ہفتہ، 21 جون، 2025

بدلتی رت

 


 بدلتی رت

 

نومبر 1970 ء 

حیدرآباد، سندھ

" چچی جان !  شاہینہ کو چھوڑ جائیں ! ابھی تو الیکشن  کی وجہ سے  اسکول بند ہوں گے !۔۔۔" روحی نے اپنی چچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

 شاہینہ اور اسکے بہن بھائی اپنی والدہ کے ہمراہ  عید منانے تایا جان کے گھر  کراچی سےآئے ہوئے تھے ۔ ملک کے حالات  اورچھوٹے بچوں کے ساتھ سفر آسان نہیں تھا   لیکن چونکہ  دادی جان بھی  یہاں تھیں اور ان کے ابا ملک سے باہر تھے تو یہ ہی مناسب فیصلہ تھا۔

" نہیں بالکل نہیں ! امی ووٹ ڈالنے جائیں گی تو پپو کو کون سنبھالے گا ؟  " ماجد بھائی نے شاہینہ کا  بازو پکڑتے ہوئے کہا   تو سب ہنس پڑے ۔ امی جان نے پیار سے اپنے  بارہ سالہ بیٹے کو دیکھا جو اپنےوالد کی غیر موجودگی میں بہت ذمہ دار بن گیا تھا اور بول پڑیں ۔

"   ہاں بھئی میرا ماجد اخبار پڑھتا ہے ،ریڈیو پر خبریں سنتا ہے  اور پنے نانا کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرتا ہے ۔  اس کے سیاسی شعور  کو ہرگز ہلکا نہ لیں ۔۔۔" 

اس محفل کے ساتھ ہی الوداعی لمحات آگئے  اور وہ سب کراچی  واپس ہولیے۔

 گھر پہنچتے ہی امی جان تو  گھر کے کاموں میں لگ گئیں اور بچے شام ہوتے ہی محلے میں کھیلنے چلے گئے۔ چونکہ  عید پر یہاں نہیں تھے تو بہت سی باتیں کہنی سننی تھیں ۔ عیدی کا حساب کتاب پوچھنا  اور بتانا تھا۔

 شاہینہ گلی میں نکلی تو عالیہ اپنے چھوٹے بھائی کو کمر پر اٹھائے عید کی باقیات چشمہ، گھڑی پرس لٹکائے آتی نظر آئی ۔ لیکن شاہینہ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھنے کے باوجود نظر انداز کرتے ہوئے  عبد الحنان کےگھر گھس گئی ۔ شاہینہ حیرت زدہ رہ گئی کیونکہ ان دونوں کے گھروں میں بالکل آمد و رفت نہیں تھی۔ باوجود اس کے کہ ان کی زبان ایک تھی ۔عبد الحنان   کاگھرانہ شدید  مذہبی تھا جبکہ عالیہ کے گھر میں  جدیدیت تھی ۔شاہینہ  اپنے بھائیوں کے ساتھ  کبھی کبھار  عبد الحنان کے گھر چلی جاتی تو اس کی امی زبان نہ جاننے کے باوجود  اس کی آؤ بھگت کرتیں کہ ان کی کوئی بیٹی نہ تھی۔ ان کو کٹھل اور ناریل کی مٹھائی کھلاتیں ۔ عبد الحنان اور اس کے بھائی  بھی شاہینہ کا بھرپور سواگت کرتے  تھے۔

عالیہ کے پیچھے پیچھے شاہینہ بھی اندر داخل ہوئی ۔  وہ سب باغیچے میں بنے حوض میں کاغذ کی کشتیاں بنا کر ڈال رہے تھے۔ ہنس ہنس کر ایک دوسرے سے بنگالی میں باتیں کر رہے تھے ۔ شاہینہ کو دیکھتے ہی  عالیہ نے نہ جانے کیا کہا کہ وہ سب  قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔  ابھی شاہینہ کچھ سمجھ ہی رہی تھی کہ ماجد نے آکر اس کا ہاتھ پکڑا اور گھر واپس لے گیا۔  ان دونوں گھروں  میں  آنے جانے کی پابندی   شاہینہ کو کچھ سمجھ آئی کچھ نہیں !  بہر حال  اس دن کے بعد وہ دونوں گلی میں  بالکل نظر نہیں آئے ۔  بچوں کی کمی نہ تھی لہذا شاہینہ اور اس کے بہن بھائی  دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگے ۔

 ایسے میں انتخابات  کا دن بھی آگیا۔جس کی خصوصی  نشریات  جمیلہ آنٹی کے گھر لحافوں میں گھس کر  ٹی وی    دیکھنے میں بڑا لطف آیا ۔ مزیدار چٹکلے  اور مختلف ڈرامے  سے لطف اندوز ہوئے لیکن نتائج بڑوں کو  تفکرات میں مبتلا کر رہے تھے ۔ بد ترین اندیشوں کی تصدیق ہوتی جارہی تھی  ۔ نیاسال نئی  پریشانیاں لے کر وارد ہوا ۔ مشرقی پاکستان سے پریشان کن خبریں آنے لگیں اور پھر بالآخر جنگ کا        بگل بج گیا ۔ خندق اور بلیک آؤٹ بچے پہلی دفعہ سن رہے تھے ۔ چھوٹے بچوں کے کانوں میں روئی ٹھونس دی جاتی تھی کہ بم کی آوازوں  سے متاثر نہ ہوں ۔ خندق میں   نت نئے کھیل ہوتے ۔ کبھی باہر نکلتے تو بچے آپس میں  ملاقات کرتے   مگر کھیل نہ پاتے کہ کوئی نہ کوئی آنٹی  بچوں کو دعائیں پڑھوانے میں لگ جاتیں ۔ جنگ ختم ہوئی اور سب خندقوں سے باہر آئے لیکن یہ کیا  ؟سب بڑے رو رہے تھے ۔ ننھی شاہانہ نے امی کو روتے دیکھا تو بولی

"۔۔۔۔ابا کو بلالیں وہ ٹھیک کردیں گے !   "                                               امی نے اسے گلے سے چمٹا لیا ۔

 شاہینہ کی پھوپھی مشرقی پاکستان میں رہتی تھیں ۔ ان سے رابطے کم ہوتے ہوتے ختم ہوگئے تھے۔ لیکن پھر ابا جان کے ذریعے ریڈ کراس کے تعاون سے ان کی خیریت کی اطلاع ملی اور پھر وہ لوگ بھی کراچی آگئے ۔ بدحال اور لٹے پٹے ! پھوپھی کے بچے سنبل اور صباح الدین شاہینہ اور اسکے بھائی کے ہم عمر تھے ۔ سنبل نے بتایا کہ بلبل اورجھرنا ان کےپڑوسی  اور دوست تھے ۔ ساتھ  کھیلتے اور اسکول جاتے تھےلیکن انہوں نے ہم سے بات چیت بند کردی ۔ اگر کبھی ضرورت پڑتی تو انگریزی میں بات کرتے کہ اردو ہماری زبان نہیں ہے ! تو کیا  انگریزی   ان کی زبان ہے ؟  شاہینہ نے بات کاٹی

 " نہیں  بنگالی ۔۔۔!           "   " اور انہوں نے ہمارے قائد اعظم اور پاکستان  کو گالیاں دیں ، ان کی تصاویر  پھاڑیں ، پاکستان کے جھنڈے کو آگ لگائی ۔۔۔۔"

اوہ ! ۔۔۔"                                                      شاہینہ نے اپنی بات کہی ۔

عالیہ کے  گھروالے  آزادی کا گیت گاتے   یہاں سے روانہ ہوگئے۔ عبد الحنان کے گھر تالا لگ گیا ۔ سب سے زیادہ غم بچوں کو قاری صاحب کے جانے کا تھا ۔ ابھی تو شاہانہ، ساجد، امجد کا قرآن نامکمل تھا۔ ننھا پپو جس کا نام راشد منہاس کی شہادت کے بعد راشد رکھ دیا گیا تھا ۔  اگر اسے کوئی  ڈانٹتا  تو اپنی توتلی زبان میں کہتا کہ کیا میں بنڈالی ہوں جو مجھے ڈانٹ رہے ہیں !! "                                 حالات بدلنے لگے تھے ۔

اسکول میں  بچوں نے کاغذ زمین پر پھینکے ہوئے تھے ۔ پرنسپل مسز شاہ نے اسمبلی میں بچوں کو بہت ڈانٹا ۔

"۔۔۔آپ کو پتہ نہیں ہے مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا ۔ کاغذ  وہیں سے آتا تھا  ۔ اب ہمیں مہنگا باہر سےمنگوانا پڑے گا ! "

   آہ مشرقی پاکستان !!! نقصان کاتخمینہ الگ  یہاں تو نفرت کے دریا بہنے لگےتھے  دونوں بازوؤں میں !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نومبر 2010 ءء

مکہ مکرمہ

شاہینہ ،  بھائی  اور خاندان کے دوسرے  افراد حج پر آئے ہوئے تھے ۔ منیٰ میں  ارکان حج کی ادائیگی تھی ۔ نا اہلی کہیں یا بد  دیانتی کہ تمام ادائیگی کے باوجود ان کی رہائش    کا  انتظام بہت ناقص تھا  چنانچہ وہ سڑکوں پر شرطوں کی ڈانٹ سن کر رل رہے تھے   ۔  ایسے میں شاہینہ اپنے گروپ سے بچھڑ گئیں ۔ کراچی سے ان کی بیٹی کا فون آیا تو وہ حالات جان کر پریشان تھی۔ ان کی بات سن کر قریب سے ان کی بیٹی کی ہم عمر   لڑکی ان کے قریب آگئی کہ مدد کر سکے ۔ لیکن ان کے درمیان زبان کی رکاوٹ تھی کہ شاہینہ کو بنگالی نہیں آتی تھی اور  اس کو اردو۔  بد قسمتی کہ عربی سے دونوں ہی  ناواقف تھیں چنانچہ ان کو  انگریزی کا سہارا لینا پڑ رہاتھا۔

 سویرا نام کی اس لڑکی نے شاہینہ کو سہارا دیا اور اپنےفون سے ان کے گروپ کے لوگوں سے بات  کروائی کیونکہ ان کے فون میں بیلنس ختم ہوگیا تھا۔اس نے شاہینہ کو  بتایا کہ   اس کی والدہ  کا بچپن  پاکستان میں  گزرا ہے ۔۔۔مزید تفصیل سے معلوم ہوا کہ وہ عالیہ ہی کی بیٹی ہے ! سویرا نے بتا یا کہ میں اپنے تینوں بچوں کو انہی کے پاس چھوڑ کر آئی ہوں ! لمحے بھر میں چالیس سال  پرانے  واقعات اور چہرے  گھوم گئے ۔شاہینہ کا بس نہیں چل رہاتھا کہ اس بے سرو سامانی  کے باوجود  کچھ تحفہ،  کوئی یادگار عالیہ اور اس کی بیٹی کے لیے  دے لیکن اس کی مہلت ہی نہ آئی ۔ ایک مرد جو یقینا سویرا کاشوہر  تھا ۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر غصے سے لے  گیا ۔اس کاگروپ ساتھ  تھا جو حقارت سے شاہینہ کو دیکھ رہاتھا ۔ وہ اپنی بیوی کو گھرک رہا تھا کہ پاکستانیوں سے رابطہ رکھنا ہماری حکومت کے لیے کتنا نا پسندیدہ ہے !اتنے میں شاہینہ کے گھر والے بھی اس کو ڈھونڈتے آپہنچے اور وہ سب بھیڑ میں گم ہوگئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگست 2024 ء

 ڈھاکہ

بریکنگ نیوز : احتجاجی مظاہرے میں شریک تقریبا    50 لاکھ افراد نے حسینہ واجد کے استعفی اور ملک سے فرار کے بعد اپنے مطالبات کو تسلیم کروالیا َ

ہر طرف خبریں تھیں ، تجزیے تھے ، !   "فضا  " امی کہ ، تمی کہ ؟  رجا کار ، رجا کار!"  ( ہم کون ؟ تم کون ؟ رضا کار ، رضاکار ) کے نعروں سے گونج رہی تھی 

شاہینہ سوشل میڈیا  کے ذریعے  بدلتی رت کا نظارہ کر رہی تھی ۔ یہ شاید ان ہی   بہت سے لوگوں کی روحانی نسل تھی جو  اپنے ہی ہم زبانوں کے ہاتھوں تختہ دار پر چڑھ گئے ۔کتنوں نے قربانیاں  دیں  ، ایک جہد مسلسل تھا  جو ظلم کے خلاف روا رکھا گیا  اب یہ ہی  افراد بھارت کی غلامی سے آزاد ہوکر فتح کا جشن منارہے تھے۔ بھارت سےمنسلک ہر چیز تہ و بالا کی جارہی تھی ۔  

۔۔۔۔شاہینہ  سوچ رہی تھی یقینا ان لوگوں میں عالیہ اور عبد الحنان جیسے  گھرانے  بھی ہوں گے جو اپنی   ترپن سالہ پرانی  غلطی کی تلافی کررہے ہوں گے !!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 فرحت طاہر

 کراچی

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں