کیا نکلے گا ؟

 "….میں  ان شاء اللہ  دو سال میں حفظ قرآن  مکمل کرکے میٹرک کا امتحان دوں گا ……"      عظمیٰ آپا  پڑھتے ہوئے حیرت زدہ ہوکر مسکرائیں  اور ان کی آواز بچوں کے شور میں دب کر رہ گئی

 "  جبران …..! جوبو ….! …." سب اس کو چئیر کر رہے تھے   اور وہ  کھیل سے باہر ہونے پر شرمندہ سا کھڑا تھا ۔

" …..اور آج کے کھیل کے فاتح ہیں  محمد جبران ۔"  عظمیٰ آپا نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا

" ہیں ……ہیں !       یہ تو ایکسپوز ہوگیا ہے "                 عرفان نے اپنے چھوٹے  بھائی کو پیا ربھری بے چارگی سے دیکھا ۔سب حیرت زدہ تھے  کہ شرط ہارنے کے باوجود…….!

" …..جی جناب !! "  عظمیٰ آپا نے قطعیت سے کہا

" کسی بھی منصوبے کو بناتے ہوئے وقت سب سے اہم ہے ۔یہ جو ساری دنیا سمارٹ  SMART ) (  کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اس میں ٹی کس کا مخفف ہے ؟  ٹائم یعنی وقت !

اب بقیہ منصوبوں کو دیکھیں ۔۔سب ارادے ہیں ! کب کرنا ہے  کچھ واضح نہیں !!  میرے جبران نے اپنے نیک ارادے کو  ایک خاص وقت پر پورا کرنے کی منصوبہ بندی کی  اور اسے ان شاء اللہ کے حصار میں بند کر کے محفوظ کر دیا ۔

لاؤنج  جبران جبران کے نعروں سے گونج گیا !  ننھا جیت گیا تھا ۔اس کے پاس سمارٹ فون نہ سہی مگر منصوبہ تو اسمارٹ تھا ۔

…………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………

فر حت طاہر