جمعہ، 15 جنوری، 2021

قیصر و کسریٰ


 

قیصر و کسریٰ۔۔۔۔۔ایک نظر میں

٭ تاریک راتوں کے مسافروں کے نام جنہیں صبح کا انتظار تھا !٭

یہ انتساب نسیم حجازی کے اس  ناول کا ہے ۔ جو 1400سال پہلے ظلمتوں میں گھری انسانیت کا روشنی کی تلاش میں سفر کی داستان ہے ۔یہ ناول جو آج سے 50/60 سال پہلے لکھا گیا ۔736 صفحات کے اس ناول کو لکھنے میں 5 سال کا عرصہ لگا   بقول نسیم حجازی اس داستان کا دھندلا سا خاکہ تھا اور ربع صدی تک مجھے اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔

پیش لفظ  از مصنف :



 
میرے نزدیک یہ   عجم کے دو جابرحکمرانوں   کے عروج و زوال کی داستان ہی نہیں بلکہ اس صبح درخشاں کے آغاز کی داستان بھی تھی جس کاآفتاب جبل فاران کی چوٹیوں سے نمودار ہونے والا تھا ۔۔۔ ظہور اسلام سےقبل عرب و عجم کے تاریخی، سیاسی، اخلاقی، تہذیبی اور مذہبی حالات پیش کرنے سے میر ا مقصد  عالم انسانیت کے ان تاریک گوشوں  کو نمایاں کرنا ہے جو صدیوں سے روشنی کے منتظر تھے ۔۔۔۔۔۔۔

تعارف

اس ناول کے 3 حصے ہیں :

پہلا حصہ " پیاسی ریت "  میں 11 ابواب ہیں جس میں خطہ عرب ) یثرب )کی صورت حال دکھائی گئی ہے ۔یہ حصہ تقریبا 172 صفحات پر محیط ہے ۔

دوسرا حصہ " آگ اور صلیب " کے عنوان  سے ہے اور 9 ابواب  پر مشتمل ہے  جس میں قیصر و کسریٰ کی رزم گاہیں دکھائی گئی ہے ۔

تیسرا حصہ " پیش گوئی "  کے عنوان سے ہے اور اس میں 24 ابواب ہیں ۔ یہ حصہ قرآن مجید کی سورہ الروم میں  آنے والی رومیوں کے متعلق  پیشن گوئی کے ظہور میں آنے کےزمانے پر محیط ہے  جو بالآخر  اسلام کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔

پیاسی ریت :

باب اول  :

ہر  اچھے ناول کی طرح   قیصر و کسریٰ کا آغاز بھی  منظر کشی سے ہوتا ہے جس میں ناول کے کچھ کرداروں سے آگاہی ہوتی ہے ۔ ان میں ناول کا ہیرو عاصم شامل ہے ۔عاصم ایک عرب نوجوان ہے ۔جری ، بہادر اور غیرت مند !جس کا تعلق قبیلہ اوس سے ہے ۔عاصم کا  باپ سہیل اور بھائی دشمن قبیلے خزرج کے ہاتھوں قتل ہوگیا ہے  اور اب اس کی زندگی کا سب  سے بڑا  مقصداپنے عزیزوں کے خون کا اختتام لینا تھا۔  وہ اپنے  معذور چچا ہبیرہ اور چچی لیلیٰ کے گھر رہائش پذیر ہے جن  کے بچے سالم اور سعاد ہیں ۔دوسرا خاندان مخالف قبیلے خزرج کے عدی کا ہے جس کے 3 بیٹے عمیر ، نعمان اور عتبہ اور بیٹی سمیرا ہیں ۔

آغاز کیسے ہوا ؟

ناول کا آغاز یروشلم کے قریب ایک سرائے سے ہوتا ہے جہان ایک  مغرور شامی رئیس شراب کے نشے میں سرائے کے مالک پر تلوار تان دیتا ہے ۔عاصم اس کی جان بچاتا ہے جس پر وہ غریب مصری اور اس کا خاندان عاصم سے ممنونیت کا اظہار کرتے ہیں ۔ سرائے کا مالک فرمس  اپنی بیٹی انطونیہ اور بیوی  کے ساتھ  عاصم کو کھانے میں شریک  کرتا ہے ۔ دوران طعام  فرمس ذکر کرتا ہے کہ :

"۔۔۔پچھلے ہفتے مکہ کے جوتاجر یہاں ٹھہرے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہاں ایک نبی نیکی ، رواداری اور عدل و انصاف  کی تعلیم دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کے  صادق اور امین ہونے کی گواہی دیتے تھے !"

عاصم نے جوا ب میں کہا کہ  "میں نے مکہ کے نبی کے متعلق یہ سنا ہے کہ وہ ہماری قبائلی اور خاندانی عصبیتوں کا مخالف ہے ۔۔۔۔اگر چہ چند مفلس اور نادا لوگوں یا دو چار اچھی حیثیت کے آدمیوں پر اس  کا جادو چل گیا ہے تو یہ کوئی کامیابی نہیں ۔میں نے کبھی اس نبی کے متعلق سنجیدگی سے نہیں سوچا ۔آپ کو بھی سنی سنائ باتوں سے متاثر نہیں ہوناچاہیے ۔ عرب کی ریت تو  بڑے بڑے دریاؤں کو جذب کرلیتی ہے  پھر وہاں ایک ایسا نبی کیسے کامیاب ہوسکتا ہے جس کی تعلیم کا نقطہ آغاز ہی ان عصبیتوں کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے جو ہمارے لیے اپنے بے شمار خداؤں سے بھی زیادہ مقدس ہیں ۔۔۔"

لیکن فرمس بہت زیادہ  پر امید ہے کہ  ''  وہ ضرور آئے گا اور زمین و آسمان کی ساری۔۔۔۔۔۔اس کے جلال سے قیصر و کسریٰ کے ایوان لرز اٹھیں گے ۔ ناداروں اور مظلوموں کو ا س کی حمیت میں پناہ ملے گی ۔۔۔''

بہت ہی خوشگوار ملاقات کے بعد عاصم اپنے نیک دل میز بان کو  الوادع کہتا ہے  ۔وہ کامیاب تجارت کے بعد گھر لوٹ رہا تھا اور خوش تھا کہ اب اپنے چچا کا قرضہ اتار سکوں گا ! عاصم  فطرتا خون خوار نہیں تھا لیکن اس نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں خاندانی / قبائلی حمیت پر جان دینا ایک نوجوان کی زندگی کا اولین فرض سمجھا جاتا تھا ۔

باب 2 :

بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں میں مختلف ادوار میں ہونے والی رز م گاہوں  کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔ ایک ہزار سال سے یہ  ایران اور اسکے مغربی حریفوں کے درمیان قوت آزمائی کا اکھاڑ ا بنے ہوئے تھے ۔ سائرس کے بعد سکندر اعظم فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہوا پنجاب تک پہنچ گیا ۔پھر جب سکندر اعظم کی عظیم سلطنت کا انحطاط شروع ہوا تو تو یورپ سے رومی بیدار ہوئے۔مذہب عیسوی  مجبور  اور بے بس انسانوں کے لیے ایک نئی زندگی کا پیغام لے کر آیا لیکن یہ انقلاب  بھی مظلوم اور محکوم اقوام کے لیے  ماضی کے ان گنت انقلابات کی طرح محض آقاؤں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہ تھا۔

ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر مشرق اور مغرب کے دو مہیب اژدہے تھے اور 527 ء  میں شرق اوسط کی زمین ان اژدہوں کی زور آزمائی کا اکھاڑآ بن چکی تھی۔ یہ دو ننگی تلواریں تھیں جو آپس میں ٹکرانے کے لیے ہمیشہ بے قرار رہتی تھیں ۔مشرق کی طرف  ایران کے سوا اہل روم کا کوئی مدمقابل  تھا  نہ مغرب کی طرف روم کے سوا ایرانیوں کا کوئی حریف !

عرب روم و ایران کی عظیم سلطنتوں کا ایک گمنام اور حقیر ہمسایہ تھا ۔ اہل عرب مدنیت  اور تمدن کے شعور کی منزل سے صدیوں پیچھے  تھے۔ ان کی تاریخ خاندانی جھگڑوں یا قبائلی جنگوں تک محدود تھی۔قبائلیت  بدوی سوسائٹی کی بنیاد تھی ۔کمزور قبائل کو اپنی سلامتی کے لیے کسی طاقتور قبیلے کی پناہ لینی پڑتی تھی۔

یثرب کا منظر

باب 3 تا 11 :

یہودی اوس اور خزرج کے درمیان جھگڑوں کو اپنی سازشوں کے ذریعے   ہوا دیتے اور ان کو لڑانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے ۔کعب بن اشرف ان کا  سردار جبکہ شمعون اس  کا کارندہ ہے ۔وہ ان کے درمیان مبارزت کو زندہ رکھتےتھےتاکہ دونوں قبائل لڑ لڑ کر کمزور ہوتے رہیں اور ان کے قرض کے بار میں جڑے رہیں ۔اور اگر قرض ادا نہ کرسکیں تو ان کے بیٹوں کو رہن رکھ لیتے تھے۔ان کے نظریے کے مطابق اوس و خزرج کی لڑائی سے ہمیں براہ راست فائدہ پہنچتا ہے ۔

ّ'' ۔۔۔۔مجھے اندیشہ ہے کہ ان کی لڑائی ختم ہوگئی تو وہ کسی دن ہمارے خلاف متحد ہوجائیں گے ۔ہمیں کسی فریق کو بھی اس قدر آزردہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مایوسی اور بے بسی کی حالت میں اپنے دشمن سے مصالحت کرنے پر آمادہ ہوجائے ۔۔۔۔"

کہانی آگے بڑھی ۔۔۔

اتفاقی طور پر  عاصم کوراستے میں اسے ایک  زخمی نوجوان   ملتا ہے جواور کوئی نہیں بلکہ دشمن قبیلے خزرج کے عدی کا بیٹا عمیر ہوتا ہے ۔ عمیر  شمعون کے پاس رہن رکھاہو اہے اس کی نوخیز بیوی کے ہتھکنڈوں سے اپنے آپ کو بچا تے ہوئے بھاگتا ہے جسے شمعون نے اپنے طور قتل کر کے ڈال دیا تھا  تاکہ اس سےدونوں قبائل کے درمیان  دشمنی کو ہوا دی جاسکے) عاصم   ہمدردی کے ناطے بادل ناخواستہ عمیر کی زندگی بچاکراسے گھر پہنچاتا ہے  ۔یہاں اس کی ملاقات عمیر کی بہن سمیرا سے ہوتی ہے  اوردونوں الفت کے رشتے میں بندھ جاتے ہیں ۔سمیرا اس کی بہادری اور جراءت سے متا ثرہوتی ہے تو وہ سمیرا کے ملکوتی معصومانہ حسن سے !

جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عاصم نے عمیر کی جان بچائی ہے تو ان کے اپنے اپنے قبیلے کے لوگ ان کو طعنے دیتے ہیں ۔بزدل اور بے غیرت کے خطاب سے نوازتے ہیں ۔انتقام کی ایک شکل دشمن قبیلے پر احسان کرنا تھا ۔جس کا بدلہ ضروری تھا ۔دوسری طرف  عاصم بھی اپنے خاندان اور قبیلے کے طعنے سہہ رہا ہے کہ اس نے  دشمن کی جان بچائی ۔ دونوں اس استہزا کا شکار ہوتے ہیں حتی کہ عاصم یثرب  چھوڑ کر جانے کا ارادہ کر لیتا ہے مگر سمیرا اس کی راہ میں آجاتی ہے ۔

یہودیوں  کے لیے اوس و خزرج میں   لڑائی تعطل فکر مندی کی بات تھی  چنانچہ وہ پھر منصوبہ بندی کرتے ہیں جس کے مطابق وہ ایک پر حملہ اس طرح ترتیب دیتے کہ  دوسرے پر الزام آئے ۔ اور پھر ان کی سازشیں اس طرح منتج ہوتی ہیں کہ عاصم کی چچی کے بھتیجے عدی کے گھر پر حملہ کر کے عدی ، سمیرا اور اس کے دو بھائیوں  کو قتل کردیتے ہیں اور عاصم جنون کے عالم میں ان کو قتل کردیتا ہے۔ اب اس کے اپنے قبیلے کے لوگ اس کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں ۔چنانچہ وہ یہاں سےمایوس ہوکر نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوجاتا ہے  لیکن جانے سے پہلے وہ  یہودیوں کی سازش کا بھانڈا پھوڑتے  ہوئے یہ کلمات دا کرتا ہے :

" ۔۔۔منذر کے بیٹوں نے سمیرا ، عدی اور نعمان کے بھائیوں کو قتل کی اہے اور میں نے منذر کے بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے لیکن یہ اوس و خزرج میں سے کسی کی فتح نہیں ۔یہ صرف یہودیوں کی فتح ہے ! تمہارے درمیان نفرت کی آگ یہودیوں نے بھڑکائی ہے اور تمہارے خون کے چھینٹوں سے اس کے شعلے بھڑکتے رہیں گے۔ میرا جرم یہ تھا کہ میں نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی تھی  اور مجھے اس جرم کی سزا مل چکی ہے ۔۔ اب مجھے یثرب سے کوئی دلچسپی نہیں ۔۔۔۔"

وہ یہاں سے ناامید ہوکر نامعلوم منزل کی طر ف روانہ ہوجاتا ہے یہ جانے بغیر کہ صرف چند منزل پیچھے جبل فاران کی چوٹیوں پر وہ آفتاب رسالت نمودار ہوچکا ہے جس کی ضیا ء پاشیوں سے یثرب کے درودیوار منور ہونے والے ہیں ۔۔۔۔!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 دوسرا حصہ اگلے بلاگ میں ملاحظہ فرمائیں 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں