محبت پنکھ پکھیروں کی
!
آخری حصہ
تیمی اور عارف کی کہانی ختم ہوتی ہے تو مزید کرداروں کے ساتھ کہانی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتی ہے۔ ظفر اربائے اپنے زوال کی طرف گھسیٹا جاتا ہے جس سے بچنے کے لیے وہ کافی سرتوڑ کوششیں کرتا ہے ۔تیمی کے قاتلوں اور تھامس کو ( بوجہ اپنی گرل فرینڈ کے بہکانے کے !) قتل کرنے کے بعد وہ امریکی مفادات کی کونسل کے آگے جواب دہ ہوتا ہے جو اسے اپنے معاملات بہتر بنانے کا ایک موقع اور دیتی ہے ۔ دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی اپنا دائرہ کار طلبہ کے ساتھ ساتھ مزدوروں تک پھیلانے کا منصوبہ بناتی ہے۔ جس کا آغاز ظفر اربائے کی فیکٹری میں ہڑتال سے ہوتا ہے ۔ اور اس کا منصوبہ ایڈمرل نام سے شناخت رکھنے والا فرد ہوتا ہے اور یہ کوئی اور نہیں ظفر کا بہت قریبی دوست شریف ہوتا ہے .۔ہڑتال کے دوران ایڈمرل اسنائپرکے ذریعے ایک کامریڈ مزدور کو ختم کردیتا ہے لہذا فسادات کی آگ دور تک پھیل جاتی ہے۔ ان سارے چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ اپنی فیملی کو ملک سے باہر بھجوادیتا ہے۔ ( جی ہاں ! اشرافیہ کا یہ ہی اصول ہے کہ دوسروں کے بچے مرواؤ اور اپنے بیوی بچے محفوظ اور پر امن مقام پر منتقل کردو ! ) ۔ طلبہ یونین پر پابندی لگا کر دفاتر سیل کردیتا ہے اور احتجاج پر اسلامی طلبہ کو پولیس گرفتار کرلیتی ہے ۔ دوسری طرف عمر عارف کی شہادت کے بعد غم و غصے میں ہے لیکن جب اسے انسپکٹر جمیل سے معلوم ہوا کہ بم کا مواد غیر ملکی تھا اور یہ چند افراد کی دسترس میں ہے جن میں مافیا کا اسحاق بھی ہے تو وہ اسحاق کے گروہ میں شامل ہوجاتا ہے کہ اس کے ذریعے ظفر تک پہنچ سکے ۔ اسحاق بطور امتحان اسے ایک ہدف دیتا ہے ۔ اور وہ ہدف تھا اسحاق کے ہاتھوں بیچی گئی بندوقوں کی بازیابی ! اس کی تفصیل آگے ہے ۔
قبرص تک اسلحے کی رسائی کیسے ہوئی ؟
16 ویں قسط کا آغاز
قبرص کے مناظر سے ہوتا ہے جہاں یونانی
فوجیں قتل و غارت گری میں مصروف ہیں ۔ وہاں کے رہائشی اپنی
جمع پونجی او ر زیورات ایک مجاہد
عاصم کے حوالے کرتے ہیں کہ وہ ترکیہ سے
اسلحہ لے کر آئے تاکہ وہ اپنی حفاظت کر سکیں ۔ وہ کشتی کے ذریعے استنبول روانہ ہورہا تھا تو ایک خاتون کو اس کے
سامنے شہید کردیتے ہیں وہ اس بچی کو لے کو
استنبول جاتاہے ۔ وہاں پہنچ کر اس بچی کو ہسپتال لے کر جاتا ہے
تو وہاں ڈاکٹر الیف سے ملاقاا ت ہوتی ہے ۔
وہ بچی ان دونوں کے درمیان تعلق
کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔ وہ اسے یتیم خانے میں داخل کروادیتے ہیں جہاں
الیف اور اس کی بہن لیلیٰ( صحافی) نے بھی پرورش پائی تھی۔
عاصم پیشے کے لحاظ سے ایک میکینیکل انجینیر ہے ایک ذہین،
قابل اور جری نوجوان جو اسلام کی محبت سے سرشار ہے ۔ موقع شناسی اور حاضر دماغی میں ماہر ایک رحم دل انسان !
وہ ادائیگی کرکے اسحاق سے اسلحہ لیتا ہے جو اسے قبرص روانہ کرنا ہے ۔ اس کی خبر
انٹیلیجنس کے ذریعے ظفر تک پہنچتی ہے تو
وہ اسحاق پر چڑھ دوڑتا ہے اور اسلحہ واپس لینے
کا حکم دیتا ہے ۔ اسحاق عمر سے کہتا ہے کہ اسلحہ چوری ہوگیا ہے
اسے واپس لانا ہے ۔ یہ تھا عمر کا
ہدف ! عاصم اپنی جان پر کھیل کر زخمی ہونے
کے باوجود اسلحہ قبرص روانہ کردیتا ہے ۔
عمر اس کا تعاقب کرتا ہوا انسپکڑ جمیل کے
گھر پہنچتا ہے۔ وہاں وہ دونوں ایک دوسرے
پر بندوق تان لیتے ہیں تو انسپکٹر انہیں حقیقت بتا تا ہے ۔ وہ دونوں گلے ملتے ہیں اور ایک منصوبہ بناتے ہیں
کہ عمر پر اسحاق کا اعتبار قائم ہوجائے۔
انٹیلی جنس آفسر
باقر ظفر کا پالتو ہے اور اس کے ہر
ناجائز کام میں اس کے حکم کا پابند ہے ۔
اسے بے نقاب کرنے کے لیے ایک انسپکٹر جمیل
اور عاصم ایک منصوبہ تیار کرتے ہیں ۔ عمر کے ذریعے
انہیں یہ خبر ملتی ہے کہ باقر غیر ملکی اسلحہ اسحاق کے ہاتھ بیچے گا۔ اس موقع پر پہنچ کر لین دین کی تصویر عاصم اپنے کیمرے سے ریکارڈ کر لیتا ہے ۔ یہ تصویر باقر کے خلاف ثبوت
کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔ اس کی اشاعت پر ظفر اسے اپنےعہدے سے استعفیٰ دلوادیتا ہے اور اسحاق کو بھی
ٹھکانے لگانے کی ترکیبیں کرتا ہے
۔ اس موقع پر عمر اسحاق کو جھنجھوڑتاہے کہ جس کے لیے تم نے اتنے جرائم
کیے وہ تمہیں یوں تباہ کر رہاہے ۔ لہذا
موقع ہے کہ تم اس کے سیاہ کرتوت دنیا کے سامنے لاکر وعدہ معاف گواہ بن جاؤ ! وہ
کچھ پس و پیش کے بعد تیار ہوجاتا ہے ۔ بوہ پولیس اسٹیشن میں بیان لکھوا کر اقبال جرم کے لیے استغاثہ کی
طرف روانہ ہوتا ہے تو ظفر کا پالتو قیصر
علی اس کا نشانہ لے کر ختم کر دیتا ہے ۔ یوں ظفر پھر بچ جاتا
ہے ( رسی مزید دراز !) ۔
اسحاق مرنے سے پہلے اپنے تمام معاملات اور سرداری عمر کے
حوالے کردیتا ہے ۔ اس کے لیے وہ اپنی
تنظیم سے استعفٰی دیتا ہے ۔ ساتھی اس فیصلے سے بہت ناخوش ہیں ۔ اس کے علاوہ فلزہ
سے بھی وہ تعلقات جان بوجھ کر خراب کر لیتا ہے
تاکہ اسے کوئی گزند نہ پہنچے۔ اس کے لیے وہ روشنی سے قربت ظاہر کرتا ہے ۔ روشنی جو ظفر کے گھر سے نکل کر لیلی کے ساتھ مقیم ہے
اور اسی کے ا خبار میں فوٹو گرافی کر رہی
ہے ۔ چونکہ وہ بھی ظفر سے بدلہ لینا چاہتی ہے لہذا عمر سے تعاون کرتی ہے اور ظفر
کے خلاف ایڈمرل شریف کا آلہ کار بن جاتی ہے ۔کمیونسٹ طلبہ کا صدر ایک پرکلی ایک با اصول اور مہذب کامریڈ ہے لہذا ایڈمرل اپنے سارے فتنہ انگیز کام کا مریڈ
سعادت اور اس کے ساتھیوں کے ذریعے کرواتا
ہے ۔ مافیا میں عمر کی شمولیت پر اس
کی دادی بہت سخت رد عمل دیتی ہیں جبکہ بہنیں اور دیگر لواحقین بھی پریشان ہیں ۔مافیا بھی عمر کے خلاف اٹھ
کھڑی ہوتی ہے کیونکہ وہ ان کی بھتہ خوری اور سود خوری کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔
عاصم نے ایک بہترین
اسلحہ کا ڈیزائن تیار کیا ہے جسے وہ قبرص سے منگواتا ہے تو ظفر اس پر قبضہ
کرلیتاہے اور اس کی تیکنک سمجھنے کےلیے انجینیر ز
کو بلواتا ہے مگر وہ ناکام رہتے
ہیں ۔ بہرحال سوانگ بھرکے عاصم اپنی ڈرائینگ حاصل کرلیتا ہے اور اربکان کے ذریعے
حکومت کے سامنے اس کی تفصیل بتاتا ہے وہ اسے منظور کرلیتے ہیں لیکن ظفر اسے
مسترد کردیتاہے ۔ عاصم بہت برانگیختہ ہے کہ ہم طاقت کے حصول کے لیے ہمیشہ دوسروں
کے دست نگر رہنا چاہتے ہیں ۔ بہر حال وہ اپنے طور پر اس کے عملی شکل پر کام شروع کرتا ہے ۔۔ظفر کوچین نہیں آتا اور وہ جعلی مجاہدہ اور امریکی جاسوس کے
ذریعے وہ ڈرائنگ حاصل کر لیتا ہے ۔( شاید اسے اپنے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہو ) لیکن امریکی مفادات کی
کونسل اسے جلا کر راکھ کر دیتی ہے (
ناعاقبت اندیش افراد ! ) عاصم ہمت نہیں
ہارتا اور نئے سرے سے نقشہ بنانا شروع
کردیتا ہے ۔ ظفر یونیورسٹی ریکٹر کو بلا کر دھمکاتا ہے اور عاصم
کو ملاز مت سے فارغ کروا دیتا ہے۔ باقر کے
استعفیٰ کے بعد انٹیلیجنس آفیسر کے عہدے پر انسپکٹر جمیل آتش کو تعینات کر دیا جاتا ہے ۔ جبکہ ظفر اپنے
کٹھ پتلی ساحر کو اور اڈمرل شریف
باقر کو ہی یہ عہدہ دینا چاہتا تھا ۔ اس فیصلے سے یہ دونوں بری طرح چونکتے ہیں ۔
حجاب ایشو کیسے
آگے بڑھتا ہے ؟
حجاب اپنانے کی وجہ
سے انتظامیہ کی طرف سے فلزہ کے لیے بہت مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں کیونکہ
اب عمر بھی یہاں کے معاملات سے بے خبر ہے ۔ عاصم بطور استاد استنبول
یونیورسٹی میں اور
ڈاکٹر الیف بھی یہیں بطور میڈیکل
اسٹاف تعینات ہوجاتی ہے ۔ عاصم بحیثیت استاد اپنے اثرو رسوخ کو استعمال کرتا ہے کہ اس قانون کو ختم کیا جائے
لیکن سعادت گروپ اور اس کے ہم خیال ا ستاد اس
کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ سعادت فلزہ کا اسکارف کھینچنےکی کوشش کرتا ہے
جس پر اسلامسٹ بہت سخت رد عمل دیتے ہیں ۔
عمر کو معلوم ہوتا ہے ہے تو وہ سعادت کا ہاتھ توڑ دیتا ہے ۔ فلزہ بہت پریشان ہے یہاں وہ سب لوگ فلزہ کو بہت تعاون دیتے ہیں خصوصا مسز شعلہ جن سے متاثر ہوکر فلزہ نے اسکارف لینا
شروع کیا ہے ۔ اپنی تمام ساتھیوں کے ہمراہ
اس کی دلجوئی کو آتی ہیں ۔ اور ھجاب کی پابندی کے خلاف ایک دستخطی مہم شروع کرواتی ہیں جسے عوام میں بہت پذیرائی حاصل ہوتی ہے ۔ لیلیٰ فلزہ کی تصویر کے ساتھ اس مہم کے اخبارمیں
شائع کرتی ہے جس پر ظفر بہت ناراض ہوتا ہے۔
حجاب اسٹال پر حملہ ہوتا ہے اور اسی دوران زینب اور کچھ طالبات کو گرفتار
کر لیا جاتا ہے۔ ۔ فلزہ بہت بد دل ہوکر اپنے شہر واپس جانے کا پلان بنالیتی ہے ۔ عمر کو
پتہ چلتا ہے تو وہ اسے روکتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ مافیا کو خیر باد کہہ دے
گا چنانچہ وہ رک جاتی ہے ۔ چونکہ عمر
نے مافیا کی راہ میں روڑے اٹکائے لہذا قیصرعلی انتقام کے لیے فلزہ کو اغوا کر لیتا ہے اور بدلے میں بھاری
تاوان کا مطالبہ کرتا ہے ۔
سرخ انقلاب کس طرح روکا گیا ؟
نجم الدین اربکان نیشنل آڈر پارٹی کے ذریعے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ اسلامی طلبہ یونین اپنی مثبت سر گرمیوں میں مصروف ہے ۔ حجاب ایشو کو نمایاں کرنے کے لیے وہ اس موضوع پر بنی فلم پراجیکٹر کے ذریعے کا اہتمام کرتے ہیں ۔یہاں رمزی کچھ مذہبی افراد کو اس کے خلاف ابھارتا ہے جبکہ لیفٹسٹ بنک ڈکیتی کر کے اسلحہ حاصل کرنے کا پروگرام بناتے ہیں ۔ عمر کو تاوان کے لیے پیسے چاہییے تو مافیا ا ن دونوں گروپ میں رابطہ کرواتی ہے لیکن عمر اسلحہ ان کو دینے سے انکار کر دیتا ہے ۔ بہر حال ظفر اربائے رمزی اور یلدرم کے ذریعے فلزہ کو رہا کر واکے قیصر علی کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے اور عمر کو پیشکش کرتاہے کہ ہم لیفٹسٹ کے خطرے کو مل کر ختم کریں ! عمر انکار کردیتا ہے کہ سب سے بڑا خطرہ تو تم ہو ! چنانچہ سزا کے طور پر وہ عمر کوجیل بھجوا دیتا ہے اور اسے قیصر علی کے ساتھ ایک ہی وارڈ میں رکھتا ہے ۔
کامریڈ سعادت اید مرل کی ہدایت کے مطابق محلے کی سطح پر پر تشدد کار وائیاں شروع کرتا ہے ۔ اس کی زد میں آکرحسن صاحب سعادت کی گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ ان کے گھرانے پر ایک دفعہ پھر قیامت ٹوٹ پڑی ! زینب اور مصطفٰی کی شادی ہوجاتی ہے کہ اب اس گھر کو کسی مرد کا سہارا چاہیے ! عمر رہا ہوکر گھر آتا ہے توفلزہ کو منگنی کی انگوٹھی پہنا تا ہے۔
لیفٹسٹ یونیورسٹی
پر قبضہ کر کے کچھ اسلامسٹ کو یرغمال بنالیتے ہیں ۔ ایدمرل شریف عمر کو روشنی کے
ذریعے بہانہ بنواکر یونیورسٹی بلواتا ہے کہ اسے قتل کر کے فتنہ کی آگ کو
بڑھایا جاسکے لیکن روشنی عین وقت پر انکار کر دیتی ہے چنانچہ وہ اس کو بھی ختم
کرنے کا پروگرام بناتا ہے ۔ روشنی کےتحفظ کے لیے عمر اسے اپنے گھر لے جاتا ہے۔ فوج اور پولیس میں یونیورسٹی قبضہ پر تصادم ہوتا ہے اور فوج قبضہ ختم کرواتی ہے۔ کمیونسٹوں کی
اس کاروائی پر نوجوان بہت برانگیختہ ہیں جنہیں انسپکٹر کی ہدایت پر روکا جاتا ہے ۔ اسلامسٹ طلبہ کو سر ابراہیم سمجھاتے ہیں
کہ دشمن کی چال کو سمجھو کہ وہ ہمیں خون خرابہ میں ملوث کرنا چاہتے ہیں ۔ایڈمرل
روشنی کو مارنے کے لیے قیصر علی کو بھیجتا ہے جسے عمر اور اس کے گھر والے ناکام بنا دیتے ہیں ۔
بہر حا ل وہ ظفر اربائے کے اصرار پر اس کے ساتھ چلی جاتی ہے اور پھروہ اسے بھی باہر
روانہ کردیتا ہے ۔
لیلیٰ جو اب کمیونسٹوں کے اخبار میں ظفر اربائے کے ایجنٹ کے
طور پر کام کر رہی ہے ۔ ایک خفیہ میٹنگ
میں شریک ہوکر سرخ انقلاب کے منصوبے کو راز آشکارا کرتی ہے۔ چیزیں بہت الجھ کر رہ گئی ہیں ۔ایڈ مرل کا بھید
اب ظفر پر آ شکارا ہوچکا ہے۔ عمر اپنی جان
پر کھیل کر ایڈمرل سے خفیہ نقشے حاصل کرتا
ہے جہاں اسلحے دفن ہیں ۔ انسپکٹر جمیل ،
عاصم اور دیگر ساتھی رات بھر سخت محنت کے بعد
یہ اسلحہ نکال کر جمع کرتے ہیں اور
یوں اس انقلاب کو ناکام بنا دیا جاتا ہے اور مجرموں کو سزا ملتی ہے۔ اب بجائے اس کے کہ اس کارنامے پر عمر اور
انسپکٹر کی ہمت افزائی ہوتی انہیں اسلحہ
جمع کرنے کے الزام میں عین اس وقت گرفتار
کرلیا جاتا ہے جب وہ عاصم اور الیف کی منگنی میں شریک تھے۔ ملک میں
مارشل لاء لگادیا جاتا ہے۔ عمر پر غداری
کا الزام لگا کر سزا دی جاتی ہے لیکن وہ
ساتھیوں کی مدد سے فرار ہوجاتا ہے اور
ظفر اربائے اور اس کے کٹھ پتلی پولیس
آفیسر ساحر پر قاتلانہ حملہ کرتا ہے جب وہ
وزارت کا حلف لیے انقرہ روانہ ہورہے تھے۔
اختتام ہوتا ہے !
پھر ایک دم سے کئی سال بعد کا منظر سامنے آتا ہے جب ملک میں نئی حکومت قائم
ہوئی ہے جس میں اربکان ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ اپنی کابینہ
کے ساتھ سنبھال رہے ہیں ۔ مفلوج
ظفر اربائے حسرت سے ٹی وی میں یہ منا ظر دیکھ رہا ہے ۔ دوسری طرف محلے میں
بچوں کی تقریب منعقد ہورہی ہے۔ عمر کی
بہن ہادیہ، عاصم
اور الیف، زینب اور مصطفیٰ اپنے اپنے بچوں کے ساتھ شریک ہیں اور عمر بھی رہا ہوکر واپس آگیا ہے یوں خوشی دوبالا ہوگئی ۔ خوشی کی اس
تقریب میں ڈاکیہ فلزہ کی لکھی ہوئی کتاب کی افتتاحی کاپی لے کر آتا ہے ۔ عمر اس کو
دیکھتے ہوئے اس کا موضوع پوچھتا ہے تو وہ جواب دیتی ہے
"۔۔۔۔ یہ ہماری جدو جہد کی داستان ہے جو ہم نے ہر ہر
محاذ پر کی ۔۔ میری یہ تحریر اس تاریخ کا بیانیہ ہے ۔۔!"