منگل، 10 دسمبر، 2019

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

   
         

  
                        
   احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنوری   :1994

فون کی گھنٹی کی آواز پر ذکیہ بیگم نے چولہا بند کردیا اور فون سننے کو دوڑیں، حسب توقع ان کے بیٹے عامر کا فون تھا۔ وہ امریکا میں ایم بی اے کر رہا تھا اور اب اس کی تعلیم مکمل ہونے ہی والی تھی۔ وہ خوشی سے نہال ہو گئیں اور عامر سے واپسی کا پروگرام پوچھنے لگیں لیکن اس کا جواب سُن کر ان پر اوس پڑ گئی۔ اس کا ارادہ مستقل طور پر امریکا میں سیٹ ہونے کا تھا اور اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ شادی بھی وہیں کرے۔ وہ اپنے آپ پر قابو نہ پاسکیں اور رونے لگیں۔ ان کے رونے کے باعث عامر نے جلد ہی فون بند کردیا۔ 
 فون کے بعد ان کا دل کسی کام میں نہیں لگ ترہا تھا، نہ جانے کس طرح انہوں نے بقیہ کام مکمل کیے اور بچوں کا انتظار کرنے لگیں۔ سارہ اور صبا یونیورسٹی سے جبکہ عظمیٰ،بشریٰ اور عمیر کالج سے کچھ ہی آگے پیچھے پہنچے اور حسب معمول آتے ہی خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے مگر انہوں نے غور کیا کہ امی کچھ خاموش سی ہیں۔
 ”امی بھائی جان کا فون نہیں آیا؟ بہت دنوں سے“۔ بالآخر صبا نے امی کا پسندیدہ موضوع چھیڑ دیا۔
. ہاں آج آیا تھا خیریت ہے۔ ان سب نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ امی نے اتنی اہم بات آتے ہی نہیں بتائی، ورنہ تو وہ جزئیات تک بتاتی ہیں۔
 ذکیہ بیگم نے فی الحال اس بات کو اپنے تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، وہ اپنے شوہر کے بارے میں سوچ رہی تھیں کہ وہ عامر کے بارے میں کتنے پُرامید ہیں اور دن گن گن کر اس کی تعلیم مکمل ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ وہ ان کا بازو بن کر بہنوں کی شادیاں کرے گا مگر آہ! یہ ٹھیک ہے کہ وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، مگر ان کو اچانک اتنا بڑا شاک دینا کچھ مناسب نہیں۔ آہستہ آہستہ بتا دوں گی۔
چاروں بہنیں کھانے کی میز پر عامر کی شادی کے متعلق باتیں کررہی تھیں اور ذکیہ بیگم ناامیدی سے سوچ رہی تھیں کہ ان بے چاریوں کو کیا خبر کہ بھائی کس طرح ان کے ارمانوں کا خون کرنے پر تُلا ہوا ہے؟
شام کو سب لوگ چائے پی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی، ذکیہ بیگم کو دھڑکا ہوا کہ کہیں پھر عامر کا فون نہ ہو، اور وہ دل شکن باتیں سب کو پتا چل جائیں، اسی ڈر سے انہوں نے خود بڑھ کر ریسیور اٹھا لیا۔ اب فون امریکا سے نہیں بلکہ لندن سے ان کے دیور کا تھا۔ جو تقریباً تیس سال سے وہیں مقیم تھے۔اس وقت نہایت افسردہ لہجے میں اپنے داماد کے ٹریفک حادثے میں انتقال کی خبر دے رہے تھے۔ ذکیہ بیگم دھک سے رہ گئیں۔ انہوں نے اس بے چارے کی صرف تصویر ہی دیکھی تھی، مگر سوچ کر ہی آنکھوں میں آنسو آگئے اور ان سے تسلی میں کچھ نہ بولا جاسکا۔
 ان کی نگاہوں میں ننھی منی عاشی گھوم گئی جو آج سے پندرہ سال پہلے اپنے والدین کے ہمراہ ایک ہفتے کے لیے پاکستان آئی تھی۔ گولڈن بالوں کی پونی ٹیل بنائے وہ چند گھنٹوں میں ہی اپنی گزنز سے گھل مل گئی تھی اور پورے گھر میں دوڑتی پھر رہی تھی، درختوں پر چڑھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ وہ صبا اور سارہ کے درمیان کی تھی۔عرصے تک دونوں طرف  یادیں تازہ رہیں۔ مگر پھر اپنی اپنی مصروفیات کے ڈھیر تلے دبتی چلی گئیں۔ پانچ سال پہلے اس کی شادی وہاں رہنے والے پاکستانی ڈاکٹر سے ہوگئی تھی، اس کی شادی پر انہوں نے دعاؤں بھرا گفٹ بھی پارسل کیا تھا اور وہی شریر سی عاشی اپنے دو ننھے بچوں کے ساتھ بیوہ ہو گئی تھی، جبکہ تیسرا تو ابھی دنیا میں بھی نہ آیا تھا۔ قدرت کے فیصلے کے آگے سب بے بس ہیں۔ پچھلے سال کی ہی تو بات ے جب ان کے دیور کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے انڈیا گئے تھے تو ایک دن کے لیے کراچی بھی آئے تھے اور انہوں نے خوشی سے بتایا تھا
 ”شکر ہے بھائی جان کہ میں عاشی کے فرض سے سبکدوش ہوگیا ہوں، ورنہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے وہاں رہنے والی لڑکیوں کے لیے کتنے مسائل ہیں۔ نہ وہ یہاں آکر ایڈجسٹ ہو سکتی ہیں اور نہ وہاں کی مقامی لڑکیوں کی طرح ہو سکتی ہیں، اگر جلدی شادی نہ ہو تو سخت قسمکے فرسٹریشن کا شکار ہو کر رہ جاتی ہیں“۔ ماں باپ اپنی دانست میں تو بہتر کرتے ہیں مگر تقدیر کے اپنے الگ انداز ہیں۔ وہ دکھ سے سوچ رہی تھیں۔
ٹیلی فون کے قریب بیٹھی ان ہی سوچوں کا شکار تھیں کہ پھر فون بج اٹھا۔ انہوں نے چند لمحے اس کو گھورنے کے بعد اٹھا لیا۔ فون کرنے والے کو یہاں کے حالات کا علم تو نہیں ہوتا، لہٰذا حتی الامکان انہوں نے اپنی آواز کو نارمل بنانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف مسز ربانی تھیں کافی سوشل خاتون تھیں۔ ذکیہ بیگم نے ان سے اپنی بیٹیوں کے رشتے کے لیے کہا ہوا تھا، چند منٹ خیریت دریافت کرنے کے بعد وہ اپنے مطلب پر آگئیں اور کہنے لگیں ”بھابھی ایک رشتہ ہے، بڑے اچھے لوگ ہیں بس وہ لوگ کل آئیں گے، آپ اپنی دونوں بڑی بیٹیوں کو تیار رکھیے گا“  انہوں نے یکطرفہ طور پر بات کردی۔
 ”بھابھی آپ ایسا کریں انہیں کسی اور دن بلوا لیں“
 ”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں اس بات کو وہ اپنی بے عزتی سمجھ سکتے ہیں اور لڑکی والوں کو تو جھکنا ہی پڑتا ہے“۔ ذکیہ بیگم نے اپنی پریشانیوں کا گول مول ذکر کرتے ہوئے ان لوگوں کواگلے ہفتے آنے کا کہا،۔بس مسزربانی بپھر گئیں۔
”ٹھیک ہے میں پھر کچھ نہیں کرسکتی، اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اور اسی طرح کچھ کلمات کہنے کے بعد فون کردیا۔
 ذکیہ بیگم ریسیور ہاتھ میں پکڑے سوچ رہی تھیں کہ آخر لڑکی والوں کو لوگ اتنا گھٹیا اور سستا کیوں سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی آئے تو طشتری میں سجا کر اپنی بیٹی دے دیں۔ کیا لڑکی والوں کی کوئی مرضی، کوئی پروگرام، کوئی پسند نہیں ہوسکتی اور اس مرحلے پر جبکہ رشتہ تک طے نہ ہوا ہو صرف پسند ناپسند کے درمیان ہو۔ اس میں اپنی رائے ٹھونستے ہیں!
امی کی اداسی کی وجہ لڑکیوں نے عاشی کے شوہر کی موت کی اچانک خبر کو ہی سمجھا تھا، مگر بشریٰ ایکسٹینشن پر مسز ربانی کی گفتگو سُن چکی تھی، اس نے جب اپنی بہنوں کو ان کی گفتگو کے بارے میں بتایا تو وہ سب کی سب بھی  سوچ میں پڑ گئیں   ‘’
اسی لیے لوگ بیٹیوں کے بجائے بیٹوں کو کیوں مانگتے ہیں؟ ظاہر ہے ان کی وجہ سے ہی ماں باپ مسلسل لوگوں کے دباؤ میں رہتے ہیں۔ ماں باپ پرورش وتربیت میں کتنی ہی برابری کریں اور کتنی ہی محبت کریں لوگ تو لڑکیوں کی وجہ سے ماں باپ کو ہمیشہ ذلیل کرتے رہتے ہیں۔ (کیا اسی ذلت سے بچنے کے لیے لوگ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے؟
گھر میں اداسی اور تناؤ پھیل چکا تھا، وہ لوگ سونے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اس وقت گیارہ بج رہے تھے کہ فون کی گھنٹی پھر بج اٹھی۔ سب لوگ دہل کر رہ گئے۔ آخرکار بشریٰ نے اٹھا لیا۔
 ”اچھا ممانی جان! امی امی!سیمیں آپا کے یہاں بیٹا ہوا ہے۔ اس نے خوشی سے بھرپور لہجے میں ماں کو ریسیور پکڑاتے ہوئے کہا۔
 انہوں نے بھابھی جان کو مبارکباد دی۔ دن بھر میں یہ واحد خوشی کی خبر تھی جو فون کے ذریعے ملی، ورنہ تو صبح سے مایوسی ناامیدی اور بُری خبریں مل رہی تھیں۔ ابو نے رات بارہ بجے کے بعد لندن کی کال بک کرائی تھی اور اب وہ فون کے آگے کھڑے بے چینی سے کال ملنے کے منتظر تھے۔ زندگی میں آزمائشیں بدل بدل کر سامنے آتی ہیں، اب عاشی کی شادی ہوگئی تھی تو اس کی بیوگی ایک دوسری طرح سے امتحان بن کر آگئی تھی۔ اپنے بھائی کو فون پر تسلی دینے کے بعد وہ کچھ مطمئن نظر آرہے تھے۔ واقعی ٹیلی فون بھی کیاچیز ہے؟ اسی کے ذریعے اچھی یا بُری خبر ملتی ہے، مگر اسی کے ذریعے اپنے پیاروں کی آواز سن کر تسلی بھی مل جاتی ہے۔
اگلے تین چار دن کچھ تو مصروفیات بڑھی ہوئی تھیں اور کچھ شہر کے حالات دگرگوں تھے کہ وہ لوگ سیمیں کے بیٹے کو دیکھنے اسپتال نہ جاسکے۔ اسپتال بھی تو ایسی جگہ تھا کہ ابو کے گھر آنے کے بعد ایک گھنٹہ کی ڈرائیو سے وہ لوگ اسپتال پہنچے تو وہاں کے ملاقات کے اوقات ختم ہوچکے تھے۔ یہاں تک کہ سیمیں گھر آگئی۔ انہوں نے سیمیں سے فون پر بات کی تووہ کہنے لگی
 ”کوئی بات نہیں پھوپھی جان! آپ اطمینان سے گھر آیئے گا، مگر اس کے اگلے دن رات کے دس بجے کے قریب سیمیں کا فون آیا کہ کل بچے کا عقیقہ ہے، آپ لوگ ضرور آیئے گا۔ ذکیہ بیگم سوچ میں پڑ گئیں
 ”بس پھوپھی جان شہر کے حالات کی وجہ سے ہم لوگ تو ٹال رہے تھے، مگر ان کے دادا دادی کا خیال ہے کہ سنت میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ساتویں دن ہی عقیقہ کردینا چاہیے......“
 اب ذکیہ بیگم کو اپنے پرس میں رکھے آخری پانچ سو کے نوٹ کا خیال آرہا تھا اور ابھی مہینہ ختم ہونے میں بہت دن تھے۔ کیا کریں؟   جانا بھی ضروری ہے۔ سیمیں تو سمجھ دار ہے شاید بات کو سمجھ جائے، مگر اس کی ساس اور شوہر کیا خیال کریں گے اور پھر سب سے بڑھ کر بھابھی جان؟ وہ تو یہ ہی کہیں گی میری خوشی پر جل گئیں۔ کئی دفعہ باتوں باتوں میں کہہ چکی ہیں کہ سارہ اور سیمیں ہم عمر ہیں سیمیں تو تین بیٹوں کی ماں بن گئی ماشاء اللہ اور تم تو ابھی تک سارہ کی شادی نہ کرسکیں۔
”نہیں نہیں جانا بہت ضروری ہے، خواہ کچھ ہو۔ انہوں نے شوہر کو بتایا تو وہ کہنے لگے کہ کل تو ان کے آفیسر نے ادبی نشست کا اہتمام کیا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری ان پرہے، ان کا جانا تو مشکل ہے وہ گاڑی کسی کے ہاتھ بھجوا دیں گے۔
عقیقے میں شرکت کے بعد گھر واپس آتے ہوئے ذکیہ بیگم سوچ رہی تھیں کہ اس ٹیلی فون نے جہاں زندگی کو آسان بنا دیا ہے وہاں گوناگوں مسائل میں اضافہ بھی کر دیا ہے۔ جس کا دل چاہا نمبر گھما کر اپنا پروگرام دوسرے کے سر پر مسلط کردیا۔ اگر آپ کہیں کہ ابھی آئیں ہمیں ضروری کام ہے تو دوسری طرف دل میں ایسی گرہ پڑی کہ اب کھل نہیں سکتی کہ ہماری بے عزتی ہوگئی ہے۔ گویا بجائے اس کے فون تعلقات میں خوشگواری اور آسانی پیدا کرتا الٹا دلوں میں دوری پیدا کرنے کا باعث بن کر رہ گیا۔ شاید اسی لیے کہا گیا ہے کہ مادی ترقی روح کی تنزلی کا باعث بن رہی ہے اور مشینوں کے شور میں انسانیت کا جذبہ کمزور پڑنے لگتا ہے۔ آنے والا وقت موبائل فون کا دور ہوگا، اس وقت انسانی تعلقات کس درجے کے ہوں گے؟؟  وہ سوچ کر رہ گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                                         جاری ہے

پیر، 9 دسمبر، 2019

پیہم رواں ہے زندگی...!


فجر سے پہلے فون کی گھنٹی بجے تو تشویش لازمی ہے مگر ابلاغ کے اس دور میں مختلف ٹائم زون میں رہنے والے عزیز وں کے لیے اتنی حیرانگی کی بات نہیں! یہ ہی سوچ کر سعدیہ نے فون اٹھالیا۔ اسکرین پر عامر کالنگ چمک رہا تھا۔ بر طانیہ میں بیٹھے جڑواں بھائی کی طرف سے بات کرنے کے خیال سے ہی دل گذار ہوگیا۔ آخر تعلق بھی تو عمر کے پچاسویں سال میں داخل ہوگیا ہے!
  ”...ہاں سمیرہ   اور میں عبیرہ کے ساتھ ترکی جارہے ہیں۔ وہاں عمار اور اس کے والدین پہنچ چکے ہیں۔ کل عبیرہ اور عمارکا نکاح ہے۔ہوٹل میں ٹھہریں گے۔اگلے دن امریکہ روانگی ہے.....!‘‘ 
عبیرہ کا نکاح؟“ سعدیہ حق دق تھی۔ابھی تو بچی داخلے کے لیے پریشان تھی....  ”...اور باقی بچے؟ نبیلہ،  حمود اور رازیہ...؟
وہ ہڑ بڑاہٹ میں  اتنا ہی پوچھ سکی۔جواب میں بھائی نے مختصر تفصیلات بتائیں ”....ہاں سمیرہ کو دوبئی کا ویزا نہیں ملاچنانچہ....!“  
 ابھی بہت سے سفری امور نبٹانے تھے لہذا بھاوج سے بھی بات نہ ہوسکی۔ ویسے اس وقت وہ بات کرنے کی پوزیشن میں بھی نہ تھی! اللہ یہ بے سروسامانی کے دکھ! سمیرہ تو ہر تقریب کو بہت جوش و خروش سے مناتی تھی۔ابھی چند سال پہلے وہ اپنے دیورنومی کی شادی میں بچوں کے قریبی امتحان کے باوجود سب کو لے کر شریک ہوئی۔ ہر ہر رسم اور رواج میں دلچسپی سے شر کت کی تھی۔ 
سعدیہ فون ختم کرکے ڈائل  پر لکھی دن اور تاریخ کو گھورتی رہی۔ 6ستمبر 2015ء!اور اس کا ذہن پچیس سال پہلے کی یاد میں کھو گیا۔ وہ بھی تو ایک سفر تھا.!!

 ”...اوفوہ رونے کی کیا بات ہے! خوش ہوکہ تمہارے بیٹے کو پڑھائی سے فارغ ہوتے ہی اتنی اچھی جاب مل گئی ہے بغیر جوتیاں چٹخائے...“
منصور صدیقی نے بیوی حسنہ کو تسلیاں دیتے ہوئے کہا۔بیٹیاں سعدیہ اور نادیہ خوش ہونے کے باوجود ماں کی افسردگی دیکھ کر خاموش تھیں چھوٹا بیٹا نعمان خوب چہک رہا تھا۔ بھائی کے دبئی جانے کی خبر ہی ایسی تھی!
منصور صدیقی کا گھرانہ باعزت اور خوش حال جہاں تعلیم کو فوقیت تھی۔ ان کے چار بچے جن میں پہلوٹی کے جڑواں سعدیہ اورعامر، ان سے پانچ سال چھوٹی نادیہ اور اس سے بھی پانچ برس چھوٹا نعمان!
چند مہینے دبئی میں گزار کر اس کی پوسٹنگ دمشق ہوگئی۔وہاں قصبے دیرا الزور میں آئل فیلڈ پر اس کی ڈیوٹی تھی۔
 امی! یہاں کے مکانات بالکل ناظم آباد کی طرح ہیں۔پرانے سے ...“ ماں خوش ہوجاتی میکے کا ذکر سن کر! وہ بچپن سے ہی ایسا تھا۔ شرارتی مگر دل جیتنے والا! اس کی شرارتوں پر محلے والوں کی شکایت کے جواب میں امی رونے بیٹھ جاتیں اور ایسے میں باپ گھر میں داخل ہوتے اور رونے کاسبب پوچھتے تو امی کو نانی یاد آرہی ہیں اور موضوع پلٹ جاتا!
کبھی مذہبی اور تاریخی حوالے دیتا  ”...امی! آپ کو معلوم ہے دمشق دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ یہاں کے لو گ بہت صاف ستھرے ہیں...غربت کے باوجود کوئی بھیک مانگتا نہیں نظر آ تا.....“
”...پتہ ہے! مسجد اقصٰی میری رہائش سے کتنے قریب ہے! بس اتنی کہ جتنا کراچی میں طارق روڈ ہے ہمارے گھر سے... لیکن میں جا نہیں سکتا...“
معلومات دیتا رہا اور ہر چار ماہ بعد کراچی کا چکر لگاتا۔ گھر اور خاندان والوں کے لیے تحائف اس کی موجودگی  ان کے لیے دگنی خوشی کا باعث بنتے!ہر وزٹ پر شام کی کوئی نہ کوئی خاص چیز ضرور لے کر آتا! شادی کا اصرار ہنس کر ٹال دیتا۔ ماں بہنوں کی اس سر گر می کا رخ بڑے سکون سے کسی اور طرف موڑ دیتا۔کبھی گھر کی تعمیر کے لیے نقشے کے لیے بھاگ دوڑ! کبھی گھر کی تزئین و آرائش! شاپنگ ....پسندید ہ سرگرمی ! آمد اور روانگی دونوں مواقعوں پر سوٹ کیسز کی کو سیٹ کرنا ایک مزیدار مرحلہ ہوتا۔عامراپنے مزاج کے باعث کسی کو انکار نہ کر سکتا تھا۔لہذا ہر قسم کی اشیاء اس کو لانی اور لے جانی پڑتی... روح افزا کی بوتل اور شان کے مصالحے تو کچھ بھی نہیں سامان میں ہینگ اور میتھی بھی ہوتی ..ایک دفعہ پاکستانی سفارتی عملے کی فرمائش پر نسوار دیکھ کر وہ لوگ قہقہے لگانے پر مجبور ہوگئے!اصولوں کے پابند منصور صاحب نے ممنوعہ اشیاء سمجھ کر تشویش کااظہار کیا مگر اس کے باوجود وہ ان کی نظروں سے بچا کر لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔ان ہی خوش باش دنوں میں دو سال گزر گئے۔
اس دفعہ عامر آیا تو خلاف توقع بہت جلد واپس ہوگیا اور پھر یہ بھی کہ اب کینیا پوسٹنگ ہوگئی ہے. اور ان ہی دنوں اس کی شادی خبر آگئی۔ باپ کو توشروع سے آگہی تھی اب بھائی بہن بھی واقف ہوگئے تھے ہاں البتہ حسنہ بیگم کو مصلحتا لاعلم رکھا گیا مگر تابکہ؟ جس دن ان کو معلوم ہوا رو رو کر حالت بنالی۔۔ان کاذہن تسلیم ہی نہیں کر رہا تھا۔۔اس معاملے میں ان کی کوئی خاص رائے نہ تھی بس انہیں اپنے ارد گرد کی خواتین کی فکر تھی جو معمولی شاپنگ تک میں ان کو نکو بنانے کا کوئی موقع نہ چھوڑتی تھیں اب تو ان کے ہاتھ ایک ایشو آگیا تھا..تنقید کا نادر موقع مل رہا تھا۔ان تفکرات میں وہ بستر پر پڑ گئیں حتی کہ عامر کی آمد کادن آگیا۔
وہ استقبال کے لیے ایر پورٹ جانے کو تیار تھیں مگر ممکنہ ڈرامائی صورت حال کے پیش نظر ان کی طبیعت کی خرابی کو بہانہ بناتے ہوئے خوش اسلوبی سے منع کر کے منصور صاحب نومی کے ہمراہ چلے گئے۔رات گئے جب عامر اپنی بیوی اور دو پھول سی بچیوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا تو سفر کی تھکن کے ساتھ کچھ بے یقینی کی سی کیفیت کا شکار تھا۔ماں کی حالت دیکھ کر سہم سا گیا۔منصور صاحب کی ہدایت کے باعث وہ بولیں تو کچھ نہیں مگر ان کے آنسو دلی کیفیت کے غماز تھے۔ بہر حال رسمی سلام دعا پیار کے بعد وہ سب آرام کرنے چلے گئے۔
اگلے دن صبح سویرے وہ اپنے کمرے میں سوچوں میں گم بیٹھی تھیں کہ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر دونوں بچیاں نبیلہ اور عبیرہ ان کے کمرے میں داخل ہوگئیں۔نبیلہ تو چھلانگ لگا کر ان کے بستر پر چڑھ گئی جبکہ عبیرہ  محتاط سی دروازے میں ہی کھڑی رہی 
جدہ! جدو..!‘‘   (دادی،دادی) نبیلہ نے حسنہ بیگم کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور وہ اسے جھٹک نہ سکیں جب اس نے بوسہ کہہ کر ان کے چہرے کو چومنا شروع کر دیا۔ وہ تو بچوں سے بے پناہ محبت کرتی تھیں کس طرح مزاحمت کر سکتی تھیں؟ انہوں نے اسے جوابی پیار کیا مگر تاثرات میں ابھی تک خفگی تھی اور شاید یہ ہی وجہ تھی کہ ننھی عبیرہ قریب آنے کی ہمت نہیں کر پارہی تھی۔بچے  خواہ جتنے چھوٹے ہوں تاثرات سے اندازے لگانے میں ماہرہوتے ہیں! حا لانکہ انہوں نے اسے بھی باہیں پھیلا کر اپنے پاس بلایا مگر وہ الجھی الجھی سی اپنے والدین کو دیکھ
رہی تھی۔اس کی سمجھ سے بالاتر تھا کہ دادی ان سے کیوں ناراض سی ہیں؟عامر کو آئے کئی دن ہوچکے تھے مگر امی کا غصہ ہنوز بر قرا ر تھااور عجیب بات یہ کہ اس عالم میں بھی وہ اس کی خاطر مدارات سے بے نیاز نہیں تھیں۔ماں ماں ہوتی ہے!
سمیرہ اور خاص طور پر بچیوں کی اپنائیت دیکھ کر محسوس ہوتا ہمیشہ سے یہیں رہتی آئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں وہ جب اپنی پھپوں اور چاچا کے بچپن کے اہم واقعات دہراتیں تو سب حیرت زدہ رہ جاتے۔یہ عامر کا اپنے بیوی بچوں کا اپنے خاندان سے تعارف اور تعلق کا بہترین اظہار تھا! عامر کی آمد کی اطلاع ملتے ہی رشتہ داروں اور احباب کا تانتا سا بندھ گیا۔وہ تھا ہی اتنی محبت کرنے والا!  بظاہر تو سب اس کی محبت اور بیوی بچوں کو دیکھنے آرہے تھے مگر اس کے پیچھے تجسس بھی تھا۔ فاصلے، مصروفیت، بچوں کے امتحا نات، بارش، حالات کی خرابی...اب کوئی بہانہ کسی کے پاس نہیں تھا...یہ دیکھ کر حسنہ بیگم کو اور تاؤ آتا کہ سب ان کا مذاق اڑانے آ رہے ہیں!!!جتنے منہ اتنی باتیں...
  .”ہمت کیسے ہوئی عامر کو ایسا کر نے کی....“ یہ سلطانہ آپا تھیں   ”میرا بیٹا ایسا کرتا تو میں اسے عاق کر دیتی...“  وہ زخمی نظروں سے دیکھ کر رہ گئیں اور دوسرے کمرے میں بیٹھے منصور صاحب غصے سے کھول کر رہ گئے۔ حسنہ کو روتے دیکھ کر کچھ کی زبان یوں گویا ہوتی  ”....آپ کیوں رو رہی ہیں؟ اسے دیکھیں کیسی ہٹی کٹی ہورہی ہے؟؟..“ سمیرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ لفظ تو سمجھ نہ آیا مگر لہجے سے اندازہ ہوا کہ کیا کہا گیا ہے!
ایک کے بعد ایک مہمان رخصت ہوتے اور فتنے جگا جاتے۔امی کی افسردگی، بھائی بہنوں کی امی سے دلجوئی اور عامر سے درشتی، اس کی اپنے بیوی بچوں کے سامنے سبکی...یہ سب اسی طرح چلتا حتٰی کہ ابا جان کی ایک ڈانٹ سب کو خاموش کردیتی 
آخر لوگوں کی باتوں پر اتنا کیوں رد عمل کا اظہارکیا جا تا ہے...جتنی کمزوری دکھائی جائے گی اتنا ہی کچوکیں گے....“
   ہفتے بھر بعد کی بات ہے جب خورشید باجی نے سب کو دعوت پر بلا لیا۔وہ حسنہ بیگم کی بڑی کزن تھیں اور بھانجی کے رشتے سے سمدھن بھی تھیں۔ ”اپنی بیوی سے کہنا شلوار قمیض دوپٹہ پہنے،ڈھنگ سے....!“  امی نے عامر کوہدایت دینا ضروری سمجھا اور وہ خاموش ہوگیا
اچھا خاصہ ساتر لباس پہنتی تھی، عموما گلابیہ (میکسی)میں ملبوس رہتی،باہر جاتے ہوئے ڈھیلی ڈھالی بنطلون (پاجامہ)  اور بڑی سی ٹی شرٹ پہن کر گلے میں اسٹول ڈال لیتی۔موقع کے لحاظ سے سر بھی ڈھک لیتی۔شلوار سنبھالنااس کے لیے دشوار مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح یہ مرحلہ سر کیا گیا۔
 سمیرۃد عوت میں جاتے ہوئے بہت گھبرائی ہوئی تھی مگر وہاں پہنچ کر اس کی پریشانی دور ہوگئی جب وہیل چئیر پر بیٹھی خورشید خالہ نے گھر کے دروازے پر استقبال کیا اور سمیرہ کو گلے لگا کر خوب دعائیں دیں۔ شریر نبیلہ نے ان کی وہیل چئیر گھسیٹنے کی کوشش کی تو اس کو پیار سے کچھ کہا جو اسکو سمجھ میں نہیں آیا مگر محبت کی اپنی زبان ہوتی ہے! پھر وہ حسنہ کی طرف متوجہ ہوئیں اور سمجھاتے ہوئے بولیں  ”شکر کرو تمہارے بیٹے کا گھر آباد ہے...بوا تو منے کی بر بادی کا دکھ لیے قبر میں چلی گئیں....“  اپنے بھائی اور ماں کا ذکر سن کر حسنہ بیگم نے سر جھکا لیا۔
 پھر وہ موضوع بدل کر بولیں
”دیکھو اپنی پوتی کو ہو بہو تمہارا بچپن ہے...!“
نبیلہ پہلے ہی دادی کے دل میں اپنی فطرت کی وجہ سے جگہ بنا چکی تھی اور اب تو اسے دیکھ کر انہیں چاہت اٹھ رہی تھی۔خورشید بیگم کی کاؤنسلنگ تو محض ایک بہانہ تھا ورنہ حسنہ بیگم کے جذبات کا ابال ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور اب ایک مختلف حسنہ بیگم کا روپ تھا۔ سمیرۃکو باقاعدہ بہو کا پروٹو کول ملنے لگا اور وہ اسے اپنائیت کے ساتھ اپنے تمام عزیزوں سے ملوانے لگیں۔سمیرہ کا اعتماد بحال ہوا تو اس کے جوہر کھلے۔ وہ ایک خوش مزاج، ذہین، سگھڑ اور رشتوں کو جوڑنے والی تھی۔ بھرے پرے کنبے سے تعلق رکھنے والی جہاں خاندانی وقار اور تعلق کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ مشرقی روایات کی حامل! اس نے عامر سے کہا کہ ماما اور بابا کو اپنے ساتھ لے چلو!! آتے ہی اس نے  جب یہ بات کہی اور حسنہ بیگم کے کانوں نے ویزا اور پاسپورٹ کالفظ اس کی گفتگو سے اخذ کیا توسوچا تھا کہ جلدی واپس چلنے کا کہہ رہی ہے اوروہ بڑبڑائی تھیں۔۔۔ہاں اس کا دل یہاں کہاں لگے گا؟  اور جب دل بدلا تو وہ فورا روانگی کے لیے تیار ہوگئیں مگر  ان کے معالج نے پروگرام میں رخنہ ڈال دیا یہ کہہ کر کہ ابھی ا ٓپ سفر قابل نہیں!!!
 منصور صاحب تو کئی دفعہ کانفرنس میں حلب جاچکے تھے اور وہاں کے کتب خانوں  اور اہل علم افراد سے مستقل رابطے میں تھے مگر اپنے بیٹے کے گھر جانے کا اشتیاق ہی کچھ اور تھا۔وہ بچوں کے ساتھ بالکل بچہ بن گئے تھے! سچی بات تو یہ ہے کہ عربی پر عبور ہو نے کی وجہ سے بہو اور پوتیوں سے تبادلہ خیال تووہی کر رہے تھے باقی تو بس اردو، عربی اور انگلش کی چٹنی بنا کر کام چلا رہے تھے۔ بہر حال اس کی نوبت نہ آئی کیونکہ ہر چھہ ماہ بعد وہ لوگ ہی کراچی کاچکر لگا لیتے تھے اور یوں سب سے ملا قات ہوجاتی تھی۔تفریح گاہیں کم پڑ نے لگیں۔شہر کا چپے چپے گھوم لیے گئے۔یہ وہ دور تھا جب نئے نئے شاپنگ سنٹر کھلنے لگے تھے۔سند باد جیسی جدید ترین جگہ ہو یا اولڈ کیماڑی میں کشتی کاسفر ہر جگہ دیکھ ڈالی گئی۔
 ”کراچی تو پورے سیریا سے بھی بڑا ہے!......“سمیرۃ بار با ر بول پڑتی!
سمندر دیکھ کر عبیرۃ واپس آنے کوتیار نہ ہوتی  دادا سے کہیں یہیں گھر بنالیں  وہ اپنے باپ سے کہتی
اور کبھی یہ کہ بڑی گاڑی لیں کہ مجھے گود میں نہیں بیٹھنا پڑے!اورسب ہنس پڑتے۔۔۔
سمیرہ قصباتی بیک گراونڈ رکھنے کی وجہ سے بے حدمحنتی بھی تھی۔سگھڑ،! رکھ رکھاؤ اور حفظ مراتب کا خیال رکھنے والی!گھر آئے مہمان کو کیسے ڈیل کرنا ہے!کس کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے یہ وہ خوب اچھی طرح جانتی تھی۔جذبات پر کنٹرول بھی خوب تھا۔اپنے قیام کے دوران وہ حسنہ بیگم کی دستکاریوں میں خصوصی دلچسپی لیتی۔کبھی موتی ٹانکا سیکھتی اور کبھی سوئٹر کے نمونے!
ایک دفعہ عامر کی آمد پر دعوت کا انتظام کیا گیا تھا۔امی کے بستر کے سرہانے سیلن اور دراڑ کے باعث دیوار پر نمایاں دھبے دیکھ کر اس سے نہ رہا گیا اور اس نے عامر سے رنگ اور برش لانے کی فر مائش کی کہ ماما کا کمرہ پینٹ کردوں! اس بات پر عامر نے اس کو ڈانٹ پلائی کہ یہاں یہ کام مرد بھی خود نہیں کرتے بلکہ مزدوروں سے کرواتے ہیں! عامر کو سب کے سامنے اپنی بیوی کی سبکی کا خیا ل تھا ورنہ در حقیقت وہ اس کے ہنر مند ہونے کا دل سے قدر دان تھا۔دو مختلف تہذیبوں کے درمیان یہ خاندان ایک پل کا کام کر رہا تھا۔ننھی نبیلہ تک ماں کی بریفنگ کرتی
کہ دیکھیں پوپو (پھپھو) کیسے دوپٹہ اوڑھتی ہیں؟  ایک دوسرے کے ادب آداب  اور رسم و رواج منتقل ہورہے تھے۔زندگی رواں دواں تھی۔بچے بڑے اور بڑے ضعیف ہورہے تھے!
دو بچیوں کے بعد عامر کے گھر بیٹے حمودی کی پیدائش ہوئی۔ نبیلہ اور عبیرہ اسکول میں داخل ہوگئی تھیں۔مختصر علالت کے بعد منصور صاحب انتقال کر گئے۔ان کے بعد گھر کی ذمہ داری عامر نے بحسن خوبی انجام دی۔شادی کے پندرہ سال بعد پھر اللہ نے اس کو ایک بچی سے نوازا!ننھی رازیہ گھر بھر کے لیے کھلونا تھی۔ اس وقت عامر کے معاشی حالات بہت بہترین ہوگئے تھے۔وہ پاکستانی کمیونٹی میں نما یا ں مقام رکھتا تھا۔ دمشق میں خوب صورت گھر بنا لیا تھا کیونکہ اب بچوں کوپاکستانی انٹر نیشنل اسکول میں داخل کروا دیا گیا تھا۔ ٹیکنالوجی کے باعث روابط میں بہت آسانی ہوگئی تھی۔حمودی اسکائپ کے ذریعے دادی کو اپنے گھر، جانوروں اور محلے کی سیر کرواتا! ان کو سن روم دکھا تا کہ یہاں بلور (شیشہ) ہے۔ سورج کی روشنی اور دھوپ کی وجہ سے آپ کو لگے گا کہ پاکستان میں ہیں! مگر ان کو سفر کی مہلت نہ مل سکی کہ سفری دستاویز میں اتنی تاخیر ہوئی کہ دائمی سفر کا بلاوا آگیا۔
وقت کب ٹھہرتا ہے؟ آگے بڑھتا ہی رہتا ہے!  حتی کہ بچوں کی اعلی تعلیم کے لیے مختلف آپشنز پر غور ہونے لگا! قرعہ فال برطانیہ کے نام نکلا۔داخلہ کرواکر اور رہائش کا انتظام کر کے واپس دمشق پہنچے۔ اس موقع پر عامر نے سعدیہ سے خواہش ظاہر کی کہ امی تو دمشق نہ آسکیں۔تم ہی آجاؤ کچھ عر صے کے لیے! سعدیہ نے اس سفر کے لیے اپنے آپ کو ذہنی اور عملی طور پر تیار کر لیا۔ 
یہ فروری 2011ء کی ایک خنک صبح تھی جب دمشق سے عامر کا فون آیا۔ 
”سعدیہ! کل ہم لوگ انگلینڈ جارہے ہیں!  اب موسم بہتر ہوگیا ہے! تم مارچ کے آخری ہفتے کی بکنگ کرالو!شام، مصر،ترکی کے بعد عمرہ کی ادائیگی! پاسپورٹ ایکسپائر نہیں ہونا چاہیے.....اس سے پہلے پہلے کروالو!......“
ان دنوں عرب بہار کی دھوم تھی لہذا سعدیہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس کے جوا ب میں بھائی نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہاں امن ہے! اس وقت رات کے دو بجے ہیں اور ہم ابھی شاپنگ کر کے لوٹے ہیں....(دمشق کی راتیں جاگتی ہیں!)....
یہ اطمینان کی آخری گفتگو تھی کیونکہ اس کے بعد وہاں کے حالات جو بد سے بد ترہوتے گئے وہ سب کے سامنے ہے! شام کی خرابی احادیث سے منقول ہے مگر یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوگا تصور میں نہ تھا۔زندگی کا رنگ بدلنے میں محض چوبیس دن لگے!یہ خوش قسمتی کہ عامر اپنے خاندان کے ساتھ بر طانیہ روانہ ہوچکاتھا مگر.....سب کچھ تو شام میں تھا...جاب،گھر، پڑوسی، دوست، رشتے دار....! آہ!
دیرا لزور میں سمیرۃ کا آبائی تین منزلہ گھر جس کے چھہ پورشنز میں اس کے۶  بھائیوں کے خاندان رہائش پذیر تھے بمباری میں کھنڈربن گیا۔ انٹر نیٹ پر اس کی تصویر دیکھ کر یہاں سب سہم کر رہ گئے تھے۔ شکر ہے کہ جانیں بچ گئیں مگر سب کچھ تتر بتر ہوگیا تھا! مصر،ترکی، عراق ِ، اردن میں بکھر گئے۔اس کے والدین یکے بعد دیگرے دھکے کھاتے دنیا سے گزر گئے!
سمجھ میں نہیں آتا سمیرۃ سے کس طرح تعزیت کی جائے؟ عامر کے بہن بھائی الجھن کا شکار تھے مگر جب آزمائش آتی ہے تو اللہ حوصلے بھی دے دیتا ہے! الحمد للہ! آنسو بھری آواز کہتی اور سعدیہ سوچنے لگی:
سمیرۃ میری عزیزہ!  امی کے ہینڈی کرافٹ دیکھ کر تم کہا کرتی تھیں کہ تمہارے دیرا (گاؤں) میں ایک عورت ہے جو خستہ حال اور بوسیدہ دستکاری کو دوبارہ جاذب نظر بنا دیتی ہے!میں ماما کے تمام بوسیدہ نمونے  اس سے درست کرواؤں گی...... آہ! اب یہ ممکن نہیں! نہ جانے وہ
 کہاں ہوگی؟ بس میں   یہ پوچھنا چاہوں گی کہ کیا کوئی ایسا بھی ہے جو تباہ حال بستیوں کو پھر سے پہلے جیسا با رونق بنا دے؟
زندگی کا رخ بدل گیا تھا۔شروع شروع میں کچھ نارمل رہا۔ سمیرۃ بھی دمشق جاتی رہی مگر تابکے؟ بچے جنہیں تعلیم کے لیے بر طانیہ میں رکنا تھا مگر ان کا سب کچھ تو دمشق میں تھا! وہ سوق، وہ موسم.....یہاں نہ زبان اپنی نہ موسم! سب کچھ نامہربان تھا! نبیلہ نے سعدیہ سے فون پر کہا
”.....پوپو!مجھے نفرت ہے انگلینڈ سے! یہاں تو کبھی دھوپ ہی نہیں نکلتی!....
برف باری تو دمشق میں بھی تو ہوتی تھی....سعدیہ نے اسے بہلایا
”..مگر وہاں سورج تو نکلتا تھا.....“ وہ سسک پڑی اور سعدیہ کو دمشق  کے گھر کا سن روم یادآگیا۔
دمشق کا سورج تو اسی طر ح روز جلوہ افروز ہوتا مگر اس کے باشندے حکمرانوں کی سفاکی کے باعث در بدر تھے۔ یہ وہی حکمران تھا جس کے تخت نشین ہونے پر گایا جانے والا ترانہ ننھی ننھی نبیلہ اور عبیرۃ گایا کرتی تھیں۔ پوچھنے پر بتاتیں کہ ہمارا نیا بادشاہ ہے...بہت ہنڈسم جوان ہے ڈاکٹر.....اور آج یہ ہی قصائی بنا ہواتھا۔ حکومتیں اجڑتی نہیں مگر لوگ بکھر جاتے ہیں....
عامر پاکستان واپس آسکتا تھا مگر یہاں کی صورت حال بھی کچھ خوش آئند نہیں تھی اور پھر سمیرۃ کی شامی شہریت کو پاکستانی ویزہ نہیں مل رہا تھالہذا ان سب نے ایک ساتھ برطانیہ ہی میں رہنے کا فیصلہ کرلیا۔شروع شروع میں لگتا تھا تھوڑے دنوں کی مصیبت ہے مگر پھر اس کا کوئی کنارہ نہ رہا! ہاں البتہ ساحلوں پر مظلوموں کی لاشیں ملتی رہیں! لاکھوں شامی باشندوں کی طرح عامر کی معیشت اور معاشرت دونوں زوال پر تھی۔ وہ گڑیا رازیہ جس کی دیکھ بھال کے لیے برٹش گورنس رکھی گئی تھی آج برطانوی امیگرینٹ کے طور پر رجسٹر تھی!  مہنگے علاقے سے وہ لوگ برمنگھم شفٹ ہوگئے تھے۔
 سخت تگ ودو سے گزر رہے تھے۔ مہنگائی اور بڑھتے ہوئے اخراجات زندگی کو مشکل تر بنارہے تھے۔ ضرورت کے لحاظ سے نئی نئی چیزیں سیکھ رہے تھے۔ ایک دن خلاف معمول وقت پر عامر کا فون آیا
”سعدیہ! وہ جو گھر  میں پرانا البم ہے نا! اس میں سے ماموں کی تصویرپورٹریٹ کو ذرا مجھے اسکین کر کے بھیجو۔۔۔!‘‘ سعدیہ نے اکتاہٹ سے اس مشقت کے بارے میں سوچا جو اس البم کو نکالنے میں کرنی تھی۔بہر حال تجسس بھی تھا۔ جب اس تصویر کو ہاتھ میں لے کر اسکائپ
 آن کیا تو دوسری طرف عامر ہاتھ میں وہی تصویر لیے بیٹھا تھا۔
”۔۔۔جب تمہارے پاس تھی تو مجھ سے کیوں ما نگی؟“ وہ کہے بغیر نہ رہ سکی۔
”۔۔میرے پاس تھوڑی تھی۔۔یہ تو مجھے یہاں سے ملی ہے۔۔۔!“  آواز اور لہجے میں خوشی کی ایسی جھلک تھی جب بچپن میں وہ سعدیہ کے لیے بیر بہوٹیاں پکڑ کر لاتا تھا
”کیا مطلب؟“  تجسس  سعدیہ کے لب و لہجے سے مچل رہا تھا۔
معلوم یہ ہوا کہ وہ اور سمیرۃ اسٹیٹ ایجنسی کا کام کر رہے ہیں۔پرانے اور بوسیدہ گھروں کو خرید کر رینوویٹ کر کے بیچتے ہیں۔ سمیرۃ اپنے پراجیکٹ کی تصاویر بھی بھیجتی رہتی تھی۔جس میں پہلے اور بعد دونوں میں موازنہ ہوتا تو ان کی اس صلاحیت اورہنر مندی پرجہاں دل واہ واہ کرتا وہاں اتنی سخت اور پر مشقت زندگی پر رو اٹھتا...
بہر حال ایک کھنڈر خستہ سے گھر میں اسے اپنے ماموں کی یہ تصویر ملی جو کسی زمانے میں بر طانیہ میں رہتے تھے۔ بیس سال قبل ناگفتہ بہ حالات میں ان کا انتقال بھی ہوگیا تھا۔اب یہاں ان کی تصویر کس کے پاس تھی؟ ایک معمہ تھا جس کی کڑیاں ٹوٹ چکی تھیں۔اس پر سے پردہ روز قیامت ہی اٹھے گا!  سارے بہن بھائی الجھ کر رہ گئے تھے۔
در بدری کے اس دور نے سمیرۃ کے اندر چھپی شاعرہ کو باہر نکال دیا۔اور انٹر نیٹ پر اس کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ اس کا ایک بھائی ترکی میں تھا جس کے توسط سے شاعری کی دو کتابیں مارکیٹ میں آ گئیں۔وطن کے ہجراور فراق میں ڈوبے شعر دکھی دل کی آواز بن گئے تھے۔زندگی کسی طور رواں دواں تھی۔ حالات کی خرابی نے ان دونوں میاں بیوی کی شگفتگی اور خوش اخلاقی کو ہر گز ماند نہ کیا تھا۔ جو بھی قرابت دار محو سفر ہوتا برطانیہ کا ویزہ لے کر ضرور ان کا مہمان بنتا! زخموں کو چھپا کر مسکرانا ہی دانش مندی تھی...بھرم قائم تھا!
ایک دن سمیرۃ کا فون سعدیہ کے پاس آیا تو اس کی سسکیاں نہیں رک رہی تھیں۔
”...نبیلہ اور عبیرۃ کی فیس جمع نہیں ہوسکی ہے۔انہیں ایک ہفتے کا الٹی میٹم ہے ورنہ اسٹوڈنٹ ویزہ کینسل کر کے ڈی پورٹ کردیں گے...پلیز سعدیہ کچھ کرو! میرے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا ہے....عامر کو نہ بتا نا....وہ غصہ کریں گے کہ کیوں سب کو پریشان کیا ...“
اپنے بھائی کی خود داری سعدیہ کو رلاگئی۔۔حلق میں نوالے اٹک رہے تھے۔ پریشانی میں اس نے اپنی بہن اور بھائی سے مشورہ کیا۔کچھ نہ کچھ رقم کا انتظام کیا مگر وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف تھی۔ عامر کو اعتماد میں لے کر اس نے آبائی گھر بیچنے کی تجویزدی جسے عامر نے سختی سے مسترد کردیا کہ خواہ مخواہ سب کو در بدر کرنے کا کیا فائدہ؟ حالانکہ اس مکان کو بنانے میں ساٹھ فی صد سے زیادہ رقم عامر نے ہی مہیا کی تھی
”...کچھ نہ کچھ ہوجائے گا! وکیل سے بات کررہے ہیں......“ بہن بھائیوں کو تسلی دی۔ دعاؤں میں آہ و زاری بڑھ گئی تھی....اور آج چند ماہ بعد عبیرہ کی شادی کی خبر سن رہے تھے!
صبح کا اجالا پھیل رہا تھا۔اتنے میں اخبار والا آگیا۔ خبر اور تصویر پر نظر پڑتے ہی دل دھک سے رہ گیا۔ایلان کردی کی ساحل پر پڑی لاش!.....ڈگری ملے یا نہ ملے زندگی تو سلامت رہے گی  نا! کسمپرسی کی موت سے اللہ بچائے!! سعدیہ عبیرۃ کے لیے ہنوز دعاگو تھی۔
تفصیل یہ تھی کہ امریکہ میں رہنے والے شامی دوست نے اپنے بیٹے کے لیے نبیلہ یا عبیرۃ کا رشتہ مانگا۔ ماں باپ نے دونوں کے سامنے بات رکھی۔نبیلہ نے تو فورا انکار کردیا کہ وہ اپنے خاندان کو اس بھنور میں چھوڑ کر نہیں جاسکتی جبکہ عبیرۃ نے سوچاکہ وہ اسٹیبلش ہوکر اپنے خاندان کے لیے زیادہ نافع بن سکتی ہے۔چنانچہ اس نے امریکی یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے اپلائی کردیا۔ اس مر حلے پر عمار کے والد نے اس کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرادی جو دراصل اس کا مہر تھا! اور یوں سب طے ہوگیا۔نکاح کے لیے دوبئی بہت آئیڈیل جگہ تھی کہ پاکستان سے بھی کوئی شریک ہونا چاہے تو ہوسکے مگر سمیرۃ کو سوائے ترکی کے کہیں کا ویزہ نہ ملا لہذاصرف ماں باپ ہی جاسکے! اور یوں ایک مزید
ہجرت تھی!
حالات بہتر تو نہیں ہورہے تھے مگر کچھ عادت سی ہوگئی تھی! معاش کے خطروں کے ساتھ امن و عامہ کے خدشات لاحق تھے۔ یورپی اقوام میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی اور خاص طور پر شامی ماں اور پا کستانی باپ کی اولادوں میں عدم تحفظ کی نوعیت بھی جدا تھی۔دا عش اور طالبان سے نتھی کرنا کتنا آسان تھا؟مگر ان تمام کے باوجود زندگی رواں دواں تھی۔
 اس دن نادیہ کے گھر سب ناشتے پر مدعو تھے۔نادیہ کا فون بجا تو وہ اٹھ کر سننے چلی گئی۔
”... امی! کینیڈا سے ثمینہ آنٹی کا فون ہے....“ دانش نے پکارا
”.....ایک تو امی کی دوستیں.....!“ بچے جز بز ہونے لگے۔اتنی اچھی گفتگو میں وقفہ آگیاتھا۔
”...ہاں ہاں!عمر ہی نام ہے اس کا!......۔پہلے سعودیہ میں تھا پھر سیریا واپس آگیا تھا...اب اس نے کینیڈا میں امیگریشن لے لی ہے....“ نادیہ کے لہجے میں بریکنگ نیوز جیسی کھنک تھی۔
فون بند کرکے اس نے ڈائننگ ٹیبل پر سب کو متوجہ کیا جو پہلے ہی پر تجسس تھے
”....البرٹا سے ثمینہ کا فون تھا۔۔وہ لوگ ٹیکسی میں سفر کررہے تھے تو ڈرائیور سیرین تھا.....بات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ سمیرۃ کا بھائی عمر تھا!  وہی جس کے ذریعے سمیرۃ نے سعودیہ سے اپنی  نندوں کے لیے عبایہ منگوا ئی تھی۔جو آج بھی ان کی الماریوں میں موجود تھی! اور سعدیہ کو یہ بھی یاد آیا کہ ا بوجان کی عربی کتب کے بارے میں عامر نے کہا تھا کہ میں سیریا لے جاؤ ں گا کہ حمودی عمر سے  اس کی تعلیم لے گا! آہ انسان کی ناقص منصوبہ بندی....ہوتا وہی ہے جو تقدیر نے لکھا ہو! کہ وہی عمر سالوں کی در بدری کے بعد پیٹ کے لیے البرٹا میں ٹیکسی چلا رہا تھا!
اور دنیا اتنی مختصر تھی یا سوشل میڈیا سے ہوگئی ہے! چند گھنٹے بعد جب بر طانیہ میں رہنے والے بیدار ہوئے تو عامرکا فون نادیہ کے نام تھا جوالبرٹا میں جڑنے والے تعلق کی کہانی سنا رہا تھا۔ 
خاندان کے سب لوگ واٹس اپ گروپ سے منسلک تھے! گرمیوں کی ایک دوپہرنبیلہ کے میسج نے گروپ میں ہلچل سی مچادی کہ میں خالہ بن گئی ہوں! ساتھ ہی عبیرہ کے نومولود بیٹے کی تصویر تھی۔ امریکی ریاست میں پیدا ہونیوالے  ریان کی شناخت کیا ہوگی؟ ایک امریکن مسلم؟ امریکی معاشرے میں ضم ہونے والے خاندان کے لیے کیا یہ اتنا آسان ہوگا؟؟
عبیرہ ہزاروں میل دور سے اپنے بیٹے کو کندھے سے لگائے ماں کو کہہ رہی تھی
”ماما....مجھے تو ریان کو سب کچھ بتا نا ہے!....ہم کہاں سے آئے؟ کیا گزری؟ کیوں در بدر ہوئے؟....“
”ہاں جان مادر! اگر تم نہیں بتاؤ گی تو اپنی شناخت کا تجسس دو چار نسل بعد ضرور ابھرے گا....پھر وہ اپنا ڈی این اے کروائے گا  اس کو جاننے کے لیے...!“
سمیرۃ جب سعدیہ کو یہ سب بتا رہی تھی تو اسے الیکس ہیلے کا ناول  ROOTS یاد آرہاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




 اس ناول  ROOTS  میں مصنف Alex Haleyنے اپنے آباء و اجداد کی تلاش  کے ساتھ ساتھ ان کی تہذیب  اور زبان کے نقوش محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے.
 اس ناول کا اہم ترین کردار کنتا کنتی مصنف کا ایک بزرگ جو1750 میں گیمبیا کے ایک مسلمان قبیلے  میں پیدا ہوئے۔ سترہ سال کی عمر میں اغوا کر کے امریکہ پہنچایا جاتا ہے۔ جہاں بحیثیت غلام زندگی گزارتے ہیں چالیس سال کی عمر میں شادی اور بچی پیدا ہوتی ہے جسے وہ اپنی قبائلی روایات سے آگہی دیتے ہیں۔او ر یہ منتقل ہوتے ہوتے ساتویں نسل میں مصنف تک پہنچتی ہے جو اپنی تحقیق کا آغاز کرتے ہیں اور بارہ سال کی محنت کے بعد یہ معرکۃ الآرا تخلیق منظر عام پر آتی ہے۔
نوٹ:
   اس ناول کا اردو ترجمہ ”سلاسل‘‘  کے عنوان سے  محترمہ انوار فاطمہ جعفری نے کیا ہے جو اکادمی بازیافت نے جون2003 ء  میں شائع کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔