حصہ دوم :
آگ اور صلیب
باب 12 : منظرنامہ
جیسا کہ نام سے
ظاہر ہے اس میں روم اور ایران کی رزم
گاہوں کا اس وقت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔مشرق
اور مغرب کی جنگوں کا نیا دور اس وقت شروع
ہوا جب ایران کے کسریٰ نوشیرواں نے بازنطینی سلطنت پر یلغار کردی تھی۔
مشرق وسطیٰ 500 عیسوی |
540ء میں نوشیرواں 3 لاکھ فوجیوں کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوا۔حلب کے خوبصورت شہر کو آگ لگا
دی اور انطاکیہ کی طرف پیش قدمی کردی۔
نوشیرواں شام کے شہروں کو لوٹنے کے بعد
مفتوحہ علاقوں سے ہزاروں مرد اور عورتوں کو جنگی قیدی بنا کر
مدائین واپس آگیا اور فلسطین پر حملے کی تیاری شروع کردی ۔ اس وقت رومی
افواج یورپ میں بر سر پیکارتھی ۔قیصر روم
نے سپہ سالار بلیسارس کو اٹلی سے واپس بلا لیا جس نے ایران کی سرحد پر پہنچ کر
یروشلم کی طرف ایران کی پیش قدمی روک دی لیکن
اچانک یمن کے حالات نے روم و ایران کے
درمیان تصادم کی ایک نئی صورت پیدا کردی ۔
575 ء میں یمن کے حکمران ابرہہ نے مکہ پر چڑھائی کردی جس کا
مقصد قدیم تجارتی شاہراہ پر مکمل قبضہ جمانے کے علاوہ مکہ کی مذہبی حیثیت ختم کرکے
عرب میں عیسائیت کا راستہ صاف کرنا تھا
۔اہل روم ابرہہ کی اس حرکت پر بہت پر امید اور خوش تھے مگر اہل مکہ کی تمام تر
کمزوریوں اور بد اعمالیوں کے باوجود احکم الحاکمین کو اپنے گھر کی تباہی منظور نہ
تھی چنانچہ اسے عبرتناک شکست اور ناکامی ہوئی ۔ ایک بار پھر جنگ کو مہمیز لگی اور نوشیرواں نے یمن پر چڑھائی کردی ۔اس کے ردعمل میں
قسطنطیہ میں مایوسی پھیل گئی اور حکمران
کو تبدیل ہونا پڑا۔ اہل روم نے تین سال
زبردست تیاری کے بعد دوبارہ جنگ شروع کردی ۔ نوشیرواں کوپسپائی اختیار کرنی پڑی اور
اس کے بعد لشکر کشی کا ارادہ ترک کردیا۔
نوشیرواں کے بعد اس
کا بیٹا ہرمز تخت پر بیٹھا ۔اس ضدی اور مغرور حکمران نے اپنے باپ کے وفاداروں کو ایک
ایک کر کے دربار سے نکال دیا ۔نوشیرواں کے ایک جرنیل بہرام
کے خلاف ہرمز کے خوشامدی ٹولے نے کان بھرے اور اپنا حریف بنا لیا ۔ بہرام نے مدائن پر قبضہ کرکے ہر مز کے بیٹے
خسرو پرویز کو ملک کی زمام کار دے دی۔ بعد میں
خسرو پرویز کی ملکہ شیریں کے ایما پر بہرام کو زہردے دیا۔پرویز نے ظلم و
تشدد کا نیا باب کھول دیا ۔
ادھر قسطنطیہ ( روم ) میں شہنشاہ موریس کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے فوکاس نے تخت پر قبضہ کرلیا ۔ اس کے مظالم کے باعث رومیوں نے بھی اپنے ظالم اور نااہل حکمران کے خلاف بغاوت کردی۔قسطنطیہ کے امراء اور حکمرانوں نے افریقی گورنر کو تخت پر قبضے کی دعوت دی تو اس نے اپنے نوجوان بیٹے ہرقل کو جنگی بیڑے کے ساتھ قسطنطیہ روانہ کردیا ۔ناول میں اس زمانے کا ذکر ہے جب ہرقل تخت پر رونق افروز ہوا اس وقت پرویز کی فوجیں انطاکیہ پر قابض ہوگئی تھیں اور گرجے آتش کدوں میں تبدیل کیے جارہے تھے۔
باب 13 تا باب 16 :
عاصم اپنی
منزل مقصود سے لاعلم ناگفتہ بہ حالت میں یثرب سے نکلتا ہے اور بارش برستی رات میں یروشلم
کی سرائے پہنچتا ہے جہاں ناول
کےآغاز میں ٹھہرا تھا ۔سرائے کا مالک فرمس
اس کی ویرانی دیکھ کر پہچاننے میں دشواری
محسوس کرتا ہے ۔ پھر استقبال کے
بعد تواضع کرتاہے ۔اس کے حالات جان کر اسےتسلی دیتا ہے اور اپنی داستان بھی سناتا
ہے کہ اس کے باپ کو
رہبانیت کے خلاف آواز اٹھانے پر
اسکندریہ کے راہبوں نے زندہ جلادیا جبکہ
بھائی پر رومی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر بابیلون کے چوراہے پر پھانسی دے دی
گئی اور وہ دربدر ہوتے ہوتے یہاں پہنچا ہے
۔ یہ باتیں سن کر عاصم کا اضطراب اور بڑھ جاتا
ہے کہ آلام و مصائب کی دنیا میں وہ تنہا نہیں بلکہ آج پوری انسانیت اپنے مقدر کی تاریکیوں سے پیچھا چھڑانے کو بھاگ رہی ہے ۔ فرمس عاصم کی ہمت بندھاتا ہے کہ وہ ایک بہادر
انسان ہے جو طوفانوں سے لڑنے کے لیے پیدا ہوا ہے !
عاصم کی ہنگامی دمشق روانگی
یہاں پر کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے جب دو انتہائی معزز خواتین کو بحفاظت یروشلم سے
دمشق پہنچانے کی ذمہ داری فرمس عاصم کو سونپتا ہے ۔ یہ ماں بیٹی
یروشلم کے حاکم سے چھپ رہی ہیں جو ذاتی انتقام کی خاطر ان کے تعاقب میں ہے ۔وہ
انہیں گرفتار تو نہیں کرسکا مگر ایرانیوں کاجاسوس ہونے کا الزام لگا کر راہبوں کو ان کے پیچھے لگا دیا۔ عاصم یہ ذمہ
داری قبول کرلیتا ہے یہ خواتین عاصم کے
عربی ہونے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں مگر کوئی چارہ نہ پاکر اس کے
ہمراہ جانے کو تیارہوجاتی ہیں ۔وہ اسےمعاوضے کی پیشکش کرتی ہیں جسے وہ رد کردیتا
ہے جس پر انہیں تجسس ہوتا ہے کہ کوئی عرب بھی نیک ہوسکتا ہے ! عاصم کا تذبذب یہ ہے کہ جب دمشق ایرانیوں کی پیش قدمی کے باعث خالی ہورہا ہے
تو یہ وہاں کیوں جارہی ہیں ؟ جس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ انہیں ایرانیوں
سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس خاتون کا شوہر سین ایک ایرانی افسر ہے ۔ فرمس عاصم کو عرب کے بجائے ایک رومی افسر کے بھیس میں ان خواتین کو دمشق
لے جانا مناسب جان کر ایک وردی اس کو دے دیتا ہے ۔اگرچہ اس نے آئندہ تلوار نہ
اٹھانے کی قسم کھائی ہوئی ہے مگر ان خواتین کی حفاظت کے خیال سے وہ
تلوار اور تیر کمان بھی ساتھ
لےلیتا ہے ۔ عاصم ایک نئے سفر پر روانہ ہورہا ہے جو تکلیف دہ بھی ہے اور خطرناک بھی !
راستے میں یوسیبیا ( ماں ) اپنی کہانی سناتی ہے ۔ اس کا تعلق یونان
سے ہے ۔دادا فوج میں تھے ۔دمشق میں سالار اعلیٰ تھے جبکہ اس کے والد تھیوڈیس ایرانی سرحد کے قریب
ایک قلعے کےمحافظ تھے ۔ ان کو ایرانی شہنشاہ خسرو پرویز کو قلعے میں پناہ دینی تھی
جو سپہ سالار کے ایران پر قبضے کے بعد
فرار ہوکر مدائن آرہا تھا ۔اس کے ایک افسر سین کی یوسیبیا سے شادی منتج ہوتی ہے ۔آتش
پرست سین کی یونانی عیسائی لڑکی یوسیبیا سے شادی ایک نئی جہت کھولتی ہے ۔ وہ دونوں
مدائن میں اپنی اکلوتی بیٹی فسطینہ کے
ساتھ خوشگوار اور پر امن زندگی گزار رہے ہیں۔لگتا ہے دونوں
سلطنتوں کے درمیان جنگ کے امکانات ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکے ہیں مگر چند سالوں بعد محسوس ہواکہ مجوسی پیشوا ایران
میں عیسائیت کے پرچار سے خائف ہیں ۔ شاہ ایران اپنی ظاہری رواداری کے باوجود
یہ محسوس کرتا کہ قیصر نے اپنی اعانت کے بدلے اس سے آرمینیا
کے علاقے چھین کر بہت بڑی قیمت وصول کی ہے
لہذا جنگی تیاریوں میں مصروف تھا ۔سین اس کا نہایت قابل اعتماد
افسر جنگ کے خلاف تھااور پھر قسطنطیہ میں بغاوت کی خبر پر ایران کے امرا
اور مذہبی اکابر نے پرویز کو مشورہ دیا کہ اب روم سے بدلہ چکانے کا وقت آگیا ہے۔
یہ صورت حال سین کے لیے اپنی عیسائی بیوی کے باعث تکلیف دہ تھی
۔ اس نے شہنشاہ کواس بات پر راضی کرلیا کہ قسطنطیہ جاکر حالات کا جائزہ لے
۔ بیوی اور بیٹی تھیوڈیس سے ملنے دمشق ساتھ روانہ ہوئے ۔ سین کو
قسطنطیہ میں قید کردیا گیا ۔ بوسیبیا اور فسطیہ اس کی رہائی
کے لیے دعائیں کرنے یروشلم روانہ
ہوئیں ۔ یہاں ان کا واسطہ یروشلم کے نئے حاکم سے پڑا جس کی بد تمیزی پر برسوں پہلے یوسیبیا تھپڑ مارچکی تھی ۔ چنانچہ وہ انتقامی کاروائی پر اتر
آیا ۔وہ اس سے بچتی ہوئی دمشق واپس جارہی
ہیں ۔ اس سفر کے دوران عاصم سے اس کی
کہانی سن کر وہ دونوں ماں بیٹیاں بہت
متاثر ہوتی ہیں اور اس کو اپنا محسن سمجھتی ہیں ۔ فسطینہ اس کے دل میں ایک نئی جوت
جگارہی تھی جس کو وہ سختی سے ٹھکراتا ہے ۔ دمشق پہنچ کر اندازہ ہوا کہ تھیوڈس کو ایرانیوں سے تعلق کی بنیاد پر رومیوں
نے جلا کر ہلاک کردیا اور پھر ایرانی لشکر
دمشق پر ٹوٹ پڑا۔۔ایرانی قبضے کے بعد یہاں
کشت و خون کا بازار گرم ہے اور ہر طرف
لاشوں کے انبار ہیں ۔
باب 17
تا 19 :
اہل دمشق پر ایرانی لشکر کے وحشیانہ مظالم کی داستان سن اور
دیکھ کر عاصم کی نیند اڑگئی تھی۔اور اسے یہ خوبصورت شہر اپنے وطن کے ریگزاروں سے
زیادہ وحشتناک نظر آرہا تھا ۔وہاں قبائل ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے اور یہاں
سلطنتوں کا تصادم تھا۔ دمشق کی گلیوں
بازاروں میں فاتح لشکر کے نعرے اور قہقہے اور آس پاس کے مکانات سے
مفتوح قوم کی چیخیں اس کو پریشان کر رہی تھیں ۔وہ اپنے دل میں کہہ
رہا تھا ۔
۔۔۔" کاش میں دمشق کے ہر گھر پر پیغام دے سکتا /سمیرا تم نے کہا تھا کہ رات
کے مسافر کو صبح کی روشنی کا انتظار کرنا چاہیے ! لیکن وہ صبح کب آئے گی ؟ کیا ان تاریک بادلوں کے
آغوش سے کوئی آفتاب نمودار ہوسکتا ہے ؟"
عاصم کے پاس ان سوالات کا جواب نہ
تھا اسے انسانیت کا مستقبل ماضی اور حال سے زیادہ بھیانک نظر آرہا تھا ۔اور وہ بار
بار یہ کہہ اٹھتا"۔۔۔کاش ! فسطینہ کی دنیا سمیرا کی دنیا سے مختلف ہوتی
۔۔۔!"
پرویز کا اایلچی سین( فسطینہ کا باپ ) قسطنطیہ
سے رہا ہوکر پرویز کے دربار میں رومیوں
کی طرف سے امن و دوستی کا پیغام لے
کر آتا ہے کہ ہرقل اپنے پیشواؤں کے برعکس (فوکاس) کی غلطیوں کی تلافی کرنے پر آمادہ ہے مگر پرویز کے رویے کے باعث ایران اور روم کے
تعلقات میں بہتری نہیں آسکی ۔سین کی آمد سے
ماں بیٹی کو حوصلہ اور اعتماد ملتا ہے اور وہ حسان مندی کے جذبات کے ساتھ عاصم کے لیے انواع اقسام کی پیش کش کرتا ہے جن کو قبول کرنے میں عاصم کو ذرہ برابر دلچسپی
نہیں ـبہر حال وقت گزارنے کے لیے فارسی سیکھنی شروع کر دی ۔ یہاں پر ایرج نامی
نوجوان فوجی افسر کی آمد ہوتی ہے جو ایک معزز ایرانی خاندان سے تعلق رکھتا ہے وہ
اور فسطینہ بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے
ہیں ۔ فسطینہ کی عاصم سے بے تکلفی اور
دلچسپی دیکھ کر وہ عاصم سے حقارت بھرا
رویہ اختیار کرتا ہے جو فسطینہ کو
اس سے برانگیختہ کردیتا ہے۔
سین فوجی مہم پر روانہ ہوا تو عاصم کے خیالات ایرانیوں کی فتح کے حق میں تھے اور پھر فسطینہ کے اصرار
پر وہ سین کا فوجی مہمات میں ساتھ دینے پر راضی ہوجاتا ہے ۔عاصم سین کی رفاقت میں
فلسطین کے کئی معرکوں میں حصہ لیتاہے۔ جنگ جس کے اچھے اور برے پہلوؤں پر غور کرتے
ہوئے وہ اپنے ذہن میں خلجان محسوس کرتا تھا اب وہ اسے ایک کھیل محسوس ہوتی تھی۔
کسریٰ کی فتح یا قیصر کی شکست کے بجائے اس کے لیے یہ مسئلہ زیادہ اہم تھا کہ سین
اس جنگ میں حصہ لے رہا ہے۔ سین ایران کی فتح کے لیے لڑ رہا تھا اور ضمیر کی دبی
دبی سسکیوں کے باوجود یہ فتح عاصم کے لیے بھی ایک مقصد حیات بنتی جارہی تھی ۔میدان
جنگ میں عاصم اپنی جرآت اور فتح کے جھنڈے گاڑ رہا تھا جو ایرج کے لیے
وجہ پریشانی بنی ہوئی تھی ۔ عاصم کے قدر دانوں میں اضافہ اور اس کی بڑھتی ہوئی
شہرت اور مقبولیت نے بعض لوگوں میں حسد و
رقابت کے جذبات پیدا کردیے تھے۔
یروشلم کی فتح کا جشن جاری تھا کہ سین نے عاصم کو اطلاع دی
کہ اسے ایشیائے کوچک کے محاذ پر بھیجا جارہا ہے جبکہ عاصم کو مصر کی طرف پیش قدمی
کرنے والے لشکر کے ساتھ جانا ہوگا ۔ اس خبر سے عاصم کا دل بیٹھنے لگا اور اسے
احساس ہوا کہ سین اس سے پیچھا چھڑا رہا ہے !
بحیثیت ایک ایرانی فوجی دستے کا
سالار بنا کر اس کااعتماد بحال کرکے گویا اس کے احسان کا جواب دے دیا ہے جو اس نے
سین کی بیوی اور بیٹی کو بحفاظت دمشق پہنچا کر کیا تھا ۔ اب اس کو خود فریبی سے
نکلنا ہوگا کہ جب وہ جنگ کے اختتام پر دمشق جاؤں گا تو فسطینہ دلفریب مسکراہٹ
کے ساتھ استقبال کرے گی ! وہ بوجھل دل کے
ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوجاتا ہے کہ افریقہ کے محاذ سے زندہ واپسی ممکن ہو یا نہ ہو !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔