اتوار، 24 جنوری، 2021

 

 حصہ دوم :  آگ اور صلیب

 

باب  12  :                                                                                                                      منظرنامہ

 

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے  اس میں روم اور ایران کی رزم گاہوں  کا اس وقت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔مشرق اور مغرب  کی جنگوں کا نیا دور اس وقت شروع ہوا جب ایران کے کسریٰ نوشیرواں نے بازنطینی سلطنت پر یلغار کردی  تھی۔




مشرق وسطیٰ 500 عیسوی 


540ء  میں نوشیرواں  3 لاکھ فوجیوں کے ساتھ شام  کی طرف روانہ ہوا۔حلب کے خوبصورت شہر کو آگ لگا دی اور انطاکیہ کی طرف پیش قدمی کردی۔  نوشیرواں شام کے شہروں کو لوٹنے کے بعد  مفتوحہ علاقوں سے ہزاروں مرد اور عورتوں کو جنگی قیدی  بنا کر  مدائین واپس آگیا اور فلسطین پر حملے کی تیاری شروع کردی ۔ اس وقت رومی افواج یورپ میں بر سر پیکارتھی  ۔قیصر روم نے سپہ سالار بلیسارس کو اٹلی سے واپس بلا لیا جس نے ایران کی سرحد پر پہنچ کر یروشلم کی طرف  ایران کی پیش قدمی روک دی لیکن اچانک  یمن کے حالات نے روم و ایران کے درمیان تصادم کی ایک نئی صورت پیدا کردی ۔

575 ء میں یمن کے حکمران ابرہہ نے مکہ پر چڑھائی کردی جس کا مقصد قدیم تجارتی شاہراہ پر مکمل قبضہ جمانے کے علاوہ مکہ کی مذہبی حیثیت ختم کرکے عرب میں عیسائیت کا  راستہ صاف کرنا تھا ۔اہل روم ابرہہ کی اس حرکت پر بہت پر امید اور خوش تھے مگر اہل مکہ کی تمام تر کمزوریوں اور بد اعمالیوں کے باوجود احکم الحاکمین کو اپنے گھر کی تباہی منظور نہ تھی چنانچہ اسے عبرتناک شکست اور ناکامی ہوئی ۔ ایک بار پھر جنگ کو مہمیز لگی اور  نوشیرواں نے یمن پر چڑھائی کردی ۔اس کے ردعمل میں قسطنطیہ میں  مایوسی پھیل گئی اور حکمران کو تبدیل  ہونا پڑا۔ اہل روم نے تین سال زبردست تیاری کے بعد دوبارہ جنگ شروع کردی ۔ نوشیرواں کوپسپائی اختیار کرنی پڑی اور اس کے بعد لشکر کشی کا ارادہ ترک کردیا۔

 نوشیرواں کے بعد اس کا بیٹا ہرمز تخت پر بیٹھا ۔اس ضدی اور مغرور حکمران نے اپنے باپ کے وفاداروں کو ایک ایک کر کے دربار سے نکال دیا ۔نوشیرواں کے  ایک   جرنیل بہرام   کے خلاف ہرمز کے خوشامدی ٹولے نے کان بھرے اور  اپنا حریف بنا لیا  ۔ بہرام نے مدائن پر قبضہ کرکے ہر مز کے بیٹے خسرو پرویز کو ملک کی زمام کار دے دی۔ بعد میں  خسرو پرویز کی ملکہ شیریں کے ایما پر بہرام کو زہردے دیا۔پرویز نے ظلم و تشدد کا نیا باب کھول دیا ۔

ادھر قسطنطیہ ( روم ) میں شہنشاہ  موریس کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے فوکاس نے تخت پر قبضہ کرلیا ۔ اس کے مظالم  کے باعث رومیوں نے بھی اپنے ظالم اور نااہل حکمران کے خلاف بغاوت کردی۔قسطنطیہ کے امراء اور حکمرانوں نے افریقی گورنر کو تخت پر قبضے کی دعوت دی تو اس نے اپنے نوجوان بیٹے ہرقل کو جنگی بیڑے کے ساتھ  قسطنطیہ روانہ کردیا ۔ناول میں اس زمانے کا   ذکر ہے جب ہرقل تخت پر رونق افروز ہوا  اس وقت  پرویز کی فوجیں انطاکیہ پر قابض ہوگئی تھیں  اور  گرجے آتش کدوں میں تبدیل  کیے جارہے تھے۔

باب  13 تا                           باب                       16 :                                                                                                                                                        

عاصم    اپنی منزل مقصود سے لاعلم ناگفتہ بہ حالت میں  یثرب سے نکلتا ہے  اور بارش برستی رات میں  یروشلم  کی سرائے  پہنچتا ہے جہاں ناول کےآغاز میں ٹھہرا تھا ۔سرائے کا مالک فرمس  اس کی ویرانی دیکھ کر پہچاننے میں دشواری   محسوس کرتا ہے ۔ پھر استقبال کے بعد تواضع کرتاہے ۔اس کے حالات جان کر اسےتسلی دیتا ہے اور اپنی داستان بھی سناتا ہے کہ اس کے  باپ  کو  رہبانیت کے خلاف  آواز اٹھانے پر اسکندریہ  کے راہبوں نے زندہ جلادیا جبکہ بھائی پر رومی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر بابیلون کے چوراہے پر پھانسی دے دی گئی اور وہ دربدر  ہوتے ہوتے یہاں پہنچا ہے ۔ یہ باتیں سن کر عاصم کا اضطراب اور بڑھ جاتا  ہے کہ آلام و مصائب کی دنیا میں وہ تنہا نہیں بلکہ آج پوری انسانیت  اپنے مقدر کی تاریکیوں سے پیچھا  چھڑانے کو بھاگ رہی ہے ۔  فرمس عاصم کی ہمت بندھاتا ہے کہ وہ ایک بہادر انسان ہے جو طوفانوں سے لڑنے کے لیے پیدا ہوا ہے !

                                                                                                                                                                عاصم کی ہنگامی دمشق  روانگی

یہاں پر کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے  جب دو انتہائی معزز خواتین کو بحفاظت یروشلم سے دمشق پہنچانے کی ذمہ داری فرمس عاصم کو سونپتا ہے ۔ یہ ماں  بیٹی  یروشلم کے حاکم سے چھپ رہی ہیں جو ذاتی انتقام کی خاطر ان کے تعاقب میں ہے ۔وہ انہیں گرفتار تو نہیں کرسکا مگر ایرانیوں کاجاسوس ہونے کا الزام لگا کر  راہبوں کو ان کے پیچھے لگا دیا۔ عاصم یہ ذمہ داری قبول کرلیتا ہے یہ خواتین عاصم کے  عربی ہونے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں مگر کوئی چارہ نہ پاکر اس کے ہمراہ جانے کو تیارہوجاتی ہیں ۔وہ اسےمعاوضے کی پیشکش کرتی ہیں جسے وہ رد کردیتا ہے جس پر انہیں تجسس ہوتا ہے کہ کوئی عرب بھی نیک ہوسکتا ہے ! عاصم کا  تذبذب یہ ہے کہ جب دمشق   ایرانیوں کی پیش قدمی کے باعث خالی ہورہا ہے تو یہ وہاں کیوں  جارہی ہیں ؟  جس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ انہیں ایرانیوں سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس خاتون کا شوہر  سین ایک ایرانی افسر ہے ۔  فرمس عاصم کو عرب کے بجائے  ایک رومی افسر کے بھیس میں ان خواتین کو دمشق لے جانا مناسب جان کر ایک وردی اس کو دے دیتا ہے ۔اگرچہ اس نے آئندہ تلوار نہ اٹھانے کی قسم کھائی ہوئی ہے مگر ان خواتین کی حفاظت کے خیال سے  وہ  تلوار  اور تیر کمان بھی ساتھ لےلیتا ہے ۔ عاصم ایک نئے سفر پر روانہ ہورہا ہے  جو تکلیف دہ بھی ہے اور خطرناک بھی ! 

راستے میں یوسیبیا  ( ماں ) اپنی کہانی سناتی ہے ۔ اس کا تعلق یونان سے ہے ۔دادا   فوج میں تھے ۔دمشق  میں   سالار اعلیٰ تھے  جبکہ اس کے والد تھیوڈیس ایرانی سرحد کے قریب ایک قلعے کےمحافظ تھے ۔ ان کو ایرانی شہنشاہ خسرو پرویز کو قلعے میں پناہ دینی تھی جو سپہ  سالار کے ایران پر قبضے کے بعد فرار ہوکر مدائن آرہا تھا ۔اس کے ایک افسر سین کی یوسیبیا سے شادی منتج ہوتی ہے ۔آتش پرست سین کی یونانی عیسائی لڑکی یوسیبیا سے شادی ایک نئی جہت کھولتی ہے ۔ وہ دونوں مدائن میں اپنی اکلوتی بیٹی فسطینہ  کے ساتھ  خوشگوار  اور پر امن زندگی گزار رہے ہیں۔لگتا ہے دونوں سلطنتوں کے درمیان جنگ کے امکانات ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکے ہیں  مگر چند سالوں بعد محسوس ہواکہ مجوسی پیشوا   ایران میں عیسائیت کے پرچار سے خائف ہیں ۔ شاہ ایران اپنی ظاہری رواداری کے باوجود یہ  محسوس کرتا  کہ قیصر نے اپنی اعانت کے بدلے اس سے آرمینیا کے علاقے چھین کر بہت بڑی قیمت وصول کی ہے  لہذا جنگی تیاریوں میں مصروف تھا ۔سین اس کا نہایت قابل  اعتماد  افسر جنگ کے خلاف تھااور پھر قسطنطیہ میں بغاوت کی خبر پر ایران کے امرا اور مذہبی اکابر نے پرویز کو مشورہ دیا کہ اب روم سے بدلہ چکانے کا وقت آگیا ہے۔

یہ صورت حال سین کے لیے اپنی عیسائی بیوی کے باعث  تکلیف دہ تھی  ۔ اس نے شہنشاہ کواس بات پر راضی کرلیا کہ قسطنطیہ جاکر حالات کا جائزہ لے ۔  بیوی اور بیٹی   تھیوڈیس سے ملنے دمشق ساتھ روانہ ہوئے ۔ سین کو قسطنطیہ میں قید کردیا گیا ۔ بوسیبیا اور فسطیہ  اس کی رہائی  کے لیے دعائیں کرنے  یروشلم روانہ ہوئیں ۔ یہاں ان کا واسطہ یروشلم کے نئے حاکم سے پڑا جس کی بد تمیزی پر  برسوں پہلے یوسیبیا  تھپڑ مارچکی تھی ۔ چنانچہ وہ انتقامی  کاروائی   پر اتر آیا  ۔وہ اس سے بچتی ہوئی دمشق واپس جارہی ہیں ۔ اس سفر کے دوران  عاصم سے اس کی کہانی سن کر وہ دونوں ماں بیٹیاں  بہت متاثر ہوتی ہیں اور اس کو اپنا محسن سمجھتی ہیں ۔ فسطینہ اس کے دل میں ایک نئی جوت جگارہی تھی جس کو وہ سختی سے ٹھکراتا ہے ۔   دمشق پہنچ کر اندازہ ہوا کہ تھیوڈس  کو ایرانیوں سے تعلق کی بنیاد پر رومیوں نے  جلا کر ہلاک کردیا اور پھر ایرانی لشکر دمشق پر ٹوٹ پڑا۔۔ایرانی قبضے کے بعد یہاں  کشت و خون کا بازار گرم ہے  اور ہر طرف لاشوں کے انبار ہیں ۔

باب  17   تا                   19  :

اہل دمشق پر ایرانی لشکر کے وحشیانہ مظالم کی داستان سن اور دیکھ کر عاصم کی نیند اڑگئی تھی۔اور اسے یہ خوبصورت شہر اپنے وطن کے ریگزاروں سے زیادہ وحشتناک نظر آرہا تھا ۔وہاں قبائل ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے اور یہاں سلطنتوں کا تصادم تھا۔ دمشق کی گلیوں  بازاروں میں فاتح لشکر کے نعرے اور قہقہے اور آس پاس کے مکانات سے مفتوح  قوم کی چیخیں  اس کو پریشان کر رہی تھیں ۔وہ اپنے دل میں کہہ رہا تھا ۔

۔۔۔" کاش میں دمشق کے ہر گھر پر پیغام دے سکتا /سمیرا                           تم نے کہا تھا کہ رات کے مسافر کو صبح کی روشنی کا انتظار کرنا چاہیے ! لیکن  وہ صبح کب آئے گی ؟ کیا ان تاریک بادلوں کے آغوش سے کوئی آفتاب نمودار ہوسکتا ہے ؟"  عاصم  کے پاس ان سوالات کا جواب نہ تھا اسے انسانیت کا مستقبل ماضی اور حال سے زیادہ بھیانک نظر آرہا تھا ۔اور وہ بار بار یہ کہہ اٹھتا"۔۔۔کاش ! فسطینہ کی دنیا سمیرا کی دنیا سے مختلف ہوتی ۔۔۔!"

پرویز کا اایلچی سین( فسطینہ کا باپ )   قسطنطیہ سے رہا ہوکر  پرویز کے دربار میں  رومیوں  کی طرف  سے امن و دوستی کا پیغام لے کر آتا ہے کہ ہرقل اپنے پیشواؤں کے برعکس (فوکاس) کی غلطیوں  کی تلافی کرنے پر آمادہ ہے     مگر پرویز کے رویے کے باعث ایران اور روم کے تعلقات میں بہتری نہیں   آسکی ۔سین کی آمد      سے ماں بیٹی کو حوصلہ اور اعتماد ملتا ہے اور وہ حسان مندی کے جذبات  کے ساتھ عاصم کے لیے انواع اقسام کی  پیش کش کرتا ہے جن  کو قبول کرنے میں عاصم کو ذرہ برابر دلچسپی نہیں ـبہر حال وقت گزارنے کے لیے فارسی سیکھنی شروع کر دی ۔ یہاں پر ایرج نامی نوجوان فوجی افسر کی آمد ہوتی ہے جو ایک معزز ایرانی خاندان سے تعلق رکھتا ہے وہ اور فسطینہ بچپن سے  ایک دوسرے کو جانتے ہیں ۔ فسطینہ کی عاصم سے بے تکلفی  اور دلچسپی دیکھ کر وہ عاصم سے حقارت بھرا  رویہ اختیار کرتا ہے جو  فسطینہ کو اس سے برانگیختہ کردیتا ہے۔

سین فوجی مہم پر روانہ ہوا تو عاصم کے خیالات ایرانیوں  کی فتح کے حق میں تھے اور پھر فسطینہ کے اصرار پر وہ سین کا فوجی مہمات میں ساتھ دینے پر راضی ہوجاتا ہے ۔عاصم سین کی رفاقت میں فلسطین کے کئی معرکوں میں حصہ لیتاہے۔ جنگ جس کے اچھے اور برے پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے وہ اپنے ذہن میں خلجان محسوس کرتا تھا اب وہ اسے ایک کھیل محسوس ہوتی تھی۔ کسریٰ کی فتح یا قیصر کی شکست کے بجائے اس کے لیے یہ مسئلہ زیادہ اہم تھا کہ سین اس جنگ میں حصہ لے رہا ہے۔ سین ایران کی فتح کے لیے لڑ رہا تھا اور ضمیر کی دبی دبی سسکیوں کے باوجود یہ فتح عاصم کے لیے بھی ایک مقصد حیات بنتی جارہی تھی ۔میدان جنگ میں عاصم اپنی جرآت   اور فتح کے جھنڈے گاڑ رہا تھا جو ایرج کے لیے وجہ پریشانی بنی ہوئی تھی ۔ عاصم کے قدر دانوں میں اضافہ اور اس کی بڑھتی ہوئی شہرت اور مقبولیت  نے بعض لوگوں میں حسد و رقابت کے جذبات پیدا کردیے تھے۔

یروشلم کی فتح کا جشن جاری تھا کہ سین نے عاصم کو اطلاع دی کہ اسے ایشیائے کوچک کے محاذ پر بھیجا جارہا ہے جبکہ عاصم کو مصر کی طرف پیش قدمی کرنے والے لشکر کے ساتھ جانا ہوگا ۔ اس خبر سے عاصم کا دل بیٹھنے لگا اور اسے احساس ہوا کہ سین اس سے پیچھا چھڑا رہا ہے !  بحیثیت ایک  ایرانی فوجی دستے کا سالار بنا کر اس کااعتماد بحال کرکے گویا اس کے احسان کا جواب دے دیا ہے جو اس نے سین کی بیوی اور بیٹی کو بحفاظت دمشق پہنچا کر کیا تھا ۔ اب اس کو خود فریبی سے نکلنا ہوگا کہ جب وہ جنگ کے اختتام پر دمشق جاؤں گا تو فسطینہ دلفریب   مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرے گی !  وہ بوجھل دل کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوجاتا ہے کہ افریقہ کے محاذ سے  زندہ واپسی ممکن ہو یا نہ ہو !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس ناول کا تیسرا اور آخری حصہ " پیشن گوئی " کے عنوان سے اگلے بلاگ میں پڑھیے 

جمعہ، 15 جنوری، 2021

قیصر و کسریٰ


 

قیصر و کسریٰ۔۔۔۔۔ایک نظر میں

٭ تاریک راتوں کے مسافروں کے نام جنہیں صبح کا انتظار تھا !٭

یہ انتساب نسیم حجازی کے اس  ناول کا ہے ۔ جو 1400سال پہلے ظلمتوں میں گھری انسانیت کا روشنی کی تلاش میں سفر کی داستان ہے ۔یہ ناول جو آج سے 50/60 سال پہلے لکھا گیا ۔736 صفحات کے اس ناول کو لکھنے میں 5 سال کا عرصہ لگا   بقول نسیم حجازی اس داستان کا دھندلا سا خاکہ تھا اور ربع صدی تک مجھے اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔

پیش لفظ  از مصنف :



 
میرے نزدیک یہ   عجم کے دو جابرحکمرانوں   کے عروج و زوال کی داستان ہی نہیں بلکہ اس صبح درخشاں کے آغاز کی داستان بھی تھی جس کاآفتاب جبل فاران کی چوٹیوں سے نمودار ہونے والا تھا ۔۔۔ ظہور اسلام سےقبل عرب و عجم کے تاریخی، سیاسی، اخلاقی، تہذیبی اور مذہبی حالات پیش کرنے سے میر ا مقصد  عالم انسانیت کے ان تاریک گوشوں  کو نمایاں کرنا ہے جو صدیوں سے روشنی کے منتظر تھے ۔۔۔۔۔۔۔

تعارف

اس ناول کے 3 حصے ہیں :

پہلا حصہ " پیاسی ریت "  میں 11 ابواب ہیں جس میں خطہ عرب ) یثرب )کی صورت حال دکھائی گئی ہے ۔یہ حصہ تقریبا 172 صفحات پر محیط ہے ۔

دوسرا حصہ " آگ اور صلیب " کے عنوان  سے ہے اور 9 ابواب  پر مشتمل ہے  جس میں قیصر و کسریٰ کی رزم گاہیں دکھائی گئی ہے ۔

تیسرا حصہ " پیش گوئی "  کے عنوان سے ہے اور اس میں 24 ابواب ہیں ۔ یہ حصہ قرآن مجید کی سورہ الروم میں  آنے والی رومیوں کے متعلق  پیشن گوئی کے ظہور میں آنے کےزمانے پر محیط ہے  جو بالآخر  اسلام کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔

پیاسی ریت :

باب اول  :

ہر  اچھے ناول کی طرح   قیصر و کسریٰ کا آغاز بھی  منظر کشی سے ہوتا ہے جس میں ناول کے کچھ کرداروں سے آگاہی ہوتی ہے ۔ ان میں ناول کا ہیرو عاصم شامل ہے ۔عاصم ایک عرب نوجوان ہے ۔جری ، بہادر اور غیرت مند !جس کا تعلق قبیلہ اوس سے ہے ۔عاصم کا  باپ سہیل اور بھائی دشمن قبیلے خزرج کے ہاتھوں قتل ہوگیا ہے  اور اب اس کی زندگی کا سب  سے بڑا  مقصداپنے عزیزوں کے خون کا اختتام لینا تھا۔  وہ اپنے  معذور چچا ہبیرہ اور چچی لیلیٰ کے گھر رہائش پذیر ہے جن  کے بچے سالم اور سعاد ہیں ۔دوسرا خاندان مخالف قبیلے خزرج کے عدی کا ہے جس کے 3 بیٹے عمیر ، نعمان اور عتبہ اور بیٹی سمیرا ہیں ۔

آغاز کیسے ہوا ؟

ناول کا آغاز یروشلم کے قریب ایک سرائے سے ہوتا ہے جہان ایک  مغرور شامی رئیس شراب کے نشے میں سرائے کے مالک پر تلوار تان دیتا ہے ۔عاصم اس کی جان بچاتا ہے جس پر وہ غریب مصری اور اس کا خاندان عاصم سے ممنونیت کا اظہار کرتے ہیں ۔ سرائے کا مالک فرمس  اپنی بیٹی انطونیہ اور بیوی  کے ساتھ  عاصم کو کھانے میں شریک  کرتا ہے ۔ دوران طعام  فرمس ذکر کرتا ہے کہ :

"۔۔۔پچھلے ہفتے مکہ کے جوتاجر یہاں ٹھہرے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہاں ایک نبی نیکی ، رواداری اور عدل و انصاف  کی تعلیم دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کے  صادق اور امین ہونے کی گواہی دیتے تھے !"

عاصم نے جوا ب میں کہا کہ  "میں نے مکہ کے نبی کے متعلق یہ سنا ہے کہ وہ ہماری قبائلی اور خاندانی عصبیتوں کا مخالف ہے ۔۔۔۔اگر چہ چند مفلس اور نادا لوگوں یا دو چار اچھی حیثیت کے آدمیوں پر اس  کا جادو چل گیا ہے تو یہ کوئی کامیابی نہیں ۔میں نے کبھی اس نبی کے متعلق سنجیدگی سے نہیں سوچا ۔آپ کو بھی سنی سنائ باتوں سے متاثر نہیں ہوناچاہیے ۔ عرب کی ریت تو  بڑے بڑے دریاؤں کو جذب کرلیتی ہے  پھر وہاں ایک ایسا نبی کیسے کامیاب ہوسکتا ہے جس کی تعلیم کا نقطہ آغاز ہی ان عصبیتوں کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے جو ہمارے لیے اپنے بے شمار خداؤں سے بھی زیادہ مقدس ہیں ۔۔۔"

لیکن فرمس بہت زیادہ  پر امید ہے کہ  ''  وہ ضرور آئے گا اور زمین و آسمان کی ساری۔۔۔۔۔۔اس کے جلال سے قیصر و کسریٰ کے ایوان لرز اٹھیں گے ۔ ناداروں اور مظلوموں کو ا س کی حمیت میں پناہ ملے گی ۔۔۔''

بہت ہی خوشگوار ملاقات کے بعد عاصم اپنے نیک دل میز بان کو  الوادع کہتا ہے  ۔وہ کامیاب تجارت کے بعد گھر لوٹ رہا تھا اور خوش تھا کہ اب اپنے چچا کا قرضہ اتار سکوں گا ! عاصم  فطرتا خون خوار نہیں تھا لیکن اس نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں خاندانی / قبائلی حمیت پر جان دینا ایک نوجوان کی زندگی کا اولین فرض سمجھا جاتا تھا ۔

باب 2 :

بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں میں مختلف ادوار میں ہونے والی رز م گاہوں  کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔ ایک ہزار سال سے یہ  ایران اور اسکے مغربی حریفوں کے درمیان قوت آزمائی کا اکھاڑ ا بنے ہوئے تھے ۔ سائرس کے بعد سکندر اعظم فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہوا پنجاب تک پہنچ گیا ۔پھر جب سکندر اعظم کی عظیم سلطنت کا انحطاط شروع ہوا تو تو یورپ سے رومی بیدار ہوئے۔مذہب عیسوی  مجبور  اور بے بس انسانوں کے لیے ایک نئی زندگی کا پیغام لے کر آیا لیکن یہ انقلاب  بھی مظلوم اور محکوم اقوام کے لیے  ماضی کے ان گنت انقلابات کی طرح محض آقاؤں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہ تھا۔

ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر مشرق اور مغرب کے دو مہیب اژدہے تھے اور 527 ء  میں شرق اوسط کی زمین ان اژدہوں کی زور آزمائی کا اکھاڑآ بن چکی تھی۔ یہ دو ننگی تلواریں تھیں جو آپس میں ٹکرانے کے لیے ہمیشہ بے قرار رہتی تھیں ۔مشرق کی طرف  ایران کے سوا اہل روم کا کوئی مدمقابل  تھا  نہ مغرب کی طرف روم کے سوا ایرانیوں کا کوئی حریف !

عرب روم و ایران کی عظیم سلطنتوں کا ایک گمنام اور حقیر ہمسایہ تھا ۔ اہل عرب مدنیت  اور تمدن کے شعور کی منزل سے صدیوں پیچھے  تھے۔ ان کی تاریخ خاندانی جھگڑوں یا قبائلی جنگوں تک محدود تھی۔قبائلیت  بدوی سوسائٹی کی بنیاد تھی ۔کمزور قبائل کو اپنی سلامتی کے لیے کسی طاقتور قبیلے کی پناہ لینی پڑتی تھی۔

یثرب کا منظر

باب 3 تا 11 :

یہودی اوس اور خزرج کے درمیان جھگڑوں کو اپنی سازشوں کے ذریعے   ہوا دیتے اور ان کو لڑانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے ۔کعب بن اشرف ان کا  سردار جبکہ شمعون اس  کا کارندہ ہے ۔وہ ان کے درمیان مبارزت کو زندہ رکھتےتھےتاکہ دونوں قبائل لڑ لڑ کر کمزور ہوتے رہیں اور ان کے قرض کے بار میں جڑے رہیں ۔اور اگر قرض ادا نہ کرسکیں تو ان کے بیٹوں کو رہن رکھ لیتے تھے۔ان کے نظریے کے مطابق اوس و خزرج کی لڑائی سے ہمیں براہ راست فائدہ پہنچتا ہے ۔

ّ'' ۔۔۔۔مجھے اندیشہ ہے کہ ان کی لڑائی ختم ہوگئی تو وہ کسی دن ہمارے خلاف متحد ہوجائیں گے ۔ہمیں کسی فریق کو بھی اس قدر آزردہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مایوسی اور بے بسی کی حالت میں اپنے دشمن سے مصالحت کرنے پر آمادہ ہوجائے ۔۔۔۔"

کہانی آگے بڑھی ۔۔۔

اتفاقی طور پر  عاصم کوراستے میں اسے ایک  زخمی نوجوان   ملتا ہے جواور کوئی نہیں بلکہ دشمن قبیلے خزرج کے عدی کا بیٹا عمیر ہوتا ہے ۔ عمیر  شمعون کے پاس رہن رکھاہو اہے اس کی نوخیز بیوی کے ہتھکنڈوں سے اپنے آپ کو بچا تے ہوئے بھاگتا ہے جسے شمعون نے اپنے طور قتل کر کے ڈال دیا تھا  تاکہ اس سےدونوں قبائل کے درمیان  دشمنی کو ہوا دی جاسکے) عاصم   ہمدردی کے ناطے بادل ناخواستہ عمیر کی زندگی بچاکراسے گھر پہنچاتا ہے  ۔یہاں اس کی ملاقات عمیر کی بہن سمیرا سے ہوتی ہے  اوردونوں الفت کے رشتے میں بندھ جاتے ہیں ۔سمیرا اس کی بہادری اور جراءت سے متا ثرہوتی ہے تو وہ سمیرا کے ملکوتی معصومانہ حسن سے !

جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عاصم نے عمیر کی جان بچائی ہے تو ان کے اپنے اپنے قبیلے کے لوگ ان کو طعنے دیتے ہیں ۔بزدل اور بے غیرت کے خطاب سے نوازتے ہیں ۔انتقام کی ایک شکل دشمن قبیلے پر احسان کرنا تھا ۔جس کا بدلہ ضروری تھا ۔دوسری طرف  عاصم بھی اپنے خاندان اور قبیلے کے طعنے سہہ رہا ہے کہ اس نے  دشمن کی جان بچائی ۔ دونوں اس استہزا کا شکار ہوتے ہیں حتی کہ عاصم یثرب  چھوڑ کر جانے کا ارادہ کر لیتا ہے مگر سمیرا اس کی راہ میں آجاتی ہے ۔

یہودیوں  کے لیے اوس و خزرج میں   لڑائی تعطل فکر مندی کی بات تھی  چنانچہ وہ پھر منصوبہ بندی کرتے ہیں جس کے مطابق وہ ایک پر حملہ اس طرح ترتیب دیتے کہ  دوسرے پر الزام آئے ۔ اور پھر ان کی سازشیں اس طرح منتج ہوتی ہیں کہ عاصم کی چچی کے بھتیجے عدی کے گھر پر حملہ کر کے عدی ، سمیرا اور اس کے دو بھائیوں  کو قتل کردیتے ہیں اور عاصم جنون کے عالم میں ان کو قتل کردیتا ہے۔ اب اس کے اپنے قبیلے کے لوگ اس کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں ۔چنانچہ وہ یہاں سےمایوس ہوکر نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے  لیکن جانے سے پہلے وہ  یہودیوں کی سازش کا بھانڈا پھوڑتے  ہوئے یہ کلمات دا کرتا ہے :

" ۔۔۔منذر کے بیٹوں نے سمیرا ، عدی اور نعمان کے بھائیوں کو قتل کی اہے اور میں نے منذر کے بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے لیکن یہ اوس و خزرج میں سے کسی کی فتح نہیں ۔یہ صرف یہودیوں کی فتح ہے ! تمہارے درمیان نفرت کی آگ یہودیوں نے بھڑکائی ہے اور تمہارے خون کے چھینٹوں سے اس کے شعلے بھڑکتے رہیں گے۔ میرا جرم یہ تھا کہ میں نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی تھی  اور مجھے اس جرم کی سزا مل چکی ہے ۔۔ اب مجھے یثرب سے کوئی دلچسپی نہیں ۔۔۔۔"

وہ یہاں سے ناامید ہوکر نامعلوم منزل کی طر ف روانہ ہوجاتا ہے یہ جانے بغیر کہ صرف چند منزل پیچھے جبل فاران کی چوٹیوں پر وہ آفتاب رسالت نمودار ہوچکا ہے جس کی ضیا ء پاشیوں سے یثرب کے درودیوار منور ہونے والے ہیں ۔۔۔۔!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 دوسرا حصہ اگلے بلاگ میں ملاحظہ فرمائیں