منگل، 8 اکتوبر، 2019

خدا کرے جوانی تری رہے بے داغ

                          
  خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ !

اماں ! آپ تقوی کا مطلب کیا سمجھتی ہیں  ؟..نماز میں خشوع وخضوع یا پهر روزہ رکھ لیں ؟ ....ہمارے لیے یہ کچھ اور ہے ...."
 ہماری ایک بہن اپنے بیٹے کے حوالے سے بتا رہی تهیں
ہم چهہ خواتین ہائی روف میں بیٹهی تهیں جو یونیورسٹی روڈ سے صفورا چورنگی کی طرف مڑ رہی تهی اورہم نوجوان نسل کے لیے موثر تبلیغی اور تربیتی مواد کی دستیابی پر بات کر رہے تهے !  اگلی بات جو انہوں نے تقریبا سرگوشی کے انداز میں کہی ہمارے حواس اڑانے کو کافی تهی ...
"....
لڑکیاں کہتی ہیں ہم سے دوستی کرو .. !" اور یہ دوستی ہر گز محض ورچوئل نہیں ہے  بلکہ جسمانی اتصال سے لے کر ذہنی، جذباتی اور روحانی تعلق اور لگاو کا متقاضی ہے ...آج کل کے تعلیمی اداروں کی ایک جھلک ہی اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔اب تعلیم کا مقصد صرف علم کا حصول نہیں  رہا ہے بلکہ کچھ اور ہوش ربا حقائق ہیں ۔۔۔۔
ان کی بات  مکمل ہوئی ہی تھی کہ ہماری منزل آگئی۔ ایک خوش باش محفل میں بھی میرے خیالات اس بات کے گرد گھومتے رہے  بلکہ اسے ایک اور گزری محفل میں اڑا  کر لے گئے ۔
یہ 25 /30 سال قبل زمانہ  طالب علمی میں  ہم عصر رہنے والیوں کی ایک گیدرنگ تھی  ۔ امریکہ جابسنے والوں میں سے ایک نے اپنی پاکستان آمد پر ساری ہم جولیوں کو اکٹھا کیا ہوا تھا ۔ اگرچہ بہت سی سہیلیاں ایک دوسرےسے رابطے میں ہیں مگر یہاں سب  اپنے آپ کو 30 سال پہلے والی حیثیت میں جان رہے تھے  ۔لگتا تھا کہ وقت کے پر کاٹ  دیے گئے ہوں ! وقت کی سلوٹوں سے بے نیاز   ٹائم مشین میں بیٹھ کر سب اپنے اپنے متعلقہ شعبوں میں پہنچ گئے تھے  حتی کہ آداب محفل  بھی تین عشرے پہلے والی سطح  پر موجود تھا  یعنی  باوجود اس کے کہ وقت کم تھا مگر پھر بھی کوئی کسی کی بات نہیں کاٹ رہا تھا ۔سب  ایک دوسرے کی بات سننے میں اسی تحمل کا مظاہرہ کر رہے تھے جو پچھلی نسل میں تو تھا مگر اب مفقود ہے   اور موضوع  یہ ہی بن گیا تھا کہ نوجوان نسل میں اپنی تہذیب کے وہ اثرات کیوں نہیں جو ہماری نسل میں تھے ؟ بحیثیت والدین سب اپنے  اپنے خیالات کا اظہار کر کے آپ کو کٹہرے میں کھڑے کر رہے تھے۔  اپنے اپنے تجربات تھے مگر دائرہ وہی تھا نسل نو میں گھٹتی ہوئی اپنی تہذیبی اور ایمانی قوت ! 
ایک ساتھی کی بات پر تو سب   لمحہ بھر کو خاموش ہوگئے  جب  انہوں نے اپنی بیٹی کے کسی معیاری تعلیمی ادارے میں  داخلہ انٹرویو کا ذکر کیا  ۔فارم میں جہاں جنس (Gender ) کا خانہ تھا وہاں 35 آپشنز تھے ؟؟؟ یا الہی ٰ ہم تو ابھی تک دو ہی سمجھے تھے یا اب جیسا کہ Transgender  کی اصطلاح عام ہوگئی ہے  تو تیسری جنس بھی مذکور ہے مگر 35 ؟ پھر وضاحت ہوئی کہ کسی لڑکی میں پتلون پہننے کی خواہش ہو یا کسی میں ۔۔۔۔۔۔۔ اسی تناسب سے اس کی جنس  طے (  ڈیفائن )ہوگی ! یعنی اس کے اندر اپنے آپ کو جیسا دیکھنے کی خواہش ہوگی اس کے مطابق اس کی جنس کا تعین کیا جا سکے گا !
اف یہ ہم کس دور میں زندہ ہیں اور مجھے مفتی منیب الرحمان  کا وہ مضمون  یادآیا جو انہوں نے حال ہی میں دورہ امریکہ سے واپسی پر تحریر کیا تھا ۔جس کے مطابق  18 سال کی عمر کو پہنچ کر کوئی فیصلہ کرے کہ اسے لڑکا بننا ہے یا لڑکی ؟ یعنی شیطان نے  اپنے حربے خوب خوب آزمائے ہیں کہ:
                            ۔۔۔۔میں ان کی ساخت بدلوں گا  ۔۔۔۔قرآنی آیات میں مذکور اس  کے ارادے  ایک نئی  اور جدید شکل میں سامنے تھے ۔۔
 وہ سارے مناظر ،دلفریب  نعرے، خوشنما خواب ،  قوس قزح جیسی قدرتی چیز کو بھی شیطانی گروہ کا سمبل بنا دیا گیا ہے معصومیت کے لبادے میں چھپے رشتے !    میاں بیوی کے بجائے پارٹنر کی اصطلاح زبان زد عام کرگئی جس میں تعلقات  (Relationship ) کے لیے  اب مرد و عورت یا لڑکی اور لڑکے کا ہی تخصص نہیں رہا ۔اب  لڑکے کا پارٹنر  لڑکا  بھی ہوسکتا ہے  بلکہ انسان ہونا بھی ضروری نہیں  کوئی  جانور بھی آپ  کا ساتھی بن سکتا ہے ! انسان اور حیوان کے  آڑ کے تمام حجاب ہٹا دینے کی کوشش ۔۔آج کی جدید اصطلاحات   کی بابت سوچتے سوچتے بہت دور نکل گئی  تھی ! یہ تو سب مغرب کی کارستانیاں ہیں ۔۔دل کو تسلی دی اور لاحول پڑھ کر ماحول میں واپس آگئی ۔

اس محفل سے نکلے تو  راستے میں آنے والے شاپنگ سنٹر میں اتر گئی کہ ضروری چیزیں لینی تھیں ۔اور داخل ہوتے ہی وہ مناظر سامنے تھے جن خیالات کو  مغرب زدگی کہہ کر ٹال چکی تھی ۔۔۔پتلون اور ٹی شرٹ میں ملبوس جوان تروتازہ خوبصورت بچیاں جوڑوں کی شکل میں گاہکوں کی رہنمائی کر رہے تھے بلکہ کہیں کہیں تو گروپ کی شکل میں کھلکھلا رہے تھے ۔چھچھورے مذاق کر رہے تھے ۔ اس سوقیانہ ماحول میں شاپنگ کیا ہوتی ؟ مجھے مسز قدیر آگئیں  جنہوں نے چند سال پہلے فون کر کے بتایا کہ وہ علاقے کے معروف شاپنگ سنٹر میں گئیں تو سیلز گرلز کو دیکھ کر مرد ان کی طرف لپکے کہ پتلون والی کڑیا ں آگئیں ۔۔انہیں بہت ہی برا لگا وہ منیجر کے پاس گئیں ۔ان کی شکایت سن کر اس نے اتفاق کرتے ہوئے اپنی مجبوری کا اظہار کیا۔ بہر حال احتجاج نوٹ کر لیا گیا ۔ اس پر میں نے تحریر لکھی اور ایمانی  طاقت کے مظاہرے پر فیس بک پوسٹ پڑھنے والوں کو راغب کیاجس پر  ۔مجھےبہت لائکس ملے ! اب مجھے  بھی یہ کرنا چاہیے ! مگر اس ایمانی قوت کے اظہار کا نہ وقت تھا موقع کہ اب یہ سب کچھ رواج بن چکا ہے اور میرے احتجاج پر منیجر مجھے Exit  کا راستہ دکھا سکتا ہے لہذا ایمان کے کمزور ترین درجے پر پہنچ کر میں نے آزردگی سے باہر کی راہ لی ۔

یہ سب کیسے اور کب ہوا ؟ قباحتیں کب Norm   گئیں ؟ اور مجھے عشرے قبل گاڑی میں شاہراہ فیصل میں گزرتے ہوئےبچیوں کے نعرے یاد آئے جو انہوں نے پٹرول پمپ پر لڑکیاں دیکھ کر لگائے تھے

'۔۔۔۔وہ دیکھیں آنٹیاں پٹرول بھر رہی ہیں ۔۔۔ ! ' '  

ہمارا کلچر سعودی عرب کا تو نہیں ہے ۔یہاں تو خواتین دھڑلے سے گاڑیاں چلاتی ہیں بلکہ اپنی نوعمری کا واقعی یاد آگیا جب اسلام آ باد  کی سیرمیں اپنی زندگی میں پہلی بار کسی عورت کو گاڑی چلاتے دیکھا تھا تو آکر ابا کو اطلاع دی تھی۔ ظاہر ہے جب خواتین گاڑی چلائیں گی تو پٹرول بھی بھروائیں گی  !  ہاں !تعجب خیز بات  یہ تھی کہ وہ بھروانے کے بجائے بھرنے کی ڈیوٹی پر ہوں ۔۔چند ٹکوں کے لیے عورت کو کس  قدر گھٹیا کام پر لگا یا گیا ہے!  آہ  !حکمرانوں کی روشن خیالی نے کیا دن دکھائے ہیں !
اور پھر مجھے ایک رہنما کے الفاظ یاد آئے جس نے اس حوالے سے اپنی یاد داشتیں بیان کرتے ہوئے کہا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ اپنی وزارت کے زمانے میں مغربی ممالک کی طرف سے اعلان کردہ قرضہ /امداد  کی عدم ادائیگی کی طرف متوجہ  کروایا تو ان کا کہنا تھا کہ آپ نے ہماری شرائط نہیں مانیں ۔۔۔بل بورڈز پر  خواتین کی تصویر پر پابندی لگا رکھی ہے ۔۔۔ہم عورتوں کی آزادی میں کوئی رکاوٹ بر داشت نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ مخلوط اجتماعات  کو عام کریں اور اس گفتگو کا آخری نکتہ یہ تھا    
                                         ''۔۔۔۔۔۔ قرضہ لینا ہے تو کلچر بھی لینا ہوگا ۔۔۔۔'' 
  
گویا یہ سب  مظاہرے تو ثمرات تھے ! اس کی بنیاد اور جڑکب اور کہاں واقع ہوئی ؟ جب ان پالیسیوں کے تحت  حکمران ڈھلتے چلے گئے  اور عوام تو اسی کے تحت چلتے ہیں ۔۔ امداد کے بہانے تہذیبی یلغار کی  بات کئی عشروں پہلے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کہہ چکے ہیں ۔۔۔" تاسف کا اظہار کہ '۔۔۔۔۔۔۔چست پتلونوں کے بدلے میں کچھ ترقی ملتی تو بات بھی سمجھ آتی ۔۔دور دور تک زوال ہی زوال نظر آتا ہے ۔۔۔۔"
 2006ء کی بات ہے ایک مشہور بین الاقوامی فیشن ڈئزائنر سنبل کا انٹرویو پڑھا ۔اس کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں یہ منظر آنے میں کچھ وقت لگے گا کی خواتین اسکرٹ ( یقینا منی اسکرٹ ) پہنے اسٹاپ پر کھڑی ہوں ۔۔۔۔ان کی یہ حسرت یا خواہش مھض دس سال کے اندر ہی پایہ تکمیل کو پہنچ گئی  جب اسکن کلر کی ٹائٹ میں ملبوس خواتین اور لڑکیاں جگہ جگہ نظر آنے لگیں ۔۔۔۔۔
ظاہر ہے آج کی نوجوان نسل کو درپیش چیلنجز بجا ہیں ۔ ترغیبات کے اس ماحول میں وہ کس طرح اپنا دامن بچائیں ۔؟  ڈاکٹر ووہرہ کے جملے یاد آئے جو انہوں نے آج کی نوجوان  نسل کے بارے میں کہے تھے کہ شریف اور پاکباز لڑکے روزے رکھ رکھ کر تھک رہے ہیں ۔۔۔!
  " جلد شادی کر دی جائے ۔۔۔۔۔جلدشادی کا آپشن سامنے آتا ہے ہے مگر یہ  بہت مشکل بنا دی گئی ہے  ۔۔۔اور پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس ماحول میں جب حیا کے جنازے ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہوں شادی کے بعد بہکنے کے امکانات ختم ہوجائیں گے ؟ ضبط جذبات کس حد تک ممکن ہے  ؟  اور پھر شادی تو کچھ نہ کچھ شعور آنے پر منحصر ہے ۔۔یہاں ٹین ایجرز بلکہ اس سے بھی کم عمر بچوں کے پاس  اسمارٹ فون  کی سہولت  انٹر نیٹ کنکشن کے ساتھ خود والدین نے  مہیا کی ہوئی ہے  جو رات بھر اس سے جڑے رہتے ہیں ۔۔ حالیہ میٹرک کےمایوس کن  نتائج  طالب علموں  کے دل پڑھائی سے اچاٹ ہونے کے گواہ ہیں ۔۔! ۔۔۔۔اگلی نسل کے بحران کیا ہوں گے جو اس وقت پنگوڑے میں ہی موبائیل فون سے محظوظ ہورہے ہیں ۔۔۔!
عشاء کی نماز پڑھ کر دعا طلب کی۔۔۔ ذہن سوچتے سوچتے تھکاوٹ کا شکار ہونے لگا  اور نیند اڑ سی گئی تو الماری میں سے کتاب نکال لی ۔
                                        سلطان زنگی کی بیوہ ۔۔۔

 تاریخ کا آٹھ سو سالہ پرانا کردار جس نے اپنے عظیم الشان  شوہر سلطان نور الدین زنگی کی المناک موت کے بعد اس کے مشن کا بیڑہ اٹھا لیا ۔باوجود اس کے کہ اس کے کمسن بچوں کو  صلیبیوں نے اپنا آلہ کار بناکر رنگ رلیوں میں ڈبو دیا تھا ۔اس نے ہمت نہ ہاری ۔مفاد پرست امرا ء ، امت کے غداروں ، صباح بن فدائین کے ایجنٹوں اور صلیبیوں کی سازشوں اور حملوں کے باوجود اصلاح و تربیت کے ذریعے وہ قوم کھڑی کی جس نے  صلاح الدین ایوبی کے ساتھ  مل کر بیت المقدس پر فتح کا جھنڈا لہرایا ۔
کتاب مکمل کر کے میں  نے سرہانے رکھی اور خیالوں میں اپنی قوم سے مخاطب ہوئی:

 " ۔۔حیا اور تہذیب کے لیے چیلنج ہر دور میں یکساں رہا ہے ۔۔اس سے نبٹنا ہی ہماری  نجات کا باعث بنے گا ۔۔میرے نوجوانوں تمہیں ہی مشعل راہ بننا ہے۔ ہر دور صلاح الدین کا منتظر رہتا ہے ۔۔تمام آزمائشوں کے باوجود ہمیں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے ان شاء اللہ ! ۔۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 فر حت طاہر