اگلے
دن موسم ابر آلود بلکہ برس ہی رہا تھا مزید کی پیشن گوئی تھی اور سیر کو نکلتے ڈر
بھی لگ رہا تھا مگر اللہ کا نام لے کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ہمارا پروگرام مری اور
ایوبیہ کی طرف تھا۔بل کھاتے راستوں میں موسم بھی خوبصورت سے خوب صورت ہو تا جا رہا
تھا۔ بادلوں کو اپنے درمیاں دیکھ کر عجیب سا احساس ہورہا تھا۔ دل خود بخود خدا کی
بزرگی کی طرف مائل تھا جس کے ہاتھ میں کائنات کی کنجیاں ہیں۔ آہستہ آہستہ موسم میں
شدت آرہی تھی۔اور برف باری تیزی سے ہمیں دھندلا رہی تھی۔
ایک ہوٹل کے باہر گاڑی روکی۔چھتری کی اوٹ میں ہم سب سنبھل سنبھل کر اترے کیونکہ مستقل برف باری ہورہی تھی۔ نرم نرم برف پر ڈرتے ڈرتے پاؤں دھرتے کیونکہ وہ بہت تیزی سے جم کر سخت بھی ہوجاتی جس میں پھسلنے کا اندیشہ تھا۔ہم اس وقت آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر تھے اور درجہ حرارت منفی آٹھ! یہ ساری تفصیلات ہمیں اپنے سمارٹ فون سے معلوم ہورہی تھی۔ہوٹل والے نے ہمارے لیے چائے کا انتظام کیا اور ساتھ ہی ہاتھ تاپنے کے لیے لکڑیاں بھی سلگائیں۔ دھوئیں سے کالے پڑتے اس ہوٹل کے باہر دودھیا برف میں گھری لپٹی ہماری گاڑی ایک عجیب امتزاج نظر آ یا۔ خاصی ڈرامائی سی صورت حال تھی۔ سردی سے ہم سب کے ہونٹ نیلے سے ہورہے تھے۔ دل میں اندیشے سے سر اٹھا رہے تھے کہ ہم یہاں ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہیں خدانخواستہ.. .۱ وہ بے چارے کراچی والوں کی تعریف میں رطب اللسان تھا اور ہم یہاں سے جلدی نکلنے کی دعائیں مانگ رہے تھے خوف اور اندیشے! ایسا نہ ہوجائے ! کہیں یوں نہ ہو وغیرہ وغیرہ او ر اس وقت ایسے ایسے واقعات یاد آنے لگے جو کبھی کہیں پڑ ھے یا سنے تھے۔برف باری کی خبر ہمیں کراچی سے بھی موصول ہوئی اور برف باری کی اطلاع ملتےہی قرب و جوار کے منچلے پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ اس
!مقام کے کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہوتا ہے آمدنی کا
ایک ہوٹل کے باہر گاڑی روکی۔چھتری کی اوٹ میں ہم سب سنبھل سنبھل کر اترے کیونکہ مستقل برف باری ہورہی تھی۔ نرم نرم برف پر ڈرتے ڈرتے پاؤں دھرتے کیونکہ وہ بہت تیزی سے جم کر سخت بھی ہوجاتی جس میں پھسلنے کا اندیشہ تھا۔ہم اس وقت آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر تھے اور درجہ حرارت منفی آٹھ! یہ ساری تفصیلات ہمیں اپنے سمارٹ فون سے معلوم ہورہی تھی۔ہوٹل والے نے ہمارے لیے چائے کا انتظام کیا اور ساتھ ہی ہاتھ تاپنے کے لیے لکڑیاں بھی سلگائیں۔ دھوئیں سے کالے پڑتے اس ہوٹل کے باہر دودھیا برف میں گھری لپٹی ہماری گاڑی ایک عجیب امتزاج نظر آ یا۔ خاصی ڈرامائی سی صورت حال تھی۔ سردی سے ہم سب کے ہونٹ نیلے سے ہورہے تھے۔ دل میں اندیشے سے سر اٹھا رہے تھے کہ ہم یہاں ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہیں خدانخواستہ.. .۱ وہ بے چارے کراچی والوں کی تعریف میں رطب اللسان تھا اور ہم یہاں سے جلدی نکلنے کی دعائیں مانگ رہے تھے خوف اور اندیشے! ایسا نہ ہوجائے ! کہیں یوں نہ ہو وغیرہ وغیرہ او ر اس وقت ایسے ایسے واقعات یاد آنے لگے جو کبھی کہیں پڑ ھے یا سنے تھے۔برف باری کی خبر ہمیں کراچی سے بھی موصول ہوئی اور برف باری کی اطلاع ملتےہی قرب و جوار کے منچلے پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ اس
!مقام کے کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہوتا ہے آمدنی کا
اب ہماری واپسی تھی۔ ان ہی موڑوں سے گزرتے ہوئے
عجیب سا احساس ہورہا تھا کہ اب سب شجر و
حجر سفید لبادے اوڑھ چکے تھے۔ آبشار کی صورت گر تا پانی ایک خوبصور ت آواز پید اکر
رہا تھا۔ہم میں سے اکثریت چکر سے نڈھا ل ہوچلی تھی۔ بیچ میں کئی دفعہ گاڑی رکی
تاکہ ہمارے ساتھ ساتھ اس کو بھی آرام ملے! جب ہم اسلام آباد میں داخل ہوئے تو مغرب
ہونے والی تھی اور بارش ہو رہی تھی۔ پنڈی پہنچے تو اچھی خا
صی
رات ہوچکی تھی ۔ ہم سب تھکن سے چور ہوچکے تھے لہذا جلد ہی گرم گرم بستر پر دراز ہوگئے۔
ٹیکسلا میوزیم اور سر کپ کے کھنڈرات :
اس کے بعد سرکپ کے تین ہزار پرانے زمین سے دریافت
شدہ شہر گئے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام شہر خموشاں کو دیکھ کر عجیب سا احساس
ہورہا تھا۔ جن گھروں میں ہم آرام سے چہل قدمی کررہے تھے وہاں کے رہائشی بڑے کروفر
سے رہا کرتے تھے آج ہمارے قدموں تلے تھے! زبر دست ٹاؤن پلاننگ نظر آ ئی۔ اور جب
گائیڈ نے بتا یا کہ اسلام آباد کا شہر اسی نقشے کے مطابق بسا یا گیا ہے تو ہم سوچ
میں پڑ گئے۔خیال تو ہمارے بھائی نے یہ بھی دلایا کہ کہیں بتوں اور مجسموں کو
دیکھنے سے گناہ تو نہیں ملے گا؟ عبرت کی جائے دیکھ
!کر اپنی اوقات یاد آجا تی ہے اور پھر قل سیرو فی الارض کی آیت بھی سامنے ہے
رات ہوچکی تھی ۔ ہم سب تھکن سے چور ہوچکے تھے لہذا جلد ہی گرم گرم بستر پر دراز ہوگئے۔
ٹیکسلا میوزیم اور سر کپ کے کھنڈرات :
اب ہفتہ وار چھٹیاں تھیں اورہمارے میزبان نے
زبردست تفریحی دورے کا انتظام کیا تھا۔ پہلے تو ہم ٹیکسلا
میوزیم اور اس سے ملحقہ
پارک گئے۔ میوزیم میں فوٹو گرافی ممنوع تھی مگر ایک تصویر بنانے کی اجازت مل
گئی۔ٹوٹی پھوٹی اشیاء شیشوں میں سجی دیکھ کر ایک تبصرہ سننے کو ملا کہ ردی والے سے
خریدی گئی ہیں! ہم سب مسکرااٹھے !
!کر اپنی اوقات یاد آجا تی ہے اور پھر قل سیرو فی الارض کی آیت بھی سامنے ہے
:خان پور ڈیم
یہاں
سے نکل کر ہری پور ہوتے ہوئے خان پور ڈیم پہنچے۔ یہ ایک زبر دست تفریحی مقام ہے۔
یہاں ہم نے بہت لطف اٹھا یا۔ بے حد خوبصورت اور منظم، صاف ستھری جگہ ہے۔ پارک میں
مختلف اقسام کے کچرے (شیشہ،لکڑی، پلاسٹک وغیرہ وغیرہ) کے لیے علیحدہ علیحدہ ڈبے
نظر آئے۔ یہاں بوٹنگ سے قبل چھہ ماہ کے بچے سمیت ہم سب کو لائف جیکٹ پہنائی گئی۔
بلندی پر بنے گندھارا ہوٹل سے ڈوبتے
سور
ج کا نظارہ بہت دلکش منظر تھا- شفاف پانی میں عکس یوں لگ رہا تھا جیسے رنگ گھول
دیا گیا ہو! آسمان کا رنگ بھی اتنا نکھرا تھا کہ بیان سے باہر ہے! اندھیرا گہرا
ہونے سے پہلے ہم نکل گئے۔راستے میں یہاں کے مشہورمالٹے بھی خریدے جو مزے، خوشبو
اور رنگ میں بڑے لاجواب تھے۔ خواتین نے آرائشی چیزیں خریدنے کی کوشش کی جو مرد
حضرات کے عدم تعاون کے باعث جزوی کامیاب رہی۔ واپسی میں ہم لبنٰی کے گھر واقع ڈی
ایچ اے اتر گئے۔ پہلے کی طرح تھکے ہوئے پہنچے۔ کھانا کھا کر گرم گرم بستر میں گھس
گئے۔ بچیاں باتیں کرتے کرتے سو گئیں تو ہماری تھکی مندی آنکھیں دیکھ کر ہمیں بھی
آرام کا مشورہ ملا۔
صبح اٹھے تو بارش کے
ساتھ اولے بھی دیکھے۔ ہری ہری گھاس پر سفید نرم نرم اولے! بہت حسین منظر تھا۔ یہ
جگہ بھی بہت زبر دست ہے ماشاء اللہ! دن کے اجالے میں زیادہ اندازہ ہوا۔ پہاڑ کے
دامن میں غیر آباد علاقہ میں بنا بنگلہ خاصہ آرٹسٹک ہے۔ ناشتے کے بعد دوپہر کے لیے
تلن کی تیاریاں تھیں مگر ہمارے سفر کے ساتھی ہمارے بغیر اداس ہونے لگے تو ہم واپس
کینٹ اپنی رہائش گاہ آگئے۔