جمعرات، 24 ستمبر، 2015
پیر، 7 ستمبر، 2015
دروازہ کھلا رکھنا مگر۔۔۔۔۔!
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس موقع پر دلہا کے گھر والوں نے کوسٹر کا انتظام کیا تاکہ اس میں سب مدعوئین بسہولت شادی ہال تک جا سکیں۔چنانچہ کوسٹر کے آتے ہی محلے کے تمام افراد اس میں بیٹھنے لگے۔ہر کوئی خوش تھا۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے!پکنک بھی اور شادی بھی!
اپنے ہم عمروں کے ساتھ بیٹھنے کو بڑ ھی تو کان میں ایک سر گوشی سنائی دی ”.....ہاں بس ایک ہی بر قعے والی ہیں .....“یہ اشارہ ہماری امی کی طرف تھا۔ (دوسو سے زائد گھروں کی اس آ بادی میں بمشکل تین،چار خواتین بر قع اوڑھتی تھیں جن میں ہماری والدہ بھی شامل تھیں۔روایتی ہی سہی بہر حال با پردہ تھیں) میں نے بات کر نے والی آ نٹی کی طرف دیکھا ان کے ساتھ امی نے کچھ عرصے پہلے ہی بہت بڑی نیکی کی تھی۔دل بہت خراب ہوا۔ امی کو دیکھا تو وہ اس مکالمے سے بے نیاز مطمئن بیٹھی تھیں۔
شادی کا انتظام ایک بڑے ہال میں تھا۔مرد و خواتین کا کوئی علیحدہ انتظام نہیں تھا(معاشرہ میں اس وقت مخلوط تقریبات عام نہ تھیں) مگر پھر بھی مرد بے چارے ہال کی پچھلی سیٹوں پر ہی برا جمان تھے اور اونچی سیٹوں کی وجہ سے آگے بیٹھی ہوئی خواتین ان کی نظروں سے دور تھیں ہاں مگر کچھ خواتین یہاں وہاں کھڑی اپنے جلوے دکھا رہی تھیں۔ان میں زیادہ ترسلیو لیس بلاؤز میں ملبوس تھیں اور بر قعے پر معترض آنٹی
ان خواتین میں گھل مل گئیں۔کم عمری کے جذ بات بھی کیا ہوتے ہیں؟ اس سے پہلے مجھے کبھی امی کا بر قعہ برا نہیں لگا۔مگر اس پوری تقریب کے دوران اور اس کے بعد نہ جانے کیوں میری نظروں میں کھٹکنے لگا اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ بر قعہ پہننے والا زندگی کے مزے اٹھانے سے محروم رہتا ہے۔
کچھ عرصے بعد جب قرآن سے رابطہ ہوا تو پردے کی آیات نظر سے گز ریں اور یہ معلوم ہوا کہ ان آیات پر مدینے کی صحابیات کا رد عمل کیا تھا تو میں بھی باقاعدہ پر دہ اختیار کیے بغیر نہ رہ سکی۔یہ بالکل شعور کے ساتھ تھا۔ یونیورسٹی میں تین سال تک بے پردہ تعلیم حاصل کر نے کے بعد آخری سال پردہ اختیار کر نا ایک چیلنج تھا اور الحمد للہ یہ امتحان بھی کامیابی سے ہمکنار ہوالیکن معاشرے میں ایک ہمہ وقت کشمکش ضرور دکھائی دی۔۔
جی ہاں! میرے پردہ کرنے کے کچھ ہی ماہ بعد پڑوس میں پھر ایک شادی کی تقریب تھی۔پڑوسی بھی اور دوستی بھی! خوشی بے انتہاتھی مگر تقریب میں شرکت سخت الجھن کا سبب بن رہی تھی۔ شادی کے دن تیار ہو کر ہال میں جانے سے پہلے دلہن کے گھر اس سے ملاقات کر نے چلی گئی کہ بعد میں کیمرہ مینوں کی موجودگی میں تو ملنا دشوار تھا۔ وہاں دلہن کی کچھ رشتہ دار جو اندرون ملک سے آ ئی ہوئی تھیں مجھ سے چپک کر چلنے لگیں۔ ان کی وارفتگی کی وجہ کچھ دیر بعد پتہ چلی جب وہ روہانسی ہو کر بولیں ” بھائی صاحب (دلہن کے والد) نے سختی سے منع کیا ہے کہ کوئی بر قعہ/ چادر پہن کر میرج ہال میں نہیں جائے گا...............“ تو وہ گویا ہمارے بر قعے کی پناہ میں گزر رہی تھیں۔
شادی لان میں پہنچ کر ان خواتین نے نے تو نسبتاتاریک گوشہ ڈھونڈا جہاں مووی میکر نہ پہنچ سکے۔(اس دور میں ویڈیو بنانے کا شوق عروج پر تھا) ہم بھی بر قعے میں ملبوس تھے اور دلہن کے گھر والے ٹکر ٹکر ہمیں تک رہے تھے مگر ہم سے نہ پردہ اترواسکتے تھے نہ کونے میں
جا نے کو کہہ سکتے تھے! غریب رشتہ دار اور ہم پلہ پڑوسیوں میں بڑا فرق ہوتاہے! مووی میکر نہ جانے کتنی مشکلات سے ہم سے کتراکترا کرگزررہاتھا۔ ایڈیٹنگ میں نہ جانے کتنی محنت کر نی پڑ ے گی بے چارے کو! یہ سوچ کر ہم اسی میز پر چلے گئے جہاں با پر دہ خواتین بے حجاب ہونے پر خجل سی بیٹھی تھیں۔ شعور اور اعتماد کی کمی کا شکار خواتین اپنے ہتھیار پھینکنے میں مجبور ہوتی ہیں! مگر خیرہم نے ایسا انتطام کیا کہ ان بے چاریوں کو جز وی سہی مگر کچھ نہ کچھ حجاب کے ساتھ ہی واپسی کا کٹھن مر حلہ سر ہو۔پتہ نہیں بعد میں بے چاریوں نے کتنی باتیں سنی ہوں گی!
یہ دو شادیوں کی روداد ہے جو چند سال کے وقفوں سے سر انجام پا ئیں مگر ان میں واضح فرق یہ تھا کہ مووی میکنگ لازمی جز بن گئی تھی۔
اور آج یہ منظر ہر دوسری شادی میں نظر آ تا ہے جہاں مخلوط محفل ہو اور تقریب کی تصویر کشی کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔ کچھ
عر صے کے لیے اس رحجان میں کمی نظر آ ئی۔اس کی وجہ موبائیل کیمروں کی آمد تھی۔ اس کا رینج چونکہ چھوٹا ہوتا ہے لہذا عمومی خواتین زبر دستی
captureہونے سے محفوظ رہتی تھیں مگر جیسا کہ ہر فیشن دوبارہ پلٹ آ تا ہے مووی میکنگ اور وہ بھی فلیش لائٹ کے اہتمام کے ساتھ دوبارہ نظرآ یا جو نہ صرف با پردہ بلکہ بے پردہ خواتین کے لیے بھی کسی عذاب سے کم نہیں! بلا وجہ شوٹ ہو نا کس کو پسند ہو تا ہے مگر کیمرہ مین تو اچھے چہروں کی تلاش میں تقریب کا کوئی کونا نہیں چھوڑ تے ہاں یہ اور بات ہے کہ غیر ضروری منا ظر ہٹا نے میں تھوڑی محنت زیادہ لگتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ ویڈیوز جو کبھی شاید اعزازی اور کبھی بھاری ادائیگی کے ذریعے بنوائی جاتی ہیں۔الماریوں کی زینت بنی رہتی ہیں اور کسی کے پاس اس کو دیکھنے کا وقت نہیں ہوتا حتٰی کہ دلہا اور دلہن بھی دیکھنے کی مہلت نہیں پاتے۔
اس دفعہ عید اور برسات ساتھ ساتھ آئے اور ہمراہ شادیوں کے ڈھیروں دعوت نامے! ابھی تک ایک میں ہی شر کت کی ہے۔ آجکل کے رواجوں میں ایک بینکوئیٹ بھی ہے۔ چنانچہ سارے شادی ہا ل اس میں تبدیل ہو چکے ہیں۔اس موضوع پر بات پھر کبھی سہی مگر ایک بات کہے بغیر چا رہ نہیں! شادی لانز جو موسم کے لحاظ سے خاصے خوشگوار رہتے تھے بینکوئیٹ بن کر concentration camps کا تاثر دیتے ہیں۔ جی ہاں! سینکڑوں مرد وزن کو ایک چھت تلے گھسیڑ کر میزبان تو فوٹو سیشن میں مصروف جبکہ دلہن کیٹ واک میں اور مہمان بیچارے کھانے کے انتظار میں کریہہ موسیقی سننے پر مجبور ہوتے ہیں۔مجرمین اور شرکاء تقریب میں کوئی فرق سمجھ میں نہیں آ تا!
فوٹو سیشن کی اصطلاح کاآغاز تو شایدسفارتی تقریبات کے لیے ہوا تھا مگر اب تو یہ ریما سے لے کر سعدیہ اور سیماسے لے کر حمیدہ تک سب کی تقریب کا اہم جزو بن چکا ہے۔ نکاح خوان، وکیل،گواہ بلکہ دلہا بھی پیچھے ہے مگر فوٹو گرافر دلہن کا جزو لاینفک بن کر رہ گیا ہے....... ٹیکنالوجی کو عام ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اگر وہ معاشرتی ہیجان پیدا کر نے کا با عث بننے لگے تو سوچنے کا مقام ہے!
اور سوچنے والے صرف یہیں تک نہیں رہتے بلکہ عملی اقدام بھی کرتے نظر آ تے ہیں۔اس کا ثبوت ہاتھ میں پکڑا یہ کارڈ ہے جس میں فوٹو گرافی کی ممانعت لکھی ہے اور یہ کسی پینڈو کی نہیں بلکہ امریکہ سے تعلیم یافتہ لڑکی کی ہے،ایک روشن خیال اور خوشحال خاندان سے تعلق رکھنے والی بچی کی! اپنی اقدار اور فطری حیا کا تحفظ اصل روشن خیالی ہے! ترقی کا مطلب معاشرتی بگاڑ نہیں بلکہ اس کو نیا رنگ دینا ہے!دروازہ کھلا رکھنا کہ تازہ ہوا اندر آ ئے یہ نہیں کہ موذی جانور بھی اندر گھس آ ئے! بے حیائی کا نقصان موت سے بڑا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طا ہر
!.........دروازہ کھلا رکھنامگر
برسات کا موسم اور شادی کاسیزن! موجودہ صورت حال کی بات نہیں،ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے!
یادش بخیر! ایسا ہی ایک موقع تھا۔ پڑوس کا ولیمہ اور کراچی میں سیلاب کی کیفیت! بارش تو رک گئی مگر سڑک پر ٹریفک نہ نکالنا ہی عقلمندی تھی۔اس موقع پر دلہا کے گھر والوں نے کوسٹر کا انتظام کیا تاکہ اس میں سب مدعوئین بسہولت شادی ہال تک جا سکیں۔چنانچہ کوسٹر کے آتے ہی محلے کے تمام افراد اس میں بیٹھنے لگے۔ہر کوئی خوش تھا۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے!پکنک بھی اور شادی بھی!
اپنے ہم عمروں کے ساتھ بیٹھنے کو بڑ ھی تو کان میں ایک سر گوشی سنائی دی ”.....ہاں بس ایک ہی بر قعے والی ہیں .....“یہ اشارہ ہماری امی کی طرف تھا۔ (دوسو سے زائد گھروں کی اس آ بادی میں بمشکل تین،چار خواتین بر قع اوڑھتی تھیں جن میں ہماری والدہ بھی شامل تھیں۔روایتی ہی سہی بہر حال با پردہ تھیں) میں نے بات کر نے والی آ نٹی کی طرف دیکھا ان کے ساتھ امی نے کچھ عرصے پہلے ہی بہت بڑی نیکی کی تھی۔دل بہت خراب ہوا۔ امی کو دیکھا تو وہ اس مکالمے سے بے نیاز مطمئن بیٹھی تھیں۔
شادی کا انتظام ایک بڑے ہال میں تھا۔مرد و خواتین کا کوئی علیحدہ انتظام نہیں تھا(معاشرہ میں اس وقت مخلوط تقریبات عام نہ تھیں) مگر پھر بھی مرد بے چارے ہال کی پچھلی سیٹوں پر ہی برا جمان تھے اور اونچی سیٹوں کی وجہ سے آگے بیٹھی ہوئی خواتین ان کی نظروں سے دور تھیں ہاں مگر کچھ خواتین یہاں وہاں کھڑی اپنے جلوے دکھا رہی تھیں۔ان میں زیادہ ترسلیو لیس بلاؤز میں ملبوس تھیں اور بر قعے پر معترض آنٹی
ان خواتین میں گھل مل گئیں۔کم عمری کے جذ بات بھی کیا ہوتے ہیں؟ اس سے پہلے مجھے کبھی امی کا بر قعہ برا نہیں لگا۔مگر اس پوری تقریب کے دوران اور اس کے بعد نہ جانے کیوں میری نظروں میں کھٹکنے لگا اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ بر قعہ پہننے والا زندگی کے مزے اٹھانے سے محروم رہتا ہے۔
کچھ عرصے بعد جب قرآن سے رابطہ ہوا تو پردے کی آیات نظر سے گز ریں اور یہ معلوم ہوا کہ ان آیات پر مدینے کی صحابیات کا رد عمل کیا تھا تو میں بھی باقاعدہ پر دہ اختیار کیے بغیر نہ رہ سکی۔یہ بالکل شعور کے ساتھ تھا۔ یونیورسٹی میں تین سال تک بے پردہ تعلیم حاصل کر نے کے بعد آخری سال پردہ اختیار کر نا ایک چیلنج تھا اور الحمد للہ یہ امتحان بھی کامیابی سے ہمکنار ہوالیکن معاشرے میں ایک ہمہ وقت کشمکش ضرور دکھائی دی۔۔
جی ہاں! میرے پردہ کرنے کے کچھ ہی ماہ بعد پڑوس میں پھر ایک شادی کی تقریب تھی۔پڑوسی بھی اور دوستی بھی! خوشی بے انتہاتھی مگر تقریب میں شرکت سخت الجھن کا سبب بن رہی تھی۔ شادی کے دن تیار ہو کر ہال میں جانے سے پہلے دلہن کے گھر اس سے ملاقات کر نے چلی گئی کہ بعد میں کیمرہ مینوں کی موجودگی میں تو ملنا دشوار تھا۔ وہاں دلہن کی کچھ رشتہ دار جو اندرون ملک سے آ ئی ہوئی تھیں مجھ سے چپک کر چلنے لگیں۔ ان کی وارفتگی کی وجہ کچھ دیر بعد پتہ چلی جب وہ روہانسی ہو کر بولیں ” بھائی صاحب (دلہن کے والد) نے سختی سے منع کیا ہے کہ کوئی بر قعہ/ چادر پہن کر میرج ہال میں نہیں جائے گا...............“ تو وہ گویا ہمارے بر قعے کی پناہ میں گزر رہی تھیں۔
شادی لان میں پہنچ کر ان خواتین نے نے تو نسبتاتاریک گوشہ ڈھونڈا جہاں مووی میکر نہ پہنچ سکے۔(اس دور میں ویڈیو بنانے کا شوق عروج پر تھا) ہم بھی بر قعے میں ملبوس تھے اور دلہن کے گھر والے ٹکر ٹکر ہمیں تک رہے تھے مگر ہم سے نہ پردہ اترواسکتے تھے نہ کونے میں
جا نے کو کہہ سکتے تھے! غریب رشتہ دار اور ہم پلہ پڑوسیوں میں بڑا فرق ہوتاہے! مووی میکر نہ جانے کتنی مشکلات سے ہم سے کتراکترا کرگزررہاتھا۔ ایڈیٹنگ میں نہ جانے کتنی محنت کر نی پڑ ے گی بے چارے کو! یہ سوچ کر ہم اسی میز پر چلے گئے جہاں با پر دہ خواتین بے حجاب ہونے پر خجل سی بیٹھی تھیں۔ شعور اور اعتماد کی کمی کا شکار خواتین اپنے ہتھیار پھینکنے میں مجبور ہوتی ہیں! مگر خیرہم نے ایسا انتطام کیا کہ ان بے چاریوں کو جز وی سہی مگر کچھ نہ کچھ حجاب کے ساتھ ہی واپسی کا کٹھن مر حلہ سر ہو۔پتہ نہیں بعد میں بے چاریوں نے کتنی باتیں سنی ہوں گی!
یہ دو شادیوں کی روداد ہے جو چند سال کے وقفوں سے سر انجام پا ئیں مگر ان میں واضح فرق یہ تھا کہ مووی میکنگ لازمی جز بن گئی تھی۔
اور آج یہ منظر ہر دوسری شادی میں نظر آ تا ہے جہاں مخلوط محفل ہو اور تقریب کی تصویر کشی کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔ کچھ
عر صے کے لیے اس رحجان میں کمی نظر آ ئی۔اس کی وجہ موبائیل کیمروں کی آمد تھی۔ اس کا رینج چونکہ چھوٹا ہوتا ہے لہذا عمومی خواتین زبر دستی
captureہونے سے محفوظ رہتی تھیں مگر جیسا کہ ہر فیشن دوبارہ پلٹ آ تا ہے مووی میکنگ اور وہ بھی فلیش لائٹ کے اہتمام کے ساتھ دوبارہ نظرآ یا جو نہ صرف با پردہ بلکہ بے پردہ خواتین کے لیے بھی کسی عذاب سے کم نہیں! بلا وجہ شوٹ ہو نا کس کو پسند ہو تا ہے مگر کیمرہ مین تو اچھے چہروں کی تلاش میں تقریب کا کوئی کونا نہیں چھوڑ تے ہاں یہ اور بات ہے کہ غیر ضروری منا ظر ہٹا نے میں تھوڑی محنت زیادہ لگتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ ویڈیوز جو کبھی شاید اعزازی اور کبھی بھاری ادائیگی کے ذریعے بنوائی جاتی ہیں۔الماریوں کی زینت بنی رہتی ہیں اور کسی کے پاس اس کو دیکھنے کا وقت نہیں ہوتا حتٰی کہ دلہا اور دلہن بھی دیکھنے کی مہلت نہیں پاتے۔
اس دفعہ عید اور برسات ساتھ ساتھ آئے اور ہمراہ شادیوں کے ڈھیروں دعوت نامے! ابھی تک ایک میں ہی شر کت کی ہے۔ آجکل کے رواجوں میں ایک بینکوئیٹ بھی ہے۔ چنانچہ سارے شادی ہا ل اس میں تبدیل ہو چکے ہیں۔اس موضوع پر بات پھر کبھی سہی مگر ایک بات کہے بغیر چا رہ نہیں! شادی لانز جو موسم کے لحاظ سے خاصے خوشگوار رہتے تھے بینکوئیٹ بن کر concentration camps کا تاثر دیتے ہیں۔ جی ہاں! سینکڑوں مرد وزن کو ایک چھت تلے گھسیڑ کر میزبان تو فوٹو سیشن میں مصروف جبکہ دلہن کیٹ واک میں اور مہمان بیچارے کھانے کے انتظار میں کریہہ موسیقی سننے پر مجبور ہوتے ہیں۔مجرمین اور شرکاء تقریب میں کوئی فرق سمجھ میں نہیں آ تا!
فوٹو سیشن کی اصطلاح کاآغاز تو شایدسفارتی تقریبات کے لیے ہوا تھا مگر اب تو یہ ریما سے لے کر سعدیہ اور سیماسے لے کر حمیدہ تک سب کی تقریب کا اہم جزو بن چکا ہے۔ نکاح خوان، وکیل،گواہ بلکہ دلہا بھی پیچھے ہے مگر فوٹو گرافر دلہن کا جزو لاینفک بن کر رہ گیا ہے....... ٹیکنالوجی کو عام ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اگر وہ معاشرتی ہیجان پیدا کر نے کا با عث بننے لگے تو سوچنے کا مقام ہے!
اور سوچنے والے صرف یہیں تک نہیں رہتے بلکہ عملی اقدام بھی کرتے نظر آ تے ہیں۔اس کا ثبوت ہاتھ میں پکڑا یہ کارڈ ہے جس میں فوٹو گرافی کی ممانعت لکھی ہے اور یہ کسی پینڈو کی نہیں بلکہ امریکہ سے تعلیم یافتہ لڑکی کی ہے،ایک روشن خیال اور خوشحال خاندان سے تعلق رکھنے والی بچی کی! اپنی اقدار اور فطری حیا کا تحفظ اصل روشن خیالی ہے! ترقی کا مطلب معاشرتی بگاڑ نہیں بلکہ اس کو نیا رنگ دینا ہے!دروازہ کھلا رکھنا کہ تازہ ہوا اندر آ ئے یہ نہیں کہ موذی جانور بھی اندر گھس آ ئے! بے حیائی کا نقصان موت سے بڑا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طا ہر
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)