منگل، 10 دسمبر، 2019

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

   
         

  
                        
   احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنوری   :1994

فون کی گھنٹی کی آواز پر ذکیہ بیگم نے چولہا بند کردیا اور فون سننے کو دوڑیں، حسب توقع ان کے بیٹے عامر کا فون تھا۔ وہ امریکا میں ایم بی اے کر رہا تھا اور اب اس کی تعلیم مکمل ہونے ہی والی تھی۔ وہ خوشی سے نہال ہو گئیں اور عامر سے واپسی کا پروگرام پوچھنے لگیں لیکن اس کا جواب سُن کر ان پر اوس پڑ گئی۔ اس کا ارادہ مستقل طور پر امریکا میں سیٹ ہونے کا تھا اور اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ شادی بھی وہیں کرے۔ وہ اپنے آپ پر قابو نہ پاسکیں اور رونے لگیں۔ ان کے رونے کے باعث عامر نے جلد ہی فون بند کردیا۔ 
 فون کے بعد ان کا دل کسی کام میں نہیں لگ ترہا تھا، نہ جانے کس طرح انہوں نے بقیہ کام مکمل کیے اور بچوں کا انتظار کرنے لگیں۔ سارہ اور صبا یونیورسٹی سے جبکہ عظمیٰ،بشریٰ اور عمیر کالج سے کچھ ہی آگے پیچھے پہنچے اور حسب معمول آتے ہی خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے مگر انہوں نے غور کیا کہ امی کچھ خاموش سی ہیں۔
 ”امی بھائی جان کا فون نہیں آیا؟ بہت دنوں سے“۔ بالآخر صبا نے امی کا پسندیدہ موضوع چھیڑ دیا۔
. ہاں آج آیا تھا خیریت ہے۔ ان سب نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ امی نے اتنی اہم بات آتے ہی نہیں بتائی، ورنہ تو وہ جزئیات تک بتاتی ہیں۔
 ذکیہ بیگم نے فی الحال اس بات کو اپنے تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، وہ اپنے شوہر کے بارے میں سوچ رہی تھیں کہ وہ عامر کے بارے میں کتنے پُرامید ہیں اور دن گن گن کر اس کی تعلیم مکمل ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ وہ ان کا بازو بن کر بہنوں کی شادیاں کرے گا مگر آہ! یہ ٹھیک ہے کہ وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، مگر ان کو اچانک اتنا بڑا شاک دینا کچھ مناسب نہیں۔ آہستہ آہستہ بتا دوں گی۔
چاروں بہنیں کھانے کی میز پر عامر کی شادی کے متعلق باتیں کررہی تھیں اور ذکیہ بیگم ناامیدی سے سوچ رہی تھیں کہ ان بے چاریوں کو کیا خبر کہ بھائی کس طرح ان کے ارمانوں کا خون کرنے پر تُلا ہوا ہے؟
شام کو سب لوگ چائے پی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی، ذکیہ بیگم کو دھڑکا ہوا کہ کہیں پھر عامر کا فون نہ ہو، اور وہ دل شکن باتیں سب کو پتا چل جائیں، اسی ڈر سے انہوں نے خود بڑھ کر ریسیور اٹھا لیا۔ اب فون امریکا سے نہیں بلکہ لندن سے ان کے دیور کا تھا۔ جو تقریباً تیس سال سے وہیں مقیم تھے۔اس وقت نہایت افسردہ لہجے میں اپنے داماد کے ٹریفک حادثے میں انتقال کی خبر دے رہے تھے۔ ذکیہ بیگم دھک سے رہ گئیں۔ انہوں نے اس بے چارے کی صرف تصویر ہی دیکھی تھی، مگر سوچ کر ہی آنکھوں میں آنسو آگئے اور ان سے تسلی میں کچھ نہ بولا جاسکا۔
 ان کی نگاہوں میں ننھی منی عاشی گھوم گئی جو آج سے پندرہ سال پہلے اپنے والدین کے ہمراہ ایک ہفتے کے لیے پاکستان آئی تھی۔ گولڈن بالوں کی پونی ٹیل بنائے وہ چند گھنٹوں میں ہی اپنی گزنز سے گھل مل گئی تھی اور پورے گھر میں دوڑتی پھر رہی تھی، درختوں پر چڑھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ وہ صبا اور سارہ کے درمیان کی تھی۔عرصے تک دونوں طرف  یادیں تازہ رہیں۔ مگر پھر اپنی اپنی مصروفیات کے ڈھیر تلے دبتی چلی گئیں۔ پانچ سال پہلے اس کی شادی وہاں رہنے والے پاکستانی ڈاکٹر سے ہوگئی تھی، اس کی شادی پر انہوں نے دعاؤں بھرا گفٹ بھی پارسل کیا تھا اور وہی شریر سی عاشی اپنے دو ننھے بچوں کے ساتھ بیوہ ہو گئی تھی، جبکہ تیسرا تو ابھی دنیا میں بھی نہ آیا تھا۔ قدرت کے فیصلے کے آگے سب بے بس ہیں۔ پچھلے سال کی ہی تو بات ے جب ان کے دیور کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے انڈیا گئے تھے تو ایک دن کے لیے کراچی بھی آئے تھے اور انہوں نے خوشی سے بتایا تھا
 ”شکر ہے بھائی جان کہ میں عاشی کے فرض سے سبکدوش ہوگیا ہوں، ورنہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے وہاں رہنے والی لڑکیوں کے لیے کتنے مسائل ہیں۔ نہ وہ یہاں آکر ایڈجسٹ ہو سکتی ہیں اور نہ وہاں کی مقامی لڑکیوں کی طرح ہو سکتی ہیں، اگر جلدی شادی نہ ہو تو سخت قسمکے فرسٹریشن کا شکار ہو کر رہ جاتی ہیں“۔ ماں باپ اپنی دانست میں تو بہتر کرتے ہیں مگر تقدیر کے اپنے الگ انداز ہیں۔ وہ دکھ سے سوچ رہی تھیں۔
ٹیلی فون کے قریب بیٹھی ان ہی سوچوں کا شکار تھیں کہ پھر فون بج اٹھا۔ انہوں نے چند لمحے اس کو گھورنے کے بعد اٹھا لیا۔ فون کرنے والے کو یہاں کے حالات کا علم تو نہیں ہوتا، لہٰذا حتی الامکان انہوں نے اپنی آواز کو نارمل بنانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف مسز ربانی تھیں کافی سوشل خاتون تھیں۔ ذکیہ بیگم نے ان سے اپنی بیٹیوں کے رشتے کے لیے کہا ہوا تھا، چند منٹ خیریت دریافت کرنے کے بعد وہ اپنے مطلب پر آگئیں اور کہنے لگیں ”بھابھی ایک رشتہ ہے، بڑے اچھے لوگ ہیں بس وہ لوگ کل آئیں گے، آپ اپنی دونوں بڑی بیٹیوں کو تیار رکھیے گا“  انہوں نے یکطرفہ طور پر بات کردی۔
 ”بھابھی آپ ایسا کریں انہیں کسی اور دن بلوا لیں“
 ”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں اس بات کو وہ اپنی بے عزتی سمجھ سکتے ہیں اور لڑکی والوں کو تو جھکنا ہی پڑتا ہے“۔ ذکیہ بیگم نے اپنی پریشانیوں کا گول مول ذکر کرتے ہوئے ان لوگوں کواگلے ہفتے آنے کا کہا،۔بس مسزربانی بپھر گئیں۔
”ٹھیک ہے میں پھر کچھ نہیں کرسکتی، اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اور اسی طرح کچھ کلمات کہنے کے بعد فون کردیا۔
 ذکیہ بیگم ریسیور ہاتھ میں پکڑے سوچ رہی تھیں کہ آخر لڑکی والوں کو لوگ اتنا گھٹیا اور سستا کیوں سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی آئے تو طشتری میں سجا کر اپنی بیٹی دے دیں۔ کیا لڑکی والوں کی کوئی مرضی، کوئی پروگرام، کوئی پسند نہیں ہوسکتی اور اس مرحلے پر جبکہ رشتہ تک طے نہ ہوا ہو صرف پسند ناپسند کے درمیان ہو۔ اس میں اپنی رائے ٹھونستے ہیں!
امی کی اداسی کی وجہ لڑکیوں نے عاشی کے شوہر کی موت کی اچانک خبر کو ہی سمجھا تھا، مگر بشریٰ ایکسٹینشن پر مسز ربانی کی گفتگو سُن چکی تھی، اس نے جب اپنی بہنوں کو ان کی گفتگو کے بارے میں بتایا تو وہ سب کی سب بھی  سوچ میں پڑ گئیں   ‘’
اسی لیے لوگ بیٹیوں کے بجائے بیٹوں کو کیوں مانگتے ہیں؟ ظاہر ہے ان کی وجہ سے ہی ماں باپ مسلسل لوگوں کے دباؤ میں رہتے ہیں۔ ماں باپ پرورش وتربیت میں کتنی ہی برابری کریں اور کتنی ہی محبت کریں لوگ تو لڑکیوں کی وجہ سے ماں باپ کو ہمیشہ ذلیل کرتے رہتے ہیں۔ (کیا اسی ذلت سے بچنے کے لیے لوگ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے؟
گھر میں اداسی اور تناؤ پھیل چکا تھا، وہ لوگ سونے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اس وقت گیارہ بج رہے تھے کہ فون کی گھنٹی پھر بج اٹھی۔ سب لوگ دہل کر رہ گئے۔ آخرکار بشریٰ نے اٹھا لیا۔
 ”اچھا ممانی جان! امی امی!سیمیں آپا کے یہاں بیٹا ہوا ہے۔ اس نے خوشی سے بھرپور لہجے میں ماں کو ریسیور پکڑاتے ہوئے کہا۔
 انہوں نے بھابھی جان کو مبارکباد دی۔ دن بھر میں یہ واحد خوشی کی خبر تھی جو فون کے ذریعے ملی، ورنہ تو صبح سے مایوسی ناامیدی اور بُری خبریں مل رہی تھیں۔ ابو نے رات بارہ بجے کے بعد لندن کی کال بک کرائی تھی اور اب وہ فون کے آگے کھڑے بے چینی سے کال ملنے کے منتظر تھے۔ زندگی میں آزمائشیں بدل بدل کر سامنے آتی ہیں، اب عاشی کی شادی ہوگئی تھی تو اس کی بیوگی ایک دوسری طرح سے امتحان بن کر آگئی تھی۔ اپنے بھائی کو فون پر تسلی دینے کے بعد وہ کچھ مطمئن نظر آرہے تھے۔ واقعی ٹیلی فون بھی کیاچیز ہے؟ اسی کے ذریعے اچھی یا بُری خبر ملتی ہے، مگر اسی کے ذریعے اپنے پیاروں کی آواز سن کر تسلی بھی مل جاتی ہے۔
اگلے تین چار دن کچھ تو مصروفیات بڑھی ہوئی تھیں اور کچھ شہر کے حالات دگرگوں تھے کہ وہ لوگ سیمیں کے بیٹے کو دیکھنے اسپتال نہ جاسکے۔ اسپتال بھی تو ایسی جگہ تھا کہ ابو کے گھر آنے کے بعد ایک گھنٹہ کی ڈرائیو سے وہ لوگ اسپتال پہنچے تو وہاں کے ملاقات کے اوقات ختم ہوچکے تھے۔ یہاں تک کہ سیمیں گھر آگئی۔ انہوں نے سیمیں سے فون پر بات کی تووہ کہنے لگی
 ”کوئی بات نہیں پھوپھی جان! آپ اطمینان سے گھر آیئے گا، مگر اس کے اگلے دن رات کے دس بجے کے قریب سیمیں کا فون آیا کہ کل بچے کا عقیقہ ہے، آپ لوگ ضرور آیئے گا۔ ذکیہ بیگم سوچ میں پڑ گئیں
 ”بس پھوپھی جان شہر کے حالات کی وجہ سے ہم لوگ تو ٹال رہے تھے، مگر ان کے دادا دادی کا خیال ہے کہ سنت میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ساتویں دن ہی عقیقہ کردینا چاہیے......“
 اب ذکیہ بیگم کو اپنے پرس میں رکھے آخری پانچ سو کے نوٹ کا خیال آرہا تھا اور ابھی مہینہ ختم ہونے میں بہت دن تھے۔ کیا کریں؟   جانا بھی ضروری ہے۔ سیمیں تو سمجھ دار ہے شاید بات کو سمجھ جائے، مگر اس کی ساس اور شوہر کیا خیال کریں گے اور پھر سب سے بڑھ کر بھابھی جان؟ وہ تو یہ ہی کہیں گی میری خوشی پر جل گئیں۔ کئی دفعہ باتوں باتوں میں کہہ چکی ہیں کہ سارہ اور سیمیں ہم عمر ہیں سیمیں تو تین بیٹوں کی ماں بن گئی ماشاء اللہ اور تم تو ابھی تک سارہ کی شادی نہ کرسکیں۔
”نہیں نہیں جانا بہت ضروری ہے، خواہ کچھ ہو۔ انہوں نے شوہر کو بتایا تو وہ کہنے لگے کہ کل تو ان کے آفیسر نے ادبی نشست کا اہتمام کیا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری ان پرہے، ان کا جانا تو مشکل ہے وہ گاڑی کسی کے ہاتھ بھجوا دیں گے۔
عقیقے میں شرکت کے بعد گھر واپس آتے ہوئے ذکیہ بیگم سوچ رہی تھیں کہ اس ٹیلی فون نے جہاں زندگی کو آسان بنا دیا ہے وہاں گوناگوں مسائل میں اضافہ بھی کر دیا ہے۔ جس کا دل چاہا نمبر گھما کر اپنا پروگرام دوسرے کے سر پر مسلط کردیا۔ اگر آپ کہیں کہ ابھی آئیں ہمیں ضروری کام ہے تو دوسری طرف دل میں ایسی گرہ پڑی کہ اب کھل نہیں سکتی کہ ہماری بے عزتی ہوگئی ہے۔ گویا بجائے اس کے فون تعلقات میں خوشگواری اور آسانی پیدا کرتا الٹا دلوں میں دوری پیدا کرنے کا باعث بن کر رہ گیا۔ شاید اسی لیے کہا گیا ہے کہ مادی ترقی روح کی تنزلی کا باعث بن رہی ہے اور مشینوں کے شور میں انسانیت کا جذبہ کمزور پڑنے لگتا ہے۔ آنے والا وقت موبائل فون کا دور ہوگا، اس وقت انسانی تعلقات کس درجے کے ہوں گے؟؟  وہ سوچ کر رہ گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                                         جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں