منگل، 17 مئی، 2016

اسلام ۤباد ہمارا دار الخلافہ


اگلے دن صبح سویرے گاڑی مع ڈرائیور آپہنچی۔میز بان کا مشورہ تھا کہ نیٹ کے ذریعے سرچ کرکے تفریحی جگہیں منتخب کی جائیں تاکہ بوریت اور تھکاوٹ سے بچا جاسکے اور اس پر سب متفق تھے مگر ہوا یہ کہ بغیر اس ہوم ورک کے گاڑی میں جابیٹھے اور اس کا بھی جواز تھا کہ ضروری نہیں کہ جو چیزیں اسکرین میں اچھی لگ رہی ہو واقعی پر لطف بھی ہو۔ اپنی قسمت اور اپنا تجربہ! ڈرائیور کو چند جگہیں بتادیں کہ وہ اس لحاظ سے روٹ بنالے۔ بھروسہ تو اس پر کرنا ہی تھانا!


 سب سے پہلے راول ڈیم پارک کا رخ کیا۔ برڈ زپارک میں چہچہاتے ہوئے پرندے گویا اللہ کی کبریائی بیان کر رہے تھے۔ خود بخود زبان سے سبحان اللہ نکل رہا تھا۔ وہاں سے ہوتے ہوتے ڈیم کی طرف نکل گئے۔ نوجوانوں اور خواتین کی ٹولیاں بوٹنگ کر رہی تھیں۔ ہم میں سے اکثر یت پانی کی تفریح سے خوفزدہ تھی خود ہماری آنکھوں میں اخبارات کی خبر گھوم رہی تھی کہ راول ڈیم میں کشتی ڈوبنے سے لوگ ڈوب گئے... مگرپھر یہ سوچ کر کہ زندگی کا رسک تو ہر جگہ یکساں ہے اور پھر کالجز کے گروپ کے گروپ کو بوٹنگ کرتے دیکھ کر ہم نے بھی ہمت پکڑی اور اللہ کا نام لے کر بیٹھ گئے۔ کچھ بھی ایسا نہ ہوا کہ خبر بن سکے اور ہم الحمدللہ پڑھتے ہوئے کشتی سے اتر آئے۔ہمارے سفر کے دوران ہی بادل گھر آئے اور موسم کا رنگ بدلنے لگا۔ویسے بارش کی تو پیشن گوئی ہے ہی! قرآن کی بہت سی آیات یاد آئیں جوکشتی کے سفر کے دوران انسانی احساسات کے حوالے سے ہیں!



کون آئسکریم اور سنیکس لے کر ہم چیڑ اور پائن کے باغ میں لکڑی کی بنچوں پر بیٹھ گئے۔ گلہریاں اور نیولے آزادانہ گھوم رہے تھے اور ہمیں خوب گھور رہے تھے۔ظاہر ہے ہم ہی اجنبی تھے یہاں! وہ تو نسلوں سے یہیں آباد ہیں۔ویسے یہاں قدرتی ماحول بھرپور طریقے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ باڑھیں اور گرل میں بھی درختوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ بچوں نے چلغوزے کے کونز جمع کیے۔


 اب ہم پارک کے بیرونی حصے کی طرف آئے جہاں جوق درجوق لوگ آرہے تھے۔ خواتین اور لڑکیوں کے زرق برق ملبوسات دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ اکثر یت شادی کی تقریب گزار کر پکنک کو نکلی ہوئی ہے۔یہاں گھڑسواری کا انتظام تھا۔ محمد یوسف اپنی والدہ کے ہمراہ گھوڑے پر بیٹھے۔ وہ لوگ نظروں سے اوجھل ہوئے اورہم وہاں موجودگھوڑوں کی ادائیں دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔ کس قدر تربیت یافتہ اور نظم و ضبط کے پابند ہیں! شاید انسانوں کو کنٹرول کرنا زیادہ دشوار ہوتا ہے۔ کافی دیر ہوگئی تو ہم سب پریشان ہونے لگے مگر جب ان کو واپس آتے دیکھا تو اطمینان ہوا ہاں ان دونوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑرہی تھیں! ہماراخیال ہے جو ذرا سا بھی خوف کا مظاہرہ کرے اسے جان کر یہ زیادہ بھگاتے ہیں۔ خیر یہ مر حلہ گزرا تو گاڑی میں بیٹھے۔اب ہم اگلی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ چائینیز پارک، جاسمین پارک، روز پارک! یہ سب ہم نے سر سر ی طور پر دیکھا کیونکہ ایک پارک کی بھرپور تفریح ہم کر ہی چکے تھے ا ب ہم ذرا مختلف جگہ دیکھنا چاہتے تھے مثلاً میوزیم وغیرہ لہذا شکر پڑیاں پر واقع لوک ورثہ میں جا اترے۔

















یہاں داخل ہوئے تو جگہ جگہ ثقافتی اسٹالز لگے تھے۔ سب سے پہلے اسٹال پر کلپ اور کی چین پر نام کھدے ہوئے تھے۔ ہم نے سب گھر والوں کے لیے چن لیے مگر ہماری ایک بھتیجی کے نام کا نہیں دستیاب تھا جو انہوں نے نوٹ کرلیا کہ واپسی میں لے لیجیے گا! ہم سب ٹکٹ لے کر واک تھرو سے گزر کر اندر داخل ہونے لگے تو ہماری بہن کے پرس میں موجود چھری اور قینچی بج اٹھے! مسکراتی ہوئے چادر میں ملبوس خاتون نگران نے وہ اپنی دراز میں رکھ لیے۔ یہاں کی دنیا میں ہم سب مسحور ہوگئے تھے۔ایک کے بعد ایک در کھلتے جاتے اور ہم اس میں داخل ہوکر گم سے ہوجاتے۔ ہندوستان،ایران،افغانستان سے لے کر وسط ایشیا کی ریاستیں .....خطے کی تمام اقوام اور مذاہب کے رہن سہن، رسوم و رواج اور اہم باتوں کو ماڈلز کے ذریعے اجا گر کیا گیا ہے۔ایک طرف مذہبی، روحانی اور تصوف کے سلسلوں کی منظر کشی تھی تو دوسری طرف رومانوی داستانوں کو بھی نمایاں کیا گیا تھا۔ قائد اعظم سے لے کر بے نظیر بھٹو تک یہاں موجود تھے۔







خاص بات ارد گرد کا ماحول متعلقہاورتاثرات و احساسات کا حقیقت سے قریب ترین ہونا ہے۔ ایک بابا جی چارپائی پر حقہ لیے بیٹھے،ایک پاؤں میں چپل پہنتے ہوئے ان کی آنکھوں کے سرخ ڈورے ان کے غصے کی اتنی زبردست غمازی! (بالکل ایسے جیسے ابا جی کے گھر میں داخل ہوتے ہی ان کو بجلی کا بل پکڑا دیا گیا ہو! ہم سب ان کو دیکھ کر بہت محظوظ ہوئے!)اس جگہ بالکل رش نہیں تھا لہذا بہت اچھی طرح دیکھ سکے۔یہاں شیشے کی دکانوں سے بھی شاپنگ کی جن کی قیمتیں کافی زیادہ لگیں! ظاہر ہے مسافر (ٹورسٹ) کو اونچی اسامی سمجھنا تو اہم تجارتی اصول ہے! کئی گھنٹے گزار کر باہر نکلے مگراس سے پہلے کاؤنٹر سے اپنی چھری اور قینچی لینا نہ بھولے اور تاثرات کا رجسٹر منتظمہ کی دراز سے نکلوا کر اپنے خوشگوار احساسات رقم کیے۔ گھنٹوں بعد باہر نکل کر بیرونی دنیا سے رابطہ ہوا تو مانوس ہونے میں تھوڑا وقت لگا گویا ٹائم مشین میں بیٹھ کر صدیوں کا سفر کر آئے ہوں اور یہ قطعاًبھول گئے کہ ہم نے کلپ پر بھتیجی کانام لکھوانے کا کہا تھا۔ وہ تو اس نے خود لہرا کر ہمارے حوالے کیا تو یاد آیا۔


اب ہمارا رخ یادگار پاکستان یعنی پاکستان مونومنٹ کی طرف تھا۔شکر پڑیاں میں واقع اس خوبصورت اور پر شکوہ قومی یادگار کا قیام وزارت ثقافت اور تعمیراتی کونسل اور ٹاؤن پلانرز کے مشتر کہ تعاون سے ہوا۔ اس کا ڈیزائن عارف مسعود نے بنا یا ہے۔ کھلتے پھول کی شکل میں چاربڑی پتیاں چار صوبوں کی جبکہ تین چھوٹی پتیاں ریاستوں کو ظاہر کرتی ہیں۔  23 march 2007  کو اس کا افتتاح ہوا۔






اس یادگار کا مقصددنیا کے سامنے پاکستانی تہذیب و ثقافت اور قیام پاکستان کی جدو جہد کو متعارف کروانا ہے۔ اگر اس عمارت کو اوپر سے دیکھا جائے تو چاند ستارے کی مانند دکھائی دیتا ہے گویاپاکستانی پرچم بچھا ہوا ہے۔ ایک قابل فخر جگہ! اس کی دیواروں پر ان تمام افراد کے ہاتھوں کے نقوش بنے ہیں جنہوں نے اس کو بنانے میں حصہ لیا! اس یادگار کے بالکل سامنے مونومنٹ میوزیم بھی بنا یا گیا ہے۔اس کے الگ سے ٹکٹ لیے گئے۔ 



داخل ہوتے ہی تحریک آزادی کے مناظر یہاں ماڈلز کے علاوہ آڈیٹوریم میں ڈاکومنٹری دکھانے کا بھی انتظام ہے۔  شملہ معاہدے کی عکاسی میں ماؤنٹ بیٹن اور نہرو وفد کے مقابلے میں قائد اور ان کا وفد پرجوش اور ہشاش بشاش نظر آیا۔ بچوں نے پاکستان زندہ باد اور قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگائے۔وہیں کسی کمرے میں جاء نماز رکھی نظر آ ئی تو ہم نے جلدی سے قصر ادا کر لی۔ طوالت کے خوف سے ہم اس کا ذکر ختم کرکے اگلی منزل کی طرف بڑھتے ہیں!




اب موسم نے باقاعدہ رنگ بدل لیا تھا اور ہلکی پھوار شروع ہوچکی تھی جو ہمارے فیصل مسجد تک پہنچتے پہنچتے خاصی تیز ہوچکی تھی۔چھتری کی اہمیت اب معلوم ہوئی۔اسکی پناہ میں مسجد کے اندر داخل ہوئے۔ چپلیں کاؤنٹر پر جمع کرنے کا مرحلہ طے کیا۔یہاں آنے کی برسوں پرانی خواہش پوری بھی ہوئی تو اس طرح کہ ہم تھکن سے نڈھال اور بھیگنے کی وجہ سے بیزار کیونکہ چکنے فرش کی وجہ سے چلنا مشکل تھا۔ بہر کیف کسی طرح سنبھلتے سنبھلتے اوپر پہنچے تو نماز عصر ختم ہوچکی تھی۔  یہاں تفریح اور ویڈیو گرافی کرتے لوگ سخت کوفت کا باعث بن رہے تھے۔ ہمارا پھسلنا بچوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر گیا۔ ہماری تکلیف اور شر مندگی کا سوچ کر سب نیچے اتر آئے۔ یہاں موجودشاپ میں سووینئرخریدنے کے خیال سے داخل ہوئے مگر قیمتیں اور رش دیکھ کر باہر نکلنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ہاں باہر اسٹال سے ایک نادر کتاب خرید سکے! کلیلہ و دمنہ! تھکن سے واپسی کا دل چاہ رہا تھا مگر ابھی دامن کوہ باقی تھااور ابھی لبنٰی کے گھر بھی جانا تھا۔ صبح جب وہ ہماری ٹریکنگ کر رہی تھیں تو اسلام آباد کاسن کر انہوں نے بڑی خوش دلی سے کہا کہ وہاں سے واپسی  پرآجائیں!  ظاہر ہے فاصلے کا اندازہ بخوبی تھاکہ ڈی ایچ اے تو پنڈی کے بھی کونے میں آباد کیا گیا ہے۔گویا اب ہم ظہرانے کے بجائے عشائیہ تناول فرمائیں گے(ہم نے لنچ اور ڈنر کو مٹا کر لکھا ہے جب اپنی زبان میں الفاظ موجود ہیں تو ہم دوسری زبان کا سہارا کیوں لیں؟)




دامن کوہ پہنچے تو بارش تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ بندروں سے بچتے بچاتے اپنی دانست میں ایک محفوظ جگہ پر بیٹھے اور سنیکس کے ساتھ گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے مگر پھر بھی ذرا نظر بچی اور بچوں کی چائے کے کپ پر بندر نے حملہ کردیا۔ ہم پر بھی کوشش کی مگر ہم نے ان پر اپنی پرس سے جوابی گھرکا تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ بچوں نے داد دی کہ خالہ نے خوب ہمارا بد لہ لیا! ہمیں اس حوالے سے ابو نثر کا ایک کالم یاد آیا جس میں انہوں نے بندروں کی اس بدلی ہوئی غذائی عادت کا ذکر کیا تھا۔ یہ سراسر ہم انسانوں کا قصور ہے کہ ہم نے انہیں بھی جنک فوڈ کی لت لگادی ہے۔اونچائی سے اسلام آباد کا نظارہ بڑا دلنشین تھا۔دل کرتا یہیں بیٹھے رہیں مگر موسم کے تیور سے ڈر لگ رہا تھا۔کرکٹ کے دیوانے میچ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔محمد یوسف بار بار قریبی بیٹھے انکلز سے اسکور پوچھ کر پر جوش نعرہ لگاتا! اندھیرا بڑھنے سے پہلے ہم گاڑٰ ی میں بیٹھ چکے تھے واپسی کے لیے!

راولپنڈی پہنچ کر اپنی رہا ئش گاہ کے قریب سے گزرے مگر ٹھہرے نہیں بلکہ ایوب پارک سے ہوتے ہوئے فوجی فاؤنڈیشن سے ملحقہ علاقہ پہنچے۔اب مسئلہ تھا اپنا مطلوبہ گھر ڈھونڈنے کا جو مل کر نہ دے رہا تھا!  ہمیں تو یہ بریف کیا گیا تھا کہ راولپنڈی چھوٹا سا شہر ہے آپ جس مقامپر بھی ہوں تمام جگہیں دس کلو میٹر کے قطر میں ہی ہوں گی! بس اتنا سا؟ ہم نے کچھ کچھ حقارت بھرے لہجے میں کہا تھا مگر اس وقت تو لگ رہا تھا کہ شیطان کی آنت بن گیا تھا پنڈی کہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔ ہم تو خیر اس علاقے میں اجنبی ٹھہرے مگر ڈرائیورکی لاعلمی پر غصہ آنے لگا تھا جب کافی دیر ہوگئی سمجھ نہ پا رہا تھا۔ اس کا عذر ماننا ہی پڑا کہ کہ وہ اس علاقے میں کبھی نہیں آیا! معلوم ہوا کہ نیا علاقہ آباد ہوا ہے! کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد!ہمارے موبائیل کی چارجنگ ختم تھی۔ اس نے اپنا موبائیل دیا کہ پتہ سمجھیں! کافی دیر بعد بالآخر ہم پہنچ ہی گئے!
چھما چھم بارش برس رہی تھی۔ پوری فیملی ہمارے استقبال کو موجود تھی۔نومولود سے لے کر نو بیاہتا تک! کھانے کی میز سجی تھی مگر اس سے پہلے ہمیں تازہ دم ہونا تھا۔ محمد یوسف کے کپڑے بھیگ چکے تھے۔جن کو بدلوا کر استری سے خشک کیا گیا! جمع بین الصلاتین پڑھی! مغرب اور عشاء!اس  کے بعدپر تکلف کھانا اور ساتھ میں مزیدار حلوہ! کھانے سے فارغ ہوکر لاؤنج میں آبیٹھے۔ باتوں باتوں میں سامنے دھرے البمز کھلتے چلے گئے جن میں ہم بھی موجود تھے۔ بچپن یا نوعمری! آہ کبھی ہم بھی خوبصورت تھے.....! بچوں کی حیرت بجا ہے جبکہ خود ہم بھی اپنے آپ کو پہچان مشکل سے پارہے ہیں ...! چائے کی طلب اور آفر دونوں موجود تھے مگر گنجائش نہ تھی لہذا معذرت کر لی! محفل کتنی ہی دلچسپ کیوں نہ ہو ں بہر حال اٹھنا ہی تھا کہ ڈرائیور کو دیر ہورہی تھی۔ ایک  بھر پور تفریح بھرادن گزار کر ہم رہائش گاہ کو واپس ہوئے۔الحمد للہ!  اب اگلے دن کا پروگرام موسم پر منحصر ہے!  ()

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں