22/مارچ
کو دوپہر ساڑھے بارہ بجے ہم پنڈی سے لاہور پہنچے تھے۔تھکن سے برا حال تھا۔سامان ہوٹل
میں رکھنے کے بعد فریش ہوتے ہی کھانا لگ گیا۔ حالانکہ صاف ستھرا بستر دعوت آرام دے
رہا تھا مگر اس کی اجازت نہ تھی کہ دوران سفر کھانے کے مخصوص ہی اوقات ہوتے ہیں ابھی
ہم کھانے کے بعد نماز پر ہی تھے کہ عزیزہ نوشین کی آمد کا فون آ گیا۔ ہم اسے ہوٹل کی
لوکیشن سمجھاہی رہے تھے کہ وہ استقبالیہ پر پہنچ چکی تھیں اور منٹوں میں کمرے کے اندر!نیچے
گاڑی آچکی تھی اور ہم واہگہ جانے کو تیار!
واہگہ اسٹیڈیم:
یہ وہ جگہ ہے جہاں پاکستان اور بھارت کی سرحدیں ملتی
ہیں۔وہی سرحدیں جہاں دس لاکھ انسانوں کو نظریہ کی بنیاد تہ تیغ کیا گیا تھا۔ اب یہاں
روزانہ دونوں ممالک کی پر چم کشائی کی تقریب ہوتی ہے۔و بجے کے بعد ہم واہگہ کی طرف
رواں دواں تھے۔خوش گپیوں میں وقت کا پتہ بھی نہ چلا اور منزل پر پہنچ گئے مگر ٹھہریں!
ابھی منزل مقصود کہاں؟ ابھی تو ہم وہاں پہنچے تھا جہاں گاڑی چھوڑنا تھی۔ داخلے سے پہلے
اپنی حیثیت بتانی تھی۔یعنی پروٹوکول والی یا عمومی؟ چونکہ ہم نے پورا سفر عوامی انداز
میں کرنے کا طے کیا تھااس لیے پروٹوکول کی سہولت نہ استعمال کی۔ بلاوجہ انسان قیدی
سا محسوس ہوتا ہے! خیر ہر دو صورتوں میں ابھی
کافی مراحل تھے۔
چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے،بیگز کیچیکنگ، جسمانی چیکنگ،
.....اف لگ رہا تھا بھارت میں ہی داخل ہورہے ہیں!خواتین، بزرگوں، بچوں اور معذوروں
کے لیے شٹل سروس تھی جبکہ مردوں، لڑکوں کو سارا سفر پیدل ہی طے کرنا تھا۔ ہمارے ساتھ
ایک ہی مرد تھے انہوں نے اپنا کارڈ استعمال کرتے ہوئے وی آئی پی انکلوژر میں جگہ حاصل
کرلی۔
بالآخر تمام مرحلوں سے گزر کر اسٹیڈیم پہنچے اور اپنی نشستیں
سنبھال لیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسٹیڈیم کھچا کھچ بھر گیا۔ موبائیل سروس جام تھی گویاہمارا
رابطہ باہر کی دنیا سے کٹ چکا تھا بلکہ ہمیں اس کی حاجت بھی نہ تھی کہ اب تو جو کچھ
تھا یہ ہی منظر اور پس منظر تھا!سامنے ازلی دشمن کی باڑ تھی۔ وہاں بھی محفل سجی تھی
مگر جذبوں کا فقدان نظر آ رہا تھا۔ جیسی گہما گہمی پاکستانی انکلوژر میں نظر آرہی تھی
یا ہمیں محسوس ہورہی تھی وہاں نہ تھی۔ اگر ہوتی تو وہاں بیٹھے خواتین و حضرات ہم پر
اتنی نظریں گاڑے نہ نظر آتے۔ محمد یوسف کو اپنے ابو کے پاس جانے کی ہڑک ہوئی جو عین
ہماری نشستوں کے نیچے موجودتھے۔ قریب موجود رینجر کے نوجوان سے کہا مگر نظم و ضبط کی
ڈیوٹی پر مامور اس فرد نے صاف انکار کردیامگر تھوڑی دیر بعد مجمع سیٹل ہونے کے بعد
ایک اور جوان نے اس کو اپنے ابو تک پہنچا دیا۔
اس وقت تقریب عروج پر تھی۔ ہماری طرف اذان گونجی، تلاوت
ہوئی اور جوش و جذبے سے معمور نعرے گونجنے لگے۔ جبکہ سر حد کے اس طرف ڈھول اور باجوں
کی آواز ہی نمایاں تھی وہ بھی اذان کی پر سوز صدا میں ڈوب گئی تھی۔ نعروں کے جواب حاضرین
پر جوش طریقے سے دے رہے تھے۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ
الااللہ کی صدا دل میں اندر تک ٹھنڈک دے رہی تھی! دل چاہ رہا تھا کہ اس کی گونج اکھنڈ
بھارت کا خواب دیکھنے والے سیکولر عناصر تک پہنچے اور وہ دیکھ لیں کہ حلیہ خواہ کوئی
بھی ہو نظریہ بہت گہری جڑیں رکھتا ہے ہم پاکستانیوں کے لیے! تقریب کے دوران بھارتی
انکلوژر میں سے ایک لڑکی بھاگتی ہوئی پاکستانی سر زمین میں داخل ہوگئی۔ بھارتی حکام
اس مارتے ہوئے واپس لے گئے۔ دیکھ کر دل بہت خراب ہوا۔ شاید
اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھامگر ایسی بچی کو حساس علاقے میں اتنے آگے تک لانے کی
کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی! تقریب کے دوران اور اختتام پر بھارتی خصوصاًسکھ ملحقہ باڑ
کے ساتھ کھڑے ہوکر خیر سگالی کا پیغام دیتے رہے جس کا پاکستانی کوئی خاص نوٹس نہیں
لے رہے تھے۔یقیناً سب نے قیام پاکستان میں سکھوں کاکردار پڑھا ہوا ہے۔اب اس ڈھکوسلے
کی کیا ضرورت ہے! ٹرین بھی رینگتی نظر آئی جی ہاں سمجھوتہ ٹرین!
تقریب کے اختتام پر پر جوش ہجوم یوں باہر نکلا گویا تحریک پاکستان میں حصہ لے
کر لوٹا ہو! اسی جذبے کے ساتھ پاکستان کی تعمیر کی جائے تو حالات نہ بدلنے کا کوئی
جواز نہیں!یہاں بھی میوزیم موجود ہے جسے ہم نے سر سری دیکھا۔ یہاں ادکار غلام محی الدین
معہ فیملی موجود تھے جن کے ساتھ لوگ فر مائشی
سیلفیز بنوا رہے تھے۔ واپسی کا سفر بھی ان ہی رکاوٹوں سے پر ہے!
ڈوبتے سورج کی آخری کر نیں تھیں جب ہم نے بھی واہگہ چھوڑا۔ ڈھیروں ڈھیر افراد کو جس مستعدی اور پھرتی سے رینجرز یہاں سے روانہ کر رہے تھے حیران کن تھا۔اب یہ فوجی یہاں اکیلے کیا کریں گے؟کسی بچے نے سوال کیا۔ ان کی تو ڈیوٹی ہے یہاں!ساری رونق اور میلہ تو تھوڑی دیر کا ہوتا ہے۔ ویرانے میں خاموشی سی چھا گئی۔ان کے مزاجوں میں درشتی اور سختی کی وجہ سمجھ آنے لگی تھی۔ ہوٹل پہنچ کر اندازہ ہوا کہ جسم کا ہر خلیہ تھکا ہوا ہے اور آرام کا طلبگار ہے۔آنکھوں میں نیند لیے کھانا کھایااور قصر ادا کر کے بستر پر گر گئے۔
صبح آنکھ کھلی تو ہنوز تھکاوٹ سے جسم بوجھل تھا۔ مگر آج تو بہت مصروف دن ہے۔گاڑی اور ڈرائیور تیار تھے ہمیں لاہور گھمانے کے لیے۔یہاں گرین بس کی طرز پر گرین رکشے اور گاڑیاں بھی چلتی ہیں۔ہم سب گاڑی میں آبیٹھے۔ سب سے پہلی منزل تو مینار پاکستان ہے!
مینار پاکستان کی سیر:
ڈرائیور نے ہمیں رکاوٹوں کے سامنے اتار دیا۔ابھی سے؟ مینار پاکستان تو بہت دور ہے۔ معلوم ہوا کہ اورنج ٹرین کے باعث کھدائی ہورہی ہے۔ دھول مٹی میں اٹا ہوا مینار پاکستان کہیں فاصلے پر تھا۔ ہم بادشاہی مسجد کی طرف چلے گئے۔نماز کا وقت نہ ہونے کے باوجود مسجد آباد تھی تفریح اور زیارت کرنے والوں سے۔ مغلیہ دور کے اس شاہکار کی ہر اینٹ غفلت اور کوتاہی کا رونا روتی نظر آئی۔قرآن گیلری دیکھی۔مسجد میں دوگانہ ادا کرکے جھروکے میں بیٹھ کر تازہ ناریل کھائے۔ وہاں سے مینار پاکستان نظر آرہا تھا۔ مختار مسعود کی آواز دوست کے اوراق یاد آگئے! علامہ اقبال کا مزار تو عوام کے لیے بند تھا شاید کسی خاص شخصیت کا دورے کا پروٹو کول تھا۔ وہاں سے نکل کر شاہی قلعے کی طرف روانہ ہوئے۔
پر شکوہ اور پر جلال عمارتیں اوروسیع و عریض سیر گاہیں! اپنا الگ دفاعی نظام! مغلیہ دور سلطنت کی طرز زندگی اور رہائش کا اعلٰی نمونہ نظر آتا ہے۔ شاہی زندگی کے کروفر نگاہوں میں گھوم گئے۔معلوم ہوا کہ آج ۳۲/ مارچ کی وجہ سے یہ عوام کے لیے کھولا گیا ہے ورنہ عموماً بند ہوتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے! اس تار یخی اثاثے کی زبوں حالی اور کسمپر سی رلاگئی۔ ڈرائیور کی بات درست لگی کہ ہر اس چیز پر توجہ ہے جس پر اپنا کتبہ لگا یا جا سکے! اب ان چار پانچ سو سال پرانی عمارات کو کون سنبھالے؟ حالانکہ انتظام اور مرمت اور و بحالی کرکے بھی اپنے نام کو تاریخ کے صفحات میں زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ تین چار ہزار سال پرانے شہروں کی کھدائی کرکے ٹوٹی پھوٹی مردہ اشیاء تو اتنے کروفر سے سجائی جارہی ہیں اور اپنے زندہ تاریخی نوادرات دیمک زدہ کیے جارہے ہیں!وجہ ہے کہ ان مردہ شہروں کی ذمہ داری تو اقوام متحدہ نے اٹھا ئی ہوئی ہے اور ہم اتنے نادان کہ اپنے اس ورثے کو بھلائے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہاں موجود ہر عمارت کو متعلقہ علوم کے شعبے کے صدر دفتر کی حیثیت سے فروغ دیا جائے۔ یعنی ہر شعبے کا طالب علم خواہ دفاعی یا عسکری ہو، مقننہ یاعدلیہ،۔۔۔۔تعلیمی اسناد کے لیے یہاں کا مطالعاتی دورہ ضروری ٹھہرے! تجویز دیے بغیر نہیں رہ سکتے مانے گا کون! یہاں کے سبزہ زاروں میں پیڑوں کے سائے تلے بیٹھ کر ہم نے بھی اپنے آپ کو تصور میں مغلیہ دور کے پائیں باغ میں تفریح کرتے پایا مگر جوس کی ٹھنڈی بوتلیں اورریپر میں لپٹے اسنکس اس منظر میں اجنبی سے لگے۔ قلعے سے باہر آئے تو لگا شاہی قلعے کے دنیا ایک الگ بستی ہے اور شاید اس دور میں بھی ہوگی۔محمد یوسف نے قریب جاکر مینار پاکستان دیکھنے کی ضد کی اور منوں مٹی کھا کر واپس آیا
اب ہمارا رخ عجائب گھر کی طرف تھا۔ یہاں تحریک آزادی اور اس کے حوالے سے نادر تصاویر اور اشیاء دیکھنے کوملیں۔چونکہ بچے ابھی امتحان سے فارغ ہوئے تھے اوربہت سی باتیں ان کو تازہ تازہ یاد تھیں لہذا بہت اچھی طرح سمجھ میں آرہی تھیں۔ مسلم لیگ کے اجلاس کے دوران استعمال ہونے والے چولہے، چائے دان،ٹائپ رائٹراور دیگر اسٹیشنری بہت دلچسپی سے دیکھی گئیں۔کاش جذبات، روایات اور اقدار بھی محفوظ رکھے جاسکتے ان کے تحفظ کا بھی کوئی ادارہ ہوتا! یہاں موجود کچھ چیزیں خون کا دباؤ بڑھارہی ہیں مثلاً ملکہ بر طانیہ کا مجسمہ!س کے سر پر سجا تاج برسوں پرانی بات یاد دلاگیا۔ ....میں لندن جاکر ملکہ سے اپنا کوہ نور ہیرا واپس لے کر آؤں گی جو انگریز یہاں سے چرا کر لے گئے ہیں ....ہم نے فضہ کو ٹٹولا ...اب اسے اتنی عقل آگئی ہے کہ اپنی چیز واپس لینے کا ایک ہی طریقہ ہے تہذیبی فتح!ویسے پچھلے ماہ اس حوالے سے پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ہیرے کی واپسی کے لیے مقدمہ کی منظوری دے دی ہے کہ یہ پنجاب کا ثقافتی ورثہ ہے اور ملکہ بر طانیہ کو کوئی قانونی حق نہیں کہ وہ اس ہیرے کو اپنے تاج میں سجائے! دیکھیں اس مقدمہ کا کیا بنتا ہے؟
یہاں سے نکل کر باغ جناح المعروف لارنس گارڈن گئے۔ سڑک پر ٹریفک اور عوام کا ازدہام بڑھتا ہی جا رہا ہے! گارڈن میں ڈھیروں ڈھیروں خاندان پکنک منا رہے تھے ہم بھی ان میں شامل ہوگئے۔ کھانا کھا یا۔تھوڑا آرام کیا اور اب ایک نئی منزل کی طرف۔جی ہاں! بہت فر مائشی جگہ یعنی چڑیا گھر! ہم نے یہاں سے بچنے کی بہت کوشش کی مگر بچے بضد تھے۔ سڑک پر ٹریفک اور عوام کا ازدہام بڑھتا ہی جا رہا ہے! ہم نے سوچاہمارے پاس تو وقت کم ہے اس لیے آج کے دن نکلے مگرمعلوم ہوا کہ یہاں چھٹی کادن تفریح منانے کا رحجان اور رواج ہے۔مگر افسوسناک بات یہ کہ تقریباتی اور تفریحی کلچر کی شوقین عوام کے سامنے اس دن کی اہمیت واضح نہیں ہے کیونکہ کوئی ایک تقریب بھی اس حوالے سے نہیں نظر آ ئی۔نظریہ پاکستان پر ویسے ہی دھول ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کاش میلوں ٹھیلوں کی شوقین قوم کو مقصد حیات سے آگاہ کر دے کوئی!
اب ہمارا رخ ریس کورس گراؤنڈ کی طرف تھا۔ یہاں سالانہ ثقافتی
نما ئش لگی ہوئی تھی۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بے انتہا رش تھا۔اب تو ویسے بھی شام
ڈھل رہی تھی۔تفریح کا باقاعدہ وقت تھا۔ایک طرف مختلف اشیاء کے اسٹالز لگے ہوئے تھے
تو دوسری طرف اسٹیج پر پھکڑ بازی ہورہی تھی۔
ہم پہلے ہی اسٹال پر شاپنگ میں مصروف ہوگئے جس سے روکنے کے لیے ہمیں بہت بہلاوہ
دینے کی کوشش کی گئی کہ ابھی تو بہت بڑا پارک ہے مگر ہم اس بھرّے میں نہ آئے اور ایک
ہی اسٹال پر ٹک گئے۔شاپنگ کی پیاس تو کیا بجھتی،”نہ اٹھا ساغر مرے آگے“کے مصداق ابھی
حلق بھی تر نہ ہوا تھا کہ اندھیرا اور تھکن کے باعث واپسی کی راہ لی مگر مصمم ارادہ
ہے کہ کل یہیں سے آغاز کریں گے۔رات کو پنجاب کا خاص روایتی کھا نا مزے لے کر کھا یا۔
صبح ناشتے کے بعد پلیٹ فارم کا ٹکٹ لے کر وہاں موجود نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اسٹال میں گھس گئے اورد دو ہزار کی کتب خرید لیں مگر آپ یہ سمجھیں کہ ان کی اصل قیمت کہیں زیادہ ہے کیونکہ خاصی نادر کتب ہیں جو اور کہیں دستیاب نہ ہوسکتی ہیں۔ انکوہوٹل میں رکھ کرشاپنگ کے لیے بازار گئے مگر آدھا دن گزرنے کے باوجود ہنوز بند تھے لہذا نا مراد واپس ہوئے۔ گر می کے باعث تفریح کے لیے بھی شام کو نکلنے کا پروگرام بنا یا۔ آج لاہور میں گرمی کا با قاعدہ آغاز ہو گیا ہے ہوٹل میں آرام کرتے رہے۔
شام کے وقت پارک گئے۔بقایا شاپنگ مکمل کی۔باغوں کے شہر لاہور میں پھولوں کی نمائش بھی دیکھی۔شمسی لا ئٹ سے روشن ہوتے کھمبے بڑے بھلے لگے۔ میلہ کی رونق اپنے عروج پر تھی۔ پارک کے سامنے ہاسپٹل دیکھ کر ذہن میں آیا کہ خدانخواستہ حادثے کی صورت میں .....! (فوراً لاحول پڑھی تھی مگر انہونی ہو کر رہی اور ہم دھک سے رہ گئے جب کراچی پہنچتے ہی گلشن پارک میں بم دھماکے کی خبر ملی۔ بہت سے لوگ جو ہماری واپسی سے لاعلم تھے فون پر ہماری خیریت معلوم کرتے رہے) بچوں اور نوجوانوں کو پانی میں کھیلتا دیکھ کر اپنا سمندر یاد آگیا۔
رات کو پارٹی میں گئے جہاں سے واپسی اس وقت ہوئی جیسا کہ کراچی کی تقریبات سے ہوتی ہے۔کراچی والے اپنے ہی ٹائم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں خواہ بر سوں کہیں اور گزار لیں!
واپس ہوٹل آکر پیکنگ مکمل کی کہ کل واپسی کا سفر ہے۔ ہم بھی تھک چکے تھے اور کراچی والے شاید ہماری کمی محسوس کرنے لگے تھے۔ اپنی قدر گھر سے دور جاکر ہی ہوتی ہے!ویسے یہ جملہ معترضہ ہے کیونکہ موبائل فون کے ذریعے رابطہ ہمہ وقت ہی رہا اور اپنے شہر سے با خبر تو ہم پورے سفر میں رہے۔ خواہ پرویز مشرف کے ملک سے فرار کی خبر ہو یا مصطفٰی کمال کی نوزائیدہ پارٹی کے نام رکھنے کی تقریب! ویسے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے حلیے یا لہجے میں کیا بات ہے کہ جس سے بات کرو یہ ہی پوچھتا ہے کراچی سے آ ئے ہیں؟ اور اگلا سوا ل کراچی کے حالات کے حوالے سے ہوتا ہے جو خا صہ مضمحل کردیتا ہے بالکل ایسے جیسے کسی بچے سے اس کے گھر ہونے والی چپقلشوں کا حال پوچھ لے کوئی! بات تو سچ ہے مگر ہے رسوائی کی!
اگلے دن بیس گھنٹے کے سفر کے بعد ڈرگ روڈ اسٹیشن پر اترے تو چلچلاتی گرمی میں مری یاد آگیا۔طویل راشد منہاس روڈ کے دونوں طرف آبادبستیوں کو دیکھااور چن جی گاڑیوں کو دیکھ کر آنکھیں بھیگ گئیں! کیا قسمت پائی ہے ہمارے شہر نے؟پانچ بلند و بالا پلوں سے گزر کر
جب ہم اپنی منزل پر پہنچے تو لگا اتنی مسافت میں تو دوسرا شہر آجاتا! شہراپنا ہی اچھا لگے خواہ بدنام ہی ہو! کتنا ہی بے ہنگم کیوں نہ ہوجو یہاں یک بار آجائے اس کے سحر سے نہیں نکل پاتاتو ہم جو یہاں کے دائمی باشندے ہیں کس طرح اس سے بے رخی برت سکتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت طاہر
چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے،بیگز کیچیکنگ، جسمانی چیکنگ،
.....اف لگ رہا تھا بھارت میں ہی داخل ہورہے ہیں!خواتین، بزرگوں، بچوں اور معذوروں
کے لیے شٹل سروس تھی جبکہ مردوں، لڑکوں کو سارا سفر پیدل ہی طے کرنا تھا۔ ہمارے ساتھ
ایک ہی مرد تھے انہوں نے اپنا کارڈ استعمال کرتے ہوئے وی آئی پی انکلوژر میں جگہ حاصل
کرلی۔
بالآخر تمام مرحلوں سے گزر کر اسٹیڈیم پہنچے اور اپنی نشستیں
سنبھال لیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسٹیڈیم کھچا کھچ بھر گیا۔ موبائیل سروس جام تھی گویاہمارا
رابطہ باہر کی دنیا سے کٹ چکا تھا بلکہ ہمیں اس کی حاجت بھی نہ تھی کہ اب تو جو کچھ
تھا یہ ہی منظر اور پس منظر تھا!سامنے ازلی دشمن کی باڑ تھی۔ وہاں بھی محفل سجی تھی
مگر جذبوں کا فقدان نظر آ رہا تھا۔ جیسی گہما گہمی پاکستانی انکلوژر میں نظر آرہی تھی
یا ہمیں محسوس ہورہی تھی وہاں نہ تھی۔ اگر ہوتی تو وہاں بیٹھے خواتین و حضرات ہم پر
اتنی نظریں گاڑے نہ نظر آتے۔ محمد یوسف کو اپنے ابو کے پاس جانے کی ہڑک ہوئی جو عین
ہماری نشستوں کے نیچے موجودتھے۔ قریب موجود رینجر کے نوجوان سے کہا مگر نظم و ضبط کی
ڈیوٹی پر مامور اس فرد نے صاف انکار کردیامگر تھوڑی دیر بعد مجمع سیٹل ہونے کے بعد
ایک اور جوان نے اس کو اپنے ابو تک پہنچا دیا۔
اس وقت تقریب عروج پر تھی۔ ہماری طرف اذان گونجی، تلاوت
ہوئی اور جوش و جذبے سے معمور نعرے گونجنے لگے۔ جبکہ سر حد کے اس طرف ڈھول اور باجوں
کی آواز ہی نمایاں تھی وہ بھی اذان کی پر سوز صدا میں ڈوب گئی تھی۔ نعروں کے جواب حاضرین
پر جوش طریقے سے دے رہے تھے۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ
الااللہ کی صدا دل میں اندر تک ٹھنڈک دے رہی تھی! دل چاہ رہا تھا کہ اس کی گونج اکھنڈ
بھارت کا خواب دیکھنے والے سیکولر عناصر تک پہنچے اور وہ دیکھ لیں کہ حلیہ خواہ کوئی
بھی ہو نظریہ بہت گہری جڑیں رکھتا ہے ہم پاکستانیوں کے لیے! تقریب کے دوران بھارتی
انکلوژر میں سے ایک لڑکی بھاگتی ہوئی پاکستانی سر زمین میں داخل ہوگئی۔ بھارتی حکام
اس مارتے ہوئے واپس لے گئے۔ دیکھ کر دل بہت خراب ہوا۔ شاید
اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھامگر ایسی بچی کو حساس علاقے میں اتنے آگے تک لانے کی
کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی! تقریب کے دوران اور اختتام پر بھارتی خصوصاًسکھ ملحقہ باڑ
کے ساتھ کھڑے ہوکر خیر سگالی کا پیغام دیتے رہے جس کا پاکستانی کوئی خاص نوٹس نہیں
لے رہے تھے۔یقیناً سب نے قیام پاکستان میں سکھوں کاکردار پڑھا ہوا ہے۔اب اس ڈھکوسلے
کی کیا ضرورت ہے! ٹرین بھی رینگتی نظر آئی جی ہاں سمجھوتہ ٹرین!
تقریب کے اختتام پر پر جوش ہجوم یوں باہر نکلا گویا تحریک پاکستان میں حصہ لے
کر لوٹا ہو! اسی جذبے کے ساتھ پاکستان کی تعمیر کی جائے تو حالات نہ بدلنے کا کوئی
جواز نہیں!یہاں بھی میوزیم موجود ہے جسے ہم نے سر سری دیکھا۔ یہاں ادکار غلام محی الدین
معہ فیملی موجود تھے جن کے ساتھ لوگ فر مائشی
سیلفیز بنوا رہے تھے۔ واپسی کا سفر بھی ان ہی رکاوٹوں سے پر ہے!
ڈوبتے سورج کی آخری کر نیں تھیں جب ہم نے بھی واہگہ چھوڑا۔ ڈھیروں ڈھیر افراد کو جس مستعدی اور پھرتی سے رینجرز یہاں سے روانہ کر رہے تھے حیران کن تھا۔اب یہ فوجی یہاں اکیلے کیا کریں گے؟کسی بچے نے سوال کیا۔ ان کی تو ڈیوٹی ہے یہاں!ساری رونق اور میلہ تو تھوڑی دیر کا ہوتا ہے۔ ویرانے میں خاموشی سی چھا گئی۔ان کے مزاجوں میں درشتی اور سختی کی وجہ سمجھ آنے لگی تھی۔ ہوٹل پہنچ کر اندازہ ہوا کہ جسم کا ہر خلیہ تھکا ہوا ہے اور آرام کا طلبگار ہے۔آنکھوں میں نیند لیے کھانا کھایااور قصر ادا کر کے بستر پر گر گئے۔
صبح آنکھ کھلی تو ہنوز تھکاوٹ سے جسم بوجھل تھا۔ مگر آج تو بہت مصروف دن ہے۔گاڑی اور ڈرائیور تیار تھے ہمیں لاہور گھمانے کے لیے۔یہاں گرین بس کی طرز پر گرین رکشے اور گاڑیاں بھی چلتی ہیں۔ہم سب گاڑی میں آبیٹھے۔ سب سے پہلی منزل تو مینار پاکستان ہے!
مینار پاکستان کی سیر:
ڈرائیور نے ہمیں رکاوٹوں کے سامنے اتار دیا۔ابھی سے؟ مینار پاکستان تو بہت دور ہے۔ معلوم ہوا کہ اورنج ٹرین کے باعث کھدائی ہورہی ہے۔ دھول مٹی میں اٹا ہوا مینار پاکستان کہیں فاصلے پر تھا۔ ہم بادشاہی مسجد کی طرف چلے گئے۔نماز کا وقت نہ ہونے کے باوجود مسجد آباد تھی تفریح اور زیارت کرنے والوں سے۔ مغلیہ دور کے اس شاہکار کی ہر اینٹ غفلت اور کوتاہی کا رونا روتی نظر آئی۔قرآن گیلری دیکھی۔مسجد میں دوگانہ ادا کرکے جھروکے میں بیٹھ کر تازہ ناریل کھائے۔ وہاں سے مینار پاکستان نظر آرہا تھا۔ مختار مسعود کی آواز دوست کے اوراق یاد آگئے! علامہ اقبال کا مزار تو عوام کے لیے بند تھا شاید کسی خاص شخصیت کا دورے کا پروٹو کول تھا۔ وہاں سے نکل کر شاہی قلعے کی طرف روانہ ہوئے۔
پر شکوہ اور پر جلال عمارتیں اوروسیع و عریض سیر گاہیں! اپنا الگ دفاعی نظام! مغلیہ دور سلطنت کی طرز زندگی اور رہائش کا اعلٰی نمونہ نظر آتا ہے۔ شاہی زندگی کے کروفر نگاہوں میں گھوم گئے۔معلوم ہوا کہ آج ۳۲/ مارچ کی وجہ سے یہ عوام کے لیے کھولا گیا ہے ورنہ عموماً بند ہوتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے! اس تار یخی اثاثے کی زبوں حالی اور کسمپر سی رلاگئی۔ ڈرائیور کی بات درست لگی کہ ہر اس چیز پر توجہ ہے جس پر اپنا کتبہ لگا یا جا سکے! اب ان چار پانچ سو سال پرانی عمارات کو کون سنبھالے؟ حالانکہ انتظام اور مرمت اور و بحالی کرکے بھی اپنے نام کو تاریخ کے صفحات میں زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ تین چار ہزار سال پرانے شہروں کی کھدائی کرکے ٹوٹی پھوٹی مردہ اشیاء تو اتنے کروفر سے سجائی جارہی ہیں اور اپنے زندہ تاریخی نوادرات دیمک زدہ کیے جارہے ہیں!وجہ ہے کہ ان مردہ شہروں کی ذمہ داری تو اقوام متحدہ نے اٹھا ئی ہوئی ہے اور ہم اتنے نادان کہ اپنے اس ورثے کو بھلائے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہاں موجود ہر عمارت کو متعلقہ علوم کے شعبے کے صدر دفتر کی حیثیت سے فروغ دیا جائے۔ یعنی ہر شعبے کا طالب علم خواہ دفاعی یا عسکری ہو، مقننہ یاعدلیہ،۔۔۔۔تعلیمی اسناد کے لیے یہاں کا مطالعاتی دورہ ضروری ٹھہرے! تجویز دیے بغیر نہیں رہ سکتے مانے گا کون! یہاں کے سبزہ زاروں میں پیڑوں کے سائے تلے بیٹھ کر ہم نے بھی اپنے آپ کو تصور میں مغلیہ دور کے پائیں باغ میں تفریح کرتے پایا مگر جوس کی ٹھنڈی بوتلیں اورریپر میں لپٹے اسنکس اس منظر میں اجنبی سے لگے۔ قلعے سے باہر آئے تو لگا شاہی قلعے کے دنیا ایک الگ بستی ہے اور شاید اس دور میں بھی ہوگی۔محمد یوسف نے قریب جاکر مینار پاکستان دیکھنے کی ضد کی اور منوں مٹی کھا کر واپس آیا
اب ہمارا رخ عجائب گھر کی طرف تھا۔ یہاں تحریک آزادی اور اس کے حوالے سے نادر تصاویر اور اشیاء دیکھنے کوملیں۔چونکہ بچے ابھی امتحان سے فارغ ہوئے تھے اوربہت سی باتیں ان کو تازہ تازہ یاد تھیں لہذا بہت اچھی طرح سمجھ میں آرہی تھیں۔ مسلم لیگ کے اجلاس کے دوران استعمال ہونے والے چولہے، چائے دان،ٹائپ رائٹراور دیگر اسٹیشنری بہت دلچسپی سے دیکھی گئیں۔کاش جذبات، روایات اور اقدار بھی محفوظ رکھے جاسکتے ان کے تحفظ کا بھی کوئی ادارہ ہوتا! یہاں موجود کچھ چیزیں خون کا دباؤ بڑھارہی ہیں مثلاً ملکہ بر طانیہ کا مجسمہ!س کے سر پر سجا تاج برسوں پرانی بات یاد دلاگیا۔ ....میں لندن جاکر ملکہ سے اپنا کوہ نور ہیرا واپس لے کر آؤں گی جو انگریز یہاں سے چرا کر لے گئے ہیں ....ہم نے فضہ کو ٹٹولا ...اب اسے اتنی عقل آگئی ہے کہ اپنی چیز واپس لینے کا ایک ہی طریقہ ہے تہذیبی فتح!ویسے پچھلے ماہ اس حوالے سے پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ہیرے کی واپسی کے لیے مقدمہ کی منظوری دے دی ہے کہ یہ پنجاب کا ثقافتی ورثہ ہے اور ملکہ بر طانیہ کو کوئی قانونی حق نہیں کہ وہ اس ہیرے کو اپنے تاج میں سجائے! دیکھیں اس مقدمہ کا کیا بنتا ہے؟
یہاں سے نکل کر باغ جناح المعروف لارنس گارڈن گئے۔ سڑک پر ٹریفک اور عوام کا ازدہام بڑھتا ہی جا رہا ہے! گارڈن میں ڈھیروں ڈھیروں خاندان پکنک منا رہے تھے ہم بھی ان میں شامل ہوگئے۔ کھانا کھا یا۔تھوڑا آرام کیا اور اب ایک نئی منزل کی طرف۔جی ہاں! بہت فر مائشی جگہ یعنی چڑیا گھر! ہم نے یہاں سے بچنے کی بہت کوشش کی مگر بچے بضد تھے۔ سڑک پر ٹریفک اور عوام کا ازدہام بڑھتا ہی جا رہا ہے! ہم نے سوچاہمارے پاس تو وقت کم ہے اس لیے آج کے دن نکلے مگرمعلوم ہوا کہ یہاں چھٹی کادن تفریح منانے کا رحجان اور رواج ہے۔مگر افسوسناک بات یہ کہ تقریباتی اور تفریحی کلچر کی شوقین عوام کے سامنے اس دن کی اہمیت واضح نہیں ہے کیونکہ کوئی ایک تقریب بھی اس حوالے سے نہیں نظر آ ئی۔نظریہ پاکستان پر ویسے ہی دھول ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کاش میلوں ٹھیلوں کی شوقین قوم کو مقصد حیات سے آگاہ کر دے کوئی!
یہاں سے نکل کر باغ جناح المعروف لارنس گارڈن گئے۔ سڑک پر ٹریفک اور عوام کا ازدہام بڑھتا ہی جا رہا ہے! گارڈن میں ڈھیروں ڈھیروں خاندان پکنک منا رہے تھے ہم بھی ان میں شامل ہوگئے۔ کھانا کھا یا۔تھوڑا آرام کیا اور اب ایک نئی منزل کی طرف۔جی ہاں! بہت فر مائشی جگہ یعنی چڑیا گھر! ہم نے یہاں سے بچنے کی بہت کوشش کی مگر بچے بضد تھے۔ سڑک پر ٹریفک اور عوام کا ازدہام بڑھتا ہی جا رہا ہے! ہم نے سوچاہمارے پاس تو وقت کم ہے اس لیے آج کے دن نکلے مگرمعلوم ہوا کہ یہاں چھٹی کادن تفریح منانے کا رحجان اور رواج ہے۔مگر افسوسناک بات یہ کہ تقریباتی اور تفریحی کلچر کی شوقین عوام کے سامنے اس دن کی اہمیت واضح نہیں ہے کیونکہ کوئی ایک تقریب بھی اس حوالے سے نہیں نظر آ ئی۔نظریہ پاکستان پر ویسے ہی دھول ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کاش میلوں ٹھیلوں کی شوقین قوم کو مقصد حیات سے آگاہ کر دے کوئی!
اب ہمارا رخ ریس کورس گراؤنڈ کی طرف تھا۔ یہاں سالانہ ثقافتی
نما ئش لگی ہوئی تھی۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بے انتہا رش تھا۔اب تو ویسے بھی شام
ڈھل رہی تھی۔تفریح کا باقاعدہ وقت تھا۔ایک طرف مختلف اشیاء کے اسٹالز لگے ہوئے تھے
تو دوسری طرف اسٹیج پر پھکڑ بازی ہورہی تھی۔
ہم پہلے ہی اسٹال پر شاپنگ میں مصروف ہوگئے جس سے روکنے کے لیے ہمیں بہت بہلاوہ
دینے کی کوشش کی گئی کہ ابھی تو بہت بڑا پارک ہے مگر ہم اس بھرّے میں نہ آئے اور ایک
ہی اسٹال پر ٹک گئے۔شاپنگ کی پیاس تو کیا بجھتی،”نہ اٹھا ساغر مرے آگے“کے مصداق ابھی
حلق بھی تر نہ ہوا تھا کہ اندھیرا اور تھکن کے باعث واپسی کی راہ لی مگر مصمم ارادہ
ہے کہ کل یہیں سے آغاز کریں گے۔رات کو پنجاب کا خاص روایتی کھا نا مزے لے کر کھا یا۔
صبح ناشتے کے بعد پلیٹ فارم کا ٹکٹ لے کر وہاں موجود نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اسٹال میں گھس گئے اورد دو ہزار کی کتب خرید لیں مگر آپ یہ سمجھیں کہ ان کی اصل قیمت کہیں زیادہ ہے کیونکہ خاصی نادر کتب ہیں جو اور کہیں دستیاب نہ ہوسکتی ہیں۔ انکوہوٹل میں رکھ کرشاپنگ کے لیے بازار گئے مگر آدھا دن گزرنے کے باوجود ہنوز بند تھے لہذا نا مراد واپس ہوئے۔ گر می کے باعث تفریح کے لیے بھی شام کو نکلنے کا پروگرام بنا یا۔ آج لاہور میں گرمی کا با قاعدہ آغاز ہو گیا ہے ہوٹل میں آرام کرتے رہے۔
رات کو پارٹی میں گئے جہاں سے واپسی اس وقت ہوئی جیسا کہ کراچی کی تقریبات سے ہوتی ہے۔کراچی والے اپنے ہی ٹائم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں خواہ بر سوں کہیں اور گزار لیں!
واپس ہوٹل آکر پیکنگ مکمل کی کہ کل واپسی کا سفر ہے۔ ہم بھی تھک چکے تھے اور کراچی والے شاید ہماری کمی محسوس کرنے لگے تھے۔ اپنی قدر گھر سے دور جاکر ہی ہوتی ہے!ویسے یہ جملہ معترضہ ہے کیونکہ موبائل فون کے ذریعے رابطہ ہمہ وقت ہی رہا اور اپنے شہر سے با خبر تو ہم پورے سفر میں رہے۔ خواہ پرویز مشرف کے ملک سے فرار کی خبر ہو یا مصطفٰی کمال کی نوزائیدہ پارٹی کے نام رکھنے کی تقریب! ویسے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے حلیے یا لہجے میں کیا بات ہے کہ جس سے بات کرو یہ ہی پوچھتا ہے کراچی سے آ ئے ہیں؟ اور اگلا سوا ل کراچی کے حالات کے حوالے سے ہوتا ہے جو خا صہ مضمحل کردیتا ہے بالکل ایسے جیسے کسی بچے سے اس کے گھر ہونے والی چپقلشوں کا حال پوچھ لے کوئی! بات تو سچ ہے مگر ہے رسوائی کی!
اگلے دن بیس گھنٹے کے سفر کے بعد ڈرگ روڈ اسٹیشن پر اترے تو چلچلاتی گرمی میں مری یاد آگیا۔طویل راشد منہاس روڈ کے دونوں طرف آبادبستیوں کو دیکھااور چن جی گاڑیوں کو دیکھ کر آنکھیں بھیگ گئیں! کیا قسمت پائی ہے ہمارے شہر نے؟پانچ بلند و بالا پلوں سے گزر کر
جب ہم اپنی منزل پر پہنچے تو لگا اتنی مسافت میں تو دوسرا شہر آجاتا! شہراپنا ہی اچھا لگے خواہ بدنام ہی ہو! کتنا ہی بے ہنگم کیوں نہ ہوجو یہاں یک بار آجائے اس کے سحر سے نہیں نکل پاتاتو ہم جو یہاں کے دائمی باشندے ہیں کس طرح اس سے بے رخی برت سکتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت طاہر