پیر، 8 جون، 2020

مہمچک کوۃ العمارہ


23 مارچ سے شروع ہونے والے لاک ڈاون کا پہلا ہفتہ تو غیر معمولی چهٹیوں اور حالات کے رومانس میں گزرا . امتحان کے بوجھ سے آزاد ہوئے تو سب نے اپنی اپنی مصروفیات ڈهونڈ لیں...بچوں کے ساتھ وقت گزارنے میں ایک فائدہ ہوتا ہے کہ بڑے بهی بهولی بسری باتوں کو یاد  کر لیتے ہیں جو روزی روٹی کے چکر میں بهولے ہوئے ہوتے ہیں
.12 سالہ بهانجہ ترکی تاریخی ڈرامہ اپنے خاندان کے ساتھ دیکھ رہا ہے .ہر قسط کی خصوصی بات یا کلپ ضرور گوش گزار کرتا ہے اور اصرار بهی کہ آپ ضرور  دیکهیں ..

.
مثلا  یہ  منظر 1914ء میں بصرہ کے برطانوی  قیدی کیمپ کا ہے جہاں مسلمان قیدی اذان اور باجماعت نماز کے لیے نگرانوں کی سختی سہہ رہے ہیں .جس طرح زبردستی انہیں الگ الگ کیا جارہا ہے جو موجودہ کرونا بحران سے مشابہت رکھتا نظر آتا ہے  اور پهر میں بهی اس کے اصرار پر دیکهنے لگتی ہوں!پہلی قسط دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ دو سال پہلے مجھے  کسی نے اس ڈرامے کا  لنک بھیجا تھا  جسے  میں نے عدم فرصتی اور غیر دلچسپی کے باعث  قابل توجہ نہ سمجھا تھا ۔
 ترکی زبان میں فوجی کے لیے پیار بھرا لقب ہے
   MEHMETICK
یہ کہانی ان چند سر فروشوں کی ہے جو وطن کے دفاع کے لیے سر توڑ کوشش کر تے ہیں اور جن کا ماٹو ہے
                                               ٭جد و جہد ہماری ,فتح اللہ کی ٭     !!
٭تشکیلات مخصوصہ ٭  حکومت عثمانیہ کی خفیہ محکمہ جاسوسی  (انتیلیجنس) ہے جو فوج کے مساوی اور متوازی اہمیت کی حامل ہے ۔معلومات بہت بڑی طاقت ہے  اور جنگ میں تو تھوڑی سی معلومات بھی اہم ہے جس کی بنیاد پر ہاری ہوئی جنگ جیت 
لی جاتی ہے جبکہ کبھی غلط معلومات برعکس نتائج بھی دیتی ہے ۔
 .یہ زمانہ ہے پہلی جنگ عظیم کا اور منظر ہے مڈل ایسٹ کا ...جب برطانوی اور جرمن فوج یہاں اپنے قبضے کے لیے بر سر پیکار تهیں ..اور خلافت عثمانیہ جرمن فوج کی حلیف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تهی۔ ترکوں اور عربوں کو آپس میں لڑانے کے لیے برطانیہ خوب چالیں چل رہا ہے ۔ .کوت  العمارہ بصرہ اور بغداد کے درمیان دریائے دجلہ کے کنارے آباد ایک قصبہ  ہے جو عثمانی سلطنت کے زیر انتظام ہے .

کہانی کا آغاز سلیمان عسکری انچارج سیکرٹ تنظیم کی بریفنگ سے ہوتا ہے جس میں وہ پراجیکٹر پر نقشوں کے ذریعے دشمن کی کاروائیاں اور اپنی تیاریوں کی بابت بتا رہا ہے. دوسری جانب انقرہ میں ایک طالبعلم محمد تقریر کے ذریعے حب الوطنی پر سب کو ابهار رہاہے .وہ  ریٹائرڈ فوجی حصرو کا لے پالک بیٹا ہے جسے وہ اپنے بیٹے سعید کے ساتھ عثمانی بٹالین میں شمولیت کے لیے تربیت دے رہے ہیں ۔ یہ دونوں  نوجوان جوش سے سرشار ہیں.. سعید جذباتی اور جلد باز ہے اور جہاں بهی محمد سے پیچهے رہتا ہے پریشان ہونے لگتا ہے .
سلیمان عسکری اپنی رجمنٹ میں بهرتی کے لیے انتخاب کا معائنہ کرتے ہیں ..سعید نشانے کی کمزوری کے باعث منتخب ہونے سے رہ جاتا ہے ..
برطانوی جاسوس کو روکنے کی کوشش میں محمد  کی ٹانگ میں گولی لگتی ہے اور وہ ہسپتال میں داخل ہوجاتا ہے .اور یوں عثمانی بٹالین کی پوسٹنگ سے محروم رہ جاتا ہے .سلیمان عسکری اس کی جگہ سعید کو تقرر کر لیتے ہیں .
اس کے علاوہ خفیہ ادارے میں خدمات  کے لیے وہ اس کے والد حصرو  کو ذمہ داری تفویض کرتے ہیں .
محمد زخمی ہونے کے باوجود کسی طرح اس ٹرین میں سوار ہوجاتا ہے جو اس بٹالین کو لے جارہی ہے. گویا تینوں باپ بیٹے ایک ہی سفر پر ہیں.محمد کی ٹرین میں موجودگی کا انکشاف اس برطانوی جاسوسہ کے ذریعے ہوتا ہے جسے وہاں قید کیا جاتا ہے جہاں اتفاق سے محمد روپوش ہوا ہے۔سعید محمد کو چهپائے رکهتا ہے  اور خصوصی مشن پر روانگی پر بهی وہ محمد کو صندوق میں ڈال کر اپنے ہمراہ لے جاتاہے۔ اس دوران ان کی برادارانہ چپقلش بھی چلتی رہتی ہے۔  
ان کامشن برطانوی حملے کا شکار ہوتا ہے اور وہ ان دونوں کو قید کر لیتے ہیں۔ 
محمد کسی طرح دستاویز لے کر نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے.صحرا میں بهٹک کر بے ہوش ہوجاتا ہے. اس موقع پر زینب اس کی مدد کو آتی ہے
زینب اپنی نانی کے ساته جڑی بوٹیوں اور زہر کے تریاق سے شفا کا کام کرتی ہے. زینب بهی تنظیم کی ممبر ہے .وہ محمد کی اطلاع سلیمان عسکری کو دیتی ہے .سعید کو بهی رہا کروالیتے ہیں .وہ ان دونوں کی مزید تربیت اور امتحان سے گزارتے ہیں ۔محمد کا مشن اپنے ساتهیوں کے ساتھ بصرہ کی جیل میں قید ہونا ہے وہاں تشکیلات مخصوصہ کا ایک سیکرٹ ایجنٹ موجود ہے ...
منحنی سا بے ضرر علی بظاہر غبی نظر آنے والا ایک ہاتھ سے معذور فرد بہت ہی صلاحیتوں کا حامل اور خاص آدمی ہے. .وہ بلیڈ کے آدهے ٹکڑے کی مدد سے جیل کے 5 سپاہیوں کو قتل کر کے فرار ہوتا ہے  اور پهر بقیہ تمام قیدیوں کو بهی رہائ دلواتا ہے .تب انکشاف ہوتا ہے کہ وہ معذورنہیں ہے بلکہ ذہین فطین اور چست و چالاک ہے!
 اس مہم میں کامیابی کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بر طانوی افواج کو ناکوں چنے چبوا دیتاہے! کبھی بٹلر بن کے جرنل کے مشروب میں زہر ملا دیتا ہے تو کبھی لوڈر بن کر تیل میں ملاوٹ کر کے بر طانوی فوج کی حرکت کو روک دیتا ہے۔
اس کا کہنا تها کہ ہم دشمن کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو اس کو کمزور کرکے اپنا هدف آسان کر سکتے ہیں .بند مٹهی کی  طاقت کو انگلیاں الگ الگ توڑ کر  ختم کر سکتے ہیں
 بہت سی کامیا بیوں کی نوید سمیٹتا،دشمن کے کئی  رازلے کر جب علی اپنے کمانڈر کے پاس پہنچتاہے تو وہ اسے اس جرم میں گرفتار کرلیتاہے کہ اس نے اپنی من مانی کر کے ڈسپلن کو توڑا ہے ! علی کے ساتهیوں  کو معطل کر کے کچن کے کاموں میں لگادیتا ہے ..
 (آہ ! اس موقع پر ناظرین اپنے غم و غصے کے جذبات چهپانے سے قاصر ہیں ..کمانڈر بد نیت نہیں ہے مگر کمزور کہیں یا پهر انا کا اسیر کہ قوم کو خطرات میں جهونک دیتا ہے)
علی کے ساتهی اسے جیل سے فرار کراتے ہیں اور خود بهی بهگوڑے بن جاتےہیں ۔۔   دشمن کا جاسوس  غدار کی مدد سے علی کو گرفتار کر کے اس کے ساتھ  اپنی دوستانہ تصاویر لے کر رہا کر دیتا ہے اور  پهر وہ تصویر عثمانی کمانڈر تک پہنچادیتا ہے
یہ تصاویر دیکھ کر علی کی غداری کا یقین کرکے اس کی یہ تصویر پوسٹڑ بنا کر  شہر میں آویزاں کروادیتاہے .. جس بات پر ایک بچہ بهی یقین کرنے کو تیار نہیں اس پر اتنی بڑی فوج کے کمانڈر کا یقین کرلینا  فہم شناسی کی کمی کا مظہر ہے.. 
اس موقع پر ہمیں علی  اسکوپلو کا یہ کردار نظر آتا ہے کہ اسے دشمن کی سرگرمیوں کی اطلاع ملتی ہے تو وہ سب کچھ بالائے طاق رکهتے ہوئے وطن کی خاطر کمانڈر تک پہنچتا ہے اور اس کو قائل کر کے اطلاع کے مطابق متفقہ پلان بناتا ہے مگر غدار کے ذریعے  یہ پلان   دشمن تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس اطلاع پر  دشمن  ایک جعلی مقابلہ ترتیب دےکر کمانڈر کو یہ تاثر دیتا ہے کہ علی کا پلان غلط تھا ۔۔۔ اوراپنے لحاظ سے پلان بناتا ہے .. 
نتیجا! دشمن اپنی کاروائی کر کے کوٹ العمارہ پر قبضہ کر لیتاہے .سلیمان عسکری سمیت کئی قیمتی افراد شہید ہوجاتے ہیں سب کچه تتربتر ہوجاتا ہے .ہیڈ کوارٹر پر ہلال کی جگہ صلیب والا پرچم لہرانے لگتا ہے۔اگر چہ علی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آبادان کی آئل ریفائنری پر قبضہ کر لیتا ہے مگر کوت العمارہ پر انگریز کے قبضے کے باعث خام تیل کی فراہمی ناممکن ہوجاتی ہے اور اسے تباہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔
انگریز کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور وہ بغداد کی جانب پیش قدمی کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ انہیں یہ یقین ہوجاتا ہے کہ ان کا واسطہ  کمزور ، بیمار اور شکست خوردہ دشمن سے ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  .
یہاں پر پہلا سیزن اختتام کو پہنچتا ہے .کم و بیش 2 گهنٹے کی19  اقساط پر مشتمل یہ سیزن دیکهنے کے بعد ناظر شدت سے سوچتا ہے کہ:
٭ تمام تر جذبوں اور حرکات کے باوجود محض  غلط حکمت عملی کس طرح تمام کیے کرائے پر پانی  پهیر دیتی ہے
٭کسی بھی فریق کی ہار میں غدار بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ عین موقع پر بغاوت اور بزدلی کا مظاہرہ کر کے جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں بدل دیتے ہیں ۔ 
٭تنظیم ہو یا ادارے اعلی عہدے داران اور ذمہ داران جب بهی زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف حکام بالا کی اطاعت کو ہی وفاداری سمجهتے ہوں وہاں ضرور نقصان اٹهانا پڑتا ہے،ساکھ برباد ہوتی ہے۔





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں