اتوار، 1 دسمبر، 2024



*پکنک کہانی*

    نومبر کے آغاز میں جب پکنک کا اعلان ہوا تو ہم نےاپنے عذرات اورتحفظات کے باعث  بے رغبتی کا اظہار کیا

 ہے  یہ معلوم  ہوا کہ گھر والے بھی ساتھ لے جاسکتے ہیں تو ہم نےبھی  دلچسپی  لینا  شروع کیا اور ظاہر ہے ان کو شامل کرنے کے لیے خود بھی جانا ضروری ٹھہرا!  لیکن جوں ہی دن قریب آئے تو ان میں سے کئی کے امتحان کی تاریخ آگئی. اور 22/23 نومبر کو اکثریت کا پیپر تھا۔ ظاہر ہے  وہ فہرست سے نکلے تو ساتھ ہی ان سب  کی والدہ محترمہ بھی! ایک کی بیرون ملک سفر کی تاریخ فائنل ہوگئی   اور کچھ بیمار ہوگئے۔ یوں ہم بھی  زرتعاون ادا کرنے کے باوجود  حیص بیص کا شکار تھے بہرحال کچھ دوسرے لوگوں کو راضی کرتے رہے۔...

بیماری کے باعث معذرت کرلی۔ اور پکنک سے 24 گھنٹے پہلے انکشاف ہوا کہ ہماری  ذمہ داری ایک  بس کی  ہے. کیونکہ  جن کےپاس ذمہ داری تھی

پکنک سے پہلے والی شام  مردانہ نظم نے کمال مہربانی  کے ساتھ ہمیں ڈرائیور کے رابطہ نمبر عطاکردیے۔ اگلے دن مقررہ وقت پر ہم نے  ڈرائیور کو پہنچنے کی ہدایت دی جس پر انہوں نے بروقت عمل کیا.

سب سے پہلے بس میں پہنچنے والی نمرہ عبد الباقی اپنے ننھے منوں کے ساتھ موجود تھیں... وقت کی پابندی پر بے انتہا تعریف !آہستہ آہستہ سب آتے  رہے اور کوسٹر مکمل طور پر بھر گئی۔ اس میں کل 38 مسافر تھے جن میں 21 خواتین اور 2 سے 12 سال کی عمر کے 14 بچے جبکہ 13سے 20 سال تک کی   نوعمر بچیاں  تھیں۔ اس کے علاوہ تفریح، کھیل اور کھانے کا بے شمار سامان!  

سورج  گرم ہورہا تھا اور ہم سب چلنے  کے لیے بے چین کیونکہ جہاں ساری بسوں کو جمع ہونا تھا وہاں وہ ہمارے منتظر تھے  .. اپنے بلاک سے نکل کر جیسے ہی ہم ڈبل روڈ پر آئے تو وہ گاڑی سامنے آگئی جس کا ہمیں انتظار تھا. ہم نے ایک دوسرے کو جوائن  ہی کیا تھا کہ ایک دم ہماری گاڑی رک گئی.. یہ کیا  

 دل وسوسوں میں گھرنے لگا.  سفر کا آغاز ہی میں یہ بات ہوگئی۔  انتظامیہ کی گاڑی بھی آپہنچی... دوسری بس منگوانے پر غورہونے لگا مگر ڈرائیورز کی مثلث نے بالآخر بس کو راضی کر لیا اور چل پڑی۔.

 ٭پکنک کہانی...  2

 

گاڑی  سانس لیتے ہی فراٹے بھرنے لگی اور بہت جلد اس سنگم پر پہنچی جہاں کئی اور گاڑیاں بے چینی سے ہماری راہ تک رہی تھیں اور پھر ان سب کو پیچھے چھوڑتی ہوئ ہماری بس سب سے آگے رواں دواں تھی۔ لو ٹوتھ کے ذریعے بس میں ترانے گونج رہے تھے ٹیکنالوجی کا شکریہ !!

بہت جلد ٹوٹی سڑکوں اور کچرے کے ڈھیر کا سلسلہ ختم ہوا اور ہموار صاف ستھری سڑک پر  سفر شروع ہوگیا 

کیا یہ بھی کراچی کا حصہ ہے؟؟؟ شاید ہم سب یہ ہی سوچ رہےتھے..!! 

اور پھر شہری  حدود مدھم پڑنے لگی اور ملیر ندی کے ساتھ عمارتوں کے بجائے قصباتی مناظر اور ماحول سامنے تھے.

اور 12 کلو میٹر کا فاصلہ  25 منٹ میں طے کر کے ہم شمسی فارم ہاؤس پہنچ چکے تھے... اتنی جلدی!!!  گھڑی دیکھی تو ابھی پونے دس ہی ہوئے تھے...

اندر داخل ہوتے ہی مٹی اور گھاس کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائ  اور  آنکھوں نے ایک خوشگوار سا منظر دیکھا...

 !! گہری گہری سانس لی... جیسے ایک نشئ اپنے نشے کو سونگھتا ہے 

بس سے اتر کر کوئی جانوروں کی طرف بھاگا تو کسی نے سوئمنگ پول کی راہ لی مگر سب سے پہلے ناشتہ کرنا ہے کیونکہ آنے کی جلدی میں  کسی نے ڈھنگ سے ناشتہ کیا بھی تھا تو اب تک ہضم ہوچکا تھا.. کچھ  خواتین موشن سکنیس سے نڈھال ہوتی ہیں اب کھلی فضا میں کچھ بحال ہورہی تھیں۔

ہمارے کچھ ساتھی جو گاڑی کے زریعے یہاں پہنچے تھے ایک دوسرے کو دیکھ کر اتنا خوش تھے گویا برسوں بعد ملاقات ہوئی ہو

 ایک دلچسپ مکالمے سننے کو مل رہے تھے 

ارے یہ تم ہو؟ 

اللہ آپ کتنی مختلف لگ رہی ہیں

اف پہچاننا مشکل ہے 

یہ اس لیے تھا کہ ہمیشہ ایک دوسرے کو حجاب اور نقاب میں دیکھتے ہیں اور یہاں اب بے فکری سے گھریلو انداز میں تھے کی صنف مخالف کا دور دور تک گزر نہ تھا. فارم ہاؤس کے کمرے  دیدہ و دل فرش راہ تھے مگر وہاں شاید ہء کوئی بیٹھنے کو تیار. گھروں میں تو لاؤنج سے کمرے تک بیٹھتے ہی ہیں آج تو کھلی فضا سے لطف لینا ہے چنانچہ فرش پر درختوں کے نیچے ہی چادر بچھا کر دستر خوان سج گئے. جو خواتین نیچے نہیں بیٹھ سکتیں وہ کمرے کے باہر بنے چبوترے کو ڈائننگ ٹیبل بناتے ہوئے ناشتہ سے لطف اندوز ہونے لگیں۔.

سب ایک دوسرے کو نوالے بنا بنا کر دے رہے تھے.. 

 ہر طرف تواضع ہورہی تھی حلوہ پوری تو چنے کا سالن... کسی نے گھر میں اگائ پیاز کا بنا آملیٹ ہمارے منہ میں ڈالا تو کسی نے  ابلے انڈے کا سنڈوچ، تو کسی نے شامی کباب !

ایک خاتون نے ہم سے  ہاتھ دھونے کےصابن کا مطالبہ کیا اور ہم ہونق ہوکر انہیں دیکھنے لگے ... بیگ میں رکھے پولی فیکس مرہم ،پٹرولیم جیلی، کاٹن / بنڈیج ، قینچی نظروں میں آگئے لیکن صابن ندارد! صفائی کے ذمہ دار کی حیثیت سے ہمیں اس کا خیال کیوں نہ آیا؟ 

خیر ایک سگھڑ خاتون کے بیگ سے صابن برآمد ہوا تو ہم نے سکھ کا سانس لیا..  

ناشتے سے فراغت کے بعد ہمیں کچرہ سمیٹنا تھا مگر یہاں سب کچھ سیلف سروس کے تحت ہورہا تھا لہذا ہمیں بالکل بھی محنت نہیں کرنی پڑی بلکہ سب نے خود ہی اپنا 

پھیلاوا سمیٹااور اپنی اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔۔۔۔

٭ پکنک کہانی                  ۔۔۔3

 

.. ناشتے کے بعد سب  بے چینی سے چائے کے منتظر تھے..کہ اس کا وعدہ تھا

اور *تھا جس کا انتظار وہ آگیا* کے مصداق، اس کی آمد نے ایک ہلچل سی مچادی..

سب قطار میں کھڑے تھے ایک عجیب گہماگہمی تھی.. حد تو یہ کہ جو تھرماس میں لانے والی چائے سے مستفید ہوچکے تھے وہ بھی اسی دلجمعی سے اس چائے کے انتظار میں تھے کہ اس کا لطف اور مزہ ہی کچھ اور تھا.

ہماری علاقے کی ناظمہ سعیدہ اشرف اپنے نائیبین صائمہ اور گوہر کے ہمراہ اس کی ترسیل میں ہماری میزبان ثروت شمیم اور حمیرا امان (جو ہم سے پہلے ہمارے استقبال کو  موجود تھی) کے ساتھ مسلسل  چائے کی ترسیل کی جدو جہد میں مصروف تھیں..

اللہ اللہ کر کے یہ مرحلہ طے ہوا تو لوگوں نے اپنی اپنی چھوڑی ہوئی سر گرمیاں دوبارہ شروع کر دیں.بلکہ کچھ لوگوں نے تو چائے کا وقفہ بھی نہیں کیا تھا

اب کہیں کرکٹ میچ شروع ہوگیا تو کہیں فٹبال، کہیں کہیں بیڈ منٹن کی پریکٹس اورکچھ جھولے پر لدگئے.. کچھ جانوروں کو بچا کھچا کھانا کھلانے لگے تو کچھ پانی کے


کیڑے پول میں جمپنگ !!

اور جو خواتین یہ سب کچھ نہیں کر رہی تھیں وہ کیا کریں؟. گھر میں ہوتیں تو گھر سمیٹ رہی ہوتیں،  برتن، کپڑے، بستر، بکھیڑے ہی بکھیڑے ہوتے ہیں. کچھ بچوں، گملوں/ پودوں/ جانوروں کی سیوا بھی کرتی ہیں..  اب یہاں تو فرصت ہی فرصت تھی نہ ماسیوں کا انتظار نہ ہی کھانے کی فکر !

دل ڈھونڈتا ہے فر صت کے وہی رات دن کہ بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

اب ان کے پاس باتوں کی مہلت ہی مہلت تھی. گھر کے قصے، بچوں کی باتیں، اپنا بچپن، کچھ اپنی مہارتوں کا ذکر تو نئی نسل کی سستی اور کاہلی پر مذاکرہ جاری تھا.... 

 کھانے کی ترکیبیں سکھائ جارہی تھیں!! 

باغبانی اور گھریلو مہارتوں میں عبور رکھنے والی ہماری ایک بہن للچائی ہوئ نظروں سے اونچائی پر املی کے پیڑ پر لٹکتے ہوئے کتارے دیکھ رہی تھیں اور سب کو اکسا رہی تھیں کہ اس کے پتے بھی مزے کے ہوتے ہیں  . 

جی بہت کھٹے ہوتے ہیں.... 

مگر املی کے پیڑ پر جن ہوتے ہیں !

ہم نے انہیں اسی طرح ڈرایا جیسے ہمیں بچپن میں ڈرایا جاتا تھا..  دراصل انہیں اس اڈونچر سے باز رکھنا تھا کہ کہیں وہ انہیں توڑنے کی کوشش  میں کوئی حادثہ نہ کرلیں ! )               یہ کوئ گھر تو نہیں تھا جس کی چھت کے جالے وہ کل برش سے جھاڑ کر آئ تھیں۔..) 

ہم بھی اس محفل میں سامع کی حیثیت سے تھے کہیں کہیں لقمہ دیتے..یہاں کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اگر کوئی خاموش بیٹھ کر غور و فکر  میں   مصروف ہے تو اسے بھی آزادی تھی کہ کوئی مخل نہ کرے!

دائیں طرف  دادی جان اپنی پوتیوں کو جھولا جھلا رہی تھیں تو  آگے بائیں طرف پانی کے تالاب میں نانی جان اپنے نواسے نواسیوں کے ساتھ غوطے میں مصروف !ہم اپنی پیاروں کو یاد کررہے تھے جو اس وقت امتحانی کمروں میں قلم اور کاغذ سے بر سر پیکار ہوں گی! یاد آتے ہی آسانی کی دعا نکلی! کچھ بچھڑے مل رہے تھے تو کہیں نئی دوستی کا آغاز ہورہا تھا... ہم ہر وقت شکوہ کرتے ہیں کہ لوگوں سے ملاقات کا وقت نہیں ملتا  یا لوگ نہیں ملتے!.

یہاں یہ دونوں سہولتیں وافر مقدار میں موجود تھیں...آتے جاتے سلام دعا تو ہوہی رہی تھی. مسکرا کر دیکھنے کے صدقے کا بھی اہتمام دل کھول کر ہورہا تھا...  کہیں بامقصد ملاقاتیں تھیں تو کہیں سرگوشیوں میں تبصرے، کہیں رشتے ناطے بھی جوڑے جارہے تھے.. 

تھوڑی دیر بعد ناظمہ ضلع ندیمہ تسنیم اور نائب رفعت بشیر بھی پہنچیں اور سب میں گھل مل کر باتوں میں مصروف ہوگئیں

ندیمہ بہن سے بات کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کا جبڑا زخمی ہے اور کل آپریشن ہے

اسلامیہ کالج کو منہدم کرنے پر احتجاج کرنے والوں پر تشدد کے نتیجے میں

اف!!! 

میں نے ان پر نظر ڈالی تو مامتا کی روشنی دیکھی جو ستر ماؤں سے زیادہ رحم کرنے والی ہستی پر بھروسہ کرنے پر  ان کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی.... 

: اس کہانی کو لکھتے وقت یہ طے کیا ہے کہ سوائے ذمہ داران کے کسی کا نام نہیں لکھنا ہے 

کیونکہ جس کا نام لکھنا بھول جاؤں اس کی ناراضگی کا خطرہ 

اور دوسری طرف جس کا لکھوں اس کے ناراض ہونے کا اندیشہ کہ میری بات کیوں لکھی 

لہذا اس میں اپنے آپ کو خود تلاش کریں!!!



*پکنک کہانی... 4 

اب 12 بجنے والے تھے..  کچھ کچھ تھکاوٹ لگنے لگی تھی کہ  تیاری میں نیند بھی ڈھنگ سے نہیں آئ اور سویرے بھی جلد اٹھے تھے...

باتیں بنانے والا گروپ بھی اب کچھ نڈھال ہوکر کمر ٹکا رہا تھا تو ہم کچھ نئی ملاقاتوں کے لیے پول کی طرف لپکے! کچھ پرانے لوگوں سے تفصیلی ذاتی باتوں کا ارادہ تھا وہ  تو نہ ملے البتہ غیر متوقع طور پر ایک نند بھاوج سے ملاقات ہوگئی۔ 

  اس کے بعد باغ کی طرف چلے جہاں  خزان رسیدہ گھاس پر جگہ جگہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو کچھ درخت کے تنوں  پر ٹکے ہوئے تھے. ہم نے بھی کچھ سے ملاقاتیں کیں.  یہاں سیلفیز لینا آسان تھا کہ لوگ دور دور تھے اور کسی کی پرائیویسی پر کوئی ضرب پڑنے کا امکان نہیں تھا .. یہاں وہاں  گھوڑے ٹہل رہے تھے. گھڑ سواری کا خیال آیا مگر اس کے لیے یقیناً کسی  سائیس کو آنا پڑتا جس کی گنجائش نہ تھی.. 

بہت دور ایک بیل بھی کھڑا تھا. ہم تو ان جانوروں کے قریب بھی نہ پھٹکے کہ کیا بھروسہ کب دولتی جھاڑ دے..؟ 

 پھر گھوم گھام کر واپس اپنے چبوترے پر آکر بیٹھ گئے..

۔ ہم نے آگے بڑھ کر استقبال کیا  کچھ سوتی جاگتی کیفیت تھی کہ دیکھا سامنے سے آمنہ عثمان اور رخشندہ منیب  خراماں خراماں چلی  آرہی ہیں!

اب چونکہ فرصت تھی اور نماز ظہر کا وقت ہوچلا تھا. تو اول وقت میں نماز ادا کرنے کا موقع  ملا... بہت ہی پرسکون سے ماحول میں بنی  خوب صورت چھوٹی سی مسجد میں نماز کا لطف ہی کچھ اور تھا... سامنے  حد نظر تک ہریالی بہت بھلی لگ رہی تھی... کچھ بہنوں نے مسجد کے سامنے رکھے بنچ پرنماز ادا کی تو کچھ نے مسجد کی منڈیر پر

  سب پوری ہی پڑھ رہےتھےیہاں یہ بحث نہیں تھی جو عموماً پکنک پر ہوتی ہے کہ قصر پڑھیں؟ یا مکمل نماز؟ 

 ایک اور بات جو یہاں محسوس ہوئی کہ مائیں بہت پرسکون تھیں. انہیں بچوں کی ہروقت کے جھگڑے نمٹانے سے فرصت تھی کیونکہ ہر بچے کو اپنی اپنی دلچسپی کا ۔سامان بھرپور مل رہا تھا تو اسکرین کے لیے کوئی چھینا جھپٹی نہیں نظر  آئ


...

*پکنک کہانی.. آخری حصہ*

 

نماز سے فارغ ہوئے تو خاصی گہماگہمی نظر آئ..  گھاس پر چادریں بچھ رہی تھیں.. کرسیاں جتنی بھی موجود تھیں لگائ جا رہی تھیں.. بیٹھنے کے لیے کچھ درخت کے تنے بھی موجود تھے 

آڈیو سسٹم اور مائیک بھی لگایا جارہا تھا یقیناً کچھ تذکیری اور تفریحی پروگرام کی تیاری ہے..

حیرت انگیز طور پر  اکثریت نظم و ضبط سے آکر  پرسکون انداز میں آکر بیٹھ گئی.. ہمیں جس گروپ میں جگہ ملی وہ کوئٹہ سے تھا.. ہم سمجھے کوئٹہ ٹاؤن سے آئے ہیں مگر معلوم ہوا یہ ساری خواتین زندگی کا بیشتر حصہ کوئٹہ میں گزار چکی ہیں... ہمیں تو کوئی خاص فرق نہیں لگا تھا لیکن  نئی دوستی ہونے والی خاتون کی نوعمر خوش مزاج بچی عائشہ نے اپنی والدہ  کو کچھ اور خواتین کی بابت بتایا کہ وہ  کوئٹہ کی لگ رہی ہیں..

 ہم اس کی مشاہدانہ قوت کے قائل ہوگئے

اس گروپ میں بیٹھنے سے ہمیں  کوئٹہ کے بارے میں مفید اور مطلوبہ معلومات ملیں.... 

جلد ہی زمہ داران کرسیوں پر متمکن ہوگئے اور پروگرام کا آغاز ہوا. تلاوت اور نعت تک تو مائیک نے کام کیا لیکن باہمی گفتگو کے وقت ناراض ہوگیا.. 

بہت افسوس رہا.. یقیناً کچھ متبادل ہونا چاہیے تھا ۔ اس دوران بریانی کی تقسیم  شروع ہوگئی ۔ اورہمیں اپنےسامان میں موجود پلیٹ چمچے یاد آئے ! 

اپنی بھانجی، بھتیجی جیسے لوگوں کو بھاگتے دوڑتے کام کرتے دیکھ کر بہت پیار آرہا تھا

سب خاموشی سے کھانے میں مصروف تھے.  تھوڑا ساکھا کر ہم نے اپنا بریانی کا ڈبہ بند کردیا کہ اس وقت اتنی ہی بھوک تھی اور پھر عائشہ نے جو ہماری تواضع کی.. جوس پلایا، ٹافیوں کا شاپر سامنے کیا تو ہم نے اپنی پسندیدہ ٹافی اٹھائ اور اس کے بعد  کہیں سے مٹھائی کا ڈبہ آگیا. بھرپور لنچ ہوا اور پھر عائشہ نے چگنے کے لیے سورج مکھی کے بیج بھی دے دیے۔...

کھانے پینے کا سامان دیکھ کر کوے بھی جھپٹنے کو تیار ہورہے تھے. منتظمین نے کمال مہربانی سے شاپر میں کچرہ جمع کرنا شروع کردیا. کچھ نے بریانی کے خالی ڈبے بھی احتیاط سے جمع کیے

نوجوان خواتین کے لیے علیحدہ نشست بچھائ جارہی تھی.. اس سے پہلے کہ  گفت و شنید  کا آغاز ہوتا وہ بیل جو انتہائی کونے میں نظر  آیا تھا جھومتا جھامتا اس نشست میں  آ پہنچا.. تمام لڑکیاں چیخ مار کر بھاگیں تو وہ آگے بڑھتے ہوئے ہماری طرف بھی آنے لگا. اور ہم  خواتین جو ہلنے کو بھی تیار نہ تھیں اور لڑکیوں کے ڈرنے پر انہیں  پرسکون رہنے کا کہہ رہی تھیں اب اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر چپلیں چھوڑ کر بھاگیں..  

کسی بہادر لڑکی نے اس کی رسی پکڑ کر اسے گرل سے باندھنے کی کوشش کی مگر وہ منہ زوری سے بھاگنے لگا. ایک دم بھگدڑ مچ گئی خیر اس کا نوعمر سا خدمتگار آکر اسے لے گیا تو سکون ہوا.مجھے لگا اسی نے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے بیل کو دوڑایا ہوگا!! 

 مزے کی بات یہ تھی کہ کرسیوں اور اسٹولز پر متمکن  خواتین جو اپنے سارے کاموں کے لیےاپنے بچوں کو دوڑا رہی تھیں.. اس ناگہانی پر کرسیوں سمیت بھاگیں.. واقعی جان سب کو پیاری ہوتی ہے!.

سب پرسکون ہوئے تو *کھو کھو* کھیلنے کا پروگرام  بنا.. اس پر نوجوانوں کا حیرت کا اظہار کہ یہ کیا ہوتا ہے؟

ہم نے کہا ٹک ٹاکر کہہ کر کھلواتے تو سمجھ پاتیں ۔۔۔۔۔!!! 

تعجب خیز بات ہے کہ ہم اپنی زبان کے ساتھ اپنے کھیل بھی بھولتے جارہے ہیں؟؟

اس دوران چائے  کی ٹنکی آگئی. ہم خالی کپ لے کر قریب پہنچے تو ہماری ایک مہربان ہستی نے ہمیں جلدی سے اسے بھر دیا!

بزرگی کا اپنا ایک الگ فائدہ ہے!

لان سے واپس آنے لگے تو سورج  جھکتا  محسوس ہوا چنانچہ مسجد سے ملحق وضو خانے سے تازہ وضو کرکے  نماز عصر بھی اولین وقت میں ادا کرکے ہم اپنے چبوترے پر



آبیٹھے. پرندوں کی تسبیح کا  وقت شروع ہوگیا تھا. ان کی چہچہاہٹ اللہ کی بزرگی بیان کررہی تھی.. سبحان اللہ !!!  

کچھ لوگ ہم سے پوچھ رہے تھے کب واپس چلیں گے جبکہ جن  کا دل ابھی نہیں بھرا تھا ہم سے کہہ رہے تھے 5بجے چلیں گے 

... اور دونوں گروپوں کو ہمارا ایک ہی جواب ہوتا 4.30 پر!

اور واقعی ہم سب سمیٹ کر ٹھیک مقررہ وقت پر گاڑیوں میں سوار ہوگئے  اور  سوا پانچ بجے اپنے گھر کے اندر داخل ہوگئے...

باقی سب بھی یقیناً کچھ آگے پیچھے گھر پہنچ گئے الحمدللہ !!

ایک تھکادینے والا دن جوخدشات سے شروع ہوکر طمانیت پر ختم ہوا


جمعہ، 29 نومبر، 2024

پکنک رے پکنک !

 

پکنک رےپکنک !




بچپن میں کہانیاں پڑھتے ہوئے پکنک کا لفظ بڑا دلچسپ لگتا تھا اور ہم ابا سے اس کی ضد کرتے جواب میں وہ فرماتے

لان میں بیٹھ کر کھانا پینا کرلیتے ہیں پکنک ہوجائے گی اور ہم روٹھ کر کہتے

                                                                                        "وہ تو روز ہی شام کی چائے پیتے ہیں "

اور یوں اپنی فرمائش کےپرخچے اڑتے دیکھتے

ابا جان کے لیے تفریح کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ وہ چھٹی کے دن ہمیں اپنے مضافاتی علاقے. میں رہایش پذیر کسی رشتہ دار سے ملاقات کو لے جائیں. ایک تو وہاں پہنچنے کا تکلیف دہ سفر اور پھر ان عزیزوں کی  حد سے بڑھی ہوئی لگاوٹ

مثلاً ہماری پلیٹ میں حد سے زیادہ کھانا بھر کر انتہائی اصرار سے کھلانے بلکہ منہ میں ٹھونسنے کی کوشش!،

اپنے تمام دور دور تک کے پڑوسیوں کو ہمارا دیدار کروانا... ہمیں یہ سب کچھ بہت بیزار کردیتا... 

پھر وقت بدلا. بھائ بہنوں کی اولادوں کے ساتھ تفریح گاہوں کی سیر ہوئ. قائد کے مزار سے کلفٹن، سی ویو، الہ دین پارک، کیماڑی سے کشتی کے ذریعے منوڑا..، اور سند باد تو سفاری پارک... شہر کا کونا چھان مارا.. شہر کے ہر ریسٹورنٹ پر حاضری دینا... دلچسپ بات یہ کہ ابا بھی اب اس تفریح میں بھرپور مزہ لیتے امی جان تو پہلے ہی سیر کی بہت شوقین تھیں مگر یہ سب ہماری نظر میں پکنک سے زیادہ فیملی گیدرنگ ہی رہی.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف اسکول والے بھی سالانہ تفریح کو لے جاتے مگر اساتذہ کی کڑی نگرانی کے باعث وہ کچھ  اتنا زیادہ  خوشگوار تاثر نہ چھوڑتا.. اور پھر وہاں بھی سوال کی بھرمار مثلاً 

 کا نام کیوں رکھا گیا ؟Sands Pit

ہمارے جسم میں کون سا اس نام کا عضو ہے؟

یاپھر لڑکوں سے کرکٹ کے بلے کے متعلق سوالات. یہ کس درخت کی لکڑی سے بنتے ہیں؟  یہ ایک طرف سے چپٹے اور دوسری طرف سے ابھرے کیوں ہوتے ہیں؟ 

یقیناً یہ سب ہمارے علم میں اضافے کے لیے ہوتا ہوگا مگر ہمیں سمندر کنارے پکنک مناتے ہوئے کلاس روم کا ماحول سخت بیزاری کا باعث بنتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 تاریخ کی معلمہ ایک دفعہ آٹھویں نویں جماعتوں کو عمر ماروی کے دیس  لے گئیں... ہم اس وقت نویں میں تھے

وہاں گروپ بنا کر کھانے کے آئٹمز تقسیم کر دیے گئے ہمارے گروپ کو شامی کباب ملے تھے.... ہم 8/9 لڑکیاں کباب لیے بیٹھی ہیں... اور مختلف ذائقہ کے کباب کھا رہی ہیں. اتنی عقل اور ہمت نہ ہوسکی کہ کسی دوسرے گروپ کے ساتھ مل کر کچھ اور چیز سے بھی لطف اندوز ہوتے. اب یہ تو معلمات کی زمہ داری تھی مگر وہ تاریخ، جغرافیہ اور ادب کی بحث میں الجھ کر ہمیں بھلا بیٹھی تھیں ۔ 

پھر اعلیٰ تعلیم کے دور میں بھی طلباء کی مخلوق مطالعاتی دورے کو پکنک کا رنگ دینے کی کوشش کرتی  جس کو اساتذہ ناکام بنانےکی کوشش کرتے لیکن    طلبہ  اکثر کامیاب رہتے مگر پھر بھی ایک قسم کی پابندی ہی رہتی کہ 

*اتنی دیر میں یہ کرنا ہے

*اگلے پوائنٹ تک پہنچنا ہے

*اپنے مشاہدات درج کرنے ہیں!

* تازہ دم ہونے یا نماز پڑھنے میں زیادہ وقت نہیں لگانا ہے.... وغیرہ وغیرہ 

........ 

پھر معلمی کا زمانہ ہے،

بچوں کوپکنک پر لے جانا ایک درد سر سے کم نہ ہوتا. گن کر چڑھانا اور پھر گنتی کر کے اتارنا، نظم و ضبط برقرار رکھنا.... 

تو جناب یہ ساری تفصیلات ہیں کہ ہمیں پکنک سے کوئی رغبت نہیں لگتی اور ہم بیزاری سے اس کا منصوبہ سنتے ہیں .. 

..... 

نوٹ : یہ ایک پکنک کی روداد کا ابتدائیہ ہے

 


منگل، 27 اگست، 2024


 
 




   نہیں ہے مگر پھر بھی ایک تخلیقی عمل ہے  !state of the art  یہ  کوئی

جی ہاں ! یہ پینٹ برش سے نہیں بلکہ کپڑے کی دھجیاں جوڑ کر بنایا گیا ہے ۔۔ہم رلی کے اعلی نمونے دیکھتے رہے ہیں جو ڈیزائننگ کر کے بنائے جاتے ہیں مگر یہ وہ بھی نہیں ہے 

آئیے! اس کی بناوٹ کے مندرجات دیکھتے ہیں۔۔

گھر پر سلائ ہو تو بڑے سوٹوں میں سے گھر یا خاندان کے ننھے منے بچوں بچیوں کا پہناوا بھی نکل ہی آتا ہے لیکن پھر بھی بہت سی آڑھے ترچھے ٹکڑے بچ ہی  جاتے ہیں۔۔

کچھ زمانے پہلے کے بچے ان سے گڑیوں کے کپڑے تیار کرلیتے تھے لیکن آج کے ڈیجیٹل دور کے بچے یہ کارنامے اسکرین پر انجام دیتے ہیں   ۔ایسے میں یہ کترنیں ایک بوجھ بن جاتی ہے ۔

کرونا کے بعد سے ہمارے بھی آن لائن اوقات بڑھے ۔۔یوٹیوب کے ذریعے نئی نئی چیزیں دیکھنے اور سیکھنے کو ملیں۔۔ان میں ان کترنوں کو کسی خاص ڈیزائن کے بجائے جہاں اور جیسا کی بنیاد پر جوڑ کر تجریدی انداز میں چیزیں تیار کرنے کی ویڈیو دیکھنے کو ملیں ۔۔

تو جناب یہ ہمارے مختلف سوٹوں سے بچے ٹکڑے تھے جنہیں کپڑے کے ایک ٹکڑے پر جوڑتے گئے اور پھر اس کے نیچے اس سے ملتے جلتے کپڑے کا استر لگایا۔لیجیے ہمارے کچن کے لیے ایک دستر تیار ہوگیا جس سے بہت سے کام لیے جاسکتے ہیں۔ 

ہمیں ان کترنوں سے الجھتے دیکھ کر ایک بچی نے معصومانہ بات کہی کہ آپ کسی کو دے دیا کریں ( مطلب ہماری کنجوسی پر خفیف سا طنز سمجھ لیں !)

چلو گھر کی ماسی کو دے دے دیتے ہیں! ہم نے بھی ترنت سوچا لیکن وہ اس کا کیا کرے گی ؟ اس کے پاس نہ وقت ہے نہ ہمت ، نہ وسائل نہ ہنر ! وہ تو اس کو اٹھا کر پھینک دے گی( جیسا کہ اس سے پہلے تجربہ کیا جاچکا ہے ) نتیجتہ؟

ماحول میں آلودگی کا اضافہ ؟؟؟/    جسے ذرا سی محنت کرکے کم ازکم  اپنی حد تک  تواسے کم کیا جاسکتا ہے ۔!

آپ اسے ایک پسماندہ ملک کے غریب عوام کی مجبوری نہ سمجھیں کہ ہم نے یہ آئیڈیا ترقی یافتہ ممالک کی تعلیم یافتہ مرد و خواتین کے ہنر کو دیکھ کر اپنایا ہے۔۔ اور پھر یہ ہمارے کلچر کا بھی ایک اہم ہنر ہے !

ماحول کی صفائی اور ذہنی سکون گویا دہرا فائدہ ہے ۔۔آزما کر دیکھیں۔۔ہم اپنی  اس تخلیق کو جب جب استعمال کرتے ہیں اپنے موجودہ اور سابقہ سوٹوں کی باقیات دیکھ کر طراوٹ حاصل کرتے ہیں 

#reuse 

#recycle 

#rethink 

#rebuild

#reduce