بدھ، 12 اگست، 2020

یہ تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے !..''

 




''…..یہ تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے !..''

 

یہ محاورہ عموما کسی  بہت آسان یا سہل کام کے لیے بولا جاتا ہے ! شاید اس کا مطلب یہ ہو کہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والایعنی کھبا  فرد زندگی میں اتنی مشکلات اٹھاتا ہے کہ اس کے لیے کوئی بھی کام آسان ہو جاتا ہے ۔ اگر آپ اس تحریر کو کسی کھبے کی تکلیف بھری زندگی کا احوال سمجھ رہے توغلط ہوگا !

ہر انسان منفرد ہے لہذا  اس کی کمزوریاں بھی جدا جدا ہیں ۔مثلا ہمیں سمتوں ( directions) کے بارے میں ہمیشہ الجھن رہتی تھی ۔ دائیں یا بائیں ؟               (              اس میں کون سی انوکھی بات ہے ! دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی اس مسئلے سے دوچار ہے  خواہ یہ سفر عملی ہو یا عقلی ! ) لیکن ہمیں تو آپ بیتی ہی بتانی ہے !  

پرائمری ٹیچر مس فہمیدہ اپنائیت بھرے لہجے میں شکایت کرتیں

''۔۔۔۔کام  بہت اچھا کرتی ہے مگر ہدایات کو درست طریقے سے نہیں سنتی ۔۔سیدھا ہاتھ اٹھا نے کو کہو تو الٹا اٹھا لے گی ، بائیں طرف سے آنے کو کہوں تو سامنے سے آجائے گی ۔۔۔۔"   مسئلہ سماعت کا نہیں تھا بلکہ ہماری سمجھ کا تھا !   ان کے  شہد ٹپکاتے رویے  کے بعد سیکنڈری میں آئے تو  معاشرتی علوم کی ٹیچرزہر بھرے لہجے میں  اسے  ہمارے دماغ کا فتور قرار دیتیں اور اس کا حل بھی پیش کرتیں ۔۔کھیل کے ساتھی بھی ناراض رہتے خصو صا جن کھیلوں میں ہدایات کا مسئلہ ہوتا ۔۔۔! ارے آپ تو ابھی سے ہماری مظلومیت پر افسردہ ہوگئے !بات صرف اتنی نہیں ہے ہماری اس الجھن کے کچھ اور اسباب تھے  جو زندگی بھر ساتھ رہ کر ہماری دائمی کمزوری بن گئے تھے!

 ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ہماری والدہ سمیت سارے بہن بھائی لیفٹ ہنڈڈ  تھے !  (بھلاجس گھر میں اسی فی صد افراد  بائیں ہاتھ سے کام کرتے ہوں وہا ں سیدھے ہاتھ سے کام کرنے والا ہی handicapped  ہوگا نا!)                  دنیا میں اکثر یت  سیدھے ہاتھ والوں کی ہے لہذا سارے انتظامات اسی کے لحاظ سے ترتیب پاتے ہیں  خواہ مشینوں کے ہینڈلز  ہوں   یا پہیے!۔۔۔۔۔۔  آپ نے دیکھا ہوگا کر کٹ میں لیفٹ ہینڈڈ باؤلر یا بیٹسمین کے آتے ہی فیلڈ کی ترتیب بدل جاتی ہے ۔۔یہ تو ٹھہرا شاہی کھیل! وقت گزاری کے لیے ہی کھیلا جاتا ہے ترتیب بدلنا مسئلہ نہیں مگر گھروں میں  ہر وقت ترتیب بدلنا   ممکن نہیں  اور بے چارے بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے والے تکلیف اٹھاتے ہیں لیکن   چونکہ ہمارے  گھر میں اکثریت بایاں ہاتھ استعمال کرنے والوں کی تھی اور لہذا اکثریت کو مد نظر رکھتے ہوئے گھر کی ترتیب و نظم قائم ہوتی چنانچہ یہاں ہم مشکل کا شکار  تھے  ۔ کچھ جھلکیاں ملاحظہ ہوں :

ٹی وی اینٹینا درست کرنا ہے  یا پانی کی موٹر کا  معاملہ ہے ! بڑےبھائی ہدایت دیتے ہیں      "سیدھی طرف گھمانا ہے ۔۔۔"اور ہم الجھن کا شکار کھڑے ان کی ڈانٹ سن رہے ہیں ! منجھلے بھائی ذرا سائنسی اصطلاح  استعمال کرتے یعنی کلاک وائز یا اینٹی کلاک وائز   گھمانا ہے مگر ہم ان کے معیار کو بھی نہ پہنچ پاتے ! وجہ وہی اپنی ہچکچاہٹ  !

درجنوں بار ایسا ہوا کہ ہم دونوں بہنیں  رکشہ یا  گاڑی میں سفر کر رہے ہیں اور  ڈرائیور نے سڑک کے موڑ پر گاڑی روک دی کہ آپ دونوں فیصلہ کرلیں دائیں مڑوں یا بائیں ؟ بہت دفعہ کی بے عزتی کے بعد ہمارے درمیان ایک  معاہدہ طے ہوگیا تھا کہ اگر ایک  راستہ بتا رہا ہو تو دوسرا  خامشی اختیار کرے گا  الا یہ کہ بالکل ہی غلط جانے کا امکان پیدا ہوجائے !!                                                گھڑی کس ہاتھ میں باندھنی ہے ۔۔۔۔؟ بیگ کو کس طرف لٹکانا ہے !   قبلہ کس طرف ہے ؟ جیسے مسائل   ہمیں گھیرے رہتے !

امی کو ہمیشہ شکوہ رہا کہ تم میرا ادھورا کام مکمل  نہیں کر سکتیں اور ہمیں افسوس کہ ہم ان سے کوئی ہنر نہ سیکھ سکے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم بالکل ہی بے ہنر رہے! محلہ کی خواتین نے ہمیں کچھ نہ کچھ نہ کچھ سکھا ہی دیا تھا پھر انٹر کی طویل چھٹیوں میں  ہمارا داخلہ سلائی کی کلاس میں کروادیا تھا جو ہم اس مہارت کو سیکھ سکےلیکن   کچھ تو کھبوں کے ساتھ رہنے کے اثرات کہیں یا  کچھ خاندانی اثر ( ہمارے دادا جان بھی لیفٹ ہینڈڈ تھے !)  کہ ہمارے اندر بھی جراثیم تھے یا ہمارے تذبذب کا نتیجہ کہ کسی کے سامنے کام کرتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی  ۔وجہ ؟  ہمیں کام کرتےہوئے  دیکھنا ہمارے ان مہر بان ہستیوں پر بہت گراں گزرتا

'۔۔۔سوئی کیسے پکڑی ہے !   "                                                                                                              " کپڑے کو اس طرح سے  موڑ کر پکڑتے ہیں ۔۔"

سلائیوں کو انگوٹھے اور انگلی کے درمیان  پکڑا کرو ۔۔!  وغیرہ وغیرہ  جیسی ہدایات ہمیں مزید کنفیوز کرتی۔ کبھی کبھار کسی کے ہاتھ سے کام لے کر اسے  آسانی  بہم پہنچانے کی کوشش کرتے مگر بقول ان کے تمہیں تکلیف سے  کام کرتے دیکھ کر لگتا ہےکہ تم پرکتنا  ظلم ہورہا ہے ۔۔۔اور کام  واپس لے کر خدمت سے محروم کر دیتے    ۔ہمارا خیال ہے کہ وہ کام کے معیار کی بابت  فکر مند ہوتے ہوں گے !  اور اگر کوئی کام تنہائی میں مکمل کرتے تو شبے کا اظہار کیونکہ  ہمیں خود کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا !نتیجہ ؟  ہماری کارکردگی عدم اعتماد کا شکار رہی ۔

دوران تدریس ایک دفعہ  اسکول میں میلہ منعقد ہوا جس میں تما م ہی ٹیچرز کو کوئی نہ کوئی دستکاری کا اسٹال لگانا  تھا ۔ ہم نے فیبرک پینٹنگ  کا منصوبہ بنا یا ۔ اس کے لیے صوفہ پر ڈالنے والے نیپکن ( mats )  بنانے تھے ۔ تقریبا 3 درجن پھول پینٹ کرنے تھے !  بہن فارغ تھی ۔ہم نے کہا کہ تم سارے ڈیزائن  کا عکس  چھاپ دو  تاکہ ہم اسکول سے واپسی پر جلدی سے پینٹ کر لیں ۔

پینٹ کرنے کے لیے  جب نیپکن کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ تمام پھول اس طرح ٹریس کیے گئے ہیں کہ  جب وہ صوفہ پر بچھائے جائیں گے تو شاخ اوپر کی طرف ہو گی!  بہن کسی طرح ماننے کو تیار نہیں بلکہ اچھی خاصی جھڑپ ہی ہوئی کہ ایک تو میں نے اتنی محنت کی اوپر سےکام بھی نہیں پسند آرہا  !   دوبارہ کرنے کی مہلت نہ تھی چنانچہ   مسئلہ یوں حل کیا کہ  ایسے ہی پینٹ کرلیا جائے  اور انہیں  اس طرح  لپیٹ کر رکھا جائے کہ دیکھنے  میں محسوس نہ ہو ! خیر ہوا یہ کہ کسی نے بھی انہیں خریدنے کی زحمت نہ کی ! اور اس کی وجہ ہر گز یہ نہیں تھی کہ کسی کوپسند ہی نہیں   آئے یا یہ کہ عیب  ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیے گئے بلکہ لوگوں کی ضرورت   کی فہرست یا  پھر بجٹ میں ہی نہیں تھے ! ( ویسے بھی خریداری کے بجائے ڈسپلے پر زیادہ زور تھا !)                     بعد میں ان کو کس طرح تحفے میں دے کر چھٹکارا پایا کہ تحفہ تو جیسا بھی ہو قبول کر ہی لیا جاتا ہے ۔

ان تمام مشکلات کے باوجود جب کبھی کوئی ہماری بہن یاکسی بھائی کو از راہ ہمدردی یہ کہہ دیتا  "ہائے بےچارہ / بے چاری کھبی ہو تو ہمیں  بہت برا لگتا ۔ اور   جہاں  ہم کسی کو بائیں ہاتھ سے کام کر تا دیکھتے ہیں بڑی  اپنائیت محسوس ہوتی ہے! اس سارے پس منظر میں ہمارا واحد سہارا ابا جان تھے ۔خصوصی توجہ کے ساتھ   کبھی اٹلس لےکر نقشے سے سمتیں سمجھاتے ،کبھی کھڑا کر کے  دائیں بائیں ہاتھ کے ذریعے ہماری اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کرتے ۔ ہماری بھی بھرپور کوشش ہوتی کہ کسی کو اس کمزوری کا علم نہ ہو ۔ لیکن اکثر ہمیں کام کرتے دیکھنے والے پوچھ بیٹھتے   آپ لیفٹ ہینڈڈ ہیں ؟ اور ہم منہ بنا کر رہ جاتے ! گویا نہ تیتر میں نہ بٹیر میں !

ایک دفعہ یونیورسٹی لیب میں کام کر رہے تھے ۔ہمارے سپر وائزر نے ہمیں keyboard الٹی طرف سیٹ کرنے کی آفر کی ۔ ہم نے تڑپ کر انکار کیا کہ   سر ہم لیفٹ ہینڈد نہیں ہیں ۔۔۔

مگر آپ بٹن تو مستقل الٹے ہاتھ سے پریس کر رہی ہیں ۔۔۔ہم شرمندہ ہوہی رہے تھے کہ کسی نے لقمہ دیا

' سر ! یہ تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔۔۔! "   سب ہنس پڑے ۔

 اور ہمارے معصوم سے ٹیچر نے بزرگانہ شفقت سے یہ بات  چائے کے وقفے میں اپنے کولیگز سے  کہہ ڈالی ۔ اور ان کی یہ توصیف ہمیں مہنگی پڑ  گئی  جب  بقیہ  دوسری لیب کے   ساتھی بھی ہمارے پاس آکر اپنی اپنی  ریڈنگ ٹسٹ کروانے لگے ۔ اگر بیگار یہیں تک رہتی تو بھی چل جاتا آخر سب ہمارے ساتھی ہی تھے لیکن جب دور دراز شعبوں سے بھی لوگ آکر  ہم سے کام نکلواتے تو ہم ذرا محتاط ہوئے ۔  اور تو اور سر کو اپنا کام کرنے کا موڈ نہ ہوتا یا کمپیو ٹر گڑ بڑ کرتا تو وہ  ہمارے سر تھوپ دیتے ۔بھئی یہ تو آپ کے ہاتھ کے جادو سے چلتا ہے ۔۔۔اور ہم دل میں اللہ سے مخاطب ہوتے   :

"آپ ہی جانتے ہیں کہ ہمیں ٹیکنالوجی پر کتنا عبور ہے ؟   بھرم  قائم  رہے تو غنیمت ہے !!"

 تعلیمی دور گزرا اور زندگی کے میدان میں داخل ہوئے تو سمتوں کے تعین میں دشواری کا احساس بڑھ گیا اپنی یہ  کمزوری رکاوٹ بنتی نظر آئی  ۔ اس کو رفع کرنے کے لیے  ہم سر توڑ محنت کرنے پر مجبور تھے اور پھر یہاں ابا جان کا احسان  یادآتاہے۔ ان کے جملے ہماری تربیت میں بہت معاون رہے ۔

''۔۔۔ اپنے  داہنے ہاتھ سے تیسری کتاب   لے کر آنا ۔۔"

 ' ۔۔بائیں طرف سے چوتھا گھر ہے ۔۔۔"

"۔۔۔۔۔۔ "                                                     "۔۔۔۔"

ہم نئے گھر میں شفٹ ہوئے جو غیر آباد علاقے میں تھا ۔ بیرونی سڑکیں تک گھنے جنگل کامنظر پیش کرتی تھیں ۔ اس زمانے میں وہ  زکوۃ کمیٹی کے چئیر مین تھے تو ان کے پاس بھانت بھانت کے لوگوں کی آمد و رفت ہوتی  ۔ وہ علاقے  کے نقشے کی کاپی ہمارے سامنے رکھ کر   آنے والوں کی رہنمائی   کرواتے اور ہم ہر ایک کی زبان اور ذہنی استطاعت کے مطابق یہ فریضہ انجام دیتے  اور کبھی کبھی  جھنجھلا جاتے !   ان ساری مشقتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ سمتوں  کے تعین میں ہماری کمزوری ختم ہوگئی اور ایک وقت یہ آیا کہ ہم بھی سمتیں بتانے میں ماہر ہوگئے ۔

" ۔۔۔آپ نے اتنا اچھا  ایڈریس سمجھایا کہ ہمیں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔۔" جیسے جملے اس کا ثبوت ہوتے۔ کوئی ڈرائیور کو موبائیل پکڑا دیتا اور ہم  بات کا آغاز یوں کرتے :

" ۔۔آپ کہاں ہیں ؟ آپ کے دائیں / بائیں طرف کیا ہے ؟ ۔۔۔یوں کریں ۔۔۔یوں  مڑیں ۔۔۔" اور اس رہنمائی پر ہم بآسانی مطلوبہ مقام تک پہنچوا دیتے۔  اور ہماری  مہارت  پر اس وقت مہر ثبت ہوئی جب گھر والے بھی کریم یا یوبر کو ایڈریس سمجھانے کے لیے موبائیل ہمیں پکڑادیتے  یہ کہہ کر کہ  " ۔۔باجی آپ بہت اچھا سمجھا تی ہیں ۔۔۔"

اور ہم  خضر کارتبہ پانے پر  اندر تک شاد ہوجاتے ۔اب تو  گوگل کی وجہ سے کوئی اس معاملے میں  کمزور نہیں رہا  ہوگا مگر ہمارا خیال ہے کہ  گوگل کی سہولت سے بھی وہی مستفید ہو سکتا ہے جسے  دائیں بائیں کی اچھی سی پہچان ہو!    ویسے ہماری اس داستان سے آپ کیا سمجھے ؟ محض ہمدردی نہیں  بلکہ یہ بتانا کہ کمزوری پر غلبہ پاکر اسے طاقت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ! تاکہ یہ بائیں ہاتھ کا کھیل بن جائے ! !  کیا خیال ہے ؟ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

1 تبصرہ:

  1. Blackjack and Casino - DrMCD
    Blackjack, and Casino at Dr.MCD 의왕 출장마사지 has all the basics to winning, with blackjack, casino, roulette and more. 안양 출장마사지 If 원주 출장안마 you're wondering 천안 출장샵 what's the 오산 출장샵

    جواب دیںحذف کریں