اتوار، 19 اپریل، 2020

کس کی مرضی ؟



'' کس کی مرضی  ؟    "

لیجیے !!کنفیوز قوم کے سامنے ایک اور کنفیوزن آگیا !منتشر الخیال گروہ کے انتشار کے لیے ایک اور سامان  !
. بچپن اور نوعمری سے ہی شب براءت اور شب قدر کی بحثیں سنتے رہے ، میلاد میں کھڑے ہونا ہے یا نہیں ؟ آمین زور سے کہنی ہے یا دل میں ؟  قضائے عمری پڑھنی چاہیے یا نہیں ؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔نماز قصر  کی مسافت  پر بھی بہت سی آراء  ملتی رہیں ۔۔۔اور ہم جس کے ساتھ سفر کرتے اسی  کی رائے کو مقدم جانتے۔۔
 وسیع المشربی کے باعث یہ بھی تعلقات اور حالات پر منحصر رہا ! جیسی محفل ویسے ہی آداب چار و ناچار کر نے پڑے .نتیجتا کبھی شدت پسندی کا طعنہ ملا تو کبھی تقلید کا .! کبھی دفع شر کی خاطر خاموش رہتے، کبهی وسعت قلب کا مظاہرہ کرتے تو کبھی بحث پر اتر آتے ..اسی میں وقت  گزر رہا تھا  مگر پھر مقصد زندگی کچھ ایسا نصب العین بن کر سامنے آیا کہ یہ سارے مسائل ضمنی لگنے لگے ! بے کار فضول ! منزل پر نگاہ ہو تو چھوٹے اسٹیشن کی پرواہ نہ کرو ..!.
پہلے یہ ساری بحثیں ایک معلوم دائرے کے اندر ہوتی تھیں پھر   ٹیکنالوجی کی بدولت   دنیا کے گلوبل ولیج بننے سے رفتہ رفتہ روابط وسیع تر ہوتے گئے اور سوشل میڈیا کی بدولت تو ان بحثوں کے نئے نئے زاویے سامنے آتےگئے بلکہ ہر آنے والا دن ان میں عنوانات کا اضافہ کرتا رہتا ہے ۔اب بات صرف مذہبی نہیں رہی بلکہ ثقافتی ، علاقائی ، ………………معاشرتی۔۔۔۔.
ارے آپ کہیں ہماری طولانیت سے گھبرا کر پڑھنا نہ چھوڑ دیں ہم مختصر بات کرتے ہیں!
ماہ شعبان رمضان المبارک کی تیاریوں کے حوالے سے موسوم ہے ۔ اس تیاری میں روحانی اور اخلاقی درجات کی بلندی کے ساتھ مادی جس میں غذا اور ملبوسات کے ساتھ ساتھ بود و باش بھی شامل ہے ۔
رمضان  سے پہلے عید کی تیاری مکمل کر لی جائے! ہمیشہ سے  یہ ایک نقطہ نظر رہا ہے مگر اس کے باوجود چاند رات تک شاپنگ بھی  آبادی کے ایک بڑے حصے کی  سرگرمی رہی ہے ۔ان کی اپنی وجوہات ہیں جن میں پیسوں کے انتظام سے لے کر فرصت کی دستیا بی کے ساتھ جدید ترین  فیشن کے مطابق اپنی تیاری سر فہرست ہے ۔ یہ دونوں رویے ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں ۔یہ دونوں گروپس اپنے تجربات کی روشنی میں ایک دوسرے کو مشورے دیتے چلے آرہے ہیں ۔
ہر سال ایسی ہی فضا شعبان میں نظر آتی  ہے۔ پچھلے چند سالوں میں اس اختلاف کا دائرہ صرف ملبوسات اور صفائی ستھرائ، سجاوٹ تک نہیں رہا تھا بلکہ اسے داخل طعام بھی کرلیا گیا !  رمضان کی آمد سے قبل کھانے پینے کا اہتمام کر لیا جائے تاکہ عبادت یکسوئی سے کر سکیں ۔۔اس مشورے میں پیاز فرائی کر کے رکھنے سے لے کر چنے ابال کر رکھنے تک کے مشورے مع جزئیات فراہم کیے گئے ۔ جبکہ دوسرے گروپ  نے  ا ن مشوروں کو مسترد کرتے ہوئے یہ رائے دی کہ رمضان قلت طعام کا نام ہے کوئی فوڈ فیسٹیول نہیں کہ انواع و ڈشز کی تیاری ، محفوظ کرنے اور پیش کرنے میں قیمتی سعادتیں ضائع کی جائیں ۔ ہر گروپ اپنی رائے پر اصرار کرتا نظرآیا  دونوں کی باتیں وزنی تھی۔ پہلے سے افطاراور طعام  کا انتظام کرنے والوں کی دلیل تھی کہ ہماری پچھلی نسل کو دورہ قرآن وغیرہ کی سر گرمیوں کے لیے اتنا وقت نہیں دینا پڑتا تھا چنانچہ وہ روز کا کام روز کرتی تھیں ۔۔۔
اس بات پر ہمیں بھی اپنا بچپن   یاد آگیا ۔برابر والی پڑوسن اگر رجب میں ہی تیاری کر لیتی تھیں تو سامنے والی رمضان کا چاند دیکھ کر سلائی مشین نکالتی تھیں کہ اچھا وقت گزرے گا ! یعنی یہ بات طے ہوئی کہ ترجیحات کا تعلق کسی خاص دور سے نہیں ہے ، نہ کوئی لگابندھا فارمولا ہے ! ہر ایک کی ضرورت اور سمجھ کے مطابق ہوسکتا ہے ۔۔۔
اس بات کو اس پس منظر میں دیکھیں کہ ہماری قوم کےمزاج  میں بڑا تنوع ہے ۔ اس کا تعلق شاید ہمارے خطے کے مقام اور محل وقوع ( (Topography سے ہو !    جاپان جیسے ملک کی مثال دیکھیں  جہاں 50 خواتین کو بھی اگر سیب اور چھری دے دی جائے تو  وہ سب ہم شکل اور ہم وزن  قاشیں بنائیں گی  اور اگر یہ تجربہ ہمارے   علاقے میں دہرایا جائے آپ کے خیال میں کیا نتیجہ  نکلے گا ؟


یہ ساری بحثیں  ذہن میں کھچڑی کی طرح پک رہی تھیں اور پچھلے کئی سالوں سے اس پر کچھ لکھنا چاہ رہے تھے  لیکن  آج 16شعبان کو جب یہ بلاگ مکمل کیا جا رہا ہے تو اس کی افا دیت یقینا وہ نہیں بن رہی جو پچھلے سال  تک ان دنوں میں تھی ! کیونکہ سب لاک ڈاؤن کاشکار ہیں !  دنیا کا منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہے بقول وسعت اللہ خان کرہ ارض  مرمت کے لیے بند ہے !  ۔
اب نہ شب براء ت کی فضیلت پر دروس اور پیغامات ہیں اور نہ ان کی رد میں احادیث اور مضامین کا پھیلاؤ!  ابھی تو وہ میسج بہت گردش میں ہے جس میں دو لڑکے  محو گفتگو ہیں :
"۔۔۔  یار پہلی دفعہ بغیر حلووں اور پٹاخوں کے شب برات گزر رہی ہے ۔۔۔!"
اب نہ پیاز تل کر  ، ادرک لہسن پیس کر ، پھل / سبزی کاٹ کر رکھنے کے ٹوٹکے ہیں اور نہ ہی ان پر رنگا رنگ تبصرے اور اعتراضات ! نصیحتیں  اور فضیحتیں !  
اب ہر ایک کے پاس ایک ہی موضوع ہے یعنی سب ایک صفحے پر ہیں ۔۔کیا غریب اور کیا امیر! کیا ماہر  اور کیا عالم !  کیا مبلغ اور کیا مقلد! سب ہی اس مرض کے زیر اثر ہیں ۔۔۔جی نہیں خدانخواستہ مریض  یا متاثر نہیں ہیں مگر اس کی وجہ سے محدود اور مقید ہیں ۔۔۔۔
مگر قربان جائیے اس مخلوق کی رنگارنگی  کے اور افتاد طبع کے کہ اس ایک موضوع کے گرد بھی انواع و اقسام کے احساسات ،  رویے ، تبصرے اور تجزیے سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں.
کچھ کے خیال میں  عذاب الہیٰ  ہے تو کسی کی نظرمیں آزمائش !
کچھ دجالی فتنہ اور ڈرامہ کہہ رہے ہیں تو کچھ سازش !
تنبیہ ہے  یا سزا۔۔۔۔؟

اوراپنے اپنے نظریہ کے مطابق اسباب و وجوہات بیان کیے جارہے ہیں ، علاج تجویز ہورہے ہیں ،سائنسی اور مذہبی انکشافات ہورہے ہیں ۔۔احادیث ، پیشن گوئیاں اور ماضی کی فلمیں ، ناولز حتی کی کارٹونز تک کے ذریعے  تصدیق کی جارہی ہے ۔ اپنے دلائل کے لیے ثبوت مہیا کیے جارہے ہیں  ۔۔۔ ! ساری دنیا ایک فریکوئنسی پر آگئی ہے مگر مجال ہے دو  ہم پیشہ افراد کی رائے بھی ایک ہو ! کسی کاتجربہ دوسرے سے مشابہت  رکھتے ہوئے بھی متصادم   نظر آتا ہے ۔۔۔۔!
کہا جا تا ہے کہ   تنوع میں خوب صورتی ہے ! طاقت ہے ۔ Diversity is Strength!
اختلاف میں حسن ہے !  اب کیا ہوکہ ایسا حسن ہے کہ آنکھیں چکا چوند ہورہی ہیں ! اور شاید یہ ہی وہ خدشہ تھا جس کی طرف ملائکہ نے اشارہ کیا تھا  ۔بات تو درست ہے  کہ انسان کا خمیر  مخلوط مٹی سے اٹھا  ہے  اوریہ بھی کہ  ہر فرد منفرد ہے  تو ہر ایک کی رائے بھی جد اہوگی مگر سوال یہ ہے آخر انسان کتنے گروہوں میں تقسیم ہوں گے ؟ اور اس الجھن  سے قرآن  ہی نکالتا ہےکہ انسان تو دو ہی طرح کے ہوں گے !ہر عمل کرنے والے کو اجر ملے گا ۔اچھا یا  برا ؟ فیصلہ بلحاظ  نیت  ہوگا !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر