اتوار، 1 مئی، 2016

جگنو کو دن میں پر کھیں ۔۔۔۔۔۔!




                                     جگنوکو دن میں پر کھیں ........


  ایک بچہ ہانپتا کانپتا کتاب کی دکان پر پہنچا اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بولا 
     ” انکل! ...مجھے وہ والی کتاب دے دیں جس کا نام ہے   بچے کی تربیت کیسے کریں؟  “   
کتب فروش نے بچے کو پیار سے دیکھتے ہوئے پوچھا  ”بیٹے! یہ کتاب ابو نے منگوائی ہے یا امی نے؟
بچے نے جھجکتے ہوئے کہا   ”.....کسی نے نہیں! میں خود دیکھنا چاہتا ہوں کہ میری دیکھ بھال صحیح ہو رہی ہے یا نہیں؟ . ..“ 
پیارے قارئین! ہوسکتا ہے آ پ اسے لطیفہ سمجھ کر نظر انداز کردیں تو عرض ہے کہ یہ مضمون آ پ کے لیے ہے ہی نہیں! آپ کے پاس فر صت  کہاں! آپ تو گلے تک ذمہ داریوں میں ڈوبے ہوئے ہیں سانس لینے کی مہلت محال ہے! ....تو بس پیارے بچو! یہ مضمون آپ ہی کے لیے ہے!
  جب آپ اس دنیا میں آتے ہیں تو آپ کا پر تپاک استقبال ہوتا ہے۔ ماں باپ سے لے کر ننھیال، ددھیال میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔اذان کے لڈواور عقیقے کے گوشت سے حسب استطاعت تواضع کرتے ہیں۔ آپ چیزوں پر غور و فکر شروع کرتے ہیں تو آپ کوایک چمکدار چیز نظر آتی ہے جس پر سب اپنی نظریں گاڑے رہتے ہیں آپ بھی اپنی آنکھیں اس رنگ برنگے ڈبے پر جمانا شروع کردیتے ہیں۔پہلے پہل کچھ سمجھ نہیں آتا اور پھر گھر والوں کی دلچسپی کے لحاظ سے آپ کوبھی کچھ سمجھ آ نے لگتی ہے توپھر مزہ آتا ہے۔گانے، اشتہارات، مزے مزے کی شکلیں ...! شروع میں آ پ ڈرتے ہیں مگر عادی ہوجاتے ہیں۔ آپ نے وہ تصویر دیکھی ہوگی جس میں سارا گھر بیٹھ کر ڈرامہ میں محو ہے! آپ جیسا بچہ ماں کی گود میں ہے اور فیڈر کا نپل اس بچے کے منہ کے بجائے ناک کے سوراخ میں ڈال رہی ہے! تصویر دیکھنے والے ماں کو ملامت کرتے ہیں جبکہ وہ اور تمام گھر والے کسی ممکنہ حادثے سے بے خبر ڈرامے کی ہیروئین کی بربادی پر رورہے ہوتے ہیں!
آپ کی امی یا ابو اچانک آپ سے باتیں شروع کرتے ہیں آپ خوش ہوتے ہیں مگر اس وقت آپ کو اپنی بے وقوفی کا اندازہ ہوتا ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ سے نہیں بلکہ موبائیل پر باتیں کررہے ہیں۔ آپ کو تجسس ہوتا ہے مگر آپ کے رونے سے پہلے وہ آپ کو اس میں سے ٹیون سنوادیتے ہیں۔جس کو سنتے ہی آپ خوب ٹانگیں چلانے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے لیٹے لیٹے اتنا ہی جھوما جا سکتا ہے۔
کچھ اور وقت گزرتا ہے اور آپ رینگنا شروع کردیتے ہیں۔ ہر وہ چیزجو آپ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے آپ کی دسترس سے باہر کر دی جاتی ہے جس میں آگ، چھری، سوئی، سوئچ، دوائیں، اوزار، ہتھیار وغیرہ وغیرہ اور تو اور پانی سے بھری بالٹی بھی خطرہ بننے کے باعث آپ کی پہنچ سے دور! اتنی زیادتی پر آپ کا رونا پیٹنا بجا ہے! جس کو روکنے کے لیے آپ کے ہاتھوں میں کھلونے پکڑا دیے جاتے ہیں۔موسیقی جس کی آواز جب تک آتی رہتی ہے آپ خاموش رہتے ہیں اور جب سیل ختم ہوجاتے ہیں توپھر وہی ازلی رونے کے طریقے سے آپ سب کو متوجہ کرتے ہیں اور یوں والدین کا موبائیل دراصل آپ کا کھلونا ہوجاتا ہے۔ باقی کھلونوں سے تو آپ بہت جلد اکتا جاتے ہیں مگر اس سے کبھی بیزار نہیں ہوتے حتٰی کہ نیند بھوک  غالب آجائے! جب کبھی موبائیل یاٹیب آپ کی پہنچ میں نہ رہے تو آپ کا موڈ خراب ہونے لگتا ہے اور آپ اوندھی حر کتیں شروع کر دیتے ہیں تو ٹی وی کا بٹن آن کر کے آپ کو بٹھادیا جا تا ہے
آپ تھوڑا بڑے ہوتے ہیں اور چیزوں کو گرفت کرنا شروع کرتے ہیں تو سب سے پہلے ٹی وی ریمورٹ ہاتھ میں آتا ہے۔ جس دن آپ کو چینل بدلنا آجاتا ہے ماں باپ کی بانچھیں کھل جاتی ہیں کہ ہمارا بچہ ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر رہا ہے! اور یہ پریکٹس ہمہ وقت جاری رہتی ہے ماسوائے لوڈ شیڈنگ کے اوقات کے!   باپ کو دن بھر دن معاش میں کھپنے کے طاقت بحال کرنے کے لیے ٹاک شوز دیکھنا ضروری ہے اور ما ں بے چاری کے کاموں کی فہرست تو بڑی طویل ہے!ماسیوں سے نبٹنا، سسرالی شکووں سے نبرد آزما ہونا، بچوں کو کھلانے پلانے سے لے کر .........اس بھاگ دوڑ میں اس کومارننگ شوز کے لیے وقت نکالناہی پڑتا ہے اور پھر رات کو بچوں کے ساتھ بیٹھ کر انڈین ڈرامے دیکھنے سے تازہ دم ! آخر اس سے آپ کو بہت سے حربے ...ٹوٹکے حاصل ہوتے ہیں۔ اور پھر اکثر ماؤ ں کے نقطہ نظر سے یہ ڈرامے بچوں کو خود بخود سکھا رہے ہیں! خواہ مخواہ سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے!اور اگر جوائنٹ فیملی ہے تو سیکھنے کایہ سلسلہ کبھی آف نہیں ہوتا۔ دادا، دادی کے پاس
 فر صت ہی فر صت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر ان کا احساس محرومی کہ ان کے بچپن میں اتنی زبردست چیز نہ تھی تو وہ بھر پور لطف اٹھاتے ہیں اس تفریح کا! کہیں کہیں صورت حال مختلف بھی ہوتی ہے  وہاں ایک تکرار یا بد مزگی کی صورت حال نظر آتی ہے بچوں کو ٹی وی کے حوالے کرنے پر! اور اس اختلاف رائے کا سو فی صد فائدہ آپ بچے ہی اٹھاتے ہیں! شور شراپے سے بچنے کے لیے آپ کو کارٹون نیٹ ورک پر لگا دیا جاتا ہے۔ پتہ بھی بھی نہیں چلتا بچوں کو بے بی ٹی وی کے بعد کارٹون نیٹ ورک سے گزر کر ڈرامے کا چسکہ لگ چکا ہے۔ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ انہی کرداروں کی زبان، اخلاق، تصورات اور لباس اختیار کرتے ہیں پھر آپ پر سختی شروع کردی جاتی ہے۔
   ایسے نہ بولو........یوں نہ بیٹھو.......وہاں نہیں جانا......نماز کیوں نہیں پڑھی؟ .......جھوٹ بول رہے ہو!.....وغیرہ وغیرہ اور یوں آپ معاشرے میں اجنبی،ناپسندیدہ بنتے چلے جاتے ہیں .....
.ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جتنے لوگ دعاؤں کے لیے آتے ہیں ان میں آدھے اولاد کی طلب میں اور باقی اولاد کے راہ راست پر آنے کی تمنا لیے ہوتے ہیں ....والدین کیا کریں؟ کہ شادی سے پہلے بچوں کی تربیت کے چار اصول تھے اور اب چار بچے ہیں مگر کوئی اصول نہیں! بس ایک معرکہ ہے جس سے ہمہ وقت نبٹنا ہے۔ ویسے تر بیت کا آغاز کس عمر سے کیا جائے؟ یہ تھا سوا ل جو ایک چار سالہ بچی کی ماں نے ماہر نفسیات سے فون پر پو چھا۔ اور چیخ پڑا      ”......محترمہ جلدی کریں! آپ تو پہلے ہی چار سال لیٹ ہوچکی ہیں! اس معاملے میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ سولہ سال کی عمر میں ایک محنتی،با اخلاق بچہ ہواس کے لیے چار سال میں بھی وہی فارمولا ہونا چاہیے یہ نہیں کہ اس وقت اس کی زبان سے گالیاں اچھی لگیں! اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی بیٹی سولہ سال کی عمر میں ساتر لباس میں ہو تو اسے چھ سال کی عمرمیں بھی ایسا ہی لباس زیب تن کروائیں .......
 یہاں صرف ماں کو مطعون کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ آپ بچوں کی تربیت میں پورا معاشرہ، ماحول بھی شریک ہے لیکن اگر کسی بچے کے ساتھ خدانخواستہ کچھ واقعہ ہوتو سب سے پہلے سوال ہوتا ہے کہ ماں کہاں تھی؟ ماں کیا کر رہی تھی؟......وغیرہ! اسے کٹہرے میں اس لیے کھڑا کیا جا تا ہے کہ ماں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے کہ جنت یوں ہی تو نہیں مل جاتی!!!
 تو بچو! یہ مضمون یہاں پر ختم ہی سمجھیں کہ صفحہ تمام ہوا...لیکن آپ سمجھ گئے ہوں گے آپ کی تر بیت میں کیا اور کہاں درستگی کی گنجائش ہے؟ آپ خود ہی سدھر جائیں کہ والدین کے پاس توجہ کا وقت نہیں اور پیارے پیارے والدین جو آج آپ کی مادی ضروریات کے لیے آپ کی روحانی، اخلاقی،جذباتی اور معاشرتی ضروریات سے بیگانہ ہیں کل سر پکڑ کر رو رہے ہوں!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 فر حت طاہر  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں