منگل، 26 جون، 2018

جوش قدح سے بزم چراغاں کے منتظر !


       


                                                                                                                                        
      ٭  ہم جو سوچا کرتے ہیں ۔۔۔ وہ لوگ کیا کرتے ہیں !

21 جون ِ، سال کا طویل ترین دن !   بہر حال  ایسا بھی نہیں کہ 48 گھنٹے کا ہوگیا ہو ! لیکن مصروفیات کا شیڈول  تو کچھ اسی طرح سامنے آرہا تھا کہ جیسے ایک دن میں کئی دن گزارنے ہیں صبح ایک تعزیت،دوپہر میں ضروری خریداری ،سہ پہر کی دو تقریبات تهیں:
ایک بیرون شہر سے آئی ہوئ  مصنفہ  قانتہ رابعہ کے ساتھ نشست اور دوسری عید ملن پارٹی جسے انتخابی مہم کے طور پر برتنا تھا ۔کارنر میٹنگ سمجھ لیں ! .رات کو ولیمہ میں شرکتاوپر سے خواب آور موسم میں نیند کا زور اور ظالم مرطوب بھی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر موقع پر لباس کی تبدیلی پر مجبورتهے  ! نہلے پر دہلا الیکشن کی قربت کے باعث اپنی ذمہ داریوں کے حساب سے حاضر باش  رہنا اور رکهنا ..
انسان تو انسان ہے !نازک ہے پرwarm blooded ہونے کے ناطے  ڈهیٹ بهی بہت ہے !.موسم اورحالات کے لحاظ  سے اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہےچنانچہ صبح سے ہی  دعا کے سہارے پھرتی کا مظاہرہ شروع کردیا ..
 اصل چیلنج   سہ پہر کی تقریبات میں تھی .کم و بیش ایک ہی اوقات میں اتنے فاصلوں کے ساتھ دونوں جگہ اپنی حاضری کو ممکن بنانا ! خیر سوچ و بچار سے اس کا بھی حل   نکل آیا ..یعنی دونوں میں شرکت کی کوشش 
قانتہ رابعہ سے  واقفیت بذریعہ ان کی تحاریرتو برسوں سے تھی مگر ذاتی راہ ورسم اجتماع عام سے ہوئی جسے واٹس آپ کی سہولت  نے مستقل رابطہ کی شکل دے دی ہے .۔عید سے دو دن قبل ان کا میسج آیا کراچی آرہی ہوں .مگر اس میں ملاقات کا امکان بہت کم جهلک رہا تھا. اور یہ معلوم ہو نے کے بعد کہ محض 3 دن  کا پروگرام ہے ملنے کی امید بالکل معدوم ہوگئی ..ظاہر ہے کچھ ذاتی پروگرام سے آئی ہوں گی !! مگر پھر عید کے چوتھے دن میسج آیا!  حریم ادب کی طرف سے ان کے اعزاز میں تقریب کی اطلاع! دل خوشی سے معمور ہوا مگر جگہ اور دن دیکھ کر الجھن کا شکار بھی.
مگر ٹھیک 3.30 پر جب ہم ادارہ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے معصوم سے بچے کی تلاوت کانوں میں سنائی دی .یقینا یہ پروگرام کا آغاز تھا ..تلاوت کے بعد نعت پڑهی گئی  اس دوران مہمان خصوصی قانتہ رابعہ تشریف لا چکی تھیں۔ ..بیرون شہر کی مصنفات کے ساتھ نشست منانے کا آغاز کب سے ہوا؟ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا ..
ماضی قریب 2012 کی بات ہے ..صائمہ اسما ( مدیرہ بتول ) اپنے شوہر کے ہمراہ  کراچی آئی ہوئی تھیں جو ایک ورکشاپ کے لیے تشریف لائے تھے. .پچھلی نشستوں پر ساتھ بیٹھی ہوئی رائٹرز فورم کراچی کی نگران کو ایک نوٹ لکھ کر متوجہ کیا .
"صائمہ اسما کراچی میں ہیں !                            موقع سے  فائدہ اٹھا کر ا ن کے ساتھ ایک نشست رکھ لی جائے! "
 (یہ نوٹ اب بھی پرانی ڈائری میں موجود ہے ) اس کے جواب میں اس نے ہمیں ایسی اجنبی نظروں سے دیکھا گویا ہم نے کسی نامعلوم زبان میں لکھا ہو یا دہشت گردی کا کوئی اشارہ ہو! خیر کچھ عرصے بعد رائٹرز فورم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر صائمہ اسما کو بطور خاص لاہور سے بلوایا گیا تو ہمیں اپنے اسی نوٹ کا کارنامہ محسوس ہوا .
پهر اپریل 2014ء کی بات ہے جب حریم ادب کی ذمہ داری سنبھالے چند ہفتے ہی ہوئے تھے .صائمہ اسما کا فون آیا کہ دو دن کے لیے کراچی آرہی ہوں اگر باہم  ملاقات کا انتظام ہو سکے توَََََََ۔۔۔؟  دل اس بات پر جھوم اٹھا !  اور محض دو گھنٹے کے نوٹس پر ہم نے نشست طے کر لی ۔ جلدی یوں بھی تھی کہ اسی لحاظ سے صائمہ اسماء کو اپنی واپسی کی بکنگ کروانی تھی ۔اپنی پھرتی پر خود کو داد کہ اس زمانے میں واٹس اپ  گروپس کی سہولت اتنی عام نہ تھی لہذا متعلقہ افراد سے بذریعہ فون ہی رابطہ کرنا تھا ۔۔اور یوں بظاہر ایک ناممکن نشست منعقد ہوسکی جو اس وقت کی ناظمہ صوبہ افشاں نوید جو خود ایک علمی اور ادبی شخصیت ہیں   کےتعاون کے بغیر ممکن نہ تھی !  قلم کار بہنوں نے غیر معمولی دلچسپی لے کر اسےکامیاب بنا یا اور  یوں ایک غیر رسمی نشست کی بنیادوجود میں آئی ۔اس کی روداد ایک شام گل دوپہر کے نام سے شائع ہوئی تھی ۔۔شرکاء برسوں اس کےخمار میں رہے تو شریک نہ ہونے والے افسوس کا شکار !۔۔
یادوں کی پٹاری میں ایک چمک دار سا موتی ابھرتا ہے !
یہ ہے اجتماع عام 2014 ء جو نومبر کے آخری ہفتے میں مینار پاکستان تلے منعقد ہوا ۔ اس میں  شعبہ حریم ادب کے تحت اسٹال پر پورے پاکستان سے آئی ہوئی ادبی شخصیات  کے باہم ملاقات کا انتطا م تھا ۔اس کے علاوہ ایک ادبی نشست رات گئے منعقد ہوئی جس میں بھی مصنفات اور شاعرات ایک دوسرے سے واقف ہوئے ۔ 
http://www.qalamkarwan.com/2014/12/shauq-ki-shidat-ko-aazmana.html
دلچسپ بات یہ تھی کہ کراچی سے آنے والے بیشتر افراد بھی پہلی دفعہ بالمشافہ ملاقات کر رہے تھے۔ اس تقریب سے اتنی مہمیز ملی کہ حریم ادب پاکستان کی اولین نگران عذرا جمال  کی صاحب زادی انجم خالق نے اپنے گھر ایک ادبی نشست رکھنے کا پروگرام بناڈالا اور یہ محض سر سری بات نہیں تھی بلکہ اس کو فوری عملی جامہ  بھی  پہنا ڈالا ۔  جنوری 2015 ء میں ایک خوبصورت تقریب منعقد ہوئی ۔جس میں جنوب سے شمال اور شرق سے غرب تک کراچی کی ادبی شخصیات جمع تھیں ۔ شرکاء کا اصرار تھا کہ ہر ماہ نہ سہی تو ہر تین ماہ پر ایسی بیٹھک  ہو ! بات سالانہ پر آگئی کیونکہ کراچی کے فاصلے اور مصروفیات  اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتے  ۔۔۔ویسے سالانہ بنیاد پر تو انعقاد ہوتا ہی ہے مگر تقاضہ  باہم ملاقات اور غیر رسمی  تقریب کا تھا ! 
جی ہاں ! اور یہ وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ یہ ساری روداد اسی حوالے سے ہے ورنہ بیرونی سرکل کو راغب کرنے کے لیے تو ڈھیروں کاوشیں بہت جانفشانی سے  حریم اد ب  آئے دن کرتا رہتا ہے !
یادوں کے سلسلے کو  جوڑتے ہوئے آگے بڑھتےہیں !!
یہ ہے 2016ء ! 27/  جولائی کو  قانتہ رابعہ  کے اعزازمیں تقریب منعقد ہوئی جس میں اہل کراچی کی باذوق خواتین جوق در جوق شریک ہوئیں ۔پھر 2/3 ستمبر صائمہ اسماء کے ساتھنشست رہیں ۔ عید الاضحیٰ  سے متصل  ہونے کے باوجود قارئین بتول اپنی مدیرہ  کی پذیرائی کو موجود تھیں ۔ پھر اکتوبر 2017ء میں صائمہ اسماء کے ساتھ  فاران کلب میں  خوب صورت رنگا رنگ غیر رسمی  محفل رہیجس کی ہنگامی بنیادوں پر انعقاد  واقعی حریم ادب داد کا مستحق ہے ۔ 24 نومبر  2017 ءکو کاشانہ اسماعیل  میں کراچی کی قلم کار بہنیںصائمہ اسماء کے ساتھ زانوئے تلمذ طے کر رہی تھیں اور اب 2018 ء میں شوال کی 6 تاریخ قانتہ کے ساتھ عید ملن منانی تھی ! !
اور  ہم اس تقریب میں موجود تھے  جس میں آہستہ آہستہ شرکاء تشریف لارہے تھے اور فرشی نشست تنگی داماں کا شکار تھی ۔ میزبان ثمرین احمد نے ہمیں مہمان خصوصی کے برابر میں خالی کرسی پر براجمان کر کے الجھن میں ڈال دیا تھا ۔ذہن میں کھچڑی سی پک رہی تھی اور اس پر مائک اچانک سے ہاتھ میں دے دیا جائے تو خدشہ ہوتا ہے کہ دوسری تقریب  کے لیے سوچے گئے جملے یہاں نہ دہرادیں ۔ کاش منتظمین چائے پہلے ہی پلوانے کا انتظام کردیتے مگر خیر رہی اور ناگفتنی نہ ہوسکی حتی کہ ہماری روانگی کا وقت آگیا ۔جی ہاں ! یہ ہی پروگرام سوچا تھا کہ 5 بجے دوسری تقریب میں شریک ہوں گے !
ایک بھری محفل سے اٹھنا آسان نہیں تھا ۔بہت سے چہرے رو برو  تھے جن سے عید کا سلام لینا اوردینا تھا مگر اس ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے ہال میں یہ ناممکن تھا اور یوں ہم تشنگی لیے سیڑھیاں اتر آئے ۔ بہت سے شناسا تو ہماری روانگی کے بعد ہی پہنچے تھے ! رات کو تقریب  کی روداد پڑھ کر ہمیں بھی خیال آیا کہ کچھ اس کاحوال درج کریں !
اہل کراچی سمندر کے کنارے رہائش پذیر ہونے کے باعث  اس جیسی کشادگی اور وسعت دل بھی رکھتے ہیں لہذا ادب کی پرورش میں ہر بار مہمان نوازی خوب نبھائی ! حریم ادب اپنی موقع شناسی پر بجا طور پر تحسین کی مستحق  کہ انتہائی مختصر عرصے میں بھی تقریب کا انتظام کر لیتی ہے ! اس بہانے کراچی والے بھی ایک دوسرے کی دید حاصل کر لیتے ہیں !
حریم ادب اور شعبہ نشر و اشاعت کی نظر کرم اہل کراچی پر کب ملتفت ہوتی ہے ؟ سب منتظر ہیں جوش قدح کو بزم چراغاں کر نے کو ! کسر نفسی سے قطع نظر ہر فرد جواہر سے کم نہیں ! 
٭ فرحت طاہر ٭





عید،عیدی اور مہرو باجی

٭ عید ، عیدی اور مہرو باجی ٭
کچھ خاص مواقع کسی شخصیت کے حوالے سے بڑے یاد گار ہوتے ہیں ! کچھ ایسا ہی معاملہ مہرو باجی کاہے ! یہ کون ہیں ؟ آپ نہیں جانتے مگر ہم نے اپنی آنکھیں کھلتے ہی انہیں اپنے گھر دیکھا تھا ۔بلکہ ہماری امی کا کہنا تھا وہ شادی کرکے آئیں تو ایک ننھی منی دس بارہ سال کی بچی کو اپنا استقبال کرتے پایا ۔آج سے نصف صدی قبل اس عمر کی بچی پورا گھرانہ سنبھالنے کے قابل ہوتی تھی ننھی منی ہر گز نہیں ہوتی تھی  ! جی ہاں ! درست بات یہ ہے کہ  ننھی منی وہ  در اصل اپنے  قد و قامت کی وجہ سے نظر آتی تھیں ۔ ان کا مختصر قد ہمیشہ ان کی پہچان رہا !ان کی دوسری امتیازی صفت ان کی کم گوئی تھی !
یہ تھیں مہرو باجی !ہماری پھوپھی زاد بہن کہ جن کو جنم دیتے ہی ہماری پھو پھی اس جہاں فانی سے کوچ کر گئیں ۔دادی جان جنہوں نے ایک سال قبل اپنی بیٹی کو رخصت  کیا تھا اس کی ننھی نشانی کو کلیجے سے لگاکر گھر لے آئیں بعد ازاں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئیں ۔یوں وہ  ہمارے گھر کا حصہ بن گئیں ۔ امی کا کہنا ہے کہ ہم سب کو سنبھالنے میں وہ ان کی بہت معاونت کرتی تھیں ۔ کہیں جانا ہو تو تیار کرنا ، اور اگر ان پر چھوڑ کر جائیں تو پیچھے  خیال رکھنا ! سال میں کچھ ماہ دادی بڑے ابا کے گھر حید رآباد جاتیں تو وہ بھی ہمراہ جاتیں ۔۔وہاں بھی بچے ان کے منتظر ہوتے ! وہ بچوں میں بہت خوش رہتیں !
 اور پھر وہ ایک دن بیاہ کر سکھر چلی گئیں ۔ یقینا ہم نے ان کی کمی محسوس کی ہوگی جو یاد داشت میں نہیں ہے مگر یہ یاد ہے کہ جب سال بھر بعد وہ آتیں تو ہم سب کی خوشی دیدنی ہوتی ! اب ان کے ساتھ ظفر بھائی بھی ہوتے جو ہم سب کو باجی کی طرح ہی عزیز رکھتے ۔ ہماری دلچسپی کی چیزوں کا خیا ل رکھتے ۔ان کی لائی ہوئی چیزیں اپنی سہیلیوں کے سامنے فخر جتانے میں استعمال ہوتیں ۔باجی سسرال میں بھی بچوں کی دیکھ بھال کا فریضہ بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتیں ۔ چھوٹے دیوروں  اور نند کا ایسے خیال رکھتیں جیسے ہمارا رکھتی تھیں ۔نہلانے سے لے کر بال بنانے تک ! نوالہ منہ میں ڈالنے سے لے کر ساتھ کھیلنے تک ! یہاں کی جگت باجی وہاں کی بھابھی قرار پائیں ! بڈھوں سے لے کر بچوں تک کی بھابھی  تھیں ( حتی کہ ان کے سسرالی بچوں کے بچے بھی انہیں اسی لقب سے پکارتے ! )
ایک دفعہ ان کی آمد سے قبل کی رات یاد آرہی ہے جب سلمہ اور عائشہ کے گھر جاکر انہیں  باجی کی آمد کی بابت بتا یا تھا اورتجسس کی وجہ ان کا منا تھا جسے دیکھنے کے لیے ہم بے چین تھے ۔(  اپنے گھر میں چھوٹے بڑے دو منے موجود تھے  مگر باجی کے  منے کی بات کچھ اور تھی )۔
وقت آگے بڑھا ! ۔اور ہم بھی بڑے ہوتے گئے ان کی بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔اب ہم ان کا بے چینی سے انتظار نہیں کرتے تھے بلکہ سچ پوچھیں تو ان کی واپسی کے منتظر رہتے ! یہ ایک قدرتی بات تھی ۔ بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو ان کی دلچسپی کا دائرہ تبدیل ہونے لگتا ہے اور روک ٹوک بر داشت نہیں ہوتی چنانچہ بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ ایک دور ہوتا ہے جو گزر جاتا ہے اور پھر شعور آنے پر رشتہ داروں سے تعلق کی اہمیت کا احساس جاگتا ہے ۔ اور اگر تھوڑی بہت بھی  دینی سمجھ آجائے تو انسانوں سے محبت پیدا ہونے لگتی ہے اور مہرو باجی تو تھی ہیں اتنی پیاری شخصیت ! اور پھر وہ کراچی شفٹ ہوگئیں !  
ہمارے گھر ہر مر حلے پر ان کی موجودگی لازمی تھی اور ان کو بڑی بیٹی کی سی حیثیت حاصل تھی ۔ ایک دفعہ ہم گھر آئے تو امی نہیں تھیں  بلکہ مہرو باجی موجود تھیں ! زیادہ اچنبھے کی بات یہ تھی کہ وہ ہمارا خیا ل اس طرح رکھ رہی تھیں جیسے بچپن میں کرتی تھیں ۔ ہم ان کی اس روش پر حیران تھے اور پھر معلوم ہوا کہ ہمارے خالو جان کے  انتقال کی خبر آئی   تو امی پریشان کہ ہم سب پڑھنے گئے ہوئے تھے اسی وقت اچانک سے باجی آگئیں اور امی اطمینان سے  گھر ان کے سپرد کر کے خالہ کے گھر چلی گئیں ۔اور باجی نے ہمیں کھانا وغیرہ کھلا کر اطلاع دی ۔ ایسے بہت واقعات تھے جب کسی بھی مشکل وقت میں وہ حاضر ہوگئیں ۔ہمارے گھر کی ہر تقریب میں ان کی شرکت وقت سے بہت پہلے لازمی تھی اور یہی حال ہمارے بڑے  ابا کی فیملی کا تھا !
 بظاہر غیر جذباتی تھیں یعنی اپنے جذبات کا اظہار مشکل سے کرتی تھیں ۔مگر ایک  دفعہ امی کے ساتھ ہم بد تمیزی پر امی کی افسردگی دیکھ کر وہ بہت بے چین تھیں ۔بالآ خر کچن میں میرا ہاتھ تھام کر دھیرے سے بولیں 
تمیں اللہ نے ماں دی ہے اس کی قدر کرو ! مجھے دیکھو میں نے تو اپنی ماں کو دیکھا تک نہیں ۔۔۔! اس وقت لائٹ نہیں تھی چنانچہ اندھیرے کی وجہ سے میں ان کے تاثرات دیکھنے سے قاصر تھی مگر ان کا لہجہ بتا رہا تھا کہ رو رہی ہیں ۔۔! اور ان کےالفاظ کے زیر وبم نے ان کے غیر جذباتی ہونے کے  ہمارے تاثر کی نفی کردی ۔
 وقت اور آگے بڑھا ! وہ اپنے بچوں کی شادیوں سے فارغ ہو کر نانی ، دادی بن گئیں مگر ہم سب سے ان کا تعلق اسی طرح برقرار رہا ۔ وہ جب آتیں کچھ نہ کچھ چیزیں ایسی لاتیں جو دیکھ کر ہماری ہنسی چھوٹ جاتیں مگر یہ ان کی محبت کا اظہار تھا۔ان کے شوہر حج سے واپسی پر  آئے تو جہاز میں اور تبرک میں ملنے والی بہت سی بسکٹ ،ٹافیاں وغیرہ لائے جو اپنے خاندان کے بچوں میں تقسیم کیے اور ہماری پیاری باجی ان کا ایک بڑا حصہ ہمارے گھر کے بچوں کے لیے بھی لائیں ۔بظاہر یہ چھوٹی  چھوٹی چیزیں  ان کے ہم سے تعلق کی علامت تھا!
زندگی میں مزید تبدیلیاں آئیں ۔جب ہمارے والدین ایک ایک کر کےاس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اور پھر یہ گمان آیا کہ وہ بڑوں کی وجہ سے وقتا فوقتا اور خصوصا عید کے موقع پر ملاقات کو آتی تھیں اب شاید نہ آئیں ۔مگر گمان غلط ثابت ہوگیا جب عیدکے دوسرے دن  ان کی آمد اسی طرح لازم و ملزوم  رہی جیسے ہمارے والدین کی موجودگی میں رہی تھی ۔حالانکہ ہمارے گھر میں بہت سی تبدیلیاں در آئیں مگر ان کا معمول وہی رہا ۔عید کادوسرا دن وہ ہم سب کے ساتھ گزارتیں ۔اور یہ ان کی نفسیاتی مجبوری تھی کہ  ان کا  میکہ سلامت ہے ! ہم سب اس کے عادی ہوگئے تھے کہ عید اور بقر عید د کی دوپہر وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہمارے گھر کھانا کھائیں گی  اور ہم سب کو عیدی سے نوازیں گی ۔
عزیز قارئین !
اب ہم اپنےمضمون کے عنوان کے قریب پہنچ چکے ہیں ! جی ہاں ! اب عمر کے اس حصے میں وہ واحد رشتہ  دار تھیں جو ہمیں عیدی سے نوازتیں ! سب کو 100 روپے مگر مجھے علیحدہ سے 100 مزید دیتیں کہ چوڑیاں لے لینا !
بچوں کی شادیوں اور بیرون ملک روانگی کے بعد اب محض  وہ اور ان کے شوہر ہی  ہمارے عید کے مہمان ہوتے مگر روٹین  برقرار رہا ۔2016ء کی عید کا دوسرا دن ان کی آمد کے بغیر گزرا کیونکہ شوہر کی بیماری کے باعث ان کا نکلنا محال تھا ! بعد میں جب ہم ان سے ملنے گئے تو انہوں نے جس شکایتی نظر سے ہمیں دیکھا وہ کہہ رہی تھی میں نہ آسکی تو تم لوگ تو آسکتے تھے  ! بولتی تو وہ ویسے بھی کم تھیں اب تو بالکل چپ لگ گئی تھی ! جنوری 2017ء میں ظفر بھائی انتقال کرگئے ۔ باجی عدت میں تھیں ۔ ہم ان سے ملاقات کو جاتے رہے ! رمضان سے ایک دن پہلے ان کی عدت ختم ہوئی ۔ ہم سب بھائی بہنوں کا اصرار تھا کہ وہ رمضان ہمارے ساتھ گزاریں اور ان کی بھی خواہش یہ ہی تھی مگر ان کو پنشن کے مسائل حل کروانے تھے اس کے علاوہ ان کی آنکھوں کے آپریشن اور آلہ سماعت کی خریداری بیچ میں حائل تھی لہذا بات ٹل گئی ۔
عید 2017ء میں وہ حسب معمول بیٹے کے ساتھ  آپہنچیں ۔  یہاں قیام کے لحاظ سے سامان بھی لائی تھیں ۔ خاندان بھر کے بچے بھی چھٹیوں کے باعث یکجا تھے ۔ ان سب کے لیے بہت خوشگوار موقع تھا ! لیکن انہیں بالکل مزہ نہ آیا کیونکہ نہ وہ لوڈو کے گیم کر رہی تھیں ،نہ بچوں کے ساتھ کہانیاں پڑھ رہی تھیں ۔فضہ نے ان کو مہندی لگانے کی کوشش کی تو انہوں نے جوا ب دیا اب میرے لیے مہندی لگا نا منع ہوگیا ہے ۔اوہ ! ہمیں ان کی اداسی سمجھ آئی ! محض بیماری نہیں  بلکہ  باجی نے بیوگی کی   ردا اوڑھ لی ہے  وہ بالکل بجھ کر رہ گئی تھیں! خیر ان کی کچھ تصاویرجب وہ یوسف کے                 ساتھ کھیل رہی تھیں ایک یادگار کے طور پر کیمرے میں محفوظ ہوگئے ۔وہ ایک ہفتہ ہمارے ساتھ رہیں ۔
پھر ان کی بیماری کی اطلاع پہنچی تو ہم سب عیادت کوگئے ۔ انیس بیس چلتی رہی ! رمضان سے دو دن پہلےملاقات کو گئے تو خاصی نڈھال تھیں ۔دل ان کو دیکھ کر بہت  پریشان ہوا ۔آخری عشرے میں جہاں عید کی تیاریوں کا اہتمام ہوتا ہے ۔ عید کے دونوں دنوں  کا مینو طے کرتے ہیں ۔ ان کی آمد کے حوالے سے تھوڑی تشویش تھی ۔ اور ستائیسویں روزے کو دل بلاوجہ رونے کو چاہ رہا تھا  جسے میں رمضان کا اختتام سمجھ رہی تھی ا ور عید کی تیاریوں کی طرف سوچوں کا رخ موڑ دیا ۔  غسل کرتے وقت میں نے سوچا کہ ہم ان سے ملنے عید پر چلے جائیں گے ۔اتنے میں فون کی گھنٹی بجی  یوسف کافون تھا ۔ مہرو خالہ کا انتقال ہوگیا ہے ! اتنی جلدی  اور اتنی آسانی سے سب کچھ ہوگیا کہ یقین نہیں آتا ۔۔! اور آپ مہرو باجی اس دنیا سے چلی گئیں ۔!  اور پھر دنیا بھر میں  ان کے چاہنے والے ایک تار میں منسلک ہوگئے ! اٹلی، بر طانیہ ، امریکہ ، کینیڈا اور آئر لینڈ سب جگہ سوگواری چھا گئی ۔
 عید کا دوسرا دن ! بار بار گیٹ پر نظر کہ آپ آئیں گی اور ٹھنڈا پانی مانگیں گی ۔۔۔  مگر آپ کو تو اپنے پیاروں کے ساتھ جنت میں عید منانی  تھی نا  ! ان شاء اللہ !   مگر مجھے تو اپنی عیدی کا نقصان بہت کھل رہا ہے اب کون دے گا ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر ٭



منگل، 19 جون، 2018

مئی 2017ء سے مئی 2018ء تک

                                
گاڑی میں بیٹھنے سے قبل پلٹ کر شادی ہال کے بلوریں دروازے پر لگے پوسٹر پر نظر ڈالی اور اپنے موبائیل کی ختم ہوتی چارجنگ کو بغور دیکھ کر مایوسی سے گاڑی میں بیٹھ گئی!  فاسفورس کلر سے لکھا گیاRamzan   Welcome کا پوسٹر ڈوبتے سورج کی کرنوں میں چمک رہا تھا جو گاڑی کے آگے بڑھنے کے ساتھ ہی ہماری بصارت سے دور ہوتا گیا اور ایک یاد گار لمحہ بن کر حافظے میں محفوظ ہوگیا۔
یہ  ۷۱ / مئی ۷۱۰۲ء کی شام کا ذکر ہے اور آج ٹھیک ایک سال بعد اپنی ڈائری کے اوراق پر درج اس محفل کی روداد دیکھ کر یہ بلاگ لکھا جارہا ہے جیسا کہ اکثر سوشل میڈیا خصوصا فیس بک سال بھر پہلے کی سرگرمی آپ کے سامنے تازہ کر کے پیش کرتی ہیں
مارچ2017 ء میں ذمہ داری اٹھاتے ہی جیسے سر گر میاں منتظر تھیں جن میں سب سے بڑی تقریب استقبال رمضان کی ہوتی ہے۔اس کے انعقاد کے لیے مشاورت کی۔تقریبا ۷ مربع میٹر پر پھیلے علاقے میں تقریب کہاں رکھی جائے کہ سب بآ سانی پہنچ سکیں اور بات رقبے سے بھی زیادہ بندوں کی گنتی پر منحصر ہے کہ ایسی جگہ ہو جس میں تمام شرکاء سہولت سے بیٹھ سکیں۔کسی شادی ہال یا بینکوئٹ میں ہونا چاہیے! یہ تھا مشورہ جوبڑی شدت سے آیا۔
ہال کی بکنگ سے لے کر تقریب کے اختتام تک کے جملہ مراحل کا بخیر و خوبی تکمیل پاجانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ایسا  پروگرام جس میں ریہرسل کی گنجائش نہ ہو  ایک تلوار کی طرح منتظمین خصوصا ناظمہ کے سر پر لٹکتا رہتاہے۔کچھ ایسی ہی صورت حال سے ہم گزر رہے تھے۔ اپنے  بجٹ پر قابو پاتے ہوئے بہر حال بینکوئٹ نہ سہی ایک شادی ہال طے ہوگیا جو ایک معروف شاہراہ پر ہونے کی وجہ سے اس خطرے سے باہر تھا کہ لوگ کیسے پہنچیں گے؟ مگر بہر حال مذاق ضرور بنا کہ شادی ہالز کی لائن میں جو سب سے بد حال ہے وہیں انتظام کیا گیا ہے۔تفنن بر طرف کچھ ایسا برا بھی نہیں تھا مگر ظاہری چمک سے ہم اس درجہ متاثر ہیں کہ بنتی نہیں بادہ و ساغر کہے بغیر...!
جگہ کے انتخاب سے بھی بڑا مرحلہ پروگرام کا مواد اور تر تیب ہے جس پر غور و فکر اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی تقریب کا مینو! فارمٹ تو تقریبا طے ہی ہے ہاں مناسب افراد کی دستیابی ایک مرحلہ ہے۔  اناؤ نسمنٹ،تلاوت، تذکیر،، قرارداد اور دعاکے لیے افراد کا چناؤ  اس طرح ہوکہ تنوع کے ساتھ جدت بھی نظر آئے۔حاضرین کی توجہ ہی نہ کھینچے بلکہ ان کو عمل پر بھی آمادہ کرے! اس میں عمومی فارمولاتو یہ ہے آزمودہ  اور مستند افراد سے ہی مختلف حصے کروائے جائیں تاکہ ناکامی کا رسک کم سے کم رہے! جبکہ نسبتا ذرا زیادہ چیلنج سے بھرپور یہ سوچ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نئے  افراد کی دلچسپی پروگرام میں شامل کرنے کے لیے انہیں ذمہ داری دی جائے! چونکہ ہمارا نیا معاملہ تھا لہذا مزاج کے بر خلاف ملے جلے رحجان پر توجہ رہی۔جدت پسندانہ اقدامات مزید کسی اور پروگرام کے لیے رکھ چھوڑے۔
پھر پروگرام پیش کرنے میں صرف اسٹیج تک معاملہ نہیں رہتا بلکہ اسے کامیاب بنانے کے لیے دیگر شعبوں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔استقبالیہ سے لے کر تزئین و آرائش تک! اطلاعات سے لے کر نظم و ضبط،پانی سے لے کر تواضع تک، گوشہ اطفال سے لے کر بک اسٹال تک! ٹرانسپورٹ سے لے کر ٹیکنیکل مدد تک! اور پھر کچھ افراد نگرانی اور مشاورت کے لیے مختص کیے۔ اس کی توجیح یہ تھی کہ ہمارا پروگرام چونکہ عام دعوتی ہے تو کچھ افراد اور تنظیمیں اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہیں جیسا کہ ایک آدھ دفعہ مشاہدہ کیا گیا تھا۔ بد نظمی اور ہنگامی صورت حال سے بچنے کیے حفظ ما تقدم کے طور پر جن بہنوں کو یہ ذمہ داری دی گئی انہیں اس کی بریفنگ دی گئی!
تقریب کی صبح یعنی گیارہ بجے کے قریب رضا کار بہن سمیرا کے ساتھ جاکر ہال کا معائنہ کیا اور انتظامات میں جزوی تبدیلی کی۔بک اسٹال کی کتابیں رکھوائیں۔ڈیپ فریزر کھلوا کر اس میں جوس کے پیکٹ رکھوائے۔گوشہ اطفال کے لیے تحائف کی خریداری کی۔ انتظامات پر اطمینان  کے ساتھ ساتھ دل میں ایک خوف بھی تھا کہ گر میوں میں تو رات کو کھلے آسمان تلے بیٹھنا اچھا لگتا ہے مگر مئی کے مہینے میں دھوپ کی شدت اور ۴ سے ۶ بجے سہ پہر اوپرلگی چھت ناکافی ہوگی! اس لحاظ سے کرسیوں کی ترتیب میں رد و بدل کیا،پنکھوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔اس سارے معاملے میں سمیرا کی ذہانت اور مہارت کا قائل ہونا پڑتا ہے ماشاء اللہ!
پروگرام کا آغا رز بڑی سہولت سے ہوا۔ تمام ذمہ داران اپنے طور پر وقت کی پابندی کے ساتھ اپنی ذمہ داری نباہنے کو موجود تھے۔ عنبریں اور ثوبیہ استقبالیہ پر موجود تھیں تو آمد و رفت اور اطلاعات کا فر یضہ صالحہ،سروری قدیر کے ساتھ انجام دے رہی تھیں! نظم و ضبط کی ذمہ داری طیبہ شاکر اور صبا کوثر کے ذمہ تھی۔تزئین و آرائش کی چنداں ضرورت نہ تھی مگر کچھ بینر وغیرہ لگانے تھے جو سمیرا کے ساتھ مل کر ہم نے اسٹاف کی مدد سے خود ہی لگوا دیے تھے۔ تواضع اور پانی کی ذمہ داری فر حانہ اور نزہت کی تھی اور اپنی ٹیم انہوں نے خود ہی بنالی تھی جو نہایت پھرتی اور خوش اسلوبی سے سب کچھ سنبھال رہی تھیں۔ کتابچہ کی ترسیل شہلا لقمان کے ذمہ تھی وہ بھی کچھ رضا کاروں  کے ساتھ مستعد تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ سینکڑوں شرکا ء سے کے الیکٹرک کے خلاف پیٹیشن کے لیے دستخط بھی کروالیے گئے۔یعنی ایک بہت بڑا کام ٹیم ورک کی وجہ سے منٹوں میں کروا لیا گیا۔ گوشہ اطفال میں بچے بہت تن دہی سے مصروف اور مطمئن تھے تو دوسری طرف آمنہ خاتون اورشکیلہ، صالحہ اور سدرہ کے ساتھ بک اسٹال سنبھالے بیٹھی تھیں۔ ملبوسات کا اسٹال بھی موجود تھا جہاں بعد از پروگرام خوبشاپنگ ہوئی۔خوشی کی بات یہ ہوئی کہ جس دھوپ سے ہم ڈر رہے تھے وہ بادلوں میں چھپ گئی اور خوشگوار موسم سے پروگرام کا لطف دوبالا ہوگیا۔الحمدللہ!
 اسٹیج پر نظامت کے فرائض طیبہ اکرام اداکررہی تھیں جبکہ مقررہ تھیں افشاں ناصر جو ماہ مبارک کے حوالے سے جذبوں کو بیدار کر رہی تھیں۔ پروگرام کا آغاز منیزہ احسان کی تلاوت سے ہوا۔نعت ریطہ طارق نے سنائی اور پروگرام کے اختتام پر قرارداد بھی منظور کروائی۔دعا سعیدہ اشرف نے کروائی۔بحیثیت میز بان راقم نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔کھجور اور جوس کے پیکٹ سے ان کی تواضع کی گئی۔ایک کامیاب پروگرام کی خوشی اطمینان بن کر منتظمین کے چہروں سے جھلک رہی تھی! کشادہ جگہ کی وجہ سے بچے بھی لطف اندوز ہورہے تھے۔



یہ تھی اس پروگرام کی تفصیل جس سے مضمون کا آ ٓغاز ہوا تھا ۔اس میں جو منظر کشی کی گئی تھی اس کو ریکارڈ نہ کرنے کا افسوس کچھ ایسا وزنی نہیں  تھا کیونکہ اسٹیج، تیاری، گوشہ اطفال اور پوسٹرز کی ڈھیروں تصاویر تھیں لیکن آج کے دور میں موبائل کیمرے کی وجہ سے تصاویر کے ڈھیر  الفاظ کے بغیر کوئی اہمیت نہیں رکھتے!
ٓآئیے! اب عنوان کے دوسرے حصے یعنی مئی 2018 ء کی طرف بڑھتے ہیں! جی ہاں! سورج کے گرد زمین کی گردش مکمل ہونے سے پہلے ہی رمضان 1439ھ کی آمد یقینی تھی لہذا تیاریاں بھی کچھ پہلے ہی شروع ہوگئیں۔بقول منیر نیازی ایک اور دریا کا سامنا تھا.......!
اس دفعہ کچھ مختلف چیلنجز تھے جن کی روشنی میں پروگرام کے انعقاد کے فیصلے کرنے تھے۔سب سے پہلے تو مشاورت یہ کی کہ پروگرام دو مختلف جگہوں پر رکھا جائے تاکہ دونوں جگہ پر قریبی مقامات سے شرکت یقینی ہوسکے! یعنی نزدیکی بلاکس کی ایک جگہ تقریب ہو! سب نے اس سے اتفاق کیا بہر حال تاریخ اور جگہ کے تعین میں کچھ گو مگو کی کیفیت رہی مگر بالآخر طے ہوگیا۔ پہلاپروگرام بہن کنول کے گھرجبکہ دوسرا  عثمان اسکول کیمپسمیں رکھا گیا۔دو مختلف دن، دو جگہوں کے لیے انتظامات کرنا اور کروانا آسان کام نہیں تھا مگر مشکل کام میں مزہ بھی بہت ہے! 9 اور10 / مئی بالترتیب 22  اور 23شعبان کو پروگرام طے ہوئے۔ مالی اور انتظامی دباؤ کم ہونے کے باعث پچھلے سال کی بہ نسبت پر سکون کیفیت رہی حتی کہ تقریب کے انعقاد کی گھڑی آپہنچی۔
      پہلا پروگرام جس گھر میں رکھا گیا اس کا لاؤنج ہی وسیع نہیں بلکہ مکینوں کے دل بھی کشادہ ہیں۔چنانچہ جب مقررہ وقت پر ہم پہنچے تو گھروالے خوشدلی سے ستقبال کو بڑ ھے۔ ڈائننگ ٹیبل پر بک اسٹال سج گیا جس کی نگرانی طیبہ اکرام کے پاس تھی جبکہ سنٹر ٹیبل پر ستقبالیہ بنا دیا گیا!  واہ کیا اپنائیت بھرا خوشگوار ماحول ہے!ملحقہ ڈرائنگ روم میں گوشہ اطفال بن گیا جہاں نجم السحر بچوں کے ساتھ تن دہی  اور بھرپور انداز سے مصروف تھیں۔ اناؤنسمنٹ کی ذمہ داری بالکل نئے چہرے شفق کو دی گئی تھی جس نے بخوبی حق ادا کرتے ہوئے تازگی بھرا احساس دیا۔ تذکیری گفتگو افشاں نوید کی تھی۔جن کو سننے کے سب مشتاق تھے۔ عصر کی اذان نے محویت کو توڑاتو نماز کے لیے شرکاء کی بے چینی کے مدنظر پروگرام مختصر کرنا پڑا۔ عائشہ نے ہاتھ میں لہراتی قرارداد دکھائی تو ہم نے اسے اپنے اختتامی کلمات میں سمیٹ لیا کیونکہ وقت کی گنجائش بالکل نہ تھی۔میزبان بہن کنول نے دل سوزدعا کروائی۔ گرم موسم میں خوش رنگ جام شیریں نے سب کا دل لبھایا۔کھجور کا پیکٹ اور کتابچے ہاتھ میں لیے، کتابوں کی خریداری کرتے شرکا ء اپنے اپنے گھروں کو لوٹے۔ اس پروگرام میں ناظمہ زون  افشاں ناصر بھی اپنی ٹیم کے ساتھ شریک ہوئیں۔
اگلے دن کا استقبال رمضان چونکہ اسکول میں تھا لہذاتھوڑا سا  فارمل انداز تھا۔ چیلنج بڑا یہ تھا کہ فعال افراد کار کی اکثریت کل ہی آ چکی تھی اور جو آج بھی آئے وہ ذرا تھکے ہوئے تھے مگر الحمد للہ کارکر دگی میں کوئی فرق محسوس نہ ہوا۔ایک خوش آئند بات یہ تھی کہ شرکاء ایک ہی کال پر موجود تھے یعنی جس کو بلا یا اس محفل میں حاضر ہوگیا اور کیوں نہ ہوتا فرحانہ بہن کی دعوت  ہوتی ہی اتنی جاندار ہے! ویسے آج کا پورا پروگرام ان ہی کا مرہون منت ہے۔ سجاوٹ سے لے کرانتظامی امور تک سب جگہ یہ ہی حاوی رہیں۔تواضع کے لیے گھر میں ہی بنا کیری کا شر بت خواتین کی دلچسپی کا موضوع بن گیا۔ اکثر یت پینے کے بعد اس کی تر کیب پوچھتی پائی گئی۔کھجوراور کتابچوں کی ترسیل آج بھی طیبہ شاکر کے پاس تھی جو انہوں نے بہت خوش اسلوبی سے انجام دی۔ آج کی مقررہ تھیں حنا رضوان! اسکول ٹیچر ہونے کے ناطے ان کی گفتگو وقت کی پابندرہی! مواد مختصر مگر جامع! بک اسٹال کے لیے نگرانی طیبہ اکرام کی ہی تھی جو انہوں نے نجم السحر کی مدد سے بخوبی نبھائی۔آج کتب کے ساتھ ملبوسات کی خریداری بھی خوب رہی۔ دعا کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔
  آج بچوں کی تعدادکم تھی اور ویسے بھی اسکول کے لان میں جھولے کی موجودگی میں بچوں کو اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی! یہ بچپن کی سب سے دلچسپ سر گرمی ہے!اسکول اسٹاف نے بھرپور معاونت دی۔ صالحہ اور سعیدہ دونوں دن ہمہ تن آمد و رفت کی نگرانی پر مامور تھیں اور بلاشبہ بہت محنت اور توجہ سے اپنی ذمہ داری نبھائی۔
معزز قارئین!
مئی 2017ءسے شروع کی گئی  روداد بالآخر 2018ءمیں اختتام پذیر ہوئی۔ ایک ہی کام کو مختلف انداز سے کرکے دلچسپ مشاہدات سامنے آئے۔آپ چاہیں تو اس میں سے اخذ کر سکتے ہیں!آپ اس روداد کی اشاعت کا مقصدنہیں سمجھ پارہے ہوں گے!
 ہر سر گر می در اصل ایک مرتب تاریخ ہوتی ہے جسے ہم اگلی نسل کی رہنمائی کے لیے پیش کرتے ہیں! اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں تقریبات کیسے منعقد ہوتی تھیں؟  رہا سوال کہ آنے والوں کواس سے کیا سروکار؟  نہ ہو کوئی دلچسپی مگر ہمیں تو اپنے اطمینان کے لیے اللہ کی بارگاہ میں اپنی چھوٹی چھوٹی کاوشوں کا ریکارڈ ررکھنا ہے نا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر

جمعہ، 15 جون، 2018

ہم کہ بنے بلاگر

   
                             ہم کہ بنے بلاگر...

  آج گستاخ بلاگرز کے حوالے سے سب محتاط ہیں کہ یہ کون سی مخلوق ہے؟  ایسے میں اپنے بلاگر ہونے کااعتراف کرنا گویا اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے مترادف ہے مگر جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ ہر شعبے میں اچھے اور برے دونوں طرح کے افراد ہوتے ہیں اور ہر چیز کا غلط اور صحیح دونوں استعمال ممکن ہے تو بلاگرز بھی اس سے مستثنٰی نہیں! اس وضاحت کے بعد ہم اپنی داستان شروع کرتے ہیں..
   غالباً 2003ء کی بات ہے جب بلاگ کالفظ پہلی دفعہ سنا تھا اور جیسا کہ انسانی فطرت ہے کسی بھی نئے لفظ کو سن کر پوچھتا ہے کہ کیا ہے؟ بقیہ تفصیل کہاں؟ کب؟ کیوں؟ کیسے؟ کے ذریعے جانتا ہے!  یہ سیکھنے کا  قدرتی مرحلہ ہے جس سے گزر کر ہم سب سیکھتے ہیں! تو ہم نے بھی معلومات جمع کرنی شروع کیں.....بلاگ کیا ہے؟  بلاگ ایک آن لائن ڈائری ہے۔جس میں ذاتی احساسات اور خیالات تحریر کیے جاسکتے ہیں. کوئی سنسر نہیں کرسکتا ماسوائے خود! لیکن کرنا ضروری ہے ورنہ اکثر بلاگرز کے خلاف موت کا حکم آ جاتا ہے۔ ڈریے نہیں! زبان ہو یا قلم قابو میں رکھنے کا حکم بھی ہے اور عافیت بھی اسی میں ہے!مختصر یہ کہ جو بھی کچھ کہہ سکتا ہے یا لکھ سکتا ہے  بلاگر بن سکتا ہے!
اس خیال نے ہمیں بلاگر بننے کے لیے بے چین کردیا کہ ہم تو بچپن سے ہی کچھ نہ کچھ لکھنے کے جراثیم رکھتے تھے... لیکن انٹر نیٹ پر اشاعت سے محروم تھے کیونکہ درمیان میں ٹیکنالوجی حائل تھی جس میں ہم کورے تھے۔ اپنے سے اگلی نسل سے جو اس میں ماسٹر تھی رابطہ کیا تو جواب ملا بہت مشکل کام ہے!! دراصل یہ بھانجے بھتیجے قسم کی مخلوق جو پڑھنے میں چور اور لکھنے میں کاہل ہیں۔ درسی کتب کا مطالعہ بھی مجبوری میں کرتے ہیں اور لکھنے میں اختصار ہی برتتے ہیں۔ لہذا  لکھنے اور وہ بھی اردومیں لکھنے کا سن کر کانوں پر ہاتھ رکھ لیا۔بلاگ کے لیے ہماری اور ہم سے زیادہ بہن کی تڑپ کی وجہ کچھ یوں تھی کہ ان کی ا یک دوست اپنے بلاگ کے ذریعے اسلام اور پاکستان کے بارے میں زہر اگل رہی تھیں اور ہم اس کا جواب دینے سے قاصر تھے۔بے بسی کے گھونٹ پی کر رہ جاتے! 
اسی جستجو کے دوران کا ایک منظر کچھ یوں ہے کہ ہم دونوں بہنیں ایک قریبی نیٹ کیفے میں اس طرح داخل ہوئے کہ دونوں کے کندھے سے ایک ایک بچی لٹکی ہوئی تھی۔ہمیں دیکھ کر کیفے کا مالک اس افراتفری میں اپنے میزونائین فلور سے باہر نکلا کہ سیڑھیوں کے بجائے براہ راست زمین پر! گھبراہٹ میں اس کے منہ سے نکلا ” نہیں باجی یہاں بلاگنگ نہیں ہوتی...“  مایوس ہوکر ہم بھی باہر کو نکلے  اس لڑ کے کی ہونق شکل آج بھی نظروں میں گھومے تو بے اختیار مسکراہٹ آجاتی ہے ۔بعد میں معلوم ہوا کہ محلے کا ہی لڑکا تھااور ہمیں پہچان گیا تھا...اس واقعے کو بتانے کا مقصد بلاگنگ کے لیے اپنی بھاگ دوڑ کی ایک جھلک دکھلانا ہے۔بہرحال یہ جدو جہد رنگ لائی جب ہماری جان پہچان کے کچھ برادران نے ہم سے بلاگ لکھنے کی در خواست کی۔یہ وہ لوگ تھے جو بلاگ تو بنا بیٹھے تھے مگر اس کا پیٹ بھرنے کے لیے نہ وقت تھا نہ صلاحیت! یوں باہمی ہم آہنگی سے ہماری بلاگنگ شروع ہوگئی۔
ہم اس وقت تک اردو کمپوزنگ سے بھی نا بلد تھے  لہذا وہ ہمارے ساتھ اتنا تعاون کرتے کہ بس آپ اسکین کر کے بھیج دیں باقی ہم خود کرلیں گے بلکہ اس حد تک کہ مختلف اخبارات اور میگزین میں شائع ہونے والے ہمارے مضامین کو وہیں سے اٹھا کر بلاگ کو حصہ بنادیتے۔ جی ہاں لکھنے والوں کے لیے بلاگنگ بہترین ذریعہ ہے۔ اخبارات اور میگزین کے صفحات محدود اوراپنی پالیسی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ بلاگنگ امکانات کی ایک نئی  اور وسیع دنیا ہے۔
جس دوست کو جواب دینے کے لیے ہم نے بلاگنگ شروع کی تھی وہ ہم سے پہلے ہم پر حملہ آور ہوگئیں ! جی ہاں! انٹر نیٹ کی دنیا کچھ ایسی ہی ہے۔ہم کچھ ہی کا جواب دے پاتے مگر وہاں موجود ہمارے دیگر بھائی اس بے چاری کی جان ضیق کر دیتے..کچھ  عرصہ گزرا اور وہ دوست ایک ٹریفک حادثے میں ختم ہوگئی...آ ہ! ابھی توبہت سے جوابات دینے باقی تھے.! بہت سی بحثیں ادھوری تھیں..وہ جس کی نیکی اور نمازی ہونے کے ہم گواہ تھے نہ جانے کیوں اتنی تلخ ہو چکی تھی اور شاید اسی لیے دنیا سے روٹھ گئی...
.سوال پیدا ہوتا ہے کہ آن لائن مضمون اور بلاگ میں کیا فرق ہے؟  ایک ہی چیز ہے یا علیحدہ چیزیں ہیں؟
معمولی سے فرق کے ساتھ دونوں ایک ہی ہیں کوئی خاص اصول نہیں ہے جو ان دونوں کو جدا سمجھے سوائے اس کے کہ ٓن لائن مضمون میں زیادہ گہرائی اور معلومات ہوتی ہے اور یہ ویب سائٹ لائبریری میں محفوظ ہوتے ہیں اور اس کے قارئین بھی مخصوص ہوتے ہیں جبکہ بلاگ میں بہت زیادہ معلومات اور گہرائی نہیں ہوتی۔یہ بلاگزکے عنوان سے محفوظ کیے جاتے ہیں۔ اس کے پڑھنے والے عموماً مخصوص نہیں ہوتے بلکہ یہ عنوان دیکھ کر پڑھتے ہیں اور آگے شئیر کرتے ہیں۔ ہاں! البتہ یہ جذبات کو مہمیز کرنے کا کام بخوبی کرتے ہیں۔ مثلا ایک دفعہ سقوط ڈھاکہ پر بلاگ لکھا جو ہماری یاد داشت پر مشتمل تھا۔ اس کو پڑھ کر کئی نوجوان خواتین نے کہا کہ آپ کا بلاگ پڑھ کرہمیں اس بارے میں جاننے کی جستجو ہوئی تواس موضوع پر دیگر مضامین پڑھے پھرہمیں اس معاملے سے آگاہی ملی۔ گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ بلاگ مطالعے کی پیاس بڑھاتے ہیں! جس طرح کھانے میں چٹنی،اچار اور سلاد  وغیرہ بھوک کو چمکا تے ہیں۔بلاگ سنجیدہ مطالعے کی طرف راغب کر واسکتے ہیں۔
 2007  ء میں فیس بک نئی نئی وارد ہوئی تو مائکرو بلاگنگ کا آغاز ہو ا۔یعنی کم الفاظ میں اپنی بات کہنا! فیس بک کے بارے میں ہمیں بھی تحفظات تھے مگر چاہنے اور نہ چاہنے کے باوجود اس کا حصہ بن گئے۔اس وقت فیس بک پر بڑی اور لمبی تحریر لکھنے کی سہولت دستیاب نہ تھی۔ چنانچہ ہم اس پر نوٹس کے عنوان سے اپنی تحاریر لگا دیا کرتے تھے۔اور مختصر الفاظ میں اپنا مافی الضمیر ادا کر دیتے۔اور دلچسپ بات یہ کہ جب ہمیں کم الفاظ میں دل کی بھڑاس نکالنے کی پریکٹس ہوگئی تو فیس بک  نے محدود الفاظ کے بجائے لامحدود الفاظ لکھنا متعارف کروادیا۔
(ویسے ہمارا مشاہدہ ہے کہ فیس بک پر آنے کے بعد بہت سوں کوچپ لگ جاتی ہے! جی ہاں! کچھ تو یہاں کی سر گر میاں اورپھر جب کچھ کہے بغیر کام چل جاتا ہے توالفاظ خرچ کرنے اور محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے! یعنی فیس بک کی پالیسی نے لوگوں کو کم گوئی کی طرف مائل کر دیا مگر کیا یہ مغالطہ درست ہے؟) ۔۔۔اور پھر ایک دن فیس بک نے محمدﷺ کے خاکے بنانے کا انعامی مقابلہ کا اعلان کر دیا۔ہمیں اس سے نکلنے کا ایک جوازمل گیا اور ہم احتجا جا اس سے الگ ہوگئے۔ یہ مئی 2010ء کی بات ہے فیس بک بائیکاٹ کے موضوع پر ہمیں اظہار خیال کی دعوت ملی چنانچہ ہم نے دو تین پیرا گراف میں اپنا موقف بیان کیا۔لیجیے یہ ہمارا بلاگ تیار ہوگیا!
عزیز قارئین! ہماری اب تک کی تحریر سے آپ نے جان لیا کہ بلاگ کیا ہے؟ اور کیسے بن جاتا ہے؟ آئیے!اس معلومات کو عملی شکل میں ڈھالتے ہیں!
ہمارا ذہن ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے۔ اس وقت جو سوچ رہے ہیں اسے کاغذ پر قلم سے بکھیر دیجیے! یقینا بے ربط اور بے تکے سے خیالات ہوسکتے ہیں، کچھ ناگفتنی بھی ممکن ہے۔ اب ان کو ایک ربط اور توازن دے دیں! اب آپ معصومیت سے یہ نہ کہہ دیں کہ مجھے تو لکھنا ہی نہیں آتا!  کئی سال پہلے ایک محتر مہ نے ہمیں فون کیا اور بیس منٹ کی گفتگو میں وہ ہمیں مختلف مسائل کے بارے میں لکھنے کا کہتی رہیں۔ ان کی بات مکمل ہوئی تو ہم نے کہا کہ آپ خود کیوں نہیں لکھتیں؟فرمانے لگیں؛ میں بھلا کیسے لکھ سکتی ہوں؟ ہم نے ان کی تعلیم دریافت کی۔ فخر سے بولیں بی اے کیا ہے اگر شادی نہ ہوتی تو ایم اے بھی مکمل کر لیتی...تو ہم نے عرض کیا: آپ نے اردو اور انگلش لازمی میں ضرور مضمون اور خط لکھے ہوں گے... ہم نے حوصلہ دیا کہ جس کے پاس احساسات ہوں اسے ضرور منتقل کرنا چا ہیے۔ اب آپ ایسا کریں اپنے خیالات کو آواز کی شکل میں ریکارڈ کرلیں پھر اسے سن کر تحریر کریں...پھر موضوع کے لحاظ سے اسے حسن تر تیب دے دیں...پھر کبھی ان کا فون تو نہ آیا مگر اکثر ان کی تحریر نظر سے گزرتی ہے۔معلوم نہیں ہمارے فارمولے سے فائدہ اٹھا یا یا نہیں؟ بہر حال یہ نسخہ آپ بھی آزما سکتے ہیں!
لکھ لیا! اب مسئلہ اشاعت کا ہے! مگر پہلے یہ دیکھیں کہ زبان کون سی ہے؟ ظاہر ہے اردو یا نگلش! مگر انٹر نیٹ کی زبان یونی کوڈ ہے۔بہت تھوڑی سی محنت کرکے آپ سیکھ سکتی ہیں۔جی ہاں! ہم نے صرف دودن میں اردو کمپوزنگ سیکھ لی تھی۔ جوش میں آکر کئی بہنوں کو سکھا نے کی کوشش کی مگر انہوں نے  حیلے بہانوں سے کوڑھ مغزی کو ثبوت دیا۔بات سمجھیں نا! کوئی بھی کام سیکھنے کا  سیدھا سادا مطلب ہے کہ کام کرناپڑے گا! کام چورافراد کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ہرکام کا کوئی آسان اور شارٹ کٹ طریقہ دریافت کر لیتے ہیں مگر اس معاملے میں وہ رسک نہیں لیتے جب اپنی جگہ سے ہلے بغیر ریمورٹ سے تفریح مل سکتی ہے تو کیوں اپنے جسم کو پسینہ پسینہ کیا جائے!
کیونکہ بلاگ تحریر اور ٹیکنالوجی کا مجموعہ ہے۔ اس لیے اس میں دو نوں طرح کی مہارت درکار ہے۔انٹر نیٹ کے اس دور میں معلومات ہماری انگلیوں کی گرفت میں ہوتی ہیں لہذا اس سے بھی بیش بہا فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کو لکھنے پر عبور نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں! آپ تصویری بلاگ بنا سکتے ہیں مثلاً کسی خاص موضوع، مقام، کی تصویریں اپ لوڈ کردیں ہاں مگر اس پر ایک جملہ لکھنا نہ بھولیں! وہی کیا؟ کون؟ کہاں وغیرہ وغیرہ۔اس کے علاوہ ویڈیو بھی بنا کر بلاگر بن سکتے ہیں۔ یا پھر مختلف تبصرے ایک جگہ جمع کر کے اسے بلاگ کی شکل دے دیں۔بھئی کھانے، کپڑے، سجاوٹ، ہر چیز میں جدت ڈھونڈتے ہیں۔ نت نئے اسٹائل دریافت کرتے ہیں تو یہاں بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔ہم نے اپنے تازہ ترین بلاگ میں ایک ناول پر تبصرہ لکھا اور اس میں کئی جگہ اپنے الفاظ کے بجائے ناول کے اسکرین شاٹ لے کر لگادیے۔یہ ایک مزیدار اور دلچسپ تجربہ تھا۔
 یعنی بلاگ کی ڈھیروں اقسام اورطریقے ہیں: ایک غیر ملکی جائزے کے مطابق فیشن پر بلاگ سب سے زیادہ تلاش کیے گئے۔ اس کے علاوہ کھانے، جسمانی خوبصورتی، سفر، سیاست، صحت وتندرستی، گھریلو ٹوٹکے، موسیقی، شادی بیاہ، گھر کی سجاوٹ بھی سر فہرست ہیں۔ کچھ یہ ہی
 رحجان ہمارے ہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ہر کوئی اپنی دلچسپی، مشاغل اور پیشے کے لحاظ سے بلاگ بنا سکتا ہے۔
ایک اور سوال ذہن میں آتا ہے کہ ایک بلاگ سے دوسرے کا دورانیہ کتنا ہو؟ اس کا بھی کوئی خاص اصول نہیں ہے۔ضرورت اور دستیابی کے لحاظ سے تحریر کیے جاسکتے ہیں۔بس یہ دھیان رہے کہ وقفہ اتنا لمبا نہ ہو کہ آپ کے قاری / ناظرین دوسرے بلاگز کا رخ کر لیں۔ہنگامی نوعیت کے بلاگز بھی توجہ کھینچتے ہیں۔
آپ کی تحریر کتنے افراد تک پہنچے گی؟ چونکہ انٹر نیٹ کی دنیا ورچوئل ہے اس کے بارے میں کچھ مبالغہ آمیز تاثر دیا جاتا ہے کہ آپ کی تحریر اتنی پسند کی گئی (یہاں ٹھینگا پسندیدگی کانشان سمجھا جا تا ہے)۔جبکہ اس کو ناپنے والے پیمانے بھی اتنے حقیقی نہیں ہوتے۔ہماری ایک دوست نے سیرت محمد پر بلاگ لکھا جس کی پسندیدگی 27ہزار تک پہنچی۔ویسے تو اس موضوع پر کروڑوں پسندیدگی بھی کم ہے مگر پھر بھی یہ ایک سنگ میل تھا جو اس نے عبور کیا،جس کی مبارکباد پر دوست کا کہنا تھا کہ میں نے جس سے پوچھا اس نے پڑھے بغیر ہی لائیک کیا ہے۔یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ایک اخبار یا میگزین کی سرکولیشن اس کے قارئین کی تعدادسمجھی جاتی ہے۔جبکہ اصلی قارئین اس سے کہیں زیادہ یا پھر کم ہوسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح پسندیدگی کی تعداد بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔پھر بھی ایک امکان یہ ہے کہ آپ کی تحریر اشتراک ہوکر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے ہاں اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک اچھے بلاگ کی شرائط پر پورا اتر تا ہو...یعنی مواد اور اسلوب۔وہی جو اچھی تحریر کے لیے ضروری ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر