بدھ، 19 مئی، 2021

قیصر و کسریٰ ( حصہ سوم : پیشن گوئی)

 


پیش گوئی  


  باب  20 :

یہ  وہ زمانہ ہے   جب شام میں ایرانیوں کی فتوحات کے ساتھ آگ اور صلیب کا معرکہ ایک فیصلہ کن دور میں  داخل ہو چکاتھا ۔ مورخوں کی نگاہ میں  بازنطینی سلطنت کی تباہی کے ظاہر ی اسباب مکمل ہوچکے تھے لیکن قضا و قدر کی نگاہیں روم اور ایران کی رزم گاہوں سے سینکڑوں کوس دور اس  بے آب و گیاہ وادی کی طرف لگی ہوئی تھیں جہاں کفر اور اسلام کی جنگ لڑی جارہی تھی۔  ایسے میں نبی محترم ﷺ  پر اتری یہ وحی مکہ کے کافروں کے لیے سخت اچھنبے کا باعث بن رہی تھی۔

 اس باب میں مشرکین مکہ کی محفل کا منظر ہے جہاں وہ اس پیش گوئی پراپنے تاثرات  بتا رہے ہیں ۔جب شام سے کسریٰ کی فتوحات کی خبریں آتیں تو مشرکین مکہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اورمسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے دھمکیاں بھی دیتے ۔ایس میں قرآن کی پیشن گوئی میں رومیوں کی فتح کی خبر ان کے لیے وجہ فکر بنی ۔اگر یہ پیشن گوئی صرف روم و ایران سے تعلق رکھتی تو شاید مشرکین مکہ اس قدر دلچسپی کا اظہار نہ کرتے لیکن اس میں مسلمانوں کی فتح کی خبر ان کے لیے ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھی اور شاید ظاہری اسباب و وسائل کے حوالے سے ناممکن بھی تھی ۔

باب 21- 29:

عاصم   بے یقینی اور نامیدی کی کیفیت میں مصر کے شہر بابیلون پہنچتا ہے تو ایرانی فوج کے مظالم دیکھ کر اسے  انسانیت کی موت نظر آتی ہے ۔ یہاں فر مس کے داماد کلاڈیوس کو ایرانی افواج سے معجزانہ طور پر  بچاتا ہے ۔کلاڈیوس رومی فوج کا ایک سپہ سالار، اسکندریہ ( مصر) کے گورنر کا بھتیجا اور   رومی سینٹ کے ایک با اثر رکن کا بیٹا  تھا ۔ رومی ( عورتوں ، بچوں )  پناہ گزینوں کا ہجوم شام کے مخدوش حالات کے باعث بحری جہاز کے ذریعے غزہ سے اسکندریہ کی جانب محو سفر تھا ۔ سفر کے دوران  کلاڈیوس کی ملاقات اناطولیہ اور اس کی والدہ سے ہوئی ۔وہ دونوں ایک دوسرے سے متاثر ہوئے جو بالآخر شادی پر منتج ہوا۔ اب عاصم اور فرمس مع بیٹی داماد  کا سفر اسکندریہ کی طرف ہے ۔ کلاڈیوس  کی حفاظت کی خاطر  عاصم اسے اپنے غلام کی حیثیت سے لے جانےپر مجبور ہے ۔

بابیلون کی طرح اسکندریہ میں بھی رومیوں کے جھنڈے سر نگوں ہوچکے تھے ۔رومی بابیلون سے اسکندریہ کی طرف جارہے ہیں ۔ اب خسرو پرویز سین کو  قسطنطیہ کی فتح کا فریضہ سونپتا ہے جو اسے  بادل نخواستہ قبول کرنا پڑتا ہے ۔سین اپنے خاندان کے ساتھ ایک قلعہ نمامکان میں مقیم ہے۔ فسطینہ عاصم کے بارے میں جاننے کے لیے بے قرار ہے ۔ماں اس کے عاصم سے لگاؤ پر اسے سمجھا تی ہے کہ ایک عرب تمہارے لیے نہیں ہے بلکہ ایرج شاہی خاندان سے تعلق کے باعث تمہارے التفات کا زیادہ حقدار ہے ۔ سین پر قسطنطیہ فتح کرنے لیے بہت زیادہ دباؤ ہے

عاصم کا نیا موڑ:

عاصم حبشہ فتح کرنے ولے لشکر کی قیادت کر رہا ہے مگر جنگی حالات اسے سخت بد دل کررہے ہیں اور کلاڈیوس  اسے سمجھا رہا ہے کہ  اگر کسریٰ تمام علاقے فتح کربھی لے تو کیا اس کی ملک گیری کی ہوس ختم نہ ہوگی ؟ ۔۔۔۔کسریٰ کی خوشنودی کے لیے آپ کب تک انسانوں کی لاشیں روندتے رہیں گے ۔۔۔۔آپ کو مفتوحہ ممالک میں ایرانیوں کے مظالم کا اعتراف ہے اور اآپ یقینا اس خود فریبی میں مبتلا نہیں ہوسکتے کہ جب ساری دنیا کسریٰ کی غلام بن جائے گی تو ظالم اور مظلوم کی یہ داستان ختم ہوجائے گی ؟آپ دو قبیلوں کی نہ ختم ہونے والی جنگ کی ہولناکیوں سے دل برداشتہ ہوکر نکلے تھے ! کیا ایران اور روم کی یہ جنگ اس سے کہیں زیادہ ہولناک نہیں ؟ میں کیسے یقین کرسکتا ہوں کہ وہ نوجوان جس نے ایک زخمی دشمن کی فریاد سے متاثر ہوکر اپنے قبیلے کی تمام روایات کو ٹھکرا دیا تھا ۔کروڑوں انسانوں کو ایران کے آہنی استبداد کی چکی میں پستا دیکھ کر مطمئن رہ سکے گا ؟ عاصم زخمی ہونے کے ساتھ شدید بیمار اور ذہنی کش مکش  کا شکار ہے ۔اس بے مقصد جنگ پر وہ کلاڈیوس کی باتوں سے متاثر مگر کسی فیصلے پر پہنچنے سے عاجز ہے کہ اس کے اعصاب کمزور ہوچکے ہیں ۔

عاصم کی بیماری کے باعث اسے کشتی میں روانہ کیا جا تا ہے اور اس کی بے ہوشی کے دوران کلاڈیوس اسے محاذ جنگ کے بجائےطیبہ کی طرف لے جاتا ہے ۔عاصم ہوش میں آکر مخالفت کرتا ہے مگر پھر کلاڈیوس کےیہ کہنے پر کہ   جب آپ تندرست ہوجائیں گے تو اس بات کو فیصلہ کرنا آپ کے اختیار میں ہو گا کہ آپ جس چیز کی تلاش میں نکلے تھے وہ آپ کو کہاں ملے گی ؟  عاصم بے یقینی کی کیفیت سے نکل کر کلاڈیوس  کے ساتھ بابیلون جانے پرتیار ہو جاتا ہے کہ اب  وہ ایک چھوٹی سی چراگاہ اور چند بھیڑوں کے ساتھ زندگی گزارے گا !  ۔قسطنطیہ میں کلاڈیوس کے گھر  اس کا باپ اور بہن استقبال کرتے ہیں اورا ن کے اعزاز میں دعوت کا انتظام کرتے ہیں ۔ ان کی میزبانی سے مستفید ہونے کے بعد فرمس اور عاصم سرائے کا کا کروبار شروع کردیتے ہیں ۔ عاصم کا ارادہ اب تلوار نہ اٹھانے کا ہے۔

ادھر ایرج سین کے گھر پہنچ کرفسطینہ سے شادی کا اصرار کرتا ہے  اور اس کے انکار پر دھمکی دیتا ہے کہ تمہاری ماں عیسائی ہے ! عاصم کے لاپتہ ہونے کی خبر دیتا ہے کہ شاید اسے قتل کرکے دریائے نیل میں پھینک دیا ہو ! فسطینہ سخت ناراض ہوتی ہے ۔ اپنی ماں سے کہتی ہے کہ میرا دل کہتا ہے کہ عاصم زندہ ہے ! اگر وہ نہ بھی لوٹا ایرج جیسے سنگ دل انسان کی کے بجائے میں راہبہ بننا پسند کروں گی ۔

بازنطینی سلطنت ایشیا اور افریقہ کے محاذوں پر ایرانیوں کے ہاتھوں پے درپے شکست کھانے کے ساتھ یورپ میں بھی ایک تشویشناک  صورت حال کا سامنا کر رہی تھی ۔ اور وہ تھے خانہ بدوش وحشی قبائل ! ان حالات سے دلبر داشتہ اور مایوس ہوکر ہر قل قرطاجنہ فرار ہونے کا فیصلہ کر چکا ہے تو اسقف اعظم سرجیس اسے اس بات پر راضی کر لیتے ہیں کہ قسطنطیہ چھوڑ کر جانے کے بجائے ایک حکمران کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہو ۔ اس کوہمت دلاتے اور دعا دیتے ہیں تو اس کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ کلاڈیوس  قیصر سے ملاقات کرکے اسے اس بات پر راضی کرلیتا ہے کہ ہم بیک وقت دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتے لہذا خاقان کے ساتھ مصالحت پر آمادگی  اور ہر قلیہ میں خاقان اور قیصر کی ملاقات ہوگی ۔

باب 30-36  :

ہرقلیہ کے میلہ میں کیا ہوا؟

ایک شاندار میلے کا اہتمام ہے ۔یہاں پہنچ کر عاصم کو محسوس ہوا کہ مغموم فضا سے نکل کر مسکراہٹوں کی دنیا میں داخل ہوگیا ہے مگر جب وہ ایرج کو خاقان کے وفد میں ایلچی کے حیثیت سے دیکھتا ہو تو خدشات کا شکار ہوتا ہے ۔اور پھر اس کے ذریعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاتاری قیصر اور رومیوں پر حملے کی تیاری سے آئے ہیں ۔ عاصم قیصر کو اس سازش سے خبر دار کرتا ہے ۔ ادھر تاتاری ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ اس نے ان کا بھید کھول دیا ہے اور وہ اسے قتل کردیتے ہیں ۔ مرنےسے قبل ایرج عاصم کو بتاتا ہے کہ فسطینہ آج بھی تمہاری منتظر ہے! تاتاری قتل و غارت گری  کرتے ہوئے قسطنطیہ کے  دروازے تک آپہنچتے ہیں ۔ لاکھوں کو غلام بنا کر ساتھ لے جاتے ہیں ۔  اس موقع پر کلاڈیوس اور عاصم کسی امن کے داعی کے متعلق پیشن گوئی یاد  کرتےہیں جو فرمس کرتا تھا۔  فرمس بھی مرنے والوں میں شامل ہے ۔اس سانحے پر کلاڈیوس سخت الزامات کی زد میں ہوتا ہے مگر قیصر اس کی بہادری اور نیک نیتی پر اسے شاباشی دیتے ہوئے عاصم کو پذیرائی دیتا ہے جس نے انہیں بروقت خبر دار کیا ۔

منصوبہ برائے امن :

قیصر تک رسائی  حاصل کرنےکے بعد عاصم امن کے لیے کسری ٰ کو جنگ بندی پر راضی کرنے کی تجویز دیتا ہے ۔ اس کام کا بیڑا  عاصم کے سر آتاہے ۔سین کے مزاج اور حیثیت کو مدنظر رکھتےہوئے اس کی قیصر سے ملاقات کا انتظام کرنے روانہ ہوتاہے۔  سین کے گھر پہنچا تو عاصم کی تجویز سن کر سین پہلے تو ہچکچاتا ہے مگر ایرج کے موت کا سن کر اسے کسریٰ کے پاس جانے کی ہمت ہوتی ہے کہ اسے اس بے مقصد خون ریزی سے باز رکھ سکے جبکہ قیصر صلح کے لیے تیار ہے  ۔ اس سلسلے میں پہلے سین کے ساتھ قیصر کی ملاقات ہونی ہے پھر قیصر کا پیغام لے کر کسریٰ کے دربار میں جانا ہے ! عاصم کو دیکھ کر  فسطینہ اسے دیکھ کر کھل اٹھی۔ کھل کر اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے عاصم کہتا ہے کہ پہلے میں اس امن مشن کو مکمل کروادوں۔

عاصم ، سین کے ساتھ  کلادیوس ، ویریلیس اور سائمن اور  چند سپاہی جو یہودی تاجروں کے بھیس میں ہیں ، دست گرد پہنچتا ہے مگر ان کی بد قسمتی  اور کسریٰ کی فرعونیت کہ وہ اس بات کو سنتے ہی سین کو قتل کروادیتا ہے ۔سین قتل ہونے سے پہلے کسریٰ کو اس کے مظالم پر لعن طعن کرتاہے اور کہتا ہے کہ میں اس جرم میں شریک تھا اور اب اپنی جان دے کر کفارہ ادا کررہا ہوں ۔ اور ساتھ ساتھ عرب میں  نبیﷺ کی پیش گوئی  کا بھی ذکر کرتا ہے۔ اور عاصم کو رومی جاسوس کی حیثیت سے  قید خانے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔  ظالم فاتح  کسریٰ ہرقل کے ایلچیوں کو انتہائی توہین آمیز صلح کی شرائط قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔  کلاڈیوس فسطینہ ،اس کی ماں اور وفادار نوکر کونہایت رازداری بحفاظت  قسطنطیہ میں پہنچادیتا ہے ۔

باب 37۔38 :

پیشنگوئی کی باز گشت

سلطنت روما کی صدیوں  کی عظمت خاک میں مل چکی تھی اور پرویز  دنیا کا  مغرور ترین انسان بن چکا تھا۔  یمن کا ایرانی گورنر سالانہ لگان کی رقم جمع کرانے دست گرد پہنچا تو پرویز  نے اس سے نبیﷺ کی پیشگوئی کے بارے میں پوچھا کہ پانچ سال پہلے تمہیں  اس پیشنگوئی کی اطلاع مل چکی تھی تو ہمیں کیوں باخبر نہیں کیا ؟ وہ اپنی جان بچانے کو کہتا ہے کہ آپ کی فتوحات کے سیلاب کے آگے یہ ایک بے حقیقت بات تھی۔ ظاہر بین نگاہیں رومیوں کی ذلت اور رسوائی کاآخری نقشہ دیکھ رہی تھیں لیکن اب بھی خدا کی زمین پر مٹھی بھر انسانوں کی جماعت ایسی تھی جن کے نزدیک ابھی تک شکست اور فتح کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔

مشرکین مکہ کو رومیوں کی فتح سے زیادہ  مٹھی بھر مسلمانوں کی فتح کی پیشن گوئی پر حیرت تھی جو رومیوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہ رکھتے تھے۔ لیکن چند برس پہلے مکہ کی گلیوں میں جس پیشن گوئی کا مذاق اڑایا گیا اس کے پورا ہونے کا وقت قریب آچکا تھا۔

ہرقل نے کلیساؤں کی  مالی مدد  اور ترک قبائل کی فوجی مددسے نئی فوجی حکمت عملی ترتیب دی اور بالآخر کسریٰ کو شکست سے دوچار کیا۔ ٹھیک اسی وقت بدر کے میدان میں تین سو تیرہ مسلمانوں کی فتح کی داستان دہرائی گئی ۔ وہ پیشن گوئی جس کا مذاق اڑایا گیا تھا اور جس کے خلاف مشرکین مکہ شرطیں لگا رہے تھے آج پوری ہوچکی تھی۔ ایران پر روم اور عرب پر اسلام کا غلبہ شروع ہوچکا تھا ۔

کسریٰ کو محمد ﷺ کا خط اس وقت موصول ہوا جب وہ اپنی تمام شان و شوکت کے ساتھ دریا کے کنارے پڑاؤ ڈالے ہوا تھا ۔  درباریوں نے اسے ایک مذاق جانا ۔ کسریٰ نے اس نامہ مبارک کے ٹکڑے ٹکرے کردیے اور یمن کے حاکم کو حکم دیا کہ نبوت کے اس مدعی کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ۔ یمن کے حکمران کو مسلمانوں کی طرف سے پیغام ملا کہ عنقریب مسلمانوں کی حکومت کسریٰ کے پایہ تخت تک پہنچنے والی ہے ۔ وہ  مسلمانوں کا  مذاق اڑانے میں مصروف تھے کہ اطلاع ملی پرویز اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے ۔  مراسلہ پڑھ کر اس کے منہ سے نکلا کہ مسلمانوں کے نبی  کی پیشن گوئی پوری ہوچکی ہے ۔

با ب 39 – 41 :

عاصم کو قید میں دو سال سے زیادہ ہوچکے تھے وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکا تھا ۔ ایسے میں ایرج کا باپ اس کے پاس رہائی کی خوشخبری  لے کر آتا ہے ۔  وہ عاصم کو قسطنطیہ جانے کے لیے گھوڑا اور سرمایہ دیتا ہے یہ کہتےہوئے کہ میرے گھر کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہے تم فسطینہ کوتلاش کر کے میرے پاس آسکتے ہو۔ میں یہ ہی سمجھوں گا کہ ایرج ایک نئے وجود میں میرے پا س آچکا ہے ۔

عاصم کو راستے میں   ویریلیس ملا جو اس کی تلاش میں نکل رہا تھا ۔وہ  اسے خوشخبری دیتا ہے کہ فسطینہ زندہ ہے ۔ قسطنطینہ پہنچتے ہیں جہاں ہرقل کی آمد پر فتح کا جشن منا یا جارہا تھا۔ عاصم جشن منانے کے اس انداز سے سخت بیزار نظر آیا ۔وہ کلاڈیوس کے گھر پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فسطینہ اپنی ماں کی قبر پر گئی ہے ۔ ان دونوں کا  ملاپ آنسوؤں میں ہوتا ہے ۔ فسطینہ پر راہبہ بننے کا دباؤ تھا ۔ انطونیہ اور کلاڈیوس نے اسے روکا ہوا تھا۔ اگلے دن ان دونوں کا نکاح ہوجاتا ہے ۔ راہبوں کی طرف سے خطرہ تھا لہذا وہ دمشق روانہ ہوجاتے ہیں ۔ روانگی سے پہلے کی محفل میں بھی نبیﷺ کی پیشگوئی اور ایک صالح نظام کی طلب پر گفتگو ہوتی ہے ۔ ایک نجات دہندہ جو ہر طرف امن اور آزادی کا پیغام دے !

ٹھیک اسی مقام پر جہاں چند سال قبل کسریٰ  انتہائی غرور سے پڑاؤ  ڈالے ہو اتھا ۔ ہرقل بھی پڑاؤ ڈالتا ہے تو اسے بھی حضورﷺ کا نامہ مبارک ملتا ہے لیکن وہ پرویز سے مختلف  تھا ۔ وہ تصدیق کے لیے عرب باشندوں کو طلب کرتا ہے ۔ ابو سفیان سے تصدیق کے بعد وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے اور کہتاہے ۔

''۔۔۔۔۔۔مجھے اس بات کا احساس ضرور تھا ایک نبی آنے والا ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ عرب میں پیدا ہوگا ۔اگر میں وہاں پہنچ سکتا تو اس کے پاؤں دھوتا ۔۔۔" یہ الفاظ سن کر دربار میں سنا ٹا چھا گیا اور پھر ہرقل کی ہمت جواب دے گئی اور اس نے اپنی رعایا کا اضطراب دور کرنے کے لیے عربوں کو دربار سے نکلنے کا حکم دے دیا ۔ یوں وہ اس رحمت  سے محروم رہ گیا ۔

باب  42:

عاصم کی ہچکچاہٹ :

 عاصم اور فسطینہ  اپنے بیٹے یونس کے ساتھ دمشق میں آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں ۔ عاصم کے دل سے غریب الوطنی کا احساس بتدریج ختم ہورہا تھا اور ماضی کے آلام مصائب اب اسے ایک خواب محسوس ہوتے  ۔مذہب کے متعلق دونوں کے خیالات مختلف تھے ۔فسطینہ عاصم کو عیسائیت پر ایمان لانے کی ترغیب دیا کرتی تھی۔وہ اسے خوش کرنے کے لیے کبھی کبھی گرجا چلا جا تا تاہم عیسائیت کے متعلق اس کے جذبات بہت سرد تھے۔ اور یہ سرد مہری اور یا بے توجہی کسی ضد یا ہٹ دھرمی کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اس تلخ حقیقت کا اعتراف تھا کہ عرب کی اصنام پرستی اور ایرانی مجوسیت کی طرح اسے کلیساکا دامن بھی اس روشنی سے خالی نظر آتا جو انسانیت کے بھٹکے ہوئے قافلوں کو سلامتی کی راہ دکھا سکتی ہو! وہ ایک ایسے دین کا متمنی تھا جو قوموں اور نسلوں کو عدل و انصاف اور امن کا راستہ دکھا سکے لیکن ایسے دین کا کوئی واضح تصور اس کی عقل اور سمجھ سے بالا تر تھا ۔

 دمشق کے بازاروں میں عرب تاجر مل جاتے تو انہیں اپنے گھر لے جاکر وہاں کے حالات پوچھتا اوریہ جان کر اسے حیرت ہوتی کہ چند بے سروسامان  انسانوں کا جو قافلہ مکہ سے نکل کر یثرب پہنچا تھا اس کے عزم و استقلال نے پورے عرب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ بدر کی فتح ناقابل یقین محسوس ہوتی لیکن جب مزید فتوحات کی خبریں آنے لگیں تو اسے ایک غیر متوقع انقلاب محسوس ہونے لگی ۔ ایسے میں کلاڈیوس کے خطوط اس ناقابل یقین انقلاب کی تصدیق کرتے لیکن اسلام کے جھنڈے تلے اوس و خزرج اور یثرب کے دوسرےخاندانوں کا متحد ہوجانا اور ان سب کا متحد ہوکر اہل مکہ کو شکست دینا اس کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔عرب تاجروں کی زبانی بدر، احد،اور خندق کے واقعات سننے کے بعد صلح حدیبیہ اور اس کے ساتھ مشرق و مغرب کے تاجداروں کے نام پیغمبر اسلام ﷺ کے خطوط اس کے نزدیک ایک مذاق سے زیادہ نہ تھی لیکن اب یہ سب کچھ مذاق سے آگے محسوس ہوتا ۔

عاصم اور فسطینہ کو دمشق آئے پانچ سال ہوچکے تھےکہ کلاڈیس کے اس خط نے تو اسے چونکا دیا جس میں معرکہ موتہ میں مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت کو بہت نمایاں کیا گیا تھا ۔ اس نے عاصم سے عرب جاکر صحیح صورت حال کا جائزہ لینے کی درخواست کی کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو مسلمانوں کو اپنے سے کئی گنا زیادہ مضبوط دشمن کے خلاف بہادری سے کھڑا کردیتی ہے ۔ قیصر نے ان سے نہ الجھنے کا فیصلہ کیا ہےلیکن سلطنت اور کلیسا کے اکابر یہ خدشہ  محسوس کرتے ہیں کہ جو قوت عرب قبائل کے اندر اتحاد اور مرکزیت پیدا کرسکتی ہے وہ آگے چل کر عرب کے ہمسایہ ممالک پر رومیوں کے اقتدار کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔کلاڈیوس کے بقول اسے اس نبی سے ملاقات کا بہت تجسس ہے۔ مگر کلاڈیوس کا اصرار بھی عاصم کو یثرب جانے پر آمادہ نہیں کرپاتا حتی کہ فسطینہ بھی اسے یثرب جانے کا مشورہ دیتی ہے لیکن وہ یہ ہی کہتا ہے کہ اس  گھر کے علاوہ میرا کوئی وطن نہیں !

اور پھریہ خبریں پھیلنے لگیں کہ مسلمانوں کے خلاف حملے کے لیے غسانی اور رومی فوجیں تیارہورہی ہیں جو عرب پر حملہ کرکے اسے کچل ڈالیں گی !  عاصم کے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار تھا کہ اگر اہل شام نے عرب پر حملہ کردیا تو اس کا طرز عمل کیا ہوگا؟ اور وہ دعاگو ہوتا کہ کاش شام اور روم کی افواج عربوں کے خلاف پیش قدمی کا ارادہ ترک کردیں ۔

باب 43- 44 :

مسافر کو منزل مل گئی !

کلاڈیوس کے  اس خط نے عاصم کو سوچنے پر مجبور کر دیا جس میں اس نے مسلمانوں کے تیس ہزار کے لشکر کے تبوک پہنچنے کی اطلاع تھی ۔ وہ لکھتا ہے کہ اگر میں عرب کا باشندہ ہوتا تو میرے دل میں یقینا یہ جاننے کی کوشش ہوتی کہ مسلمانوں کے لشکر نے کس امید پر شام کا رخ کیا ہےاور اس کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں ۔۔۔۔عربوں کی اس جرات کی کیا وجہ ہے ؟خط پڑھ کر   فسطینہ جواب طلب نظروں  سے عاصم کو دیکھتی ہے مگر وہ کہتا ہے کہ میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ لشکر اسلام تبوک سے باقاعدہ لڑے بغیر ہی کامیاب لوٹ گیا ۔ اس کے بعد بھی عاصم سال بھر تک عرب جانے کو ٹالتا رہا۔

ایک دن کلاڈیوس دمشق آپہنچا ۔عاصم کہتا ہے کہ میں کئی بار سفر کا ارادہ کیا لیکن شاید عمر کے اس حصے میں انسان کی قوت عمل اس کا ساتھ نہیں  دے پاتی ۔ویسے مجھے یقین ہے کہ مسلمان کا لشکر اب یہ غلطی نہیں کرے گا۔ اس پر کلاڈیوس کہتا ہے مسلمانوں کے عزائم کا تو پتہ نہیں لیکن  اس خطے میں جو  معجزہ رونما ہورہاہے وہ ہمارے لیے سرحدی لڑائی سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے ۔ میں تمہیں رومی جاسوس کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک معتبر گواہی کے لیے بھیجنا چاہتا تھا۔ خبروں سے معلوم ہوتاہے کہ پورا عرب اس دین کی بے پناہ اخلاقی اور روحانی قوت کے سامنے ہتھیار ڈال چکا ہے اور اہل عرب ایک جھنڈے کے تحت متحد اور منظم ہورہے ہیں ۔ اور جب یہ قافلہ اس طرف رخ کرے گا تو ایران اور روم کی ساری عظمتیں گرد و غبار بن جائیں گی ۔

" '۔۔۔۔۔عاصم تم میرے دوست اور محسن ہو اور میں اس احسان کا بدلہ چکانے کے لیے تمہیں قسطنطینہ لے گیاتھا لیکن آج میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر عرب کے متعلق  جو میں نے سنا ہے صحیح ہے توزندگی کی جو مسرتیں وہاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں وہ شاید قیصر کے دربار میں بھی نہ ملیں ۔اگر  عرب  پر رحمتوں  کانزول ہو رہا ہے تو میں چاہوں گا کہ تم وہاں جاکر اپنا دامن بھر لو۔۔۔۔۔"   

"۔۔۔۔اور مجھے یقین ہے کہ کلیسا کے اکابر قیصر کو زیادہ آرام سے بیٹھنے نہیں دیں گے اور وہ عیسائیت کی حفاظت کے لیے تلوار اٹھانے پر مجبور ہو جائے گا اور مجھے یہ کہتے ہوئے ندامت ہورہی ہے کہ جب عرب اور شام کا معرکہ شروع ہوگا تو تم یہاں صرف ایک عرب کی حیثیت سے دیکھے اور پہچانے جاؤ گے ۔جن لوگوں نے فسطینہ کے نانا کو اس کی عظیم خدمات کے باوجود ایرانیوں کا طرفدار سمجھ کر زندہ جلادیا تھا وہ تمہاری خدمات کا لحاظ نہیں کریں گے ۔،۔۔۔۔"   عاصم فوری عرب روانگی کو تیار ہوجاتا ہے یہ کہہ کر کے اب میں اپنےلیے نہیں بلکہ  یونس کے لیے جارہا ہوں ۔۔

 عاصم فسطینہ اور یونس کے ہمراہ یثرب ( مدینہ ) روانہ ہوجاتاہے ، اسے راستے میں اطلاع ملتی ہے کہ محمدﷺ کا انتقال ہوگیا ہے اور بعض قبائل اسلام سے منحرف ہورہے ہیں !  وہاں پہنچ کر وہ سمیرا کے گھر کے آگے رک جاتا ہے اور نعمان سے ملنے کی خواہش کرتا ہے۔ وہاں ایک خوشگوار صورت حال نظر آتی ہے جب اپنی چچازاد بہن سعاد کو نعمان کی بیوی کے روپ میں دیکھتا ہے ۔مزید یہ کہ تمام قبائل شیر و شکر ہوچکے ہیں ۔ اب ہمیں انسانی رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ اہم محسوس ہوتے ہیں ۔ افسوس ہمارا ہادی اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے لیکن وہ روشنی جو جس میں ہم نے انسانیت کی نئی عظمتیں دیکھی ہیں ہماری نگاہوں سے اوجھل نہ ہوں گی ۔

 نعمان اسے تفصیل بتا تا ہے کہ تمہارے جانے  کے بعد میں اور سالم تمہاری تلاش میں یروشلم اوردمشق تک گئےاور تین سال بعد آئے تو روئے زمین کی سار ی نعمتیں ہمارا انتظار کر رہی ہیں ۔ وہ عاصم کو اسلام کی دعوت دیتا ہے اورباالآ خر وہ روشنی حاصل کرلیتا ہے جس کی تلاش اسے دردر بھٹکاتی رہی ۔ اور اگلے ہی دن وہ اس معرکے میں شامل ہوجا تاہے جو اسلام سے منحرف ہونے والوں کی سر کوبی کو روانہ ہورہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔