پیر، 12 دسمبر، 2022

معتبر سے موئثر کا سفر ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی 1998 ء میں ورکنگ ویمن گروپ کی نشستوں میں شرکت کاموقع ملا تو اس وقت یہ بحث چل رہی تھی کہ 8 /مارچ عالمی یوم خواتین کو ہم منائیں یا نظر انداز کریں ؟ دونوں موقف کے لیے زبر دست دلائل سننے کو ملے ۔ اتفاق سے انہی دنوں مجھے کمیونٹی اسکولز سے تعارف ہوا تو فطرتا مجھے اس میں زیادہ دلچسپی محسوس ہوئی تو میں اس شعبے سے منسلک ہوگئی ۔(ایک مخصوص شعبے میں توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے نسبتا بہتر کام سامنے آتاہے اور پھر تعلیمی میدان خواتین کی ذاتی تسکین کے لیے ایک فطری مقام رکھتا ہے !) مگر کسی نہ کسی حوالے سے شعبہ خواتین کی سر گرمیوں سے بھی آگہی رہی۔ پچھلے 8/10 سالوں میں عالمی یوم خواتین کے حوالے سے مارچ کے آغاز سے ہی خواتین کے حقوق کے حوالے سے تبصروں اور تجزیوں کی بھر مار ہوجاتی تھی مگر پچھلے سال تو فروری میں ہی اس کی دھوم مچ گئی جب عورت مارچ کی تیاروں پر مبنی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی ۔ جماعت اسلامی جو شعبہ خواتین کے تحت قانونی اور گھریلو خواتین کی دلچسپی ، معاشی اور سماجی ترقی اور خوشحالی کے عنوانات پر ہمیشہ سے ہی سر گرم ہے اس نے 7 /مارچ 2020ء کو خواتین کانفرنس کا اہتمام کیا۔ کرونا کی آہٹ کے باوجود زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی ہزاروں خواتین کی شرکت نے کانفرنس کے اعلامیہ پر مہر ثبت کردی کہ انہیں عزت اور وقار کی زندگی مطلوب ہے! حقوق نسواں کی گونج زمانہ طالبعلمی میں ہی سنی تھی اور اس حوالے سے ڈاکٹر نسیمہ ترمذی مرحومہ سے ملاقات بخوبی یاد ہے جس میں انہوں نے باقاعدہ ڈانٹ کر کہا تھا کہ ہر طبقے اور ہر معاشرے کی عورت کا کردار اسی کے مرد کے حوالے سے متعین ہوگا. بنگال کے مرد کا مقابلہ افریقہ کی عورت سے نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔!! اس جملے کی معنویت آشکارا ہوئی جب معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے متصادم کر وانے کی کوششوں کو بام عروج پاتے دیکھا ۔ طبقاتی نظام کو بڑھا وا دینے کے ساتھ ساتھ ایک چھت تلے رہنےوالے دو افراد کے درمیا ن تقسیم پیدا کرنے کی بھرپور کاوشیں منظر عام پر آنے لگیں ۔ ہر معاشرے کی ایک بناوٹ ہوتی ہے جسے تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے .بقول شاہد ہاشمی صاحب آپ حکومت تبدیل کر سکتے ہیں معاشرہ نہیں ! کسی بات کو معتبر بنانے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ نے بہت سفر کیے ہوں، بہت سے اعلی اداروں میں کام کیا ہو یا پهر گهاٹ گهاٹ کا پانی پیا ہو. بعض دفعہ محض مطالعہ یا مشاہدہ ہی آپ کا نقطہ نظر واضح کر دیتا ہے ۔ صاحب طرز مولانا مودودی مرحوم نے 1930 سے 1940ء کے عرصے میں جو تحریر لکهی وہ سو سال بعد بهی آج کے معاشرے پر ہو بہو منطبق ہورہی ہے. ابتدائی عمر میں مولانا مرحوم کو پڑهنے سے ذہن کی جو بالیدگی/ وسعت نظر عطا ہوئی اس کا نتیجہ یہ رہا کہ 20 سال کی عمر میں خواتین کے بارے میں جو مقالے نظر سے گزرے وہ عمر کی پانچویں دہائ میں آج بهی جوں کے توں پیش کیے جاسکتے ہیں ...مجهے اپنی رائے پر کبهی اصرار نہیں رہا مگر پچهلی ربع صدی میں جس طرح حالات و واقعات میں اپنی پیشگوئی کو درست پانا مبہوت اور کسی حد تک مایوس کر دیتا ہے . معاشرے کے جس طبقے سے تعلق رہا وہاں شرح تعلیم 100% رہی ہے اور اس زمانے میں بهی ورکنگ ویمن کا تناسب بہت زیادہ تها .اسکول ٹیچرز، کالج لیکچررز اور یونیورسٹی پروفیسرز.سائنسدان اور ڈاکٹرز کی کثرت جبکہ گهر بیٹهنے والی خواتین آٹے میں نمک کے برابر تهیں .ان پس منظر کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ورکنگ ویمن اپنے کردار سے غیر مطمئن نظر آئیں! میرا مشاہدہ رہا کہ جس خاتون کا عہدہ اور تعلیم جتنی زیادہ تهی اس نے اپنی بیٹیوں کی واجبی تعلیم کے بعدکم عمری کی شادی کا اہتمام کیا ۔ یہ تجزیہ 25 سال پہلے کا تھا لیکن آج کی صورت حال بھی کچھ ایسے ہی فیصلوں کی منتظر لگتی ہے کیونکہ بہر حال خواتین خواہ کتنا ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجائیں ، گھر بنانا ایک ضروری امر ہوتا ہے۔ یہ دھیان رہے کہ ہم شہری خواتین کی بات کر رہے ہیں ورنہ دیہی خواتین تو اپنے مردوں کے ہم پلہ کام کر ہی رہی ہیں۔ عورت پر معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی لیکن اگر کوئی کرنا چاہے تو اس پر پابندی بھی نہیں ہے ! اگر گهر ایک ادارہ ہے تو عورت اس کی منیجر ! اگر کسی ادارے کا مینجر اپنی ذمہ داری کسی اور کو سونپ کر خود کسی اور ادارے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے تو اسے کیا کہیں گے ؟ اپنے وقت کا بہترین حصہ گهر سے باہر رہ کر کتنا کوالٹی ٹائم وہ دے سکے گی ؟ ایک خاتون کی مثال دوں گی جس کو سنگل پیرنٹ ہونے کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ اسکول ٹیچر ، ٹیوشن کے ساتھ ساتھ بیوٹی پارلر کا کام اپنے گھر سے ہی کر رہی تھی ۔ایک فطری اور کسی حد تک اطمینا ن بخش حالات کے باوجود اس نے آفس ورک کو ترجیح دی ۔ اس کی بنیادی وجہ وہ غلط فہمی ہے کہ کیرئیر وومن کا تصور ماہانہ تنخواہ اور 9 سے 5 بجے تک بیگ اٹھا کر گھر سے باہر جانے کا نام ہے ! ۔ کیا ورکنگ ویمن صرف آفس میں کام کرنے والی خواتین ہوں گی ؟ ہزاروں خواتین گهر بیٹهے آن لائن کام کر رہی ہیں .کوئی فروزن فوڈ سپلائی کر رہی ہے تو کوئی دفتر اور گھر میں تازہ کهانا سپلائ کر رہی ہے. کوئی بوتیک چلاکر بہت سے نفوس کو روزگار مہیا کر کے ان کے گهروں کے چولہے جلانے کا اہتمام کر رہی ہے تو کوئی آن لائن کپڑے اور سامان منگوا کر خرید و فروخت کا کام کر کے ان کو آسانی فراہم کررہی ہے جو بازار جانے کی مہلت اور سہولت نہیں رکهتیں ...! کرونا کے بعد تو اس میں اضافہ ہی نظر آتا ہے لیکن انہیں موثر خواتین کی فہرست میں نہیں رکھا جا تا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اپنے علاقے کی موثر خواتین کی فہرست بناتے ہوئے میں اکثر سوچ میں پڑ جاتی ہوں ! میرے نزدیک ایک موثر خاتون وہ ہے جو پارک میں روزانہ 70/80 خواتین سے ملتی ہو اور انہیں کسی بات پر کنونس کر لے بہ نسبت اس کے جو ایک اعلی عہدے پر فائز ہو اور اس کا دائرہ گهر سے محض دفتر تک محدود ہو .. لیکن مجھے معلوم ہے معاشرے پر اثر انداز ہونے والی خواتین کی تعریف ( definition (جب ہی درست سمجھی جائے گی جب اس کو عہدے اور تنخواہ سے تولا جائے گا۔ ایک خاتون کا کہنا ہے کہ مجهے اس بات پر کوئی فخر نہیں کہ 1992 میں برازیل کی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس میں میرے سپر وائزر نے میری ریسرچ پر مبنی اپنا مقالہ پڑها تها اور مجهے کوئی افسوس بهی نہیں کہ میرا نام 50 پاکستانی خواتین سائنسدان میں ہوسکتا تها ..!! لیکن مجهے اپنی اس شناخت پر ضرور فخر ہے جب ایک معروف بلاگر نے میرا ذکر باکمال خواتین میں کیا .انہوں نے یوم خواتین پر اپنی ٹوئٹ میں نام لے کر جماعت اسلامی کی خواتین کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکها کہ بہت باکمال خواتین ہیں .بچے ان کے منتظر رہتے ہیں ........گویا وہ نبض پر ہاتھ رکھ کر نہ صرف تشخیص کرتی ہیں بلکہ علاج کے لیے بهی کوشاں رہتی ہیں اپنے اہداف پر نظر رکهتے ہوئے مصروف اور ہر دم فعال تحریک اسلامی کی ہزاروں کارکنان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کا باعث بنے گا ۔ اپنی تحریر کا اختتام میں رب کے اس پیغام پر کروں گی کہ میں کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت ۔تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو ۔۔۔ اس بدلتی دنیا میں عورت کا کردار بدلنے کی کوشش میں مجھے کب اور کیسے پیش رفت کرنی ہے ؟ آج کی عورت کے لیے سوالیہ نشان ہے کہ اجر تو بہر حال اپنی مقرر کردہ ذمہ داری پر ہی ملے گا اور حساب بھی اسی کا دینا ہوگا ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فر حت طاہر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں