محبت پنکھ پکھیروں کی!
غباروں
اور پھولوں سے سجی منی بس ننھے بچوں کی خوش کن آوازوں کے ساتھ ایوب مسجد کی طرف رواں
دواں ہے جہاں بچوں کی تقریب منعقد ہونی ہے ۔ اس قافلے میں
عمر، عارف اور مصطفٰی کے ساتھ حسن صاحب
بھی محلے کے بچوں کے ساتھ ہیں ۔ مسجد کے
قریب پہنچتے ہیں تو ایک ناگہانی ان کی منتظر ہوتی ہے
"
۔۔۔ امریکی قونصلر کی گاڑی پانچ منٹ میں یہاں پہنچنے والی ہے ۔۔ سب تیار ہیں ؟ "
" ماسک پہن لیں ۔ اور پٹرول بم اٹھالیں ۔۔۔ " یہ ایک احتجاجی مظاہرے کا منظر ہے جو کمیونسٹ طلبہ امریکی کونسلر کی آمد پر کر رہے تھے ۔ بچوں کی حفاظت کے پیش نظر انہیں عمارت کے اندر لے جاتے ہیں
امریکی قونصلر کی گاڑی پر پٹرول بم سے حملہ اور نعرے :
امریکہ
مردہ باد!
امپیریلزم
مردہ باد !
انکل سام خوف سے تھر تھر کانپتے ہوئے
"
تیمی ! واپس چلو۔ پولیس آرہی ہے ۔۔! " طارق
خبردار کرتا ہے لیکن وہ جوش میں گاڑی
پر چڑھ جاتی ہے ۔ عارف اس کو اتارنے کی کوشش کرتاہے
تو تیمی کے چہرے کا ماسک اتر جاتا
ہے اور وہ ایک لڑکی کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔
گھبرائیں نہیں یہ منظر ہمارے ملک کا نہیں ہے.... یہ تو ترکی ڈرامے
https://ardirilisertugrul.net/series/sevda-kusun-kanadinda-series
- (On the Wings of Love)
کا ابتدائی منظر ہے
...
یہ ایک سچی کہانی کی
ڈرامائی تشکیل ہے اور 1968 سے 1974 ء کے درمیان وقوع پذیر سیاسی کشمکش ، واقعات
اور شورشوں پر مبنی ہے.۔
یہ محض ایک محبت نامہ نہیں ہے بلکہ قانون کے نام پر انصاف کے
قتل کی کہانی ہے. اس میں قتل و غارت گری بھی ہے اور لطیف جذبات سے مزین
احساسات بھی! اس میں تاریخ بھی اور کشمکش کی داستان بھی! ...
1928 ء سے 1950ء تک ترکی میں عربی اذان اور حرف تہجی پڑھانے پر پابندی عائد تھی۔ اس پر احتجاج میں کئی مسلمانوں نے شہادت کا جام پیا۔یہ اسی کی ایک کہانی ہے ۔عربی میں اذان دینے پر ایک بچے کے سامنے اس کے باپ اور دادا کو ایک فوجی افسر شہید کردیتا ہے... تو یہ ننھا بچہ اپنے دادا کی گھڑی افسر کے منہ پر مار دیتا ہے جس کا زخم اس کے ماتھے پر بن جاتا ہے ا(ذان کی آواز پر ماتھے کے اس نشان پر افسر کا ہاتھ چلاجاتا ہے )
بیس سال بعد وہ ننھا
بچہ یونیورسٹی کا طالب علم بنتا ہے تو اس فوجی افسر کی بیٹی اس کی ہم جماعت
ہوتی ہے.. یہاں سے الفت کی کہانی شروع ہوتی
ہے جو بالآخر حسرت پر ختم ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکی کا یہ
ڈرامہ نیادی
طور پر تین ایشوز کا احاطہ کرتا ہے
٭عربی میں اذان پر
پابندی کا قانون
٭حجاب پر پابندی کا
قانون
٭قبرص کی فوجی امداد
حالات:
اس وقت ترکی مکمل
سیکولر معاشرہ تھا جہاں کہیں کہیں روایتی
مذہبی اور ثقافتی رنگ بھی جھلکتے تھے۔
علاقہ استنبول کا ہے جہاں یہ واقعات پیش آئے ۔ اس کی کڑیاں بیس سال پرانے واقعات سے ملتی ہیں ۔
یہ در اصل کسی بھی ایسے معاشرے کی کہانی ہے جہاں قوانین کے نام پر لوگوں کا
استحصال ہوتا ہے اور وہ انصاف سے محروم رہتے ہیں۔
گھرانے اور کردار:
حسن صاحب کا گھرانہ ان کی بیگم مبیرہ ، بڑی بیٹی زینب ، بیٹے خالد اور چھوٹی بیٹی
صالحہ پر مشتمل ہے ۔ صالحہ آٹزم کا شکار ہے
اس کے علاوہ عارف مبیرہ کے شہید بھائی کا بیٹا ہے۔
عمر کا گھرانا دو
بہنوں اور ان کی دادی پر مشتمل ہے ۔ یہ دونوں گھرانے آپس میں پڑوسی ہیں جن کا تعلق اوسط درجے کے گھرانے سے ہے ۔ حسن صاحب اپنے آبائی پیشے گھڑی ساز ی سے منسلک
ہیں جبکہ عمر کے خاندان کا گزر بسر ان کی دکان پر ہے ۔ عمر اور
عارف بچپن کے دوست اور پڑوسی ہیں ۔ باوجود اس کے کہ وہ
مختلف مزاج اور نظریات رکھتے ہیں یک جان و دو قالب کے مترادف ہیں ۔ عارف جس نے ایک یتیم کی حیثیت سے اپنی پھپھی
کے گھر میں پرورش پائی ہے ۔ اپنے پھوپھا کے زیر سایہ تعلیم و تربیت
حاصل کر رہا ہے ۔ اس نے گھڑی سازی کا ہنر بھی سیکھا ہوا ہے اور وہ مدرسے کی
تعلیم ختم کر کے اب یونیورسٹی کے شعبہ
قانون میں داخلے کا خواہاں ہے تاکہ وہ
اپنے والد اور دادا کے قانون کے نام پر
قتل کا انصاف حاصل کرسکے۔ متحمل اور معتدل مزاج سنجیدہ عارف
نہ صرف کراٹے کا ماہرہے بلکہ
ادب اور شاعری سے بھی دلچسپی
رکھتا ہے۔ جبکہ عمر ایک مشتعل مزاج
، جذباتی، قوم کے لیے فریفتہ نوجوان جو کسی حد تک تشدد کا بھی قائل ہے لیکن اس کے باوجود اس کی حس مزاح بھی بہت اچھی ہے ۔
ظفر اربائے اس
ڈرامے کا مرکزی کردار ہے جس کا گھرانا
ان کی بیوی اسما، بیٹی تیمی اور
اسما کی یتیم بھانجی روشنی پر مشتمل ہے ۔
اس کے علاوہ ان کا ایک ذہنی کمزور بیٹا
کبلائی بھی دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ایک
نرسنگ ہوم میں رہتا ہے اور ظفر اپنی خاتون دوست کے ساتھ الگ گھر میں رہتا ہے ۔ کرنل
ظفر ایک سابق ناٹو کا سابق رکن اور اعلیٰ فوجی افسر ہے. مقتدرہ سے تعلق رکھنے
والا یہ فرد امریکی
مفادات کا اسیر اورجس کا دعویٰ ہے کہ
استنبول کیا ترکی کا ہر ادارہ اور تنظیم اس کے حکم کے تابع ہے ۔ا س کے بقول ترکی
میں وقوع پذیر کسی بھی واقعے سے وہ نہ صرف آگہی رکھتا ہے بلکہ ذمہ دار بھی
ہے ( وہی فرعونی کردار)۔بظاہر نفیس اور مہذب نظر آنے والا یہ شخص وطن کی خدمت کی آڑ میں انارکی پھیلانے کے امریکی ایجنڈے پر مامور ہے۔ گورنر
ہوں یا میڈیا مالکان ، پولیس ہو یاانٹیلیجنس ! ۔۔اس کے ماتحت ہیں ۔۔۔ اس کی مرضی کے بغیر پرندہ پر
نہیں مار سکتا !
ڈرامے کی ابتدا میں
استنبول یونیورسٹی کا ماحول دکھایا گیا ہے جہاں دائیں اور بائیں بازو کی دو
جماعتیں ہیں جبکہ طلبہ یونین جو فکری طور پر حسن البنا اور مولانا
مودودی سے متاثر ہے، نجم الدین اربکان کی حمایت یافتہ ہے۔یہ تینوں اپنی اپنی غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں ۔
بائیں با زو کی طلبہ تنظیم
جو روسی نظریے کی پشت بان ہے اپنے آ پ کو انقلابی کہتی ہے اس کا نگران پرکلی ، جبکہ دائیں بازو کی تنظیم مثالی
پارٹی کہلاتی ہے اس کا سربراہ عمر
ہے اور طلبہ یونین ( اسلامی جمیعت طلبہ سمجھ لیں ) کے سر براہ ابراہیم ہیں ۔ تیمی اور روشنی لیفٹسٹ پارٹی میں ہیں ۔
جبکہ عارف، زینب ، مصطفیٰ ، سلمان ،
حیاتی وغیرہ اسلامسٹ
کے ساتھ ہیں ۔ ۔ ظفر اربائے نے تینوں پارٹیوں میں اپنے گماشتے رکھے ہوئےہیں ۔ سرخوں
میں طارق ، مثالی میں یلدرم اور طلبہ
یونین میں رمزی نام کے طالبعلم اس
کی مخبری کا کا م کرتے ہیں۔
ڈرامے کا آغاز بچوں کی ایک سماجی تقریب سے ہوتا ہے جس کے لیے
وہ مسجد جارہے ہیں ۔ اسی وقت نئے امریکی کونسلر چر چ اور مسجد کا دورہ کر رہے
ہیں جن
کی گاڑی پر سر خوں کے ذریعے حملہ کرانے کا منصوبہ کرنل ظفر بناتے ہیں (اس کا مقصد امریکیوں کو
پیغام دینا کہ اگر آپ ہماری حمایت نہ کریں
گے تو روس حاوی ہوجائے گا!) اور دوسری طرٖ ف امریکی کو
استقبالیہ دے رہے ہوتے ہیں ۔ اس تقریب کے
دوران ان کا ذاتی ڈرائیور کان میں اطلاع
دیتا ہے کہ ان کی بیتی تیمی بھی ان گرفتار طلبہ میں شامل ہے جو حملے میں شامل تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو رہا کرواتے ہیں اور طارق کو سخت
ملعون کرتے ہیں کہ اس نے ان کی وا ضح
ہدایت کے باوجود تیمی کو کیوں اس کاروائی میں شامل کیا ؟ تیمی
ایک جوشیلی اور جذباتی لڑکی ہے اپنے نظریات
کے لیے ہر وقت فعال رہتی ہے ۔ وہ اپنے باپ کی سخت گیر طبیعت کے باعث اس سے
متنفر ہے۔ عارف اس واقعے کی گواہی کے لیے
پولیس اسٹیشن جاتا ہے جہاں تیمی سے اس کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔
گواہی کے بعد وہ یونین آفس پہنچتا ہے اور ابراہیم سر کو بتاتا ہے کہ انتظامیہ نے ابھی تک اس کا ڈپلومہ نہیں بھیجا جس کی رو سے وہ یونیورسٹی میں شعبہ لا ء میں داخل ہوسکے جس کی کل آخری تاریخ ہے ! ( قانون یہ تھا کہ مدرسے سے پڑھنے والے صرف دینیات میں داخلہ لے سکتے ہیں لیکن
ڈپلومہ لے کر وہ دوسرے شعبوں میں بھی داخلہ کے اہل ہوسکتے ہیں۔ مقتدرہ کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے ہے کہ
وہ سیاست اور شعبہ لاء میں داخل ہوکر اہم
اداروں میں تعینات ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اس میں رکاوٹ بنتے ہیں ) بہرحال عارف کو لاء میں
داخلہ مل جاتا ہے اور یوں تیمی اس کی کلاس
فیلو بن جاتی ہے اور ایک دوسرے سے نظریاتی اختلافات کے باوجود بہت سے اتفاقات کے باعث وہ دونوں ایک دوسرے
سےمتا ثر ہوجاتے ہیں ۔
یونیورسٹی میں
کمیونسٹوں اور مثالی پارٹی کےدرمیان جھڑپ ہوتی ہے جسے عارف روکتا ہے ۔ عمر اس سے ناراض ہوجاتا
ہے کہ کیوں انہیں جانےدیا ؟ اس بات پر طارق عمر کو اغوا کرکے تشدد کرتا ہے جسے عارف رہا کرواتا ہے۔ یہ چپقلش چلتی رہتی ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں کو
بھڑکانے والے عناصر موجود ہوتے ہیں ۔ کمیونسٹ طلبہ کبھی ایک شعبہ پر قبضہ کر
لیتےہیں تو کبھی کسی کو یر غمال
بنالیتےہیں جس پر مثالی پارٹی بھرپور کاروائی کرتی ہے۔ کبھی کمیونسٹ کے کیفے پر
فائرنگ ہوتی ہے تو کبھی عمر کی دکان پر
حملہ ہوتا ہے اور کبھی اس کی پارٹی کے دفتر کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ پولیس سمیت سب ان حملوں سے نا واقف ہوتے ہیں یعنی
آپس میں گتھم گتھا رہتے ہیں یا رکھے جاتے ہیں ۔ اشتعال دلاکر ایک دوسرے کے
خلاف نبرد رہتے ہیں ۔ صورت
حال کچھ یوں بنتی ہے کہ شعبہ قانون پر سرخوں کا قبضہ ہے جب کہ شعبہ ادب و زبان پپر آئیڈلسٹ قابض ہیں اور ایک دوسرے
کے مخالف نظریات کے حامل طلبہ کوداخل ہونے سے روکتے ہیں ۔ عارف سب کی نظر میں مشکوک ٹھہرتا ہے کیونکہ وہ
دونوں طرف تشدد کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔
دوسری طرف طلبہ یونین اپنی مثبت اور اصلاحی سرگرمیوں میں مصروف
ہے۔میگزین شائع کروانا، سیمینار اور
کانفرنسیں منعقد کروانا، سائنس، آرٹس، کلچر ، تاریخ کی ترویج میں مصروف رہنا۔ ان
کا اصول ہے کہ کسی غیر قانونی یا پر تشدد طریقے سے دور رہنا ۔۔۔ لیکن ظفر کے
بقول حقیقی خطرہ اسلامسٹ ہی ہیں ۔ وہ اپنی ٹیم
کے سامنے کہتا ہے کہ
''۔۔۔ اگر ہم
کمیونسٹوں کو کچلیں گےتو لوگ خوش ہوں گے
لیکن اگر ہم نے اسلام پسندوں پر ہاتھ ڈالا
تو یہ ہی لوگ ہمارے خلاف ہوجائیں گے !"
اسلامسٹ کی سرکوبی کا ایک مشورہ آتا ہے کہ یا تو انہیں اسلحہ دے کر جہاد میں مشغول کردیں یا پھر مبلغین کے ذریعے اسلام کا دوسرا ورژن ایجاد کر لیا جائے ۔۔۔" یہ مشورہ ظفر کو بہت پسند آتا ہے ۔ ظفر کو رمزی اطلاع دیتا ہے کہ نجم الدین اربکان سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کو تیار ہیں ۔ یہ خبر ظفر کو پریشان رمزی کے بار بار اسلحہ اٹھا نے کی تجویز کو رد کیا جاتا ہے جس کے جواب میں رمزی کے ذریعے یونین بلڈنگ کی لائبریری میں اسلحہ رکھوا دیا جاتا ہے تاکہ چھاپہ مار کر بر آمد کیا جائے اور یوں تنظیم کو بلیک لسٹ کیا جائے لیکن اتفاق سے طلبہ یونین کےکچھ ممبران جو یہاں قیام پذیر ہوتے ہیں اسلحہ دریافت کرکے اسے دفن کردیتے ہیں اور یوں پولیس کا چھاپہ ناکام ثابت ہوجاتا ہے ۔
ہوا کچھ یوں کہ مسز مبیرہ کا اصرار ہے کہ عارف اور زینب کی شادی ہوجائے جبکہ عارف اور زینب ایک دوسرے کو بہن بھائی سمجھتے ہیں ۔زینب عارف کے دوست مصطفٰی کو پسند کرتی ہے ۔ مسزمبیرہ اپنی بیٹی، شوہر اور عارف پر بہت دباؤ ڈالتی ہیں تو عارف احتجاجا گھر چھوڑ کر یونین آفس میں قیام کرلیتا ہے ۔ رات کو گڑ بڑ دیکھ کر وہ ، عمر اور مصطفیٰ پوری عمارت خصوصا لائیبریری میں تلاش کرکے اسلحہ نکال لیتے ہیں ۔ منصوبے کی ناکامی پر رمزی حیران ہے جبکہ ظفر برانگیختہ ہے ۔
مصطفیٰ بہر صورت عارف سے زینب کے رشتے کی بات کرتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے ۔ عارف گھر اسی شرط پر واپس آتا ہے چنانچہ مسز مبیرہ کی مرضی کے خلاف منگنی کی رسم کی تیاری ہورہی ہوتی ہے۔ اور جیسے ہی وہ تقریب کے لیے حسن صاحب کے گھر پہنچتے ہیں ۔پولیس مصطفیٰ کو گرفتار کرنے آجاتی ہے۔ جیل میں اس پر بے پناہ تشدد کیا جاتاہے ۔ بہر حال ا نسپکٹر جمیل آتش کی وجہ سے اسے رہائی ملتی ہے ۔ اس کی گرفتاری کی وجہ وہ تصاویر ہوتی ہیں جو اسلحہ دفن کرتے وقت امریکی ایجنٹوں نے کھینچی تھیں۔
دوسری
طرف طارق کمیونسٹوں کو مزید طاقت ور اقدامات پر اکساتا ہے ۔ چنانچہ
وہ بازید اسکوائرپر سرخ جھنڈا لہرانے کا منصوبہ بناتے ہیں
جسے ظفر بہت پسند کرتا ہے ۔اور پھر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیتے ہیں تو ان پر کریک ڈاؤن
کیا جاتا ہے جس میں بہت سے طلبہ زخمی ہوجاتے
ہیں جن میں تیمی بھی شامل ہے ۔ اس
ہنگامےکے دوران طارق کا بھید ایک کمیونسٹ طالب علم عثمان پر کھل جاتا ہے ۔ اور وہ عثمان کو چاقو مار دیتا ہے۔ اتفاق
سے یہ منظر عمر دیکھ لیتا ہے ۔وہ اسے
بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ ختم ہو
جاتا ہے ۔ ۔عمر دل گرفتہ ہوکر عارف کو
بتاتا ہے ۔ وہ دونوں تیمی اور روشنی کو
طارق کی حیثیت اور حرکت بتاتے ہیں لیکن وہ خصوصا روشنی اس کو ماننے پر تیار
نہیں ہوتیں ۔ طارق منکر ہوکر الزام عمرپر
ہی لگادیتا ہے ۔ طارق کی پے درپے ناکامیوں
پر ظفر اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے
۔ یہ بات محسوس کر کے طارق ظفر کی
خفیہ فائلز چرا کر صحافی لیلیٰ کے دے دیتا ہے ۔ دوسری طرف تیمی
کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے بہانے وہ ایک جگہ بلاتا ہے ۔ عارف اور عمر
بھی اس کے ساتھ جاتے ہیں ۔ اور وہاں ظفر بھی اپنے محافظ کے ساتھ پہنچتا ہے ۔
یہاں وہ تیمی کو یر غمال بنا کر ظفر کے
سیاہ کرتوت بتانے لگتا ہے اور ساتھ ساتھ
عارف کو بھی متوجہ کرتا ہے ۔ لیکن اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ظفر کے پوشیدہ
محافظ اسنائپر طارق کو نشانہ بنا کر مادیتا ہے ۔ اور طارق
مرنے سے پہلے ظفر پر پستول چلادیتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر پہلے سیزن کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔