منگل، 12 ستمبر، 2023

محبت پنکھ پکھیروں کی! آخری حصہ




محبت پنکھ پکھیروں کی !

آخری حصہ

تیمی اور عارف کی کہانی ختم ہوتی ہے تو مزید کرداروں  کے ساتھ کہانی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتی ہے۔ ظفر اربائے اپنے زوال کی طرف گھسیٹا جاتا ہے جس سے بچنے کے لیے وہ کافی سرتوڑ کوششیں کرتا ہے ۔

تیمی کے قاتلوں  اور تھامس کو ( بوجہ اپنی گرل فرینڈ کے بہکانے کے !) قتل کرنے کے بعد وہ امریکی مفادات کی کونسل  کے آگے جواب دہ ہوتا ہے  جو اسے اپنے    معاملات بہتر   بنانے کا  ایک  موقع  اور دیتی ہے  ۔ دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی اپنا دائرہ کار طلبہ کے ساتھ  ساتھ مزدوروں تک پھیلانے کا منصوبہ بناتی ہے۔ جس کا آغاز ظفر اربائے کی فیکٹری میں ہڑتال سے ہوتا ہے ۔  اور اس کا منصوبہ ایڈمرل  نام سے شناخت رکھنے والا فرد ہوتا ہے اور یہ کوئی اور نہیں ظفر کا بہت قریبی دوست  شریف ہوتا ہے .۔ہڑتال کے دوران  ایڈمرل  اسنائپرکے ذریعے  ایک  کامریڈ مزدور کو ختم کردیتا ہے لہذا فسادات  کی آگ دور تک پھیل جاتی ہے۔ ان سارے چیلنجز  کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ اپنی فیملی کو  ملک سے باہر بھجوادیتا ہے۔  ( جی ہاں ! اشرافیہ کا یہ ہی اصول ہے کہ  دوسروں کے بچے مرواؤ                اور اپنے بیوی بچے  محفوظ اور پر امن مقام پر منتقل کردو ! ) ۔ طلبہ یونین پر پابندی لگا کر دفاتر سیل کردیتا ہے اور احتجاج پر   اسلامی طلبہ کو پولیس گرفتار کرلیتی ہے ۔ دوسری طرف عمر عارف کی شہادت کے بعد غم و غصے میں ہے لیکن جب اسے  انسپکٹر جمیل  سے معلوم ہوا کہ بم کا مواد غیر ملکی تھا اور یہ چند افراد  کی دسترس میں ہے جن میں  مافیا کا اسحاق بھی ہے  تو وہ  اسحاق کے گروہ میں شامل ہوجاتا ہے کہ اس کے ذریعے ظفر تک پہنچ سکے ۔  اسحاق  بطور امتحان اسے  ایک ہدف دیتا ہے ۔  اور وہ ہدف تھا اسحاق کے ہاتھوں بیچی گئی بندوقوں کی بازیابی !  اس کی تفصیل آگے ہے ۔


قبرص تک اسلحے کی رسائی کیسے ہوئی ؟

 16 ویں قسط کا آغاز قبرص  کے مناظر سے ہوتا ہے جہاں یونانی فوجیں  قتل و  غارت گری میں مصروف ہیں ۔ وہاں  کے رہائشی اپنی جمع پونجی او ر زیورات  ایک مجاہد عاصم  کے حوالے کرتے ہیں کہ وہ ترکیہ سے اسلحہ لے کر آئے تاکہ وہ اپنی حفاظت کر سکیں ۔ وہ کشتی کے ذریعے استنبول  روانہ ہورہا تھا تو ایک خاتون کو اس کے سامنے  شہید کردیتے ہیں وہ اس بچی کو لے کو  استنبول جاتاہے ۔  وہاں پہنچ کر اس بچی کو ہسپتال لے کر جاتا ہے تو وہاں ڈاکٹر الیف سے ملاقاا ت ہوتی ہے ۔  وہ بچی ان  دونوں کے درمیان تعلق کا  ذریعہ بن جاتی ہے ۔  وہ اسے یتیم خانے میں داخل کروادیتے ہیں جہاں الیف اور اس کی بہن لیلیٰ( صحافی) نے بھی پرورش پائی تھی۔

عاصم پیشے کے لحاظ سے ایک میکینیکل انجینیر ہے ایک ذہین، قابل اور جری نوجوان جو اسلام کی محبت سے سرشار ہے ۔ موقع شناسی  اور حاضر دماغی میں ماہر ایک رحم دل  انسان !  وہ ادائیگی  کرکے   اسحاق سے اسلحہ لیتا ہے  جو اسے قبرص روانہ کرنا ہے ۔ اس کی خبر انٹیلیجنس کے ذریعے ظفر تک پہنچتی ہے  تو وہ اسحاق پر چڑھ دوڑتا ہے اور اسلحہ واپس لینے  کا حکم دیتا ہے ۔  اسحاق  عمر سے کہتا ہے کہ اسلحہ چوری ہوگیا ہے اسے  واپس لانا ہے ۔ یہ تھا عمر کا ہدف  ! عاصم اپنی جان پر کھیل کر زخمی ہونے کے باوجود  اسلحہ قبرص روانہ کردیتا ہے ۔ عمر اس کا تعاقب کرتا ہوا  انسپکڑ جمیل کے گھر پہنچتا ہے۔  وہاں وہ دونوں ایک دوسرے پر  بندوق تان لیتے ہیں تو  انسپکٹر انہیں حقیقت بتا تا ہے ۔ وہ  دونوں گلے ملتے ہیں اور ایک منصوبہ بناتے ہیں کہ  عمر پر اسحاق کا اعتبار   قائم ہوجائے۔

انٹیلی جنس آفسر  باقر  ظفر کا پالتو ہے اور اس کے ہر ناجائز کام میں  اس کے حکم کا پابند ہے ۔ اسے بے نقاب کرنے کے لیے ایک  انسپکٹر جمیل اور عاصم  ایک منصوبہ تیار کرتے ہیں ۔   عمر کے ذریعے   انہیں یہ خبر ملتی ہے کہ باقر غیر ملکی اسلحہ اسحاق   کے ہاتھ بیچے گا۔  اس موقع پر پہنچ کر  لین دین کی تصویر عاصم اپنے کیمرے سے  ریکارڈ  کر لیتا ہے ۔ یہ تصویر  باقر  کے خلاف ثبوت  کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔ اس کی اشاعت پر ظفر اسے اپنےعہدے سے  استعفیٰ دلوادیتا ہے اور اسحاق  کو بھی  ٹھکانے لگانے کی ترکیبیں  کرتا ہے ۔  اس موقع پر عمر  اسحاق  کو جھنجھوڑتاہے کہ جس کے لیے تم نے اتنے جرائم کیے وہ تمہیں یوں تباہ کر رہاہے ۔ لہذا  موقع ہے کہ تم  اس کے سیاہ کرتوت  دنیا کے سامنے لاکر وعدہ معاف گواہ بن جاؤ ! وہ کچھ پس و پیش کے بعد تیار ہوجاتا ہے ۔ بوہ پولیس اسٹیشن  میں بیان لکھوا کر اقبال جرم کے لیے استغاثہ کی طرف روانہ ہوتا ہے تو ظفر کا پالتو  قیصر علی اس کا   نشانہ  لے کر ختم کر دیتا ہے ۔ یوں ظفر پھر بچ جاتا ہے  ( رسی مزید دراز !) ۔

اسحاق مرنے سے پہلے اپنے تمام معاملات اور سرداری عمر کے حوالے کردیتا ہے ۔  اس کے لیے وہ اپنی تنظیم سے استعفٰی دیتا ہے ۔ ساتھی اس فیصلے سے بہت ناخوش ہیں ۔ اس کے علاوہ فلزہ سے بھی وہ تعلقات  جان بوجھ کر خراب  کر لیتا ہے  تاکہ اسے کوئی گزند نہ پہنچے۔ اس کے لیے وہ روشنی سے قربت ظاہر کرتا ہے ۔  روشنی جو  ظفر کے گھر سے نکل کر لیلی کے ساتھ مقیم ہے اور  اسی کے ا خبار میں فوٹو گرافی کر رہی ہے ۔ چونکہ وہ بھی ظفر سے بدلہ لینا چاہتی ہے لہذا عمر سے تعاون کرتی ہے اور ظفر کے خلاف ایڈمرل شریف کا آلہ کار بن جاتی ہے ۔کمیونسٹ طلبہ کا صدر ایک پرکلی  ایک با اصول اور مہذب کامریڈ ہے  لہذا ایڈمرل اپنے سارے فتنہ انگیز کام کا مریڈ سعادت اور اس کے ساتھیوں کے ذریعے   کرواتا ہے ۔ مافیا میں عمر کی شمولیت پر  اس کی  دادی بہت سخت رد عمل دیتی ہیں  جبکہ بہنیں اور دیگر لواحقین  بھی پریشان ہیں ۔مافیا بھی عمر کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے کیونکہ وہ ان کی بھتہ خوری اور سود خوری کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔

 عاصم نے ایک بہترین اسلحہ کا ڈیزائن تیار کیا ہے  جسے  وہ قبرص سے منگواتا ہے تو ظفر اس پر قبضہ کرلیتاہے اور اس کی تیکنک سمجھنے کےلیے انجینیر ز  کو بلواتا ہے  مگر وہ ناکام رہتے ہیں ۔ بہرحال سوانگ بھرکے عاصم اپنی ڈرائینگ حاصل کرلیتا ہے اور اربکان کے ذریعے حکومت کے سامنے اس کی تفصیل بتاتا ہے وہ اسے منظور کرلیتے ہیں لیکن  ظفر  اسے مسترد کردیتاہے ۔ عاصم بہت برانگیختہ ہے کہ ہم طاقت کے حصول کے لیے ہمیشہ دوسروں کے دست نگر رہنا چاہتے ہیں ۔ بہر حال وہ اپنے طور پر اس کے عملی شکل پر  کام شروع کرتا ہے   ۔۔ظفر کوچین نہیں  آتا اور وہ جعلی مجاہدہ اور امریکی جاسوس کے ذریعے وہ ڈرائنگ   حاصل کر لیتا ہے ۔(  شاید اسے اپنے طور پر  استعمال کرنا چاہتا ہو ) لیکن امریکی مفادات کی کونسل اسے جلا کر راکھ کر دیتی ہے  ( ناعاقبت اندیش افراد ! )  عاصم ہمت نہیں ہارتا  اور نئے سرے سے نقشہ بنانا شروع کردیتا ہے ۔  ظفر  یونیورسٹی ریکٹر کو بلا کر دھمکاتا ہے اور عاصم کو ملاز مت سے فارغ کروا دیتا ہے۔  باقر کے استعفیٰ کے بعد انٹیلیجنس آفیسر کے عہدے پر انسپکٹر جمیل  آتش کو تعینات کر دیا جاتا ہے ۔  جبکہ ظفر اپنے  کٹھ پتلی  ساحر کو اور اڈمرل  شریف  باقر کو ہی یہ عہدہ دینا چاہتا تھا ۔ اس فیصلے سے  یہ دونوں بری طرح چونکتے ہیں ۔حسن صاحب کا بیٹا خالد جوبم دھماکے میں زخمی ہوگیا تھا  وہ پڑھائی کے لیے جامعہ الازہر بھیج دیا جاتا ہے ۔

حجاب ایشو کیسے آگے بڑھتا ہے ؟

حجاب  اپنانے کی وجہ سے  انتظامیہ کی طرف سے   فلزہ  کے لیے بہت مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں کیونکہ اب عمر بھی یہاں کے معاملات سے بے خبر ہے ۔ عاصم بطور استاد استنبول یونیورسٹی  میں   اور  ڈاکٹر الیف بھی  یہیں بطور میڈیکل اسٹاف تعینات ہوجاتی ہے ۔  عاصم  بحیثیت استاد اپنے اثرو رسوخ  کو استعمال کرتا ہے کہ اس قانون کو ختم کیا جائے لیکن سعادت گروپ اور اس کے ہم خیال ا ستاد اس  کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ سعادت فلزہ کا اسکارف کھینچنےکی کوشش کرتا ہے جس پر  اسلامسٹ بہت سخت رد عمل دیتے ہیں ۔ عمر کو معلوم ہوتا ہے ہے تو وہ سعادت کا ہاتھ توڑ دیتا ہے ۔  فلزہ بہت پریشان ہے  یہاں وہ سب لوگ فلزہ کو بہت تعاون دیتے ہیں  خصوصا مسز   شعلہ جن سے متاثر ہوکر فلزہ نے اسکارف لینا شروع کیا ہے ۔ اپنی تمام ساتھیوں کے ہمراہ  اس کی دلجوئی کو آتی ہیں ۔ اور ھجاب کی پابندی کے خلاف ایک دستخطی مہم  شروع کرواتی ہیں  جسے عوام میں بہت پذیرائی حاصل ہوتی ہے ۔  لیلیٰ فلزہ کی تصویر کے ساتھ اس مہم کے اخبارمیں شائع کرتی ہے جس پر ظفر بہت ناراض ہوتا ہے۔  حجاب اسٹال پر حملہ ہوتا ہے اور اسی دوران زینب اور کچھ طالبات کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ۔ فلزہ بہت بد دل ہوکر  اپنے شہر واپس جانے کا پلان بنالیتی ہے ۔ عمر کو پتہ چلتا ہے تو وہ اسے روکتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ مافیا کو خیر باد کہہ دے گا  چنانچہ وہ رک جاتی ہے ۔   چونکہ عمر   نے مافیا کی راہ میں روڑے اٹکائے لہذا قیصرعلی    انتقام کے لیے  فلزہ کو اغوا کر لیتا ہے اور بدلے میں بھاری تاوان کا  مطالبہ کرتا ہے ۔


سرخ انقلاب کس طرح روکا گیا ؟

نجم الدین اربکان   نیشنل آڈر پارٹی  کے ذریعے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ اسلامی طلبہ یونین  اپنی مثبت سر گرمیوں میں مصروف ہے ۔ حجاب ایشو کو  نمایاں کرنے کے لیے وہ اس موضوع پر بنی فلم پراجیکٹر کے ذریعے  کا اہتمام کرتے ہیں ۔یہاں رمزی کچھ مذہبی افراد کو اس کے خلاف ابھارتا ہے جبکہ  لیفٹسٹ بنک ڈکیتی کر کے اسلحہ حاصل کرنے کا پروگرام   بناتے ہیں ۔ عمر کو تاوان کے لیے پیسے چاہییے تو مافیا ا ن دونوں  گروپ میں رابطہ کرواتی ہے لیکن عمر  اسلحہ  ان کو دینے سے انکار کر دیتا ہے ۔ بہر حال ظفر اربائے رمزی اور یلدرم کے  ذریعے فلزہ کو رہا کر واکے قیصر علی کو  ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے  اور عمر کو پیشکش کرتاہے کہ ہم لیفٹسٹ  کے خطرے کو مل کر ختم کریں ! عمر انکار کردیتا ہے کہ سب سے بڑا خطرہ تو تم ہو !   چنانچہ سزا کے طور پر  وہ عمر کوجیل  بھجوا دیتا ہے اور اسے قیصر علی کے ساتھ  ایک ہی وارڈ میں رکھتا ہے ۔

کامریڈ سعادت  اید مرل کی ہدایت کے مطابق  محلے  کی  سطح پر پر تشدد کار وائیاں شروع کرتا ہے ۔ اس کی زد میں آکرحسن صاحب سعادت کی گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ ان کے گھرانے پر ایک دفعہ پھر قیامت ٹوٹ پڑی ! زینب  اور مصطفٰی کی شادی ہوجاتی ہے کہ اب اس گھر کو کسی مرد کا سہارا چاہیے !  عمر  رہا ہوکر گھر آتا ہے توفلزہ کو منگنی کی انگوٹھی پہنا تا ہے۔

  لیفٹسٹ یونیورسٹی پر قبضہ کر کے کچھ اسلامسٹ کو یرغمال بنالیتے ہیں ۔ ایدمرل شریف عمر کو  روشنی کے  ذریعے بہانہ بنواکر یونیورسٹی بلواتا ہے کہ اسے قتل کر کے فتنہ کی آگ کو بڑھایا جاسکے لیکن روشنی عین وقت پر انکار کر دیتی ہے چنانچہ وہ اس کو بھی ختم کرنے کا پروگرام بناتا ہے ۔ روشنی کےتحفظ کے لیے عمر  اسے اپنے گھر لے جاتا ہے۔  فوج اور پولیس میں  یونیورسٹی قبضہ پر تصادم ہوتا ہے  اور فوج قبضہ ختم کرواتی ہے۔ کمیونسٹوں کی اس  کاروائی  پر نوجوان بہت برانگیختہ ہیں  جنہیں انسپکٹر کی ہدایت پر  روکا جاتا ہے ۔ اسلامسٹ طلبہ کو سر ابراہیم  سمجھاتے ہیں   کہ دشمن کی چال کو سمجھو کہ وہ ہمیں خون خرابہ میں ملوث کرنا چاہتے ہیں ۔ایڈمرل  روشنی کو مارنے کے لیے قیصر علی  کو بھیجتا ہے جسے  عمر اور اس کے گھر والے ناکام بنا دیتے ہیں ۔ بہر حا ل وہ ظفر اربائے کے  اصرار پر  اس کے ساتھ چلی جاتی ہے اور پھروہ اسے بھی باہر روانہ کردیتا ہے ۔   

لیلیٰ جو اب کمیونسٹوں کے اخبار میں ظفر اربائے کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہی ہے ۔ ایک خفیہ میٹنگ  میں شریک ہوکر سرخ انقلاب کے منصوبے کو راز آشکارا کرتی ہے۔  چیزیں بہت الجھ کر رہ گئی ہیں ۔ایڈ مرل کا بھید اب ظفر پر آ  شکارا ہوچکا ہے۔ عمر اپنی جان پر کھیل  کر ایڈمرل سے خفیہ نقشے حاصل کرتا ہے جہاں اسلحے دفن ہیں ۔ انسپکٹر جمیل  ، عاصم اور دیگر ساتھی رات بھر سخت محنت کے بعد  یہ اسلحہ  نکال کر جمع کرتے ہیں اور یوں اس انقلاب کو ناکام بنا دیا جاتا ہے اور مجرموں کو سزا ملتی ہے۔  اب بجائے اس کے کہ اس کارنامے پر عمر اور انسپکٹر  کی ہمت افزائی ہوتی انہیں اسلحہ جمع کرنے کے  الزام میں عین اس وقت گرفتار کرلیا جاتا ہے  جب وہ  عاصم اور الیف کی منگنی میں شریک تھے۔ ملک میں مارشل لاء لگادیا جاتا ہے۔  عمر پر غداری کا الزام لگا کر سزا دی جاتی ہے  لیکن  وہ  ساتھیوں کی مدد سے فرار ہوجاتا ہے  اور ظفر اربائے  اور اس کے کٹھ پتلی پولیس آفیسر  ساحر پر قاتلانہ حملہ کرتا ہے جب وہ وزارت کا حلف لیے انقرہ روانہ ہورہے تھے۔

اختتام ہوتا ہے !

 

پھر ایک دم سے کئی سال بعد کا  منظر سامنے آتا ہے جب ملک میں نئی حکومت قائم ہوئی ہے جس میں اربکان ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ   اپنی کابینہ کے ساتھ  سنبھال رہے ہیں ۔  مفلوج  ظفر اربائے حسرت سے ٹی وی میں یہ منا ظر دیکھ رہا ہے ۔ دوسری طرف محلے میں بچوں کی تقریب منعقد  ہورہی ہے۔ عمر کی بہن  ہادیہ،   عاصم اور الیف، زینب اور  مصطفیٰ  اپنے اپنے بچوں کے ساتھ شریک ہیں اور عمر  بھی رہا ہوکر واپس  آگیا ہے یوں خوشی دوبالا ہوگئی ۔ خوشی کی اس تقریب میں ڈاکیہ فلزہ کی لکھی ہوئی کتاب کی افتتاحی کاپی لے کر آتا ہے ۔ عمر اس کو دیکھتے ہوئے اس کا موضوع پوچھتا ہے تو وہ جواب دیتی ہے

"۔۔۔۔ یہ ہماری جدو جہد کی داستان ہے جو ہم نے ہر ہر محاذ پر کی ۔۔  میری یہ تحریر  اس تاریخ کا بیانیہ ہے ۔۔!"

 

 

اتوار، 3 ستمبر، 2023

محبت پنکھ پکھیروں کی! سیزن 2

 

 !محبت پنکھ پکھیروں  کی

 

اس ڈرامے کے دوسرےسیزن میں  بہت سے نئے  کردار اور معاملات سامنے آتے ہیں  جبکہ کچھ پرانے کردار  بھی اپنی روش بدلتے نظر آتے ہیں لیکن  پہلے سیزن کے آخری  منظر سے ہی   دوسرے سیزن کا آغاز ہوتا ہے ۔

جی ہاں ! ظفر اربائے کو طارق کی گولی لگی اور وہ زخمی ہوگیا جبکہ طارق مارا گیا۔  طارق کی لاش تو مراد                         ( ظفر کا ڈرائیور ) نے ٹھکانے لگا دی  جبکہ  زخمی ظفر کو تیمی  اور عارف  ہسپتال لے جاتے ہیں ۔ خون کی ضرورت پڑنے پر عارف خون بھی دیتا ہے لیکن صحت یاب ہونے کے بعد   وہ عارف کو اپنی بیٹی سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے  جس پر تیمی غصے کا اظہار کرتی ہے ۔اسپتال کے ریکارڈ میں سے  ظفر  کا نام نکال دیا جاتا ہے بلکہ پولیس بھی کوئی مقدمہ درج نہیں کرتی کیونکہ اس طرح طارق کے قتل کا معاملہ ہی اٹھتا !  ( جبکہ یہ ماروائے عدالت  قتل تھا )س پر عارف چو کنا ہوکر انسپکٹر  آتش کو ساری صورت حال سے آگاہ کرتا ہے  ۔ وہ معاملے کی سن گن پاکر تفتیش کرتے ہیں لیکن  کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا چنانچہ وہ عارف کو بھی اس معاملے سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں ۔ دوسری طرف کمیونسٹ پارٹی طارق کی گمشدگی کا الزام اسلامسٹ پر رکھتی ہے ۔

اس سیزن کے آغاز میں عمر کی دادی کا کردار   شروع  ہوتا ہے  ۔ یہ بوڑھی خاتون بڑے رعب ودبدبے والی ہیں اور پورے محلے کی اماں اور دکھ سکھ میں  شریک ہوتی ہیں ۔  دوسرا کردار فلزہ نامی  طالبہ کا ہے جو دوسرے شہر سے پڑھنے آئی ہوئی ہے اور ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے ۔وہ  شعبہ لٹریچر کے تیسرے سال میں ہے ۔ اس کی اعلیٰ کارکردگی کے پیش نظر اس کےاستاد اسے معاون استاد بننے کی آفر کرتے ہیں جسے وہ بخوشی منظور کرلیتی ہے لیکن جب وہ سر پر اسکارف لینے لگتی ہے تو وہ اسے کلاس سے نکال دیتے ہیں  ( اس وقت خواتین کو سر ڈھک کر اداروں میں آنے پر قانونا ممانعت تھی)۔ جب یہ بات عمر کو معلوم ہوتی ہے تو وہ اس ٹیچر کی ٹھکائی کرکے  فلزہ کوکلاس میں   داخل کرواتا ہے ۔ یہ بات فلزہ کو پسند نہیں آتی  کہ بقول اس کے  میں تشدد پر یقین نہیں رکھتی ۔۔لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے کوپسند کرنے لگتے ہیں ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دوران اہم قومی معاملہ سامنے آتا ہے جب یونان قبرص پر  حملہ کرکے  25 فوجیوں کو شہید کر دیتا ہے ۔ طلبہ یونین  اس پر سخت رد عمل دیتی ہے اور  عارف کی  تجویز  پر  قبرص  کے  دفاع کی خاطر  رضاکارانہ  افراد  کی رجسٹریشن کے لیے اسٹال لگاتی ہے جہاں جوق درجوق  نوجوان اپنے نام درج کرارہے ہوتے ہیں  ۔ اس اسٹال پر  آئیڈیلسٹ بھی  بھرپور  حصہ لے رہے ہوتےہیں  عمر کا کہنا ہے کہ ہم نے اذان کی حفاظت کی اور اب قبرص  کا دفاع کریں گے  جبکہ سرخے  قبرص کے بجائے طارق کی گمشدگی کی مہم چلا نے کا پلان کرتے ہیں

ظفر گروپ کا کہنا ہے کہ ناٹو ممبر ہونے کی وجہ سے ہم فوج نہیں بھیج سکتے ۔ اس موقع پر  امریکی تھامس سے ظفرکی ملاقات ہوتی ہے ۔ ظفر کا یہ رویہ سامنے آتا ہے کہ امریکی سے بات کرتے وقت باچھیں کھلی ہوتی  ہیں  جبکہ اپنے ہم وطنوں اور زیر دست افراد سے تکبر اور خشونت سے بات ہوتی ہے ۔  تھامس  خدشہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ طلبہ پارٹیاں قبرص کے معاملے پر لوگوں کو ابھاریں گی اور اس قومی معاملے پر کہیں دائیں اور بائیں والے متحد اور یکسو نہ ہوجائیں ! لیکن ظفر اس کا  توڑ تیار کرتا ہے

 آگ لگانے اور آگ بجھانے کے لیے  مذہبی مبلغین کو استعمال  کیا جاتا ہے !



فتنہ کی آگ کو  پھیلانا    اور جہاد کی آواز کو خاموش کروانا

''۔۔۔اگر طاقت نہیں، اسلحہ نہیں تو قبرص کا خیال چھوڑ دو. ! طاقتور کا ساتھ دو..."                                     . فتحی مبلغ کہتا ہے

"۔۔۔طلبہ لڑائی الگ بات ہے لیکن حکومت کے خلاف کارروائی کرنا حماقت ہے.. میڈیا، پولیس فوج کے خلاف نہیں جانا ورنہ ہمیں بھی قبرص بنادیں گے. "                                      رمزی  خالد کو ورغلاتا ہے ۔

  یہاں پر حسن صاحب کا بیٹا  خالد پرابلم چائلڈ بن کر سامنے آتاہے ۔ ہوا یوں کہ وہ اور اسکے دوست ایک  کمیونسٹ لڑکے کی پٹائی کر رہے ہوتے ہیں  ت ووہ بھاگتا ہوا  یونین بلڈنگ کے اندر چلا جا تا ہے ۔ مصطفیٰ اس کو پناہ دیتا ہے جس پر خالدبہت سخت ناراض ہوتا ہے  ۔ رمزی  اس کو مزیدبھڑ کاتا ہے۔  اس لڑکے کو بچاتے ہوئے مصطفیٰ خود زخمی ہوجاتا ہے ۔ پھر وہ لڑکا اپنے ساتھیوں کے ساتھ  مل کر خالد کو پیٹ ڈالتا ہے ۔ گھر والوں کے استفسار پر ان پر ہی پلٹ پڑ تا ہے ۔ مصطفیٰ  اور زینب کو برا بھلا کہتا ہے ۔ماں اس کی حمایت کرتی ہے جبکہ باپ  رویہ درست کرنے کو کہتے ہیں  تو  جوابا  کہتا ہے کہ آپ کو میری کیا پرواہ ؟ آپ تو بس عارف کے لیے ہلکان ہوتے ہیں ۔۔ گھر سے  لڑ جھگڑ کر   رمزی کے ٹھکانے پر چلا جاتا ہے جو  اسے گھر والوں سے برگشتہ کرتا  ہے ۔ عمر کی چھوٹی بہن شاکرہ جو خالد کی بچپن کی ساتھی اور پسندیدہ ہے ۔ ان سب پر بہت دل گرفتہ ہے ! 

امداد روانگی برائے قبرص

قبرص کی  حمایت اور مدد کے لیے عوای رائے عامہ موجو  د ہے لیکن حکومتی ادارے اس کے خلاف ہیں میجر  امین ( بارش)                    قبرص کے لیے اسلحہ   لے کر روانہ ہوتے ہیں مگر انٹیلیجنس افسر کی اطلاع پر انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے  ۔ ان کی مدد کے لیے سارجنٹ خالد جاتا ہے اور کسی نہ کسی طرح ان سے جیل میں ملاقات کرلیتا ہے وہ اسے ایک خط بنام انسپکٹر جمیل آتش دیتے ہیں ۔ وہ  یہ خط ان تک پہنچاتا ہے جس کے مطابق میجر امین سے  ایک   حلفیہ  بیان  پر دستخط  لینے کے لیے تشدد ہورہا ہے کہ وہ یہ اسلحہ عمر تک پہنچانا چاہتا ہے ۔ ( ظاہر ہے یہ  عمر کو سزا دلوانے کا ظفر کا پلان ہے  !) ۔میجر امین  خالد کو  ایک تعویز دیتے ہیں جس میں مجاہدین کی فہرست ہوتی ہے ۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے ایجنسیاں انسپکٹر خالد کی تلاش میں رہتی ہیں ۔ اس کے گھر والوں پر بھی تشدد کرتی ہیں ۔ میجر امین اور خالد اپنی جان قربان کردیتےہیں لیکن فہرست ان تک نہیں پہنچنے دیتے ہیں ۔  ایجنسیاں اسلحہ قبضے میں لے کر عمر کی گرفتاری کا  منصوبہ تیار کر لیتی ہیں ۔

قبرص کے لیے لگائے گئے اسٹال پر  حملہ ہوتا ہے جس میں عمر کا ساتھی محمد شہید ہوجاتا ہے۔



تیمی ریستوران میں   عارف کا انتظار کر رہی ہوتی ہے تو ریڈیو  پر حملے کی خبر نشر ہوتی ہے ۔ وہ بھاگ کر یونیورسٹی پہنچتی ہے  اور قبرص کے لیے رضاکاروں  کی فہرست  میں سب سے اوپر  عارف کا نام دیکھ کر پوچھتی ہے :

 '' ۔۔ اگر جنگ ہوگئی تو کیا تم چلے جاؤ گے ؟ ۔۔"

 تو عارف  تباہ حال اسٹال اور محمد کی لاش کی طرف اشارہ  کر کے کہتا ہے کہ

 "۔۔۔۔۔ کیا ہم پہلےہی حالت جنگ میں نہیں  ہیں۔۔۔"  اور وہ افسردہ ہوجاتی ہے ۔

  ظفر  کی  ہدایت پر یلدرم  چھپ کر عارف کو گولی مارنے لگتا  ہے لیکن تیمی کے سامنے آجانے سے  نشانہ چوک جاتاہے۔ طلبہ یونین اس حملے کے خلاف پریس کانفرنس کرتی ہے

 ادھر   عمر کو گرفتار کرنے کے لیے   پولیس اور فوج کے دستے روانہ ہورہےہیں ۔ فلزہ عمر کے گھر اس کی  خیریت کے لیے جاتی ہے۔ وہاں زینب، عمر   اور اسکی دادی اور بہنوں کے ساتھ ایک  خوشگوار  ماحول میں بات ہورہی ہوتی ہے ۔ اتنے میں  انسپکٹر  جمیل  عمر کی گرفتاری کی خبر لیک کرتےہوئے اس کو فرار ہونے کا  مشورہ دیتے ہیں ۔ پہلے وہ انکار کرتا ہے لیکن بہنوں اور دادی کی التجا  پر سوچ میں پڑ جاتاہے ۔ فلزہ بھی جانے کا اشارہ دیتی ہے۔  دادی کہتی ہیں

  ' ۔۔۔۔ جب بھیڑیا زخمی  ہوتا ہے تو زخم بھرنے  تک ایک جگہ ٹھہر جاتا ہے ۔۔تم بھی یہ ہی  کروگے ۔۔۔!"

ادھر پولیس اور فوج کے آگے پورا محلہ رکاوٹ بن کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ اور وہ  انسپکٹر جمیل کے ساتھ چھت کے ذریعے چلاجاتا ہے ۔

 اپنے مشن کی ناکامی پر ظفر بہت برانگیختہ ہے ۔  وہ صحافی لیلی ٰ کو  خبر کا پلندہ دیتا ہے جس میں اسلحے کی عمر کے حوالے سے خبر ہوتی ہے ۔ لیلیٰ اس پر سوال اٹھاتی ہے کہ  اسلحہ تو محمد کی شہادت سے قبل پکڑا گیا ہے تو اس میں  عمر کا انتقامی اقدام کیوں ؟ بہر حال وہ چونکہ ظفر کے تابع ہے  اس لیے وہ من و عن  رپورٹ شائع کر دیتی ہے (میڈیا کی بد دیانتی !)                                                                      عمر کی بڑی سی تصویر کے ساتھ یہ پورٹ دیکھ کر  صدر ابراہیم  بہت سخت غصہ ہو کر کہتے ہیں :

"۔۔۔۔پریس کانفرنس کی کوئی خبر نہیں البتہ ایک الزام کی سرخی بنادی. بے ایمان میڈیا۔۔۔۔"                 اور اخبار کی کاپیاں جلاتے ہیں ۔

 عمر چونکہ مفرور ہے لہذا اس خبر کی اشاعت اس کے لیے سخت مشکل پیدا کردیتی ۔ وہ پولیس  سے بچنے کے لیے قبرستان میں پناہ لیتا ہے ۔ مافیا کا آدمی اسحق ٰ  اسے اپنے ٹھکانے پر لے جاتا ہے ۔ اسحاق بھی ظفر  کے  حلقہ  اثر میں ہے اور  عمر سے کہتا ہے کہ تمہارے والد اور میں دوست اور ساتھی تھے۔ اس نے بعد میں شادی اور اولاد کے بعد مجھ سے کنا رہ کرلیااور دکان کھول لی۔  

۔۔۔۔جرم بے گناہی پر انتقام کی چمک میں تمہاری آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں ۔۔۔" اسے اپنے ساتھ شامل کرنے پر اصرار کرتا ہے جس کے  جواب میں   عمر کہتا ہے

"۔۔۔میں بدمعاش نہیں  اور میری  آنکھوں میں جو چمک ہے وہ شہادت کی تڑپ  ہے  اپنے وطن کے لیے ۔۔۔"

  عمر کے فرار کے بعد ظفر یلدرم کو آئیڈلیسٹ پارٹی کا اختیار سنبھالنےکا مشورہ دیتےہیں  لیکن اس پر عمر کے ساتھیوں کا  احتجاج  سا  منے آتا ہے

طارق کے قتل کے الزام میں سرخے ظفر کو اغوا کر لیتے ہیں. اور وہ کہتا ہے کہ

 "۔۔۔۔۔ تم. لوگ طارق جو نہیں جانتے؟؟

میں جسے جرم کہوں وہ جرم ہے اور جسے نہ کہوں وہ نہیں ہے۔۔۔"  "۔۔۔

ایک ایڈمرل  ظفر کو رہا کروالیتا ہے۔

  باپ اور بیٹوں کی کہانی !

 طارق  موت  سے  چند لمحے قبل یہ جملہ کہتا ہے  !

            " ۔۔۔ تم بھی سنو عارف  ! یہ دو باپ بیٹوں کی کہا نی ہے ۔۔۔"

 اس نے  لیلیٰ  کے لیے جو   فائل  چھوڑیں   ان میں  عارف کے باپ کے قتل کی رپورٹ ہوتی ہے ۔ یہ فائل و ہ عارف کو دیتی ہے ۔ اس میں    اس کے باپ کے قاتل کا نام ہوتاہے ۔  اس فائل  پر وہ انسپکٹر جمیل اور اپنے پھوپھا دونوں سے بات کرتا ہے اور دونوں اسے خاموش رہنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اس کو مرنے سے پہلے  کی گئی طارق کی  ادھوری باتیں بھی یاد  آتی ہیں ۔ بہر حال اسے اپنے باپ کے قاتل کا پتہ چل جاتا ہے  اور وہ کوئی اور نہیں ظفر ہوتا ہے ۔(  ظفر کویہ بات     عارف کی تحقیقات  کرتے ہوئے  پہلے ہی معلوم ہوگئی تھی ۔ )

 عار ف نےاپنے باپ کے قاتل کو کیسے پہچانا ؟

 اسما ء  خاتون عارف کو اپنے بیٹے کبلائی کی بابت بتاتی ہیں  ۔انہیں خدشہ ہے کہ   کوئی اس کو تکلیف دینا چاہتاہے ۔ انہوں نے عارف سے کبلائی کےسلسلے میں مدد مانگی ۔ عارف کچھ پس وپیش کے بعد راضی ہوجاتا ہے  ۔ اسما نے انکشاف کیا کہ کبلائی نے   جنون میں میری بہن کے گھر آگ لگادی تھی جس میں میری بہن ، بہنوئی ( روشنی کے والدین )  ختم ہوگئے تھے۔ یہ گفتگو روشنی سن لیتی ہے۔ روشنی   پہلے ہی طارق کے قتل پر افسردہ ہے اس پر سخت غصے میں آکر پولیس کو کبلائی کے بارے میں رپورٹ کرتی ہے۔   پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی عارف اسماء کے ساتھ مل  کر کبلائی کو نکال  لیتا ہے اور یونین بلڈنگ میں مصطفیٰ کی نگرانی میں چھوڑ دیتا ہے۔   راستے میں  مسجد سے اذان کی آواز پر کبلائی   دورے  کی کیفیت میں  آتا ہے  جس پر عارف کو حیرت ہوتی ہے ۔  کبلائی  مصوری بہت اچھی کرتا ہے ۔ تو  مصطفیٰ کے زیر نگرانی وہ اس منظر کی اسکیچنگ کرتا ہے جب عارف کے باپ کو شہید کیا جارہا ہوتا ہے اور اس منظر میں ننھاعارف بھی ہوتا ہے ۔  اس پر عارف  کبلائی سے پوچھ گچھ کرتا ہے تو  وہ بار بار یہ جملہ دہراتا ہے

 "۔۔۔۔ اس کو مت ماریں ! ان کا بیٹا  بھی ہے ۔۔۔" اس کے ہسٹیریائ جملے عارف کو بہت کچھ سمجھا دیتے ہیں ۔ اورکبلائی کے جنون کی وجہ بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ تیمی اور روشنی بھی اپنے اپنے طور پر  کبلائی کی موجودگی کی جگہ جان لیتی ہیں ۔ تیمی پہلے تو   بھائی سے لاعلم رکھنے پر ماں سے غصہ ہوتی ہے لیکن پھر بھائی کو گھر لے جاتی ہے ۔ اس کی جراءت سے اسما کو بھی ہمت ملتی ہے  لیکن  اسے  دیکھ کر روشنی گھر سے چلی جاتی ہے ۔ ظفر  کمیونسٹوں سے رہا ہوکر گھر آتا ہے تو اس سارے واقعے پر غصہ کا  اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن  شریف   اس کا  پرانا  خاندانی دوست اور کولیگ اسے روک دیتا ہے ۔  کرنل شریف کا پر اسرار کردار  کہانی میں  آگے  سامنے آتا ہے ۔

 حسن صاحب کے گھر پر قیامت ٹوٹ پڑی :

حسن صاحب اپنی بیگم کی  پرواہ کیے بغیر  زینب کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئےمصطفٰی سے  منگنی کی بات طے کرلیتے ہیں ۔  اس دفعہ سادگی سے ہورہی ہے ۔ خالد شرکت سے انکار کر دیتا ہے جس پر عمرکی دادی کہتی ہیں

  میرا عمر تو  بھاگنے پر مجبورہے  لیکن خالد کو کیا ہوا ۔۔۔۔؟ منگنی کے موقع پر مبیرہ بیگم مصطفیٰ کو سامان کی فہرست دیتی ہیں  جو  شادی کےلیے اسے مہیا کرنی ہیں ۔  وہ وعدہ کرلیتا ہے ۔ اس کے لیے اس کو سخت محنت مزدوری کرنی پڑ رہی ہے  تو اس کی مدد کے لیے  زینب سلائی کا کام مصطفٰی کی ممانعت    کے باوجود  کرنے لگتی جس پر وہ ناراض ہوجاتا ہے  لیکن پھر ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ  اسے اپنا غصہ بھول جاتا ہے ۔

عارف  یہ جان لیتا ہے کہ ظفر ہی اس کے باپ کا قاتل ہے۔ توانتقام کی آگ  بھڑک اٹھتی ہے ۔ یہ بات وہ عمر  کو بتاتا ہےا ور وہ دونوں پستول لے کر  ظفر تک پہنچ جاتے ہیں لیکن عین اسی وقت تیمی سامنے آجاتی ہے اور وہ دونوں رک جاتے ہیں ۔ عارف نے تیمی سے کترانا شروع کردیا ہے  جبکہ وہ یہ جاننے کے لیے بے چین ہے کہ عارف نے اس کے باپ پر پستول کیوں اٹھا ئی ؟ ظفر  اسے اپنے ساتھی کے قتل کی وجہ بتاتاہے لیکن وہ یقین نہیں کرتی ۔

 رمزی کے ذریعے خالد کو کمیونسٹوں کے کیفے میں پٹرل بم پھینکنے کا کام دیا جا تا ہے ۔  وہ دباؤ میں آکر کر لیتا  ہے لیکن بہت پریشان ہے ۔  طلبہ یونین نے قبرص پر کانفرنس کا اہتمام کیا ہے ۔ اس میں نجم الدین اربکان  بھی شریک ہوں گے۔  اس  کانفرنس میں ظفر بم رکھوانے کا  بھیانک پلان بناتا ہے ۔ اتفاق سے یہ تیمی سن لیتی ہے اور وہ وہاں پہنچ کر رکوانے کی کوشش کرتی ہے ۔ 

اگرچہ  اس کانفرنس  کا آئیڈیا عارف کا  ہی تھا لیکن وہ اتنا آزردہ ہے کہ اس میں شرکت کے بجائے گھڑی کی دکان میں بیٹھا ہے ۔ رمزی یہ دیکھ کر کہ عارف اس میں شریک نہیں ہے عارف کو  بہانہ بنوا کر فون پر بلوا لیتا ہے ۔ تیمی وہاں پہنچ کر بم کی اطلاع  دیتی ہے جس پر سب عمارت سے باہر آجاتے ہیں  جبکہ خالد ایک کمرے میں قید ہے ۔ عارف  اس کی تلاش میں اندرجاتا ہے  اور بم دیکھ کر خالد کو جلدی سے باہر نکال  دیتا ہے ۔ اس اثنا ء میں رمزی بم کا دھماکہ کر دیتا ہے ۔  خالد اور عارف  شدید زخمی  ہوتے ہیں   اور عارف شہید ہوجاتا ہے ۔ تیمی نے چونکہ خود اپنے کانوں سے  بم رکھنے کی پلاننگ  سنی تھی ۔ اپنے باپ سے نفرت اور انتقام پر اتر آتی ہے اور بالآ خر ایک ایسی  حرکت کرتی ہے کہ  اسرائیلی سفیر کے گارڈ ز اس کوگولیاں مار دیتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں اس ڈرامہ کا آدھا حصہ  ختم ہوتا ہے ۔ عارف اور تیمی کی کہانی انجام کو پہنچی لیکن کچھ نئے کرداروں کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے

 

ہفتہ، 26 اگست، 2023

محبت پنکھ پکھیروں کی !

 

 محبت پنکھ پکھیروں کی!


غباروں اور پھولوں سے سجی منی بس   ننھے بچوں کی  خوش کن آوازوں کے ساتھ ایوب مسجد کی طرف رواں دواں ہے جہاں   بچوں کی تقریب منعقد ہونی ہے ۔ اس قافلے میں عمر، عارف  اور مصطفٰی کے ساتھ حسن صاحب بھی محلے کے بچوں کے ساتھ  ہیں ۔ مسجد کے قریب پہنچتے ہیں تو ایک ناگہانی  ان کی منتظر ہوتی ہے

" ۔۔۔ امریکی قونصلر کی گاڑی پانچ منٹ میں یہاں پہنچنے والی ہے ۔۔ سب تیار ہیں ؟  "            طارق نے مظاہرین کو ہدایات دیں

" ماسک پہن لیں ۔ اور پٹرول بم اٹھالیں ۔۔۔ "          یہ  ایک احتجاجی مظاہرے کا منظر ہے جو کمیونسٹ  طلبہ  امریکی کونسلر کی آمد پر کر رہے تھے ۔ بچوں کی حفاظت کے پیش نظر انہیں عمارت کے اندر لے جاتے ہیں 

 امریکی قونصلر کی گاڑی پر پٹرول بم سے حملہ  اور نعرے :

امریکہ مردہ باد!

امپیریلزم مردہ باد !  

انکل سام خوف سے تھر تھر کانپتے ہوئے

" تیمی   ! واپس چلو۔ پولیس آرہی ہے ۔۔! "  طارق خبردار کرتا ہے لیکن وہ جوش  میں  گاڑی  پر چڑھ جاتی ہے ۔ عارف اس کو اتارنے کی کوشش کرتاہے  تو تیمی کے چہرے کا ماسک  اتر جاتا ہے اور وہ ایک لڑکی کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔

گھبرائیں نہیں یہ منظر ہمارے ملک کا نہیں ہے.... یہ تو ترکی ڈرامے

https://ardirilisertugrul.net/series/sevda-kusun-kanadinda-series - (On the Wings of Love) 

کا ابتدائی منظر ہے


... 

یہ ایک سچی کہانی کی ڈرامائی تشکیل ہے اور 1968 سے 1974 ء  کے  درمیان  وقوع پذیر سیاسی  کشمکش ، واقعات  اور شورشوں  پر مبنی  ہے.۔

یہ  محض ایک محبت نامہ نہیں ہے بلکہ قانون کے نام پر انصاف کے قتل کی کہانی ہے. اس میں قتل و غارت گری بھی ہے اور لطیف جذبات سے مزین  احساسات بھی! اس میں تاریخ بھی اور کشمکش کی داستان بھی! ... 

 1928 ء سے 1950ء تک ترکی میں عربی اذان اور حرف تہجی پڑھانے پر پابندی عائد تھی۔ اس پر احتجاج میں کئی مسلمانوں نے شہادت کا جام پیا۔یہ اسی کی ایک کہانی ہے  ۔عربی میں اذان دینے پر ایک بچے کے سامنے اس کے باپ اور دادا کو ایک فوجی افسر شہید کردیتا ہے... تو یہ ننھا بچہ اپنے دادا کی گھڑی افسر کے منہ پر   مار دیتا ہے  جس کا زخم  اس کے ماتھے پر بن جاتا ہے ا(ذان کی آواز پر  ماتھے کے اس نشان پر  افسر کا ہاتھ چلاجاتا ہے )



بیس سال بعد وہ ننھا بچہ یونیورسٹی کا طالب علم بنتا ہے تو  اس فوجی افسر کی بیٹی اس کی ہم جماعت ہوتی ہے.. یہاں سے الفت کی کہانی  شروع ہوتی ہے جو بالآخر حسرت پر ختم ہوتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ترکی کا  یہ ڈرامہ     نیادی طور پر تین ایشوز کا احاطہ کرتا ہے

٭عربی میں اذان پر پابندی کا قانون

٭حجاب پر پابندی کا قانون

٭قبرص کی فوجی امداد

 حالات:

 اس وقت ترکی مکمل سیکولر معاشرہ تھا جہاں کہیں کہیں  روایتی مذہبی اور ثقافتی رنگ بھی جھلکتے تھے۔  علاقہ استنبول کا ہے جہاں یہ واقعات پیش آئے ۔  اس کی کڑیاں بیس سال پرانے واقعات سے ملتی ہیں ۔ یہ در اصل کسی بھی ایسے معاشرے کی کہانی ہے جہاں قوانین کے نام پر لوگوں کا استحصال ہوتا ہے اور وہ انصاف سے محروم رہتے ہیں۔

گھرانے  اور کردار:

حسن صاحب کا   گھرانہ ان کی بیگم مبیرہ ،  بڑی بیٹی زینب ، بیٹے خالد اور چھوٹی بیٹی صالحہ پر مشتمل ہے ۔ صالحہ آٹزم کا شکار ہے  اس کے علاوہ عارف مبیرہ کے شہید بھائی کا بیٹا ہے۔

عمر کا گھرانا   دو بہنوں اور ان کی دادی پر مشتمل ہے ۔ یہ دونوں گھرانے آپس میں پڑوسی ہیں  جن کا تعلق اوسط درجے کے گھرانے سے ہے ۔  حسن صاحب اپنے آبائی پیشے گھڑی ساز ی سے منسلک ہیں  جبکہ عمر کے  خاندان کا گزر بسر ان کی دکان پر ہے ۔ عمر اور عارف بچپن کے دوست اور پڑوسی ہیں ۔ باوجود اس کے  کہ وہ  مختلف مزاج اور نظریات رکھتے ہیں  یک جان و دو قالب                             کے مترادف ہیں ۔  عارف جس نے ایک یتیم کی حیثیت سے  اپنی پھپھی  کے  گھر میں  پرورش پائی ہے ۔ اپنے پھوپھا کے زیر سایہ  تعلیم و تربیت  حاصل کر رہا ہے ۔ اس نے گھڑی سازی کا ہنر بھی سیکھا ہوا ہے اور وہ مدرسے کی تعلیم ختم کر کے اب   یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں داخلے کا خواہاں ہے  تاکہ وہ اپنے والد اور دادا کے قانون کے نام پر  قتل  کا انصاف  حاصل کرسکے۔ متحمل  اور معتدل مزاج  سنجیدہ عارف  نہ صرف کراٹے کا ماہرہے بلکہ  ادب  اور شاعری سے بھی  دلچسپی  رکھتا ہے۔  جبکہ عمر ایک مشتعل مزاج ، جذباتی، قوم کے لیے فریفتہ  نوجوان  جو کسی حد تک تشدد کا بھی قائل ہے  لیکن اس کے باوجود  اس کی حس مزاح بھی بہت اچھی ہے ۔

ظفر اربائے  اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہے  جس کا  گھرانا  ان کی بیوی اسما، بیٹی تیمی  اور اسما کی یتیم بھانجی  روشنی پر مشتمل ہے ۔ اس کے علاوہ ان کا ایک  ذہنی کمزور بیٹا کبلائی بھی  دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ایک نرسنگ ہوم میں رہتا  ہے اور ظفر اپنی  خاتون دوست کے ساتھ الگ گھر میں رہتا ہے ۔ کرنل ظفر   ایک سابق ناٹو کا سابق رکن  اور اعلیٰ فوجی افسر ہے. مقتدرہ سے تعلق رکھنے والا یہ فرد  امریکی مفادات کا اسیر اورجس کا دعویٰ  ہے کہ استنبول کیا ترکی کا ہر ادارہ  اور  تنظیم اس کے حکم کے تابع ہے   ۔ا س کے بقول ترکی میں  وقوع پذیر کسی بھی واقعے سے وہ نہ صرف آگہی رکھتا ہے بلکہ ذمہ دار بھی ہے ( وہی فرعونی کردار)۔بظاہر نفیس اور مہذب نظر آنے والا یہ شخص  وطن کی خدمت کی آڑ میں انارکی  پھیلانے کے امریکی ایجنڈے پر مامور ہے۔ گورنر ہوں یا میڈیا مالکان ، پولیس ہو یاانٹیلیجنس ! ۔۔اس کے  ماتحت ہیں ۔۔۔ اس کی مرضی کے بغیر پرندہ پر نہیں مار سکتا !

ڈرامے کی ابتدا میں استنبول یونیورسٹی کا ماحول دکھایا گیا ہے جہاں دائیں اور بائیں بازو کی دو جماعتیں ہیں جبکہ  طلبہ  یونین جو فکری طور پر حسن البنا اور مولانا مودودی سے متاثر ہے، نجم الدین اربکان کی حمایت یافتہ ہے۔یہ تینوں اپنی اپنی  غیر نصابی سرگرمیوں میں  مصروف رہتی ہیں ۔   

بائیں با زو کی طلبہ تنظیم  جو روسی نظریے کی پشت بان ہے اپنے آ پ کو انقلابی کہتی ہے اس کا نگران  پرکلی ، جبکہ دائیں بازو کی تنظیم   مثالی  پارٹی کہلاتی ہے اس  کا سربراہ عمر ہے اور  طلبہ یونین  ( اسلامی جمیعت طلبہ  سمجھ لیں ) کے سر براہ ابراہیم ہیں ۔  تیمی اور روشنی لیفٹسٹ پارٹی میں ہیں ۔ جبکہ  عارف، زینب ، مصطفیٰ ، سلمان ، حیاتی  وغیرہ    اسلامسٹ کے ساتھ ہیں ۔ ۔ ظفر اربائے نے تینوں پارٹیوں میں اپنے گماشتے رکھے ہوئےہیں ۔ سرخوں میں طارق  ، مثالی میں  یلدرم اور طلبہ  یونین میں  رمزی نام کے طالبعلم اس کی مخبری کا کا م کرتے ہیں۔

 ڈرامے کا آغاز  بچوں کی ایک سماجی تقریب سے ہوتا ہے جس کے لیے وہ مسجد جارہے ہیں ۔ اسی وقت نئے امریکی کونسلر چر چ اور مسجد کا دورہ کر رہے ہیں  جن  کی گاڑی پر سر خوں کے ذریعے حملہ کرانے کا منصوبہ  کرنل ظفر بناتے ہیں (اس کا مقصد امریکیوں کو پیغام دینا کہ اگر  آپ ہماری حمایت نہ کریں گے  تو روس حاوی  ہوجائے گا!) اور دوسری طرٖ ف امریکی کو استقبالیہ دے رہے ہوتے ہیں ۔ اس تقریب  کے دوران ان کا ذاتی ڈرائیور  کان میں اطلاع دیتا ہے کہ ان کی بیتی تیمی بھی ان گرفتار طلبہ میں شامل ہے جو حملے  میں شامل تھے۔  وہ اپنی بیٹی کو رہا کرواتے ہیں اور طارق کو سخت ملعون کرتے ہیں کہ اس نے  ان کی وا ضح ہدایت کے باوجود  تیمی  کو کیوں اس کاروائی میں شامل کیا ؟   تیمی ایک جوشیلی اور جذباتی لڑکی ہے اپنے نظریات  کے لیے ہر وقت فعال رہتی ہے ۔ وہ اپنے باپ کی سخت گیر طبیعت کے باعث اس سے متنفر ہے۔  عارف اس واقعے کی گواہی کے لیے پولیس اسٹیشن جاتا ہے جہاں تیمی سے اس کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔

گواہی کے بعد وہ یونین آفس پہنچتا ہے اور  ابراہیم سر کو بتاتا ہے کہ    انتظامیہ نے ابھی تک اس کا ڈپلومہ نہیں بھیجا جس کی رو سے  وہ یونیورسٹی  میں شعبہ لا ء میں داخل ہوسکے  جس کی کل آخری تاریخ ہے !                              (  قانون یہ تھا کہ مدرسے سے پڑھنے والے صرف دینیات میں داخلہ لے سکتے ہیں لیکن ڈپلومہ لے کر وہ دوسرے شعبوں میں بھی داخلہ کے اہل ہوسکتے ہیں۔  مقتدرہ کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے ہے کہ وہ سیاست اور شعبہ لاء میں داخل ہوکر  اہم اداروں میں تعینات ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اس میں رکاوٹ بنتے ہیں )               بہرحال  عارف کو لاء میں داخلہ مل جاتا ہے اور یوں  تیمی اس کی کلاس فیلو  بن جاتی ہے اور  ایک دوسرے سے نظریاتی اختلافات کے باوجود  بہت سے اتفاقات کے باعث وہ دونوں ایک دوسرے سےمتا ثر ہوجاتے ہیں ۔

یونیورسٹی میں کمیونسٹوں  اور  مثالی پارٹی کےدرمیان جھڑپ ہوتی ہے  جسے عارف روکتا ہے ۔ عمر اس سے ناراض ہوجاتا ہے  کہ کیوں  انہیں جانےدیا ؟ اس بات پر  طارق عمر کو اغوا کرکے تشدد کرتا ہے   جسے عارف رہا کرواتا ہے۔  یہ چپقلش چلتی رہتی ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں کو بھڑکانے والے عناصر موجود ہوتے ہیں ۔ کمیونسٹ طلبہ کبھی ایک شعبہ پر قبضہ کر لیتےہیں  تو کبھی کسی کو یر غمال بنالیتےہیں جس پر مثالی پارٹی بھرپور کاروائی کرتی ہے۔ کبھی کمیونسٹ کے کیفے پر فائرنگ ہوتی ہے تو کبھی عمر کی دکان پر  حملہ ہوتا ہے  اور کبھی اس کی پارٹی کے دفتر کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔  پولیس سمیت سب ان حملوں سے نا واقف ہوتے ہیں یعنی آپس میں گتھم گتھا رہتے ہیں یا رکھے جاتے ہیں ۔ اشتعال دلاکر ایک دوسرے کے خلاف  نبرد رہتے ہیں ۔  صورت  حال کچھ یوں بنتی ہے کہ شعبہ قانون پر سرخوں کا قبضہ ہے جب کہ شعبہ  ادب و زبان پپر آئیڈلسٹ قابض ہیں اور ایک دوسرے کے مخالف نظریات کے حامل طلبہ کوداخل ہونے سے روکتے ہیں ۔  عارف سب کی نظر میں مشکوک ٹھہرتا ہے کیونکہ وہ دونوں طرف تشدد کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔

 دوسری طرف طلبہ یونین  اپنی مثبت اور اصلاحی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔میگزین  شائع کروانا، سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کروانا، سائنس، آرٹس، کلچر ، تاریخ کی ترویج میں مصروف رہنا۔ ان کا  اصول ہے کہ کسی غیر قانونی  یا پر تشدد طریقے سے دور رہنا ۔۔۔ لیکن ظفر کے بقول حقیقی خطرہ  اسلامسٹ ہی ہیں ۔  وہ اپنی ٹیم  کے سامنے کہتا ہے کہ

''۔۔۔ اگر ہم کمیونسٹوں کو  کچلیں گےتو لوگ خوش ہوں گے لیکن اگر ہم نے اسلام پسندوں  پر ہاتھ ڈالا تو یہ ہی لوگ ہمارے خلاف ہوجائیں گے !"

اسلامسٹ کی سرکوبی کا ایک مشورہ آتا ہے  کہ یا تو انہیں اسلحہ دے کر جہاد میں مشغول کردیں یا پھر مبلغین کے ذریعے اسلام کا دوسرا             ورژن  ایجاد کر لیا جائے ۔۔۔"  یہ مشورہ ظفر کو بہت پسند آتا ہے ۔  ظفر کو رمزی  اطلاع دیتا ہے کہ نجم الدین اربکان سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کو تیار ہیں ۔ یہ خبر ظفر کو پریشان رمزی کے بار بار اسلحہ اٹھا نے کی تجویز کو رد کیا جاتا ہے جس کے جواب میں رمزی کے ذریعے   یونین بلڈنگ کی  لائبریری میں  اسلحہ  رکھوا دیا جاتا ہے  تاکہ چھاپہ مار کر بر آمد کیا جائے  اور یوں تنظیم کو بلیک لسٹ کیا جائے  لیکن اتفاق سے  طلبہ یونین کےکچھ ممبران جو یہاں قیام پذیر ہوتے ہیں اسلحہ دریافت کرکے اسے دفن کردیتے ہیں اور یوں پولیس کا چھاپہ ناکام ثابت ہوجاتا ہے ۔

 ہوا کچھ یوں کہ  مسز مبیرہ کا اصرار ہے کہ عارف اور زینب کی شادی ہوجائے جبکہ عارف اور زینب ایک دوسرے کو بہن بھائی سمجھتے ہیں ۔زینب عارف کے دوست مصطفٰی کو پسند کرتی ہے  ۔ مسزمبیرہ اپنی بیٹی، شوہر اور عارف پر  بہت دباؤ ڈالتی ہیں تو عارف احتجاجا گھر چھوڑ کر یونین آفس میں قیام کرلیتا ہے ۔ رات کو گڑ بڑ دیکھ کر وہ ، عمر اور مصطفیٰ  پوری عمارت خصوصا لائیبریری میں  تلاش کرکے اسلحہ نکال لیتے ہیں ۔ منصوبے کی ناکامی پر رمزی حیران ہے جبکہ ظفر  برانگیختہ ہے ۔ 

مصطفیٰ   بہر صورت عارف سے زینب کے رشتے کی بات کرتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے ۔ عارف گھر اسی شرط پر  واپس آتا ہے چنانچہ   مسز مبیرہ  کی مرضی کے خلاف منگنی کی رسم  کی تیاری ہورہی ہوتی ہے۔ اور  جیسے ہی وہ  تقریب کے لیے حسن صاحب کے گھر پہنچتے ہیں ۔پولیس  مصطفیٰ کو گرفتار کرنے آجاتی ہے۔  جیل میں اس پر بے پناہ تشدد کیا جاتاہے ۔  بہر حال ا نسپکٹر جمیل آتش  کی وجہ سے اسے رہائی ملتی ہے ۔ اس کی گرفتاری کی وجہ وہ تصاویر ہوتی ہیں جو  اسلحہ دفن کرتے وقت امریکی ایجنٹوں نے کھینچی تھیں۔

دوسری طرف    طارق  کمیونسٹوں   کو مزید طاقت ور اقدامات پر اکساتا ہے ۔ چنانچہ  وہ بازید اسکوائرپر سرخ جھنڈا لہرانے کا منصوبہ  بناتے ہیں  جسے ظفر بہت پسند کرتا ہے ۔اور پھر اس منصوبے  کو عملی جامہ پہنا دیتے ہیں تو ان پر کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے جس میں بہت سے طلبہ زخمی ہوجاتے  ہیں جن میں تیمی بھی شامل ہے ۔ اس  ہنگامےکے دوران  طارق کا بھید   ایک کمیونسٹ طالب علم عثمان   پر کھل جاتا ہے ۔  اور وہ عثمان کو چاقو مار دیتا ہے۔ اتفاق سے  یہ منظر عمر دیکھ لیتا ہے ۔وہ اسے بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ  ختم ہو جاتا ہے ۔  ۔عمر دل گرفتہ ہوکر عارف کو بتاتا ہے ۔ وہ دونوں تیمی اور روشنی کو  طارق کی حیثیت اور حرکت بتاتے ہیں لیکن وہ خصوصا روشنی اس کو ماننے پر تیار نہیں ہوتیں ۔  طارق منکر ہوکر الزام عمرپر ہی لگادیتا ہے ۔  طارق کی پے درپے ناکامیوں پر ظفر اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے  ۔ یہ بات محسوس کر کے طارق ظفر  کی خفیہ فائلز چرا کر صحافی لیلیٰ کے دے دیتا ہے ۔  دوسری طرف تیمی  کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے بہانے وہ ایک جگہ بلاتا ہے ۔ عارف اور عمر بھی اس کے ساتھ جاتے ہیں ۔ اور وہاں ظفر بھی اپنے محافظ کے ساتھ پہنچتا ہے ۔ یہاں  وہ تیمی کو یر غمال بنا کر ظفر کے سیاہ کرتوت بتانے  لگتا ہے اور ساتھ ساتھ عارف کو بھی متوجہ کرتا ہے ۔ لیکن اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ظفر کے پوشیدہ محافظ  اسنائپر  طارق کو نشانہ بنا کر مادیتا ہے ۔ اور طارق مرنے سے پہلے ظفر  پر پستول چلادیتا ہے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 یہاں پر پہلے سیزن کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔