بدھ، 19 مئی، 2021

قیصر و کسریٰ ( حصہ سوم : پیشن گوئی)

 


پیش گوئی  


  باب  20 :

یہ  وہ زمانہ ہے   جب شام میں ایرانیوں کی فتوحات کے ساتھ آگ اور صلیب کا معرکہ ایک فیصلہ کن دور میں  داخل ہو چکاتھا ۔ مورخوں کی نگاہ میں  بازنطینی سلطنت کی تباہی کے ظاہر ی اسباب مکمل ہوچکے تھے لیکن قضا و قدر کی نگاہیں روم اور ایران کی رزم گاہوں سے سینکڑوں کوس دور اس  بے آب و گیاہ وادی کی طرف لگی ہوئی تھیں جہاں کفر اور اسلام کی جنگ لڑی جارہی تھی۔  ایسے میں نبی محترم ﷺ  پر اتری یہ وحی مکہ کے کافروں کے لیے سخت اچھنبے کا باعث بن رہی تھی۔

 اس باب میں مشرکین مکہ کی محفل کا منظر ہے جہاں وہ اس پیش گوئی پراپنے تاثرات  بتا رہے ہیں ۔جب شام سے کسریٰ کی فتوحات کی خبریں آتیں تو مشرکین مکہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اورمسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے دھمکیاں بھی دیتے ۔ایس میں قرآن کی پیشن گوئی میں رومیوں کی فتح کی خبر ان کے لیے وجہ فکر بنی ۔اگر یہ پیشن گوئی صرف روم و ایران سے تعلق رکھتی تو شاید مشرکین مکہ اس قدر دلچسپی کا اظہار نہ کرتے لیکن اس میں مسلمانوں کی فتح کی خبر ان کے لیے ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھی اور شاید ظاہری اسباب و وسائل کے حوالے سے ناممکن بھی تھی ۔

باب 21- 29:

عاصم   بے یقینی اور نامیدی کی کیفیت میں مصر کے شہر بابیلون پہنچتا ہے تو ایرانی فوج کے مظالم دیکھ کر اسے  انسانیت کی موت نظر آتی ہے ۔ یہاں فر مس کے داماد کلاڈیوس کو ایرانی افواج سے معجزانہ طور پر  بچاتا ہے ۔کلاڈیوس رومی فوج کا ایک سپہ سالار، اسکندریہ ( مصر) کے گورنر کا بھتیجا اور   رومی سینٹ کے ایک با اثر رکن کا بیٹا  تھا ۔ رومی ( عورتوں ، بچوں )  پناہ گزینوں کا ہجوم شام کے مخدوش حالات کے باعث بحری جہاز کے ذریعے غزہ سے اسکندریہ کی جانب محو سفر تھا ۔ سفر کے دوران  کلاڈیوس کی ملاقات اناطولیہ اور اس کی والدہ سے ہوئی ۔وہ دونوں ایک دوسرے سے متاثر ہوئے جو بالآخر شادی پر منتج ہوا۔ اب عاصم اور فرمس مع بیٹی داماد  کا سفر اسکندریہ کی طرف ہے ۔ کلاڈیوس  کی حفاظت کی خاطر  عاصم اسے اپنے غلام کی حیثیت سے لے جانےپر مجبور ہے ۔

بابیلون کی طرح اسکندریہ میں بھی رومیوں کے جھنڈے سر نگوں ہوچکے تھے ۔رومی بابیلون سے اسکندریہ کی طرف جارہے ہیں ۔ اب خسرو پرویز سین کو  قسطنطیہ کی فتح کا فریضہ سونپتا ہے جو اسے  بادل نخواستہ قبول کرنا پڑتا ہے ۔سین اپنے خاندان کے ساتھ ایک قلعہ نمامکان میں مقیم ہے۔ فسطینہ عاصم کے بارے میں جاننے کے لیے بے قرار ہے ۔ماں اس کے عاصم سے لگاؤ پر اسے سمجھا تی ہے کہ ایک عرب تمہارے لیے نہیں ہے بلکہ ایرج شاہی خاندان سے تعلق کے باعث تمہارے التفات کا زیادہ حقدار ہے ۔ سین پر قسطنطیہ فتح کرنے لیے بہت زیادہ دباؤ ہے

عاصم کا نیا موڑ:

عاصم حبشہ فتح کرنے ولے لشکر کی قیادت کر رہا ہے مگر جنگی حالات اسے سخت بد دل کررہے ہیں اور کلاڈیوس  اسے سمجھا رہا ہے کہ  اگر کسریٰ تمام علاقے فتح کربھی لے تو کیا اس کی ملک گیری کی ہوس ختم نہ ہوگی ؟ ۔۔۔۔کسریٰ کی خوشنودی کے لیے آپ کب تک انسانوں کی لاشیں روندتے رہیں گے ۔۔۔۔آپ کو مفتوحہ ممالک میں ایرانیوں کے مظالم کا اعتراف ہے اور اآپ یقینا اس خود فریبی میں مبتلا نہیں ہوسکتے کہ جب ساری دنیا کسریٰ کی غلام بن جائے گی تو ظالم اور مظلوم کی یہ داستان ختم ہوجائے گی ؟آپ دو قبیلوں کی نہ ختم ہونے والی جنگ کی ہولناکیوں سے دل برداشتہ ہوکر نکلے تھے ! کیا ایران اور روم کی یہ جنگ اس سے کہیں زیادہ ہولناک نہیں ؟ میں کیسے یقین کرسکتا ہوں کہ وہ نوجوان جس نے ایک زخمی دشمن کی فریاد سے متاثر ہوکر اپنے قبیلے کی تمام روایات کو ٹھکرا دیا تھا ۔کروڑوں انسانوں کو ایران کے آہنی استبداد کی چکی میں پستا دیکھ کر مطمئن رہ سکے گا ؟ عاصم زخمی ہونے کے ساتھ شدید بیمار اور ذہنی کش مکش  کا شکار ہے ۔اس بے مقصد جنگ پر وہ کلاڈیوس کی باتوں سے متاثر مگر کسی فیصلے پر پہنچنے سے عاجز ہے کہ اس کے اعصاب کمزور ہوچکے ہیں ۔

عاصم کی بیماری کے باعث اسے کشتی میں روانہ کیا جا تا ہے اور اس کی بے ہوشی کے دوران کلاڈیوس اسے محاذ جنگ کے بجائےطیبہ کی طرف لے جاتا ہے ۔عاصم ہوش میں آکر مخالفت کرتا ہے مگر پھر کلاڈیوس کےیہ کہنے پر کہ   جب آپ تندرست ہوجائیں گے تو اس بات کو فیصلہ کرنا آپ کے اختیار میں ہو گا کہ آپ جس چیز کی تلاش میں نکلے تھے وہ آپ کو کہاں ملے گی ؟  عاصم بے یقینی کی کیفیت سے نکل کر کلاڈیوس  کے ساتھ بابیلون جانے پرتیار ہو جاتا ہے کہ اب  وہ ایک چھوٹی سی چراگاہ اور چند بھیڑوں کے ساتھ زندگی گزارے گا !  ۔قسطنطیہ میں کلاڈیوس کے گھر  اس کا باپ اور بہن استقبال کرتے ہیں اورا ن کے اعزاز میں دعوت کا انتظام کرتے ہیں ۔ ان کی میزبانی سے مستفید ہونے کے بعد فرمس اور عاصم سرائے کا کا کروبار شروع کردیتے ہیں ۔ عاصم کا ارادہ اب تلوار نہ اٹھانے کا ہے۔

ادھر ایرج سین کے گھر پہنچ کرفسطینہ سے شادی کا اصرار کرتا ہے  اور اس کے انکار پر دھمکی دیتا ہے کہ تمہاری ماں عیسائی ہے ! عاصم کے لاپتہ ہونے کی خبر دیتا ہے کہ شاید اسے قتل کرکے دریائے نیل میں پھینک دیا ہو ! فسطینہ سخت ناراض ہوتی ہے ۔ اپنی ماں سے کہتی ہے کہ میرا دل کہتا ہے کہ عاصم زندہ ہے ! اگر وہ نہ بھی لوٹا ایرج جیسے سنگ دل انسان کی کے بجائے میں راہبہ بننا پسند کروں گی ۔

بازنطینی سلطنت ایشیا اور افریقہ کے محاذوں پر ایرانیوں کے ہاتھوں پے درپے شکست کھانے کے ساتھ یورپ میں بھی ایک تشویشناک  صورت حال کا سامنا کر رہی تھی ۔ اور وہ تھے خانہ بدوش وحشی قبائل ! ان حالات سے دلبر داشتہ اور مایوس ہوکر ہر قل قرطاجنہ فرار ہونے کا فیصلہ کر چکا ہے تو اسقف اعظم سرجیس اسے اس بات پر راضی کر لیتے ہیں کہ قسطنطیہ چھوڑ کر جانے کے بجائے ایک حکمران کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہو ۔ اس کوہمت دلاتے اور دعا دیتے ہیں تو اس کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ کلاڈیوس  قیصر سے ملاقات کرکے اسے اس بات پر راضی کرلیتا ہے کہ ہم بیک وقت دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتے لہذا خاقان کے ساتھ مصالحت پر آمادگی  اور ہر قلیہ میں خاقان اور قیصر کی ملاقات ہوگی ۔

باب 30-36  :

ہرقلیہ کے میلہ میں کیا ہوا؟

ایک شاندار میلے کا اہتمام ہے ۔یہاں پہنچ کر عاصم کو محسوس ہوا کہ مغموم فضا سے نکل کر مسکراہٹوں کی دنیا میں داخل ہوگیا ہے مگر جب وہ ایرج کو خاقان کے وفد میں ایلچی کے حیثیت سے دیکھتا ہو تو خدشات کا شکار ہوتا ہے ۔اور پھر اس کے ذریعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاتاری قیصر اور رومیوں پر حملے کی تیاری سے آئے ہیں ۔ عاصم قیصر کو اس سازش سے خبر دار کرتا ہے ۔ ادھر تاتاری ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ اس نے ان کا بھید کھول دیا ہے اور وہ اسے قتل کردیتے ہیں ۔ مرنےسے قبل ایرج عاصم کو بتاتا ہے کہ فسطینہ آج بھی تمہاری منتظر ہے! تاتاری قتل و غارت گری  کرتے ہوئے قسطنطیہ کے  دروازے تک آپہنچتے ہیں ۔ لاکھوں کو غلام بنا کر ساتھ لے جاتے ہیں ۔  اس موقع پر کلاڈیوس اور عاصم کسی امن کے داعی کے متعلق پیشن گوئی یاد  کرتےہیں جو فرمس کرتا تھا۔  فرمس بھی مرنے والوں میں شامل ہے ۔اس سانحے پر کلاڈیوس سخت الزامات کی زد میں ہوتا ہے مگر قیصر اس کی بہادری اور نیک نیتی پر اسے شاباشی دیتے ہوئے عاصم کو پذیرائی دیتا ہے جس نے انہیں بروقت خبر دار کیا ۔

منصوبہ برائے امن :

قیصر تک رسائی  حاصل کرنےکے بعد عاصم امن کے لیے کسری ٰ کو جنگ بندی پر راضی کرنے کی تجویز دیتا ہے ۔ اس کام کا بیڑا  عاصم کے سر آتاہے ۔سین کے مزاج اور حیثیت کو مدنظر رکھتےہوئے اس کی قیصر سے ملاقات کا انتظام کرنے روانہ ہوتاہے۔  سین کے گھر پہنچا تو عاصم کی تجویز سن کر سین پہلے تو ہچکچاتا ہے مگر ایرج کے موت کا سن کر اسے کسریٰ کے پاس جانے کی ہمت ہوتی ہے کہ اسے اس بے مقصد خون ریزی سے باز رکھ سکے جبکہ قیصر صلح کے لیے تیار ہے  ۔ اس سلسلے میں پہلے سین کے ساتھ قیصر کی ملاقات ہونی ہے پھر قیصر کا پیغام لے کر کسریٰ کے دربار میں جانا ہے ! عاصم کو دیکھ کر  فسطینہ اسے دیکھ کر کھل اٹھی۔ کھل کر اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے عاصم کہتا ہے کہ پہلے میں اس امن مشن کو مکمل کروادوں۔

عاصم ، سین کے ساتھ  کلادیوس ، ویریلیس اور سائمن اور  چند سپاہی جو یہودی تاجروں کے بھیس میں ہیں ، دست گرد پہنچتا ہے مگر ان کی بد قسمتی  اور کسریٰ کی فرعونیت کہ وہ اس بات کو سنتے ہی سین کو قتل کروادیتا ہے ۔سین قتل ہونے سے پہلے کسریٰ کو اس کے مظالم پر لعن طعن کرتاہے اور کہتا ہے کہ میں اس جرم میں شریک تھا اور اب اپنی جان دے کر کفارہ ادا کررہا ہوں ۔ اور ساتھ ساتھ عرب میں  نبیﷺ کی پیش گوئی  کا بھی ذکر کرتا ہے۔ اور عاصم کو رومی جاسوس کی حیثیت سے  قید خانے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔  ظالم فاتح  کسریٰ ہرقل کے ایلچیوں کو انتہائی توہین آمیز صلح کی شرائط قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔  کلاڈیوس فسطینہ ،اس کی ماں اور وفادار نوکر کونہایت رازداری بحفاظت  قسطنطیہ میں پہنچادیتا ہے ۔

باب 37۔38 :

پیشنگوئی کی باز گشت

سلطنت روما کی صدیوں  کی عظمت خاک میں مل چکی تھی اور پرویز  دنیا کا  مغرور ترین انسان بن چکا تھا۔  یمن کا ایرانی گورنر سالانہ لگان کی رقم جمع کرانے دست گرد پہنچا تو پرویز  نے اس سے نبیﷺ کی پیشگوئی کے بارے میں پوچھا کہ پانچ سال پہلے تمہیں  اس پیشنگوئی کی اطلاع مل چکی تھی تو ہمیں کیوں باخبر نہیں کیا ؟ وہ اپنی جان بچانے کو کہتا ہے کہ آپ کی فتوحات کے سیلاب کے آگے یہ ایک بے حقیقت بات تھی۔ ظاہر بین نگاہیں رومیوں کی ذلت اور رسوائی کاآخری نقشہ دیکھ رہی تھیں لیکن اب بھی خدا کی زمین پر مٹھی بھر انسانوں کی جماعت ایسی تھی جن کے نزدیک ابھی تک شکست اور فتح کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔

مشرکین مکہ کو رومیوں کی فتح سے زیادہ  مٹھی بھر مسلمانوں کی فتح کی پیشن گوئی پر حیرت تھی جو رومیوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہ رکھتے تھے۔ لیکن چند برس پہلے مکہ کی گلیوں میں جس پیشن گوئی کا مذاق اڑایا گیا اس کے پورا ہونے کا وقت قریب آچکا تھا۔

ہرقل نے کلیساؤں کی  مالی مدد  اور ترک قبائل کی فوجی مددسے نئی فوجی حکمت عملی ترتیب دی اور بالآخر کسریٰ کو شکست سے دوچار کیا۔ ٹھیک اسی وقت بدر کے میدان میں تین سو تیرہ مسلمانوں کی فتح کی داستان دہرائی گئی ۔ وہ پیشن گوئی جس کا مذاق اڑایا گیا تھا اور جس کے خلاف مشرکین مکہ شرطیں لگا رہے تھے آج پوری ہوچکی تھی۔ ایران پر روم اور عرب پر اسلام کا غلبہ شروع ہوچکا تھا ۔

کسریٰ کو محمد ﷺ کا خط اس وقت موصول ہوا جب وہ اپنی تمام شان و شوکت کے ساتھ دریا کے کنارے پڑاؤ ڈالے ہوا تھا ۔  درباریوں نے اسے ایک مذاق جانا ۔ کسریٰ نے اس نامہ مبارک کے ٹکڑے ٹکرے کردیے اور یمن کے حاکم کو حکم دیا کہ نبوت کے اس مدعی کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ۔ یمن کے حکمران کو مسلمانوں کی طرف سے پیغام ملا کہ عنقریب مسلمانوں کی حکومت کسریٰ کے پایہ تخت تک پہنچنے والی ہے ۔ وہ  مسلمانوں کا  مذاق اڑانے میں مصروف تھے کہ اطلاع ملی پرویز اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے ۔  مراسلہ پڑھ کر اس کے منہ سے نکلا کہ مسلمانوں کے نبی  کی پیشن گوئی پوری ہوچکی ہے ۔

با ب 39 – 41 :

عاصم کو قید میں دو سال سے زیادہ ہوچکے تھے وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکا تھا ۔ ایسے میں ایرج کا باپ اس کے پاس رہائی کی خوشخبری  لے کر آتا ہے ۔  وہ عاصم کو قسطنطیہ جانے کے لیے گھوڑا اور سرمایہ دیتا ہے یہ کہتےہوئے کہ میرے گھر کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہے تم فسطینہ کوتلاش کر کے میرے پاس آسکتے ہو۔ میں یہ ہی سمجھوں گا کہ ایرج ایک نئے وجود میں میرے پا س آچکا ہے ۔

عاصم کو راستے میں   ویریلیس ملا جو اس کی تلاش میں نکل رہا تھا ۔وہ  اسے خوشخبری دیتا ہے کہ فسطینہ زندہ ہے ۔ قسطنطینہ پہنچتے ہیں جہاں ہرقل کی آمد پر فتح کا جشن منا یا جارہا تھا۔ عاصم جشن منانے کے اس انداز سے سخت بیزار نظر آیا ۔وہ کلاڈیوس کے گھر پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فسطینہ اپنی ماں کی قبر پر گئی ہے ۔ ان دونوں کا  ملاپ آنسوؤں میں ہوتا ہے ۔ فسطینہ پر راہبہ بننے کا دباؤ تھا ۔ انطونیہ اور کلاڈیوس نے اسے روکا ہوا تھا۔ اگلے دن ان دونوں کا نکاح ہوجاتا ہے ۔ راہبوں کی طرف سے خطرہ تھا لہذا وہ دمشق روانہ ہوجاتے ہیں ۔ روانگی سے پہلے کی محفل میں بھی نبیﷺ کی پیشگوئی اور ایک صالح نظام کی طلب پر گفتگو ہوتی ہے ۔ ایک نجات دہندہ جو ہر طرف امن اور آزادی کا پیغام دے !

ٹھیک اسی مقام پر جہاں چند سال قبل کسریٰ  انتہائی غرور سے پڑاؤ  ڈالے ہو اتھا ۔ ہرقل بھی پڑاؤ ڈالتا ہے تو اسے بھی حضورﷺ کا نامہ مبارک ملتا ہے لیکن وہ پرویز سے مختلف  تھا ۔ وہ تصدیق کے لیے عرب باشندوں کو طلب کرتا ہے ۔ ابو سفیان سے تصدیق کے بعد وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے اور کہتاہے ۔

''۔۔۔۔۔۔مجھے اس بات کا احساس ضرور تھا ایک نبی آنے والا ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ عرب میں پیدا ہوگا ۔اگر میں وہاں پہنچ سکتا تو اس کے پاؤں دھوتا ۔۔۔" یہ الفاظ سن کر دربار میں سنا ٹا چھا گیا اور پھر ہرقل کی ہمت جواب دے گئی اور اس نے اپنی رعایا کا اضطراب دور کرنے کے لیے عربوں کو دربار سے نکلنے کا حکم دے دیا ۔ یوں وہ اس رحمت  سے محروم رہ گیا ۔

باب  42:

عاصم کی ہچکچاہٹ :

 عاصم اور فسطینہ  اپنے بیٹے یونس کے ساتھ دمشق میں آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں ۔ عاصم کے دل سے غریب الوطنی کا احساس بتدریج ختم ہورہا تھا اور ماضی کے آلام مصائب اب اسے ایک خواب محسوس ہوتے  ۔مذہب کے متعلق دونوں کے خیالات مختلف تھے ۔فسطینہ عاصم کو عیسائیت پر ایمان لانے کی ترغیب دیا کرتی تھی۔وہ اسے خوش کرنے کے لیے کبھی کبھی گرجا چلا جا تا تاہم عیسائیت کے متعلق اس کے جذبات بہت سرد تھے۔ اور یہ سرد مہری اور یا بے توجہی کسی ضد یا ہٹ دھرمی کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اس تلخ حقیقت کا اعتراف تھا کہ عرب کی اصنام پرستی اور ایرانی مجوسیت کی طرح اسے کلیساکا دامن بھی اس روشنی سے خالی نظر آتا جو انسانیت کے بھٹکے ہوئے قافلوں کو سلامتی کی راہ دکھا سکتی ہو! وہ ایک ایسے دین کا متمنی تھا جو قوموں اور نسلوں کو عدل و انصاف اور امن کا راستہ دکھا سکے لیکن ایسے دین کا کوئی واضح تصور اس کی عقل اور سمجھ سے بالا تر تھا ۔

 دمشق کے بازاروں میں عرب تاجر مل جاتے تو انہیں اپنے گھر لے جاکر وہاں کے حالات پوچھتا اوریہ جان کر اسے حیرت ہوتی کہ چند بے سروسامان  انسانوں کا جو قافلہ مکہ سے نکل کر یثرب پہنچا تھا اس کے عزم و استقلال نے پورے عرب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ بدر کی فتح ناقابل یقین محسوس ہوتی لیکن جب مزید فتوحات کی خبریں آنے لگیں تو اسے ایک غیر متوقع انقلاب محسوس ہونے لگی ۔ ایسے میں کلاڈیوس کے خطوط اس ناقابل یقین انقلاب کی تصدیق کرتے لیکن اسلام کے جھنڈے تلے اوس و خزرج اور یثرب کے دوسرےخاندانوں کا متحد ہوجانا اور ان سب کا متحد ہوکر اہل مکہ کو شکست دینا اس کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔عرب تاجروں کی زبانی بدر، احد،اور خندق کے واقعات سننے کے بعد صلح حدیبیہ اور اس کے ساتھ مشرق و مغرب کے تاجداروں کے نام پیغمبر اسلام ﷺ کے خطوط اس کے نزدیک ایک مذاق سے زیادہ نہ تھی لیکن اب یہ سب کچھ مذاق سے آگے محسوس ہوتا ۔

عاصم اور فسطینہ کو دمشق آئے پانچ سال ہوچکے تھےکہ کلاڈیس کے اس خط نے تو اسے چونکا دیا جس میں معرکہ موتہ میں مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت کو بہت نمایاں کیا گیا تھا ۔ اس نے عاصم سے عرب جاکر صحیح صورت حال کا جائزہ لینے کی درخواست کی کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو مسلمانوں کو اپنے سے کئی گنا زیادہ مضبوط دشمن کے خلاف بہادری سے کھڑا کردیتی ہے ۔ قیصر نے ان سے نہ الجھنے کا فیصلہ کیا ہےلیکن سلطنت اور کلیسا کے اکابر یہ خدشہ  محسوس کرتے ہیں کہ جو قوت عرب قبائل کے اندر اتحاد اور مرکزیت پیدا کرسکتی ہے وہ آگے چل کر عرب کے ہمسایہ ممالک پر رومیوں کے اقتدار کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔کلاڈیوس کے بقول اسے اس نبی سے ملاقات کا بہت تجسس ہے۔ مگر کلاڈیوس کا اصرار بھی عاصم کو یثرب جانے پر آمادہ نہیں کرپاتا حتی کہ فسطینہ بھی اسے یثرب جانے کا مشورہ دیتی ہے لیکن وہ یہ ہی کہتا ہے کہ اس  گھر کے علاوہ میرا کوئی وطن نہیں !

اور پھریہ خبریں پھیلنے لگیں کہ مسلمانوں کے خلاف حملے کے لیے غسانی اور رومی فوجیں تیارہورہی ہیں جو عرب پر حملہ کرکے اسے کچل ڈالیں گی !  عاصم کے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار تھا کہ اگر اہل شام نے عرب پر حملہ کردیا تو اس کا طرز عمل کیا ہوگا؟ اور وہ دعاگو ہوتا کہ کاش شام اور روم کی افواج عربوں کے خلاف پیش قدمی کا ارادہ ترک کردیں ۔

باب 43- 44 :

مسافر کو منزل مل گئی !

کلاڈیوس کے  اس خط نے عاصم کو سوچنے پر مجبور کر دیا جس میں اس نے مسلمانوں کے تیس ہزار کے لشکر کے تبوک پہنچنے کی اطلاع تھی ۔ وہ لکھتا ہے کہ اگر میں عرب کا باشندہ ہوتا تو میرے دل میں یقینا یہ جاننے کی کوشش ہوتی کہ مسلمانوں کے لشکر نے کس امید پر شام کا رخ کیا ہےاور اس کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں ۔۔۔۔عربوں کی اس جرات کی کیا وجہ ہے ؟خط پڑھ کر   فسطینہ جواب طلب نظروں  سے عاصم کو دیکھتی ہے مگر وہ کہتا ہے کہ میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ لشکر اسلام تبوک سے باقاعدہ لڑے بغیر ہی کامیاب لوٹ گیا ۔ اس کے بعد بھی عاصم سال بھر تک عرب جانے کو ٹالتا رہا۔

ایک دن کلاڈیوس دمشق آپہنچا ۔عاصم کہتا ہے کہ میں کئی بار سفر کا ارادہ کیا لیکن شاید عمر کے اس حصے میں انسان کی قوت عمل اس کا ساتھ نہیں  دے پاتی ۔ویسے مجھے یقین ہے کہ مسلمان کا لشکر اب یہ غلطی نہیں کرے گا۔ اس پر کلاڈیوس کہتا ہے مسلمانوں کے عزائم کا تو پتہ نہیں لیکن  اس خطے میں جو  معجزہ رونما ہورہاہے وہ ہمارے لیے سرحدی لڑائی سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے ۔ میں تمہیں رومی جاسوس کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک معتبر گواہی کے لیے بھیجنا چاہتا تھا۔ خبروں سے معلوم ہوتاہے کہ پورا عرب اس دین کی بے پناہ اخلاقی اور روحانی قوت کے سامنے ہتھیار ڈال چکا ہے اور اہل عرب ایک جھنڈے کے تحت متحد اور منظم ہورہے ہیں ۔ اور جب یہ قافلہ اس طرف رخ کرے گا تو ایران اور روم کی ساری عظمتیں گرد و غبار بن جائیں گی ۔

" '۔۔۔۔۔عاصم تم میرے دوست اور محسن ہو اور میں اس احسان کا بدلہ چکانے کے لیے تمہیں قسطنطینہ لے گیاتھا لیکن آج میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر عرب کے متعلق  جو میں نے سنا ہے صحیح ہے توزندگی کی جو مسرتیں وہاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں وہ شاید قیصر کے دربار میں بھی نہ ملیں ۔اگر  عرب  پر رحمتوں  کانزول ہو رہا ہے تو میں چاہوں گا کہ تم وہاں جاکر اپنا دامن بھر لو۔۔۔۔۔"   

"۔۔۔۔اور مجھے یقین ہے کہ کلیسا کے اکابر قیصر کو زیادہ آرام سے بیٹھنے نہیں دیں گے اور وہ عیسائیت کی حفاظت کے لیے تلوار اٹھانے پر مجبور ہو جائے گا اور مجھے یہ کہتے ہوئے ندامت ہورہی ہے کہ جب عرب اور شام کا معرکہ شروع ہوگا تو تم یہاں صرف ایک عرب کی حیثیت سے دیکھے اور پہچانے جاؤ گے ۔جن لوگوں نے فسطینہ کے نانا کو اس کی عظیم خدمات کے باوجود ایرانیوں کا طرفدار سمجھ کر زندہ جلادیا تھا وہ تمہاری خدمات کا لحاظ نہیں کریں گے ۔،۔۔۔۔"   عاصم فوری عرب روانگی کو تیار ہوجاتا ہے یہ کہہ کر کے اب میں اپنےلیے نہیں بلکہ  یونس کے لیے جارہا ہوں ۔۔

 عاصم فسطینہ اور یونس کے ہمراہ یثرب ( مدینہ ) روانہ ہوجاتاہے ، اسے راستے میں اطلاع ملتی ہے کہ محمدﷺ کا انتقال ہوگیا ہے اور بعض قبائل اسلام سے منحرف ہورہے ہیں !  وہاں پہنچ کر وہ سمیرا کے گھر کے آگے رک جاتا ہے اور نعمان سے ملنے کی خواہش کرتا ہے۔ وہاں ایک خوشگوار صورت حال نظر آتی ہے جب اپنی چچازاد بہن سعاد کو نعمان کی بیوی کے روپ میں دیکھتا ہے ۔مزید یہ کہ تمام قبائل شیر و شکر ہوچکے ہیں ۔ اب ہمیں انسانی رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ اہم محسوس ہوتے ہیں ۔ افسوس ہمارا ہادی اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے لیکن وہ روشنی جو جس میں ہم نے انسانیت کی نئی عظمتیں دیکھی ہیں ہماری نگاہوں سے اوجھل نہ ہوں گی ۔

 نعمان اسے تفصیل بتا تا ہے کہ تمہارے جانے  کے بعد میں اور سالم تمہاری تلاش میں یروشلم اوردمشق تک گئےاور تین سال بعد آئے تو روئے زمین کی سار ی نعمتیں ہمارا انتظار کر رہی ہیں ۔ وہ عاصم کو اسلام کی دعوت دیتا ہے اورباالآ خر وہ روشنی حاصل کرلیتا ہے جس کی تلاش اسے دردر بھٹکاتی رہی ۔ اور اگلے ہی دن وہ اس معرکے میں شامل ہوجا تاہے جو اسلام سے منحرف ہونے والوں کی سر کوبی کو روانہ ہورہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 






اتوار، 24 جنوری، 2021

 

 حصہ دوم :  آگ اور صلیب

 

باب  12  :                                                                                                                      منظرنامہ

 

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے  اس میں روم اور ایران کی رزم گاہوں  کا اس وقت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔مشرق اور مغرب  کی جنگوں کا نیا دور اس وقت شروع ہوا جب ایران کے کسریٰ نوشیرواں نے بازنطینی سلطنت پر یلغار کردی  تھی۔




مشرق وسطیٰ 500 عیسوی 


540ء  میں نوشیرواں  3 لاکھ فوجیوں کے ساتھ شام  کی طرف روانہ ہوا۔حلب کے خوبصورت شہر کو آگ لگا دی اور انطاکیہ کی طرف پیش قدمی کردی۔  نوشیرواں شام کے شہروں کو لوٹنے کے بعد  مفتوحہ علاقوں سے ہزاروں مرد اور عورتوں کو جنگی قیدی  بنا کر  مدائین واپس آگیا اور فلسطین پر حملے کی تیاری شروع کردی ۔ اس وقت رومی افواج یورپ میں بر سر پیکارتھی  ۔قیصر روم نے سپہ سالار بلیسارس کو اٹلی سے واپس بلا لیا جس نے ایران کی سرحد پر پہنچ کر یروشلم کی طرف  ایران کی پیش قدمی روک دی لیکن اچانک  یمن کے حالات نے روم و ایران کے درمیان تصادم کی ایک نئی صورت پیدا کردی ۔

575 ء میں یمن کے حکمران ابرہہ نے مکہ پر چڑھائی کردی جس کا مقصد قدیم تجارتی شاہراہ پر مکمل قبضہ جمانے کے علاوہ مکہ کی مذہبی حیثیت ختم کرکے عرب میں عیسائیت کا  راستہ صاف کرنا تھا ۔اہل روم ابرہہ کی اس حرکت پر بہت پر امید اور خوش تھے مگر اہل مکہ کی تمام تر کمزوریوں اور بد اعمالیوں کے باوجود احکم الحاکمین کو اپنے گھر کی تباہی منظور نہ تھی چنانچہ اسے عبرتناک شکست اور ناکامی ہوئی ۔ ایک بار پھر جنگ کو مہمیز لگی اور  نوشیرواں نے یمن پر چڑھائی کردی ۔اس کے ردعمل میں قسطنطیہ میں  مایوسی پھیل گئی اور حکمران کو تبدیل  ہونا پڑا۔ اہل روم نے تین سال زبردست تیاری کے بعد دوبارہ جنگ شروع کردی ۔ نوشیرواں کوپسپائی اختیار کرنی پڑی اور اس کے بعد لشکر کشی کا ارادہ ترک کردیا۔

 نوشیرواں کے بعد اس کا بیٹا ہرمز تخت پر بیٹھا ۔اس ضدی اور مغرور حکمران نے اپنے باپ کے وفاداروں کو ایک ایک کر کے دربار سے نکال دیا ۔نوشیرواں کے  ایک   جرنیل بہرام   کے خلاف ہرمز کے خوشامدی ٹولے نے کان بھرے اور  اپنا حریف بنا لیا  ۔ بہرام نے مدائن پر قبضہ کرکے ہر مز کے بیٹے خسرو پرویز کو ملک کی زمام کار دے دی۔ بعد میں  خسرو پرویز کی ملکہ شیریں کے ایما پر بہرام کو زہردے دیا۔پرویز نے ظلم و تشدد کا نیا باب کھول دیا ۔

ادھر قسطنطیہ ( روم ) میں شہنشاہ  موریس کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے فوکاس نے تخت پر قبضہ کرلیا ۔ اس کے مظالم  کے باعث رومیوں نے بھی اپنے ظالم اور نااہل حکمران کے خلاف بغاوت کردی۔قسطنطیہ کے امراء اور حکمرانوں نے افریقی گورنر کو تخت پر قبضے کی دعوت دی تو اس نے اپنے نوجوان بیٹے ہرقل کو جنگی بیڑے کے ساتھ  قسطنطیہ روانہ کردیا ۔ناول میں اس زمانے کا   ذکر ہے جب ہرقل تخت پر رونق افروز ہوا  اس وقت  پرویز کی فوجیں انطاکیہ پر قابض ہوگئی تھیں  اور  گرجے آتش کدوں میں تبدیل  کیے جارہے تھے۔

باب  13 تا                           باب                       16 :                                                                                                                                                        

عاصم    اپنی منزل مقصود سے لاعلم ناگفتہ بہ حالت میں  یثرب سے نکلتا ہے  اور بارش برستی رات میں  یروشلم  کی سرائے  پہنچتا ہے جہاں ناول کےآغاز میں ٹھہرا تھا ۔سرائے کا مالک فرمس  اس کی ویرانی دیکھ کر پہچاننے میں دشواری   محسوس کرتا ہے ۔ پھر استقبال کے بعد تواضع کرتاہے ۔اس کے حالات جان کر اسےتسلی دیتا ہے اور اپنی داستان بھی سناتا ہے کہ اس کے  باپ  کو  رہبانیت کے خلاف  آواز اٹھانے پر اسکندریہ  کے راہبوں نے زندہ جلادیا جبکہ بھائی پر رومی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر بابیلون کے چوراہے پر پھانسی دے دی گئی اور وہ دربدر  ہوتے ہوتے یہاں پہنچا ہے ۔ یہ باتیں سن کر عاصم کا اضطراب اور بڑھ جاتا  ہے کہ آلام و مصائب کی دنیا میں وہ تنہا نہیں بلکہ آج پوری انسانیت  اپنے مقدر کی تاریکیوں سے پیچھا  چھڑانے کو بھاگ رہی ہے ۔  فرمس عاصم کی ہمت بندھاتا ہے کہ وہ ایک بہادر انسان ہے جو طوفانوں سے لڑنے کے لیے پیدا ہوا ہے !

                                                                                                                                                                عاصم کی ہنگامی دمشق  روانگی

یہاں پر کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے  جب دو انتہائی معزز خواتین کو بحفاظت یروشلم سے دمشق پہنچانے کی ذمہ داری فرمس عاصم کو سونپتا ہے ۔ یہ ماں  بیٹی  یروشلم کے حاکم سے چھپ رہی ہیں جو ذاتی انتقام کی خاطر ان کے تعاقب میں ہے ۔وہ انہیں گرفتار تو نہیں کرسکا مگر ایرانیوں کاجاسوس ہونے کا الزام لگا کر  راہبوں کو ان کے پیچھے لگا دیا۔ عاصم یہ ذمہ داری قبول کرلیتا ہے یہ خواتین عاصم کے  عربی ہونے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں مگر کوئی چارہ نہ پاکر اس کے ہمراہ جانے کو تیارہوجاتی ہیں ۔وہ اسےمعاوضے کی پیشکش کرتی ہیں جسے وہ رد کردیتا ہے جس پر انہیں تجسس ہوتا ہے کہ کوئی عرب بھی نیک ہوسکتا ہے ! عاصم کا  تذبذب یہ ہے کہ جب دمشق   ایرانیوں کی پیش قدمی کے باعث خالی ہورہا ہے تو یہ وہاں کیوں  جارہی ہیں ؟  جس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ انہیں ایرانیوں سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس خاتون کا شوہر  سین ایک ایرانی افسر ہے ۔  فرمس عاصم کو عرب کے بجائے  ایک رومی افسر کے بھیس میں ان خواتین کو دمشق لے جانا مناسب جان کر ایک وردی اس کو دے دیتا ہے ۔اگرچہ اس نے آئندہ تلوار نہ اٹھانے کی قسم کھائی ہوئی ہے مگر ان خواتین کی حفاظت کے خیال سے  وہ  تلوار  اور تیر کمان بھی ساتھ لےلیتا ہے ۔ عاصم ایک نئے سفر پر روانہ ہورہا ہے  جو تکلیف دہ بھی ہے اور خطرناک بھی ! 

راستے میں یوسیبیا  ( ماں ) اپنی کہانی سناتی ہے ۔ اس کا تعلق یونان سے ہے ۔دادا   فوج میں تھے ۔دمشق  میں   سالار اعلیٰ تھے  جبکہ اس کے والد تھیوڈیس ایرانی سرحد کے قریب ایک قلعے کےمحافظ تھے ۔ ان کو ایرانی شہنشاہ خسرو پرویز کو قلعے میں پناہ دینی تھی جو سپہ  سالار کے ایران پر قبضے کے بعد فرار ہوکر مدائن آرہا تھا ۔اس کے ایک افسر سین کی یوسیبیا سے شادی منتج ہوتی ہے ۔آتش پرست سین کی یونانی عیسائی لڑکی یوسیبیا سے شادی ایک نئی جہت کھولتی ہے ۔ وہ دونوں مدائن میں اپنی اکلوتی بیٹی فسطینہ  کے ساتھ  خوشگوار  اور پر امن زندگی گزار رہے ہیں۔لگتا ہے دونوں سلطنتوں کے درمیان جنگ کے امکانات ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکے ہیں  مگر چند سالوں بعد محسوس ہواکہ مجوسی پیشوا   ایران میں عیسائیت کے پرچار سے خائف ہیں ۔ شاہ ایران اپنی ظاہری رواداری کے باوجود یہ  محسوس کرتا  کہ قیصر نے اپنی اعانت کے بدلے اس سے آرمینیا کے علاقے چھین کر بہت بڑی قیمت وصول کی ہے  لہذا جنگی تیاریوں میں مصروف تھا ۔سین اس کا نہایت قابل  اعتماد  افسر جنگ کے خلاف تھااور پھر قسطنطیہ میں بغاوت کی خبر پر ایران کے امرا اور مذہبی اکابر نے پرویز کو مشورہ دیا کہ اب روم سے بدلہ چکانے کا وقت آگیا ہے۔

یہ صورت حال سین کے لیے اپنی عیسائی بیوی کے باعث  تکلیف دہ تھی  ۔ اس نے شہنشاہ کواس بات پر راضی کرلیا کہ قسطنطیہ جاکر حالات کا جائزہ لے ۔  بیوی اور بیٹی   تھیوڈیس سے ملنے دمشق ساتھ روانہ ہوئے ۔ سین کو قسطنطیہ میں قید کردیا گیا ۔ بوسیبیا اور فسطیہ  اس کی رہائی  کے لیے دعائیں کرنے  یروشلم روانہ ہوئیں ۔ یہاں ان کا واسطہ یروشلم کے نئے حاکم سے پڑا جس کی بد تمیزی پر  برسوں پہلے یوسیبیا  تھپڑ مارچکی تھی ۔ چنانچہ وہ انتقامی  کاروائی   پر اتر آیا  ۔وہ اس سے بچتی ہوئی دمشق واپس جارہی ہیں ۔ اس سفر کے دوران  عاصم سے اس کی کہانی سن کر وہ دونوں ماں بیٹیاں  بہت متاثر ہوتی ہیں اور اس کو اپنا محسن سمجھتی ہیں ۔ فسطینہ اس کے دل میں ایک نئی جوت جگارہی تھی جس کو وہ سختی سے ٹھکراتا ہے ۔   دمشق پہنچ کر اندازہ ہوا کہ تھیوڈس  کو ایرانیوں سے تعلق کی بنیاد پر رومیوں نے  جلا کر ہلاک کردیا اور پھر ایرانی لشکر دمشق پر ٹوٹ پڑا۔۔ایرانی قبضے کے بعد یہاں  کشت و خون کا بازار گرم ہے  اور ہر طرف لاشوں کے انبار ہیں ۔

باب  17   تا                   19  :

اہل دمشق پر ایرانی لشکر کے وحشیانہ مظالم کی داستان سن اور دیکھ کر عاصم کی نیند اڑگئی تھی۔اور اسے یہ خوبصورت شہر اپنے وطن کے ریگزاروں سے زیادہ وحشتناک نظر آرہا تھا ۔وہاں قبائل ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے اور یہاں سلطنتوں کا تصادم تھا۔ دمشق کی گلیوں  بازاروں میں فاتح لشکر کے نعرے اور قہقہے اور آس پاس کے مکانات سے مفتوح  قوم کی چیخیں  اس کو پریشان کر رہی تھیں ۔وہ اپنے دل میں کہہ رہا تھا ۔

۔۔۔" کاش میں دمشق کے ہر گھر پر پیغام دے سکتا /سمیرا                           تم نے کہا تھا کہ رات کے مسافر کو صبح کی روشنی کا انتظار کرنا چاہیے ! لیکن  وہ صبح کب آئے گی ؟ کیا ان تاریک بادلوں کے آغوش سے کوئی آفتاب نمودار ہوسکتا ہے ؟"  عاصم  کے پاس ان سوالات کا جواب نہ تھا اسے انسانیت کا مستقبل ماضی اور حال سے زیادہ بھیانک نظر آرہا تھا ۔اور وہ بار بار یہ کہہ اٹھتا"۔۔۔کاش ! فسطینہ کی دنیا سمیرا کی دنیا سے مختلف ہوتی ۔۔۔!"

پرویز کا اایلچی سین( فسطینہ کا باپ )   قسطنطیہ سے رہا ہوکر  پرویز کے دربار میں  رومیوں  کی طرف  سے امن و دوستی کا پیغام لے کر آتا ہے کہ ہرقل اپنے پیشواؤں کے برعکس (فوکاس) کی غلطیوں  کی تلافی کرنے پر آمادہ ہے     مگر پرویز کے رویے کے باعث ایران اور روم کے تعلقات میں بہتری نہیں   آسکی ۔سین کی آمد      سے ماں بیٹی کو حوصلہ اور اعتماد ملتا ہے اور وہ حسان مندی کے جذبات  کے ساتھ عاصم کے لیے انواع اقسام کی  پیش کش کرتا ہے جن  کو قبول کرنے میں عاصم کو ذرہ برابر دلچسپی نہیں ـبہر حال وقت گزارنے کے لیے فارسی سیکھنی شروع کر دی ۔ یہاں پر ایرج نامی نوجوان فوجی افسر کی آمد ہوتی ہے جو ایک معزز ایرانی خاندان سے تعلق رکھتا ہے وہ اور فسطینہ بچپن سے  ایک دوسرے کو جانتے ہیں ۔ فسطینہ کی عاصم سے بے تکلفی  اور دلچسپی دیکھ کر وہ عاصم سے حقارت بھرا  رویہ اختیار کرتا ہے جو  فسطینہ کو اس سے برانگیختہ کردیتا ہے۔

سین فوجی مہم پر روانہ ہوا تو عاصم کے خیالات ایرانیوں  کی فتح کے حق میں تھے اور پھر فسطینہ کے اصرار پر وہ سین کا فوجی مہمات میں ساتھ دینے پر راضی ہوجاتا ہے ۔عاصم سین کی رفاقت میں فلسطین کے کئی معرکوں میں حصہ لیتاہے۔ جنگ جس کے اچھے اور برے پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے وہ اپنے ذہن میں خلجان محسوس کرتا تھا اب وہ اسے ایک کھیل محسوس ہوتی تھی۔ کسریٰ کی فتح یا قیصر کی شکست کے بجائے اس کے لیے یہ مسئلہ زیادہ اہم تھا کہ سین اس جنگ میں حصہ لے رہا ہے۔ سین ایران کی فتح کے لیے لڑ رہا تھا اور ضمیر کی دبی دبی سسکیوں کے باوجود یہ فتح عاصم کے لیے بھی ایک مقصد حیات بنتی جارہی تھی ۔میدان جنگ میں عاصم اپنی جرآت   اور فتح کے جھنڈے گاڑ رہا تھا جو ایرج کے لیے وجہ پریشانی بنی ہوئی تھی ۔ عاصم کے قدر دانوں میں اضافہ اور اس کی بڑھتی ہوئی شہرت اور مقبولیت  نے بعض لوگوں میں حسد و رقابت کے جذبات پیدا کردیے تھے۔

یروشلم کی فتح کا جشن جاری تھا کہ سین نے عاصم کو اطلاع دی کہ اسے ایشیائے کوچک کے محاذ پر بھیجا جارہا ہے جبکہ عاصم کو مصر کی طرف پیش قدمی کرنے والے لشکر کے ساتھ جانا ہوگا ۔ اس خبر سے عاصم کا دل بیٹھنے لگا اور اسے احساس ہوا کہ سین اس سے پیچھا چھڑا رہا ہے !  بحیثیت ایک  ایرانی فوجی دستے کا سالار بنا کر اس کااعتماد بحال کرکے گویا اس کے احسان کا جواب دے دیا ہے جو اس نے سین کی بیوی اور بیٹی کو بحفاظت دمشق پہنچا کر کیا تھا ۔ اب اس کو خود فریبی سے نکلنا ہوگا کہ جب وہ جنگ کے اختتام پر دمشق جاؤں گا تو فسطینہ دلفریب   مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرے گی !  وہ بوجھل دل کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوجاتا ہے کہ افریقہ کے محاذ سے  زندہ واپسی ممکن ہو یا نہ ہو !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس ناول کا تیسرا اور آخری حصہ " پیشن گوئی " کے عنوان سے اگلے بلاگ میں پڑھیے 

جمعہ، 15 جنوری، 2021

قیصر و کسریٰ


 

قیصر و کسریٰ۔۔۔۔۔ایک نظر میں

٭ تاریک راتوں کے مسافروں کے نام جنہیں صبح کا انتظار تھا !٭

یہ انتساب نسیم حجازی کے اس  ناول کا ہے ۔ جو 1400سال پہلے ظلمتوں میں گھری انسانیت کا روشنی کی تلاش میں سفر کی داستان ہے ۔یہ ناول جو آج سے 50/60 سال پہلے لکھا گیا ۔736 صفحات کے اس ناول کو لکھنے میں 5 سال کا عرصہ لگا   بقول نسیم حجازی اس داستان کا دھندلا سا خاکہ تھا اور ربع صدی تک مجھے اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔

پیش لفظ  از مصنف :



 
میرے نزدیک یہ   عجم کے دو جابرحکمرانوں   کے عروج و زوال کی داستان ہی نہیں بلکہ اس صبح درخشاں کے آغاز کی داستان بھی تھی جس کاآفتاب جبل فاران کی چوٹیوں سے نمودار ہونے والا تھا ۔۔۔ ظہور اسلام سےقبل عرب و عجم کے تاریخی، سیاسی، اخلاقی، تہذیبی اور مذہبی حالات پیش کرنے سے میر ا مقصد  عالم انسانیت کے ان تاریک گوشوں  کو نمایاں کرنا ہے جو صدیوں سے روشنی کے منتظر تھے ۔۔۔۔۔۔۔

تعارف

اس ناول کے 3 حصے ہیں :

پہلا حصہ " پیاسی ریت "  میں 11 ابواب ہیں جس میں خطہ عرب ) یثرب )کی صورت حال دکھائی گئی ہے ۔یہ حصہ تقریبا 172 صفحات پر محیط ہے ۔

دوسرا حصہ " آگ اور صلیب " کے عنوان  سے ہے اور 9 ابواب  پر مشتمل ہے  جس میں قیصر و کسریٰ کی رزم گاہیں دکھائی گئی ہے ۔

تیسرا حصہ " پیش گوئی "  کے عنوان سے ہے اور اس میں 24 ابواب ہیں ۔ یہ حصہ قرآن مجید کی سورہ الروم میں  آنے والی رومیوں کے متعلق  پیشن گوئی کے ظہور میں آنے کےزمانے پر محیط ہے  جو بالآخر  اسلام کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔

پیاسی ریت :

باب اول  :

ہر  اچھے ناول کی طرح   قیصر و کسریٰ کا آغاز بھی  منظر کشی سے ہوتا ہے جس میں ناول کے کچھ کرداروں سے آگاہی ہوتی ہے ۔ ان میں ناول کا ہیرو عاصم شامل ہے ۔عاصم ایک عرب نوجوان ہے ۔جری ، بہادر اور غیرت مند !جس کا تعلق قبیلہ اوس سے ہے ۔عاصم کا  باپ سہیل اور بھائی دشمن قبیلے خزرج کے ہاتھوں قتل ہوگیا ہے  اور اب اس کی زندگی کا سب  سے بڑا  مقصداپنے عزیزوں کے خون کا اختتام لینا تھا۔  وہ اپنے  معذور چچا ہبیرہ اور چچی لیلیٰ کے گھر رہائش پذیر ہے جن  کے بچے سالم اور سعاد ہیں ۔دوسرا خاندان مخالف قبیلے خزرج کے عدی کا ہے جس کے 3 بیٹے عمیر ، نعمان اور عتبہ اور بیٹی سمیرا ہیں ۔

آغاز کیسے ہوا ؟

ناول کا آغاز یروشلم کے قریب ایک سرائے سے ہوتا ہے جہان ایک  مغرور شامی رئیس شراب کے نشے میں سرائے کے مالک پر تلوار تان دیتا ہے ۔عاصم اس کی جان بچاتا ہے جس پر وہ غریب مصری اور اس کا خاندان عاصم سے ممنونیت کا اظہار کرتے ہیں ۔ سرائے کا مالک فرمس  اپنی بیٹی انطونیہ اور بیوی  کے ساتھ  عاصم کو کھانے میں شریک  کرتا ہے ۔ دوران طعام  فرمس ذکر کرتا ہے کہ :

"۔۔۔پچھلے ہفتے مکہ کے جوتاجر یہاں ٹھہرے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہاں ایک نبی نیکی ، رواداری اور عدل و انصاف  کی تعلیم دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کے  صادق اور امین ہونے کی گواہی دیتے تھے !"

عاصم نے جوا ب میں کہا کہ  "میں نے مکہ کے نبی کے متعلق یہ سنا ہے کہ وہ ہماری قبائلی اور خاندانی عصبیتوں کا مخالف ہے ۔۔۔۔اگر چہ چند مفلس اور نادا لوگوں یا دو چار اچھی حیثیت کے آدمیوں پر اس  کا جادو چل گیا ہے تو یہ کوئی کامیابی نہیں ۔میں نے کبھی اس نبی کے متعلق سنجیدگی سے نہیں سوچا ۔آپ کو بھی سنی سنائ باتوں سے متاثر نہیں ہوناچاہیے ۔ عرب کی ریت تو  بڑے بڑے دریاؤں کو جذب کرلیتی ہے  پھر وہاں ایک ایسا نبی کیسے کامیاب ہوسکتا ہے جس کی تعلیم کا نقطہ آغاز ہی ان عصبیتوں کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے جو ہمارے لیے اپنے بے شمار خداؤں سے بھی زیادہ مقدس ہیں ۔۔۔"

لیکن فرمس بہت زیادہ  پر امید ہے کہ  ''  وہ ضرور آئے گا اور زمین و آسمان کی ساری۔۔۔۔۔۔اس کے جلال سے قیصر و کسریٰ کے ایوان لرز اٹھیں گے ۔ ناداروں اور مظلوموں کو ا س کی حمیت میں پناہ ملے گی ۔۔۔''

بہت ہی خوشگوار ملاقات کے بعد عاصم اپنے نیک دل میز بان کو  الوادع کہتا ہے  ۔وہ کامیاب تجارت کے بعد گھر لوٹ رہا تھا اور خوش تھا کہ اب اپنے چچا کا قرضہ اتار سکوں گا ! عاصم  فطرتا خون خوار نہیں تھا لیکن اس نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں خاندانی / قبائلی حمیت پر جان دینا ایک نوجوان کی زندگی کا اولین فرض سمجھا جاتا تھا ۔

باب 2 :

بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں میں مختلف ادوار میں ہونے والی رز م گاہوں  کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔ ایک ہزار سال سے یہ  ایران اور اسکے مغربی حریفوں کے درمیان قوت آزمائی کا اکھاڑ ا بنے ہوئے تھے ۔ سائرس کے بعد سکندر اعظم فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہوا پنجاب تک پہنچ گیا ۔پھر جب سکندر اعظم کی عظیم سلطنت کا انحطاط شروع ہوا تو تو یورپ سے رومی بیدار ہوئے۔مذہب عیسوی  مجبور  اور بے بس انسانوں کے لیے ایک نئی زندگی کا پیغام لے کر آیا لیکن یہ انقلاب  بھی مظلوم اور محکوم اقوام کے لیے  ماضی کے ان گنت انقلابات کی طرح محض آقاؤں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہ تھا۔

ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر مشرق اور مغرب کے دو مہیب اژدہے تھے اور 527 ء  میں شرق اوسط کی زمین ان اژدہوں کی زور آزمائی کا اکھاڑآ بن چکی تھی۔ یہ دو ننگی تلواریں تھیں جو آپس میں ٹکرانے کے لیے ہمیشہ بے قرار رہتی تھیں ۔مشرق کی طرف  ایران کے سوا اہل روم کا کوئی مدمقابل  تھا  نہ مغرب کی طرف روم کے سوا ایرانیوں کا کوئی حریف !

عرب روم و ایران کی عظیم سلطنتوں کا ایک گمنام اور حقیر ہمسایہ تھا ۔ اہل عرب مدنیت  اور تمدن کے شعور کی منزل سے صدیوں پیچھے  تھے۔ ان کی تاریخ خاندانی جھگڑوں یا قبائلی جنگوں تک محدود تھی۔قبائلیت  بدوی سوسائٹی کی بنیاد تھی ۔کمزور قبائل کو اپنی سلامتی کے لیے کسی طاقتور قبیلے کی پناہ لینی پڑتی تھی۔

یثرب کا منظر

باب 3 تا 11 :

یہودی اوس اور خزرج کے درمیان جھگڑوں کو اپنی سازشوں کے ذریعے   ہوا دیتے اور ان کو لڑانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے ۔کعب بن اشرف ان کا  سردار جبکہ شمعون اس  کا کارندہ ہے ۔وہ ان کے درمیان مبارزت کو زندہ رکھتےتھےتاکہ دونوں قبائل لڑ لڑ کر کمزور ہوتے رہیں اور ان کے قرض کے بار میں جڑے رہیں ۔اور اگر قرض ادا نہ کرسکیں تو ان کے بیٹوں کو رہن رکھ لیتے تھے۔ان کے نظریے کے مطابق اوس و خزرج کی لڑائی سے ہمیں براہ راست فائدہ پہنچتا ہے ۔

ّ'' ۔۔۔۔مجھے اندیشہ ہے کہ ان کی لڑائی ختم ہوگئی تو وہ کسی دن ہمارے خلاف متحد ہوجائیں گے ۔ہمیں کسی فریق کو بھی اس قدر آزردہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مایوسی اور بے بسی کی حالت میں اپنے دشمن سے مصالحت کرنے پر آمادہ ہوجائے ۔۔۔۔"

کہانی آگے بڑھی ۔۔۔

اتفاقی طور پر  عاصم کوراستے میں اسے ایک  زخمی نوجوان   ملتا ہے جواور کوئی نہیں بلکہ دشمن قبیلے خزرج کے عدی کا بیٹا عمیر ہوتا ہے ۔ عمیر  شمعون کے پاس رہن رکھاہو اہے اس کی نوخیز بیوی کے ہتھکنڈوں سے اپنے آپ کو بچا تے ہوئے بھاگتا ہے جسے شمعون نے اپنے طور قتل کر کے ڈال دیا تھا  تاکہ اس سےدونوں قبائل کے درمیان  دشمنی کو ہوا دی جاسکے) عاصم   ہمدردی کے ناطے بادل ناخواستہ عمیر کی زندگی بچاکراسے گھر پہنچاتا ہے  ۔یہاں اس کی ملاقات عمیر کی بہن سمیرا سے ہوتی ہے  اوردونوں الفت کے رشتے میں بندھ جاتے ہیں ۔سمیرا اس کی بہادری اور جراءت سے متا ثرہوتی ہے تو وہ سمیرا کے ملکوتی معصومانہ حسن سے !

جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عاصم نے عمیر کی جان بچائی ہے تو ان کے اپنے اپنے قبیلے کے لوگ ان کو طعنے دیتے ہیں ۔بزدل اور بے غیرت کے خطاب سے نوازتے ہیں ۔انتقام کی ایک شکل دشمن قبیلے پر احسان کرنا تھا ۔جس کا بدلہ ضروری تھا ۔دوسری طرف  عاصم بھی اپنے خاندان اور قبیلے کے طعنے سہہ رہا ہے کہ اس نے  دشمن کی جان بچائی ۔ دونوں اس استہزا کا شکار ہوتے ہیں حتی کہ عاصم یثرب  چھوڑ کر جانے کا ارادہ کر لیتا ہے مگر سمیرا اس کی راہ میں آجاتی ہے ۔

یہودیوں  کے لیے اوس و خزرج میں   لڑائی تعطل فکر مندی کی بات تھی  چنانچہ وہ پھر منصوبہ بندی کرتے ہیں جس کے مطابق وہ ایک پر حملہ اس طرح ترتیب دیتے کہ  دوسرے پر الزام آئے ۔ اور پھر ان کی سازشیں اس طرح منتج ہوتی ہیں کہ عاصم کی چچی کے بھتیجے عدی کے گھر پر حملہ کر کے عدی ، سمیرا اور اس کے دو بھائیوں  کو قتل کردیتے ہیں اور عاصم جنون کے عالم میں ان کو قتل کردیتا ہے۔ اب اس کے اپنے قبیلے کے لوگ اس کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں ۔چنانچہ وہ یہاں سےمایوس ہوکر نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے  لیکن جانے سے پہلے وہ  یہودیوں کی سازش کا بھانڈا پھوڑتے  ہوئے یہ کلمات دا کرتا ہے :

" ۔۔۔منذر کے بیٹوں نے سمیرا ، عدی اور نعمان کے بھائیوں کو قتل کی اہے اور میں نے منذر کے بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے لیکن یہ اوس و خزرج میں سے کسی کی فتح نہیں ۔یہ صرف یہودیوں کی فتح ہے ! تمہارے درمیان نفرت کی آگ یہودیوں نے بھڑکائی ہے اور تمہارے خون کے چھینٹوں سے اس کے شعلے بھڑکتے رہیں گے۔ میرا جرم یہ تھا کہ میں نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی تھی  اور مجھے اس جرم کی سزا مل چکی ہے ۔۔ اب مجھے یثرب سے کوئی دلچسپی نہیں ۔۔۔۔"

وہ یہاں سے ناامید ہوکر نامعلوم منزل کی طر ف روانہ ہوجاتا ہے یہ جانے بغیر کہ صرف چند منزل پیچھے جبل فاران کی چوٹیوں پر وہ آفتاب رسالت نمودار ہوچکا ہے جس کی ضیا ء پاشیوں سے یثرب کے درودیوار منور ہونے والے ہیں ۔۔۔۔!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 دوسرا حصہ اگلے بلاگ میں ملاحظہ فرمائیں