.25/جون ! امی کا یوم وفات ۔۔۔ایک تحریر جو 16
سال پہلے اخبار میں شائع ہوئ تھی اب ڈیجیٹل اشاعت کے لیے پیش خدمت ہے
میری امی جان
ہر بچہ اپنی ماں کو
دنیا کی حسین ترین عورت سمجھتا ہے ! جبھی تو اپنی کلاس فیلوز کو جب امی کی
تصویر دکھائی تو مجھے یاد ہے سیما بول پڑی
تھی "
تمہاری امی تو فلاں اداکارہ کی طرح
حسین ہیں ۔۔۔" اور میرا دل چاہا اس کا منہ نوچ لوں ! بھلا ایک ماڈل
گرل میری امی کے حسن کا مقابلہ کرسکتی ہے ؟ یہ بات تو بچپنے اور صرف ظاہری حسن
تک تھی
جبکہ اصل حسن تو ان کے اخلاق میں پوشیدہ تھا جس کا شعور بہت بعد میں حاصل ہوا ۔
ایک مستعد ماں کی اولاد ہمیشہ مشکل کا شکار رہتی ہے کیونکہ وہ ان ہی پیمانوں میں پرکھی جاتی ہے جو
اولاد میں کسی درجے میں شاید کبھی ہوتے ہیں ا ور کبھی نہیں ہوتے ۔ اور کتنی عجیب
بات ہے کہ حسن صورت میں جو اختیاری نہیں اس پر تو احساس کمتری جبکہ حسن سیرت جو کسی
حد تک اختیاری ہے اس میں شدید دوری !شاید ایک انتہا دوسری کو جنم دیتی ہے لہذا ہم میں سے کوئی بھی اپنی ماں کے بلند
معیار اخلاق تک نہ پہنچ سکا !
امی ! آپ کی مروت
سخاوت، سادگی و عاجزی ، نرم خوئی اور انسان دوستی میں کوئی بھی اولاد پاسنگ نہ
تھی اور پھر خود کو جاذب نظر بنانے کے لیے ہم سب کی توجہ اپنے
آپ کو باہنر بنانے میں صرف ہوگئی ( یہ
اور بات ہے کہ ہماری ہر کامیابی آپ کے دیے ہوئے اعتماد اور آزادی کی ہی مرہون
منت تھی) مگر ہماری کوئی ایک مہارت، کوئی
ایک کمال بھی آپ کی کسی ایک خوبی کا مقابلہ نہ کرسکا ۔ سب لوگ آپ ہی کے دیوانے رہے
اور وقت کے ساتھ یہ بات ہمارے لیے قابل فخر بنتی گئی کہ آپ ہماری پہچان ہیں ۔
انسان کو اپنی امار
ت کااندازہ مصیبت اور پریشانی کے وقت ہوتا ہے اگر سر رکھ کر آنسو بہانے کے لیے
ہزاروں کندھے آپ کو دستیاب ہوں ۔ ہم کتنے
امیر ہیں یہ تو ان دنوں پتہ چلا جب آپ بیمار ہوکر ہسپتال میں داخل ہوئیں ۔ کینیڈا
سے کراچی ، امریکہ سے اسلام آباد اور یورپ
سے حید رآ باد ایک مستقل رابطہ تھا لوگوں کا جو آپ کے لیے پریشان تھے ، دعاگو تھے ۔ حالانکہ آپ کوئی عوامی شخصیت نہ
تھیں مگر جو آپ سے ایک دفعہ بھی ملا آپ کا
پرستار تھا اور یہ سب تو آپ کی محبتوں کے اسیر تھے ۔
10 جون 2009 ء کو
جب انتہائی نا توانی کے عالم میں آپ آئی سی
یو میں داخل ہوئیں تو ہم سب بھائی بہنوں کے دلوں میں ایک بات تھی جو زبان
پر نہیں آرہی تھی کہ " یہ وہی
تاریخ ہے جب آج سے 6 سال قبل اباجان اسی اسپتال کی ایمر جنسی میں ہم سے جدا
ہوئے تھے " اور پھر پورے پندرہ دن تک
ہم سب کا مرکز و محور آپ رہیں امی جان ! مسقط سے دمشق اور نارتھ کراچی سے گلستان
جوہر ایک دائرہ سابن گیا تھا جس میں ہم سب کی جان موت اور زیست کی کشمکش میں تھی ۔
اس دوران کیے جانے والے ایس ایم ایس اور ٹیلی فون کالز کا
حساب فرشتے ہی رکھ سکتے تھے ۔ آپ کی فائل
موٹی ہوتی گئی اور حالت ردی ! آپ کی تیزی سے پگھلتی شمع زندگی کو دیکھ کر دوسرے
ہسپتال کو ریفر کرنا ، پھر ایمبولنس کا سفر اور آئی سی یو میں دوبارہ داخلہ ! اور پھر آپ
کا سائیکوسس کا شکار ہونا ! کتنی عجیب
بات ہے ناکہ ہم بھائی بہنوں کی کم گوئی
اور مردہ دلی اور آپ کی زندہ دلی اور باتونی شخصیت زندگی بھر کشمکش میں رہی مگر ان پندرہ دنوں میں
صورت ھال آہستہ آہستہ بالکل برعکس
ہوتی گئی ۔ آپ کی زبان خاموش ہوتی گئی اور ہم سب بول بول کر تھک گئے ۔
آپ کے تبصرے ہوں ہاں تک محدود ہوتے ہوتے
اس جزیرے تک پہنچ گئے جہاں صرف رب
کی سرگوشی ہوتی ہے اور کان صرف و نحن اقرب
الیہ منکم کی پکار سنتے ہیں مگر نہیں
ابھی تو کچھ مرحلے باقی تھے ۔
آپ کی مایوس
کن حالت پر ہم سب کے اعصاب جواب دینے لگے ، ڈاکٹرز ناامید اور انتظامیہ اپنے بل سے
مطمئن ہوگئی تو پھر ہمارا کارواں ایمبولنس
پر سوار ایک اور اسپتال کی طرف رواں دواں ہوا ، جہاں آکر آپ کی ظاہری حالت تو
پرسکون ہونے لگی مگر کانشسس لیول نہ ہونے کے برابر رہ گیا اور صرف اور صرف
دعاوں پر انحصار رہ گیا ۔
کیسے تھے وہ
لمحات ! ایک مہربان دین دار لیڈی ڈاکٹر آپ کی دیکھ بھال پر مامور تھی اور عصر مغرب کے درمیان فرشتوں کی تبدیلی کے اوقات جب میں آپ کے سرہانے کھڑی تسبیحات دہرارہی
تھی اور آپ لپک کر اپنے رب سے ملنے چل دیں ! آپ ہمیشہ لوگوں سے
ملاقات کو بے چین رہتی تھیں اور خوش آمدید کہنے کو تیار ! یہ تو رب اعلیٰ کی پکار تھی ، فرشتے لینے آپہنچے ! کیوں نہ جلدی
کرتیں ؟
مجھے ڈاکٹر نے زبر دستی
باہر بھیج دیا۔ میں روتی ہوئی آئی سی یو سے نکلی تو ٹی وی اداکارہ عائشہ خان اپنے
بھانجے کو دیکھنے داخل ہورہی تھیں۔انہوں نے مجھے گلے لگاکر بوسہ دیا اور توجہ
دلائی کہ رونے کا نہیں دعا کا وقت ہے کتنی مبارک گھڑی ملی ہے تمہاری ماں کو.! کس قدر قابل رشک ہے ان کی
روانگی ! ان کی تسلی نے مجھے ہمت
دی ۔ میں آئی سی یو کے لاونج میں کھڑی آپ
کے اس الوداعی سفر کی اطلاع لوگوں کو دے رہی تھی تو اسی لمحے موبائل پر میاں طفیل
محمد کی جدائی کی خبر بھی ملی ۔ آپ ہمیشہ اچھے لوگوں کے درمیاں رہنا پسند کرتی تھیں لہذا اس موقع پر
بھی تنہا نہ تھیں ۔
جب روحوں کا قافلہ آسمان کی رفعتوں میں داخل ہوا ہوگا تو فرشتے بھی ان پر رشک کر رہے
ہوں گے ۔آپ صرف زمینی نہیں آسمانی مخلوق میں بھی مقبول رہی ہوں گی جبھی تو ہم سب پر ایک سکینت طاری ہوگئی ہے ! شب جمعہ میں تدفین کے بعد بارش کا نزول ! اللہ
آپ کی ہر منزل آسان کرے آمین اور امید ہے
کہ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوا ہوگا کیونکہ
آپ کی وفات کے بعد اندازہ ہوا کہ بہت پر آسائش زندگی گزارنے کے باوجود آپ کا سامان
زیست بڑا مختصر نکلا ۔ سب کچھ تو آپ اپنے ہاتھوں سے تقسیم کر چکی تھیں ۔ یقینا
حساب کتاب میں ہلکی رہی ہوں گی اور یہ ہی
دعا آپ کی ڈائری کے آخری تحریر کردہ صفحے پر الحسیب کی تشریح میں لکھی تھی ۔
یہ وہی ڈائری ہے جو آپ باقاعدگی سے لکھتی تھیں
اور جو آپ کے اسپتال کے قیام کے دوران بچے
بحفاظت لیے پھر رہے تھے کہ نانی/ دادی
واپس آکر لکھیں گی اور اب مایوس ہیں کہ اسے کون مکمل کرے گا ؟ آدھی ڈائری تو
خالی ہی رہ گئی ہے ۔ بچوں کو تو یہ افسوس بھی ہے کہ وہ ڈھیروں کہانیاں جو
چھٹیوں میں آپ سے سننے کے لیے جمع کی تھیں
اب کون سنائے گا ؟
اپنے اپنے افسوس کے ساتھ ہم سب آپ کی جدائی پر
نڈھال ہیں مگر آپ کی خوش قسمتی پر رشک
آرہا ہے کہ آپ ہمیشہ لوگوں کے درمیان خوش
اور مطمئن رہتی تھیں ۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی مصروفیات نے میل جول کم کردیا تو بھی
ٹیلی فون کے ذریعے لوگوں سے رابطے میں
رہتی تھیں ۔ اب وہاں بھی اپنے بہن بھائی ، شوہر، سہیلیوں اور دیگر رشتہ
داروں کے ساتھ مصروف اور مطمئن ہوں گی اور
ننھی فضہ نے تو چونکا دیا سب کو یہ کہہ کر کہ
نانی اپنے بچوں کے ساتھ آرام سے جنت میں پھل کھا رہی ہوں گی !ہم سب کے
استفسار پر بولی ۔۔" آپ کو پتہ نہیں آپ کے تین بہن بھائی پہلے سے اللہ میاں
کے پاس موجود ہیں ۔۔"
اف یہ بچے ! کس قدر
زبردست تخیل رکھتے ہیں ۔ہم سب کو یہ بات
معلوم تھی لیکن خیال ہی نہ رہا کہ ۔ یہاں آپ اپنی اولاد کو دیکھ کر تقویت حاصل
کرتی تھیں کہ جن کی تمام سرگرمیاں ،
دلچسپیاں اور مصروفیات آپ کے گرد گھومتی تھیں ۔ گھر کا مینو ہا یا ترتیب ، کوئی
دعوت ہو یا پروگرام ۔۔۔آپ کو محور بنا کر مرتب کیا جاتا تھا اور اس پر آپ کا احساس تشکر ہم سب کے لیے
خوشی کا باعث ہوتا تھا اور اس خوشی
سے آپ وہاں بھی محروم نہیں ہیں! کتنا دلآویز تصور دیا ہے اس بچی نے !!
اسی طرح اور بہت سی باتیں
اپنے بچپن، اپنی زندگی، اپنے اسکول ، اپنے اساتذہ ، اپنے دوستوں اور کھیل کھلونوں
کی جو آپ نے اپنی اولادوں اور ان کی اولادوں کے ساتھ شئیر کی تھیں ۔ایک خوبصورت سرمایہ ہے ان سب کے
لیے ! ہم سب کے لیے آپ کا سرمایہ ، آپ کی
قناعت و توکل اور انسانیت کی فلاح کا اجتماعی تصور ہے جس پر ہر ایک اپنی اپنی
تشریح کے مطابق عمل پیرا ہے ۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ اپنی گویائی معدوم ہونے سے
پہلے آپ نے مجھ سے قلم کے بارے میں دریافت
کیا ۔ میں نے پوچھا آپ کچھ لکھیں گی ؟ تو کہنے لگیں نہیں تم لکھو ۔ یہ اس بات کا
واضح اشارہ تھا کہ میں ان کی کیفیات ،
اسپتال کے حالات ، اور انتظامیہ کے رویے کے بارے میں لکھوں ۔یہ ان کی مجھ سے امید
تھی ۔ان کی خواہش اپنی جگہ مگر میری تحریریں آپ کی حوصلہ افزائی سے ہی تو نمو پاتی
تھیں ۔اب ان میں وہ رنگ کہاں سے آئے گا ؟ ماں سے محرومی کا دکھ تو موسیٰ نے بھی
سہا تھا ۔ اب ہمیں بھی ایک ملال اور فکر مندی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے !
امی سے زندگی بھر ہم شاکی
رہے کہ آپ دوسروں کو ہم پر ترجیح دیتی ہیں
۔ مجھے یاد ہے ایک دن میرے اس شکوے پر آپ بول پڑی تھیں
" تمہیں اسلام آباد جانا تھا ، اگر میں نہ
جگاتی تو تمہاری فلائٹ چھوٹ جاتی ۔ تمہا را انٹر کا پریکٹیکل تھا ، کتنی بارش تھی
جو میں تمہیں لے کر گئی تھی ۔۔" اور
میں غصے میں ہونے کے باوجود آپ کا بازو پکڑ کر ہنس پڑی تھی آپ کی معصو میت اور سادگی پر ! آپ سے کہہ نہ سکی تھی مگر آج اس کالم کے ذریعے
کہنا چاہتی ہوں کہ آپ آن چھوٹے چھوٹے احسانات کو مت یاد دلائیں ! یہ تو ایسے ہیں
جیسے بڑے بڑے ذخائر سے گرنے والے چند موتی !
ہماری تو زندگی ہی آپ کی احسان مند ہے ( اور یہ جاننے کے بعد کہ ایک نایاب
ترین بلڈ گروپ رکھنے کی وجہ سے اولاد کی پیدائش کتنا بڑا رسک تتھی آپ کی زندگی کے
لیے ! جس کو اٹھا کر آپ نے ہم سب کو جنم دیا ۔ اس احسان کا بار کئی گنا بڑھ گیا ہے )
بس آپ
ایسی ہی تھیں ۔ بچوں کی طرح معصوم جو بہت قیمتی اشیا ء کے مقابلے میں معمولی چیزوں
سے بہل جاتے ہیں ۔ مگر آپ کا درجہ اور احسان اتنا سطحی نہیں ہے ۔ اس کے لیے تو
قیمتی سے قیمتی انعام بھی ہیچ ہے ۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اشتہار میں آنے والے
بچے کی طرح ڈائس پر کھڑے ہوکر ساری دنیا کو بتادوں :
" میں آپ کے احسانااات نہیں گن سکتی ۔ میری
زندگی کی ہر کامیابی کی اصل حقدار آپ ہیں امی جان !!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحت طاہر
:نوٹ
اپنی ماں کے متعلق لکھنا پچھلے 20/ 25 سال سے ایجنڈے میں تھا ۔۔شاید چینلز کے ذریعے مدرز ڈے
کی خصوصی نشریات کا اثر تھا ۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ امی کے متعلق جب بھی کچھ لکھنا
شروع کیا خواہ کاغذ قلم سے یا کی بورڈ کے ذریعے، وہ تکمیل نہ پاسکا اور حتی کہ حذف
بھی ہوگیا ۔۔۔
!شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ امی کا تشہیر سے اجتناب کا رویہ ہمارے آڑے آتا رہا ہو
زیر نظر تحریر کا بیشتر حصہ اس وقت لکھا گیا جب
میں ان کے ساتھ اسپتال میں تھی ۔۔مجھے لکھتے دیکھ کر ڈاکٹرز اور اسٹاف اکثر چوکنا
ہوکر میرا ذریعہ معاش پوچھنے لگتے کہ کہیں میں ان کے خلاف کوئ رپورٹ نہ لکھ رہی
ہوں
اپنے احساسات کو ان کے انتقال کے بعد اشاعت کے
لیے بھیج دیا جو فورا ہی شائع ہوگیا ۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے اصلی نام کے بجائے
کنیت کا سہارا لیا لیکن اس کے باوجود بہت سوں نے پہچان کر فون پر اپنا تبصرہ دیا ۔
نوٹ : اگرچہ اس مضمون کو دوبارہ شائع کرنے میں
تبدیلی کی بہت گنجائش تھی لیکن ماسوائے کچھ انگلش الفاظ حذف کرنے کے اس کو جوں کا
توں ہی شائع کر رہی ہوں کہ یہ اس وقت کی ذہنی کیفیت کو درست انداز میں ظاہر کر سکے
۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں