جمعرات، 11 جون، 2020

مہمت چک سیزن 2


                                            مہمتک مزاحمت کا استعارہ ہے 
                                  
دوسرے سیزن کا آغاز  بابا حیدر  کے کردار سے ہوتا ہے جوحالات و واقعات کو قلم بند  کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
 بر طانوی فوج کے شہر میں داخلے کے بعد اسکوپلو کے ساتھی اپنی بساط سے بڑھ کر  شہر کا دفاع کرتے  ہیں ۔ آخری مر حلے  میں تندور کو جو حصرو بابا کی نگرانی میں تشکیلات مخصوصہ کا دفتر ہوتا ہے بم سے اڑتا ہوا دیکھتے ہیں۔ بابا حیدر  اسکوپلو ، سعید اور  مولود کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں  ۔ جبکہ نیازی اور حصرو  باباشہید ہوچکے ہیں۔  محمد اور زینب لاپتہ ہیں  جن کی شادی پہلے سیزن کے آخری معرکے سے ذرا پہلے ہی ایک مہم کے دوران ہوئی تھی ۔
برطانوی فوج   شہریوں پرظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑتی نظر آتی ہے ۔ شریف نجار یہاں کا بارسوخ اور متمول  تاجر ہے اس کے ساتھ گورنر اور اس کا بیٹا بھی انگریزوں کے وفادار ہیں۔
علی اپنے دو ساتھیوں مولود اور سعید کے ہمراہ زیر زمین ہےاور سرنگوں کے ذریعے اوپر کی دنیا سے  رابطہ  رہتا ہے . حیدر بابا  اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کا بیرونی دنیا  کی خبروں سے آگاہ رکھتے ہیں  ۔وہاں وہ خفیہ حملوں کی تیاری کررہے ہیں .
سب سے پہلا بم دهماکہ  فوجی ہیڈ کوارٹر میں جشن کے موقع پر کرتے ہیں پهر جیل کو تباہ کرتے ہیں .علی اپنی جدو جہد بڑهانے کے لیے شہر سے باہر عثمانی فوجی پڑاو جاکر ان سے منصوبہ بندی کرنا چاہتا ہے .اس سلسلے میں فاطمہ بنت نجار مدد کرتی ہے .وہ شریف نجار کی بیٹی ہے ۔ فاطمہ صحافی کی حیثیت سے علی  کے ہمراہ محاذ جنگ پر جاتی ہے مگر وہاں ان کی سر گرمیوں میں حصہ بھی لینے لگتی ہے ۔ پاک سلمان کی جنگ میں عثمانیوں کو فتح نصیب ہوتی ہے۔ 
 یہ طے ہوتا ہے کہ خلیل پاشا شہر کے گرد محاصرہ کر کے اور علی اپنے گروپ کے ساتھ شہر کے  اندر  برطانوی فوج کا ناطقہ بند کیے رہیں ۔  علی اپنا گروہ منظم کرتاہے جن میں بوڑهے ، بچے ،مجنوں اور بہت سے شہری شامل ہوتے ہیں خصوصا برطانوی فوج میں موجو مسلمان ان کا ساتھ دینا اپنا دینی فریضہ سمجھنے لگتے ہیں ۔
دشمن بهی اپنی چومکهی لڑائی لڑ رہا ہے. ایک طرف وہ عرب قبائل کو ترکوں کے خلاف منظم کر رہا ہے تو دوسری طرف  ظلم وزیادتی کا بازار گرم کرکے لوگوں کو خوف زدہ رکھ رہا ہے .اس کے ساتھ وہ شیعہ سنی کا جھگڑا  پیدا کر کے فرقہ وارانہ آگ میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ غذا کی تنگی کے ذریعے لوگوں کو آپس میں لڑاتے ہیں 
محمد اور زینب جو حملے کے بعد روپوش تهے صحرا میں ہوتے ہیں۔محمد یاد داشت کهو چکا ہے اور برطانوی فوج کے ہتهے چڑھ جاتا ہے وہ یہ جان کر کہ  وہ علی اسکوپلو کا ساتهی ہے محمدکی ذہن سازی کر کے عثمانی  فوج میں بطور جاسوس بهرتی کر کے خلیل پاشا کو قتل کرنے اور اسلحہ تباہ کرنے کا مشن دیتے ہیں .
اس سے پہلے  وہ زینب اور سعید کے ذریعے اس کی آزمائش کرتے ہیں جب وہ  ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے تو وہ اسے   محاذ پر بھیج دیتے ہیں کہ وہ ان کے منصوبے کے مطابق ترک فوج میں جاسوسی کر کے نقصان پہنچائے !اس میں  وہ جزوی طور کامیاب بھی رہتے ہیں ۔    .
  اس کے ساتهی اسے اس کی اخبار میں  تصاویر اور انٹرویو  دکهاتے ہیں تو محمد کی یاد داشت واپس آجاتی ہے اور وہ ندامت کا شکار ہوتا ہے .اب وہ مشن کی کامیابی کا ڈهونگ رچا کر برطانوی ہیڈ کوارٹرواپس آتا ہے مگر یہاں  زینب پر شدید تشدد کر کے اسے شہید کر دیا جاتا ہے.
محاصرہ بڑهتا جارہا ہے اور برطانوی فوج کے لیے غذا اور رسد کی فراہمی ناممکن ہوچکی ہے . ادهر علی کا گروہ مضبوط  تر ہوتا جارہا ہے. اس نے برطانوی افواج کو ناکوں چنے چبوادیے ہیں. برطانوی فوج میں مسلمان انڈین بهی ان کے ساتھ  مل جاتے ہیں۔ پہلے غذا کا ذخیرہ پر قبضہ کر کے اسے تباہ کرتے ہیں  اور پھر  بر طانوی  اسلحہ خانہ تباہ کرنے کے بعداسے مکمل طور پر بے بس کر دیتے ہیں ۔
اسلحہ خانہ تباہ ہونے کے بعد دوبارہ  برطانوی انجینیرز  اسلحہ تیار کررہے ہیں ۔ اس کے لیے بھٹی کی ضرورت ہے اور ایندھن کی کمی کے باعث لوگوں کے گھروں کے دروازے کھڑکیا ں توڑ کر بھٹی دہکائی جارہی ہے ۔ ظلم کی انتہا ہے ۔مگر یہاں بھی  علی اور اس کے ساتھی اپنا کام کرگزرتے ہیں ۔ لکڑی  ڈھونے کا کام شہریوں سے لیا جا رہا ہے تو ان میں شامل ہوکر  چپکے سے کبھی رائفل کا ڈیزائن بدل دیتے ہیں تو کبھی اوزان میں کمی بیشی ۔۔۔۔اور یوں انگریزو ں  کی ساری محنت ضائع ہوجاتی ہے ۔
زمینی  اور  دریا کے ذریعے  غذا اور رسد حاصل کرنے میں ناکامی کے باعث  برطانوی فوج  فضا کے ذریعے غذائی امداد منگواتی ہے جو عثمانی فوج کے ٹھکانے پر جاگرتا ہے اور وہ اس میں شامل چیزیں دیکھ دیکھ کر حیران ہورہے ہیں ۔
برطانوی فوج شہر سے فرار کا منصوبہ بناتی ہے۔ اس کے لیے وہ رات کے اندھیرے میں پل بنا رہے ہوتے ہیں ۔علی کے گروہ کوخبر ملتی ہے ۔اگرچہ سرنگیں تباہ  کردی گئی ہیں ، وہ ایک پناہ گاہ میں ہیں  اور ان کے پاس کسی قسم کاسلحہ موجود نہیں ہے لیکن وہ شیشے کی بوتلوں اور مٹی کے تیل کے ذریعے یہ پل تباہ کردیتے ہیں ۔یہ ایسا منظر ہے جس پر برطانوی ہکا بکا رہ جاتے ہیں ۔  اس کے بعد بر طانوی فوج کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا ۔
  .بالاخر 147 دن کے محاصرے کے بعد برطانوی جرنل ٹاون شیڈ  اپنے 13000 سے زائد فوجیوں کے ساتھ ہتهیار ڈال دیتا  
 ہے  ۔  300سال میں یہ برطانیہ کی پہلی پسپائی تھی ۔ کوٹ العمارہ دوبارہ مسلمانوں کوواپس مل جاتا ہے  اور دوبارہ ہلال والا 
پرچم .لہرانے لگتا ہے

https://www.facebook.com/TS2ESS/videos/2527646987486049/

/کسی بهی ڈرامے یا فلم سے گزرتے ہوئے ناظر جن کیفیات سے گزرتا ہے انہیں الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے مگر پهر بھی کچھ  مناظر ذہن کو جهنجهوڑ دیتے ہیں ان میں دلچسپ بهی ہوتے ہیں اورجذباتی بهی، خوشگوار بھی اور  ناخوشگوار بھی 
*دلچسپ مناظر*

*٭بصرہ کے جیل کیمپ میں تمام مناظر بے حد متحرک اور دلچسپ ہیں اگرچہ تشدد بهی بہت دیکهنا پڑتا ہے مگر ایمانی قوت کا مظاہرہ برطانوی فوجیوں کو بے بس کیے رہتا ہے۔
٭علی نے اپنے مختصر ساتھیوں کے ساتھ پورے شہر میں سرنگوں کا جال بچھا دیا ہے ۔ جہاں جانا ہو یا نکلنا ہو سرنگ کے  ذریعے نکل جاتے ہیں ۔ دشمن اپنی تمام تر طاقت اور اختیار کے باوجود ان سرنگوں کا سراغ لگانے سے قاصر ہے   البتہ فاطمہ کی بے احتیاطی  اور ایلیسا کے تجسس کے باعث   بالآ خر سرنگ  تلاش کر لی جاتی ہے ۔
٭برطانوی حملہ شروع کرتے ہوئے پہلے انڈین فوجیوں کو بهیجتے ہیں اور وہ جاکر عثمانی فوج سے مل جاتے ہیں ۔ یوں برطانوی فوج اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مارتی ہے .
٭جرمن جرنل گلٹز بستر مرگ سے میدان جنگ میں پہنچ جاتا ہے کہ فتح کا کریڈٹ لے!                                           
    خلیل پاشا جز بزہوتے ہوئے بهی اس کے جذبے کو سراہتے ہیں کہ میدان جنگ میں موت بہادری کی علامت ہے !
٭خلیل پاشا اپنا تابوت تیار کرواتے ہیں کہ اپنی موت کا دشمن کو یقین دلاسکیں اور برطانوی جرنل دوربین کے ذریعے اس کو زندہ سلامت دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے.
٭ اسکوپلو کئی دفعہ برطانیہ کے ہتھے چڑھا مگر وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکے ۔ جب  سعید کو کو رہا کرانے کی خبر جرنل  کو ملتی ہے تو وہ بے بسی سے کہتا ہے   
        '' ۔۔کیا حالت ہے ہماری !  سرکس کے  بندر کے  ساتھ بھی اتنا نہیں  کیا جاتا جیسے اسکوپلو ہمارے ساتھ کر رہا ہے !                         تفریح بنا لی ہے  اس نے ۔۔۔!''
٭انڈین فوج جب عثمانی فوج سے مل جاتی ہے تو ان کی وردیاں ان کو دی جاتی ہیں جو ان کے جسم پر ڈهیلی ہوتی  ہیں ..
٭فتح کایقین ہوتے ہی علی اور فاطمہ کا نکاح ایک پناہ گاہ میں ہوتا ہے. اس سے پہلے زینب اور محمد کا نکاح بهی ایک مہم کے دوران کسمپرسی کے عالم میں صحرا میں ہوا تها .
 ٭شریف نجار علی کا شدید مخالف ہوتے ہوئے بهی اندر سے اس کی سرگرمیو ں کا مداح ہوجاتا ہے  ۔آخر میں   ڈرامائ انداز میں فاطمہ کو اس کے ہمراہ جانے کو کہتا ہے اور خود شہید ہوجاتا ہے 
  شیعہ اور سنی علماء کو بیک وقت  قتل کرنے کا ٹارگٹ جن کرایہ کے قاتلوں کو دیا جاتا ہے ۔انگریز علماء کے بجائے ان دونوں کی لاشیں چوک پر لٹکے ہوئے دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں ۔.
۔ *جذباتی مناظر*
سعید اور زینب دونوں پر بری طرح سختی ہوتی ہے کہ وہ علی کا ٹهکانہ بتادیں مگر وہ زبان نہیں کهولتے .خاص طور پر محمد کی یاد داشت واپس آجاتی ہے اور وہ زینب پر ہونے والے ظلم کو برداشت کرتا ہے کہ اس کے ڈرامے کا بهانڈا نہ پهوٹے.
*برطانوی فوج میں موجود کوئی بهی مسلمان سپاہی مرتے وقت کلمہ پڑهنے لگتا ہے تو عثمانی اپنی تلوار روک لیتے ہیں.
*محاذ پر لڑتے ہوئے مسلمان فوجی پیاس سے نڈهال ہوتے ہوئے بهی اپنے ساتهیوں کے لیے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہیں.. 
  بهوک سے نڈهال ایک ترک فوجی بے ہوش ہوکر گرتا ہے تو خلیل پاشا اسے اپنی گود میں اٹها کر لاتا ہے   جبکہ ایک برطانوی فوجی لڑکهڑاتا ہے توانگریز سارجنٹ اسے خود گولی ماردیتا ہے .
دونوں مخالفین کمانڈر کا اپنے ساتهیوں کے ساتھ رویوں کا فرق بہت جگہ محسوس ہوا. خاص طور پر انڈین فوجیوں کے ساته برطانوی افواج کا رویہ توہین آمیز تھا۔
کسی بھی جذباتی مرحلے پر انگریز فوجی شراب انڈیلتے ہیں جبکہ مسلمان تلاوت قرآن ،نماز پڑھتے نظر آتے ہیں ۔۔ ہر کامیابی پر سورہ فتح اور ہر شکست /موت پر سورہ یاسین پڑھتے نظر آتے ہیں
  ٭ ہندوستانی مسلمان کیپٹن  جو سلطنت عثمانیہ کاساتھ دیتا ہے ۔اس جرم میں  پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے 
٭ کوت العمارہ  میں برطانوی فوج کی شکست کے بعد ہتھیار ڈالنے کی تقریب قابل دید ہے۔
h
 https://www.facebook.com/TS2ESS/videos/194310931682924/
٭ غذائی قلت میں انگریز شہریوں سے  کھانا چھین لیتے ہیں ۔ اس موقع پرعلی اور اس کے ساتھی رات کو گھروں میں کھاناتقسیم  کر رہے ہیں ۔ ایک گھر میں ایک بوڑھی عورت دعائیں دے کر حضرت عمر ٖ کو یاد کرتی ہے  ۔!

٭اہم کردار ٭
اس ڈرامےمیں فوجیوں کے ساتھ جاسوسوں کا ایک بہترین  ملاپ دکھا یا گیا ہے ۔ محکمہ جاسوسی دفاع کے عنوان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔جاسوس  اپنے اصلی نام اورشخصیت  سے بہت  کم  نمایاں ہوتے ہیں بلکہ عموما وہ پس دیوار  اور گمنام رہ کر  اپنا کردار ادا کرتے ہیں  
اس سیریز  کا ہیرو علی اسکوپلو ایک جاسوس   بے حد پرسکون  اورسنجیدہ شخصیت ہے۔ اپنے ساتھیوں پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے ۔ انتہائی خطرناک صورت حال میں بھی نہیں گھبراتا بلکہ اپنے ساتھیوں کو یہ کہہ کر تسلی دیتا ہے کہ  "جہاں ایمان ہے وہاں امکان ہے !" 
اس مہم کا  ہیرو کرنل خلیل پاشا سحر انگیز شخصیت کا مالک ہے جو  کبھی بھی غیض و غضب کا شکار نہیں ہوتا  اور  دباؤ لینے کے بجائے  بصیرت  سے کام لیتے  ہوئے  اپنے اہداف کو حاصل کرتا ہے ۔
اس جنگ  کا ایک اہم کردار کرنل لارنس ہے جو برطانوی انٹلی جنس کا اہم ترین ممبر ہے ۔وہ اس محاصرے کے دوران اس خطے میں موجود نہیں ہوتا مگر ایک مسلمان کیپٹن جعلی لارنس بن کر برطانوی فوج کو خوب نقصان پہنچاتا ہے ۔اس کی آمد کے موقع پر ٹیلی گراف کی لائینیں  ہندوستانی کیپٹن خراب کردیتا ہے اور دلچسپ بات یہ کہ لارنس اتنے بہروپ بھرتا تھاکہ اس کی اصل شکل سے برطانوی  فوج لاعلم تھی اور یوں جعلی لارنس نے اپنا کام خوب اچھی طرح کیا ۔
٭ پہلے سیزن میں برطانوی جاسوس کاکس ولن ہوتے ہوئے بھی دلچسپ حرکتیں کرتا ہے اگرچہ اپنے مشن کے معاملے میں بہت یکسو رہتا ہے ۔ برطانوی جرنل ٹاؤنشیڈ ایک مہذب کردار میں جبکہ کیپٹن ہملٹن اور ڈاکٹر ایلیسا سخت متعصب اور جنونی رویے کا مظاہرہ کرتے  نظر آتے ہیں۔
٭برطانوی فوج میں ہندوستانی مسلمان ڈاکٹر سلمان اور  کیپٹن رجعت  اپنی جان  ہتھیلی پر رکھ کرعثمانی  فوج کی ساتھ شامل رہتے ہیں ۔اسی طرح یعقوب نامی نوجوان برطانوی ہیڈ کوارٹر میں بظاہر صفائی کا کام مگر دراصل  انگریزوں کی مخبری سر انجام دیتا ہے اور  بالآ خر  دونوں شہید ہوجاتے ہیں ۔
٭ سعید بظاہر جذباتی  اورکمزور اعصاب رکھنے والا نوجوان نظر آتاہے مگر سخت تشدد کے باوجود وہ اپنی زبان نہیں کھولتا  اور مستقل مزاجی اور ثابت قدمی  کا مظاہرہ کرتا ہے۔
٭  مجنوں نام کا شخص جو بظاہر ایکسٹرا کا کردار ادا کررہا ہے مگر  مجہول سا نظر آنے والا یہ فرد اس  مزاحمت میں بھرپور حصہ لے رہا ہے ۔ سڑک پر بیٹھا ہر چیز کا مشاہدہ کر کے خبریں کمانڈر تک پہنچانا ہو  یا انگریزوں کےاسکوپلو کے خلاف کسی آپریشن میں  رکاوٹیں ڈالنا ہو، فوج کے کسی مخبر کی سرنگ تک رہنمائی کرنا ہو۔۔۔۔غرض ہر کام میں مجنوں صاحب حاضر ! اور پھر حیدر بابا اپنی شہادت سےقبل  اس کو اپنی ڈائری حوالے کرتے ہیں کہ حریت کی یہ داستان اب اسے رقم کرنی ہے 
٭
  ٭٭ اہم بات ٭٭
٭ چونکہ اس ڈرامے میں ماضی قریب (سو سال پیشتر کی دنیا ) کا زمانہ دکھایا گیا ہے تو  کچھ جدید آلات کی ابتدائی اشکال نظر آتی ہیں ۔ مثلا ٹائپ رائٹر  وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ موبائل کا زمانہ ابھی بہت دور ہے  ٹیلی فون بھی نہیں ہیں ۔روشنی  کے لیے  بجلی کے بجائے مشعلیں استعمال ہوتی ہیں ۔۔
٭ خطوط اور دستاویزات سے اندازہ ہورہا ہے کہ  ترکی میں اس وقت عربی رسم الخط ہی رائج تھا ۔
٭ ہر  مسلمان کے گھراور خیمے میں قرآن ضرور دیوار میں لٹکا نظر آتا ہے ۔
٭  مکمل بے سروسامانی کے باوجود رابطے کا بہترین مظاہرہ ٭رابطو٭  کی بہترین  تفسیر پیش کرتا ہے ۔
٭ نظم و ضبط تربیت اورپریکٹس کا متقاضی ہے مگر ان ہنگامی حالات میں بھی  اس کی عملی شکل نظر آئی ۔دشمن کی چالوں کو ناکام بنا نا اور غیر ملکی تسلط سےنجات پانا 
اس کے بغیر ناممکن تھا ۔

 ٭٭ ڈرامہ ڈرامہ حقیقت نہیں ہے ٭٭
جذبات  ڈرامے  کا بنیادی عنصر ہے ۔جس میں ایکشن  سے لے کر سازشیں ، محبت سے لے کر حسد اور بغض ، اتحادیوں کو توڑنے کی کوششیں ، انا بھی ہے اور ہتھکنڈے بھی ! اس ڈرامے میں ان سب کا بہترن امتزاج موجود ہے۔ 
ڈرامے پر اتنے گهنٹے لگانے کے بعد اس پر ریویو بظاہر وقت کا ضیاع لگے گا  اور پھر   
ہماری قابل تاریخ نگار نے درست کہا کہ تاریخی فلم یا ناول  تاریخ نہیں ہوتی۔۔۔۔ بالکل صحیح تجزیہ ہے مگر تاریخ کی کتاب تک پہنچانے کا ذریعہ ضرور یہ ناول اور ڈرامے ہوتے ہیں .
آخر عثمانی خلافت کے بارے میں ہم پاکستانی کتنا جانتے ہیں ؟ نصاب یا میڈیا  نے کبھی اس حوالے سے کوئی ذہن 
سازی کی یا جیسا کہ انڈین سپاہی نے کہا کہ ہماری تو تاریخ تک انگریزوں کے ہاتھ میں ہے
سچ کہا تها اردوان نے جب تک شیر اپنی تاریخ خود نہیں لکهیں گے گیدڑ اس کو مسخ کرتے رہیں گے۔۔ .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ...


https://www.facebook.com/TS2ESS/videos/194310931682924/



1 تبصرہ: