جمعرات، 26 جون، 2025

میری امی جان !

.25/جون ! امی کا یوم وفات ۔۔۔ایک تحریر جو 16 سال پہلے اخبار میں شائع ہوئ تھی اب ڈیجیٹل اشاعت کے لیے پیش خدمت ہے



میری امی جان

ہر بچہ اپنی ماں کو  دنیا کی حسین ترین عورت سمجھتا ہے ! جبھی تو اپنی کلاس فیلوز کو جب امی کی تصویر دکھائی  تو مجھے یاد ہے سیما بول پڑی تھی     "  تمہاری امی تو فلاں اداکارہ کی طرح  حسین ہیں ۔۔۔" اور میرا دل چاہا اس کا منہ نوچ لوں ! بھلا ایک ماڈل گرل میری امی کے حسن کا مقابلہ کرسکتی ہے ؟ یہ بات تو بچپنے اور صرف ظاہری حسن تک  تھی  جبکہ اصل حسن تو ان کے اخلاق میں پوشیدہ تھا جس کا  شعور بہت بعد میں حاصل  ہوا ۔

ایک مستعد ماں کی اولاد ہمیشہ مشکل کا شکار رہتی ہے  کیونکہ وہ ان ہی پیمانوں میں پرکھی جاتی ہے جو اولاد میں کسی درجے میں شاید کبھی ہوتے ہیں ا ور کبھی نہیں ہوتے ۔ اور کتنی عجیب بات ہے کہ حسن صورت میں جو اختیاری نہیں اس پر تو احساس کمتری جبکہ حسن سیرت جو کسی حد تک اختیاری ہے اس میں شدید دوری !شاید ایک انتہا دوسری کو جنم دیتی ہے  لہذا ہم میں سے کوئی بھی اپنی ماں کے بلند معیار اخلاق تک نہ پہنچ سکا !

 امی ! آپ کی مروت سخاوت، سادگی و عاجزی ، نرم خوئی اور انسان دوستی میں کوئی بھی اولاد پاسنگ نہ تھی  اور پھر خود  کو جاذب نظر بنانے کے لیے ہم سب کی توجہ اپنے آپ کو باہنر بنانے میں صرف ہوگئی   ( یہ اور بات ہے کہ ہماری ہر کامیابی آپ کے دیے ہوئے اعتماد اور آزادی کی ہی مرہون منت  تھی) مگر ہماری کوئی ایک مہارت، کوئی ایک کمال بھی آپ کی کسی ایک خوبی کا مقابلہ نہ کرسکا ۔ سب لوگ آپ ہی کے دیوانے رہے اور وقت کے ساتھ یہ بات ہمارے لیے قابل فخر بنتی گئی کہ آپ ہماری پہچان ہیں ۔

 انسان کو اپنی امار ت  کااندازہ مصیبت  اور پریشانی کے وقت  ہوتا ہے اگر سر رکھ کر آنسو بہانے کے لیے ہزاروں کندھے  آپ کو دستیاب ہوں ۔ ہم کتنے امیر ہیں یہ تو ان دنوں پتہ چلا جب آپ بیمار ہوکر ہسپتال میں داخل ہوئیں ۔ کینیڈا سے کراچی ، امریکہ سے اسلام آباد  اور یورپ سے حید رآ باد ایک مستقل رابطہ تھا لوگوں کا جو آپ کے لیے پریشان تھے  ، دعاگو تھے ۔ حالانکہ آپ کوئی عوامی شخصیت نہ تھیں  مگر جو آپ سے ایک دفعہ بھی ملا آپ کا پرستار تھا اور یہ سب تو آپ کی محبتوں کے اسیر تھے ۔

10 جون  2009 ء کو جب انتہائی نا توانی  کے عالم میں آپ  آئی سی  یو میں داخل ہوئیں تو ہم سب بھائی بہنوں کے دلوں میں ایک بات تھی جو زبان پر نہیں آرہی تھی    کہ " یہ وہی تاریخ  ہے جب آج سے 6 سال قبل  اباجان اسی اسپتال کی ایمر جنسی میں ہم سے جدا ہوئے تھے "  اور پھر پورے پندرہ دن تک ہم سب کا مرکز و محور آپ رہیں امی جان ! مسقط سے دمشق اور نارتھ کراچی سے گلستان جوہر ایک دائرہ سابن گیا تھا جس میں ہم سب کی جان موت اور زیست کی کشمکش میں تھی ۔

اس دوران کیے جانے والے ایس ایم ایس اور ٹیلی فون کالز کا حساب فرشتے ہی  رکھ سکتے تھے ۔ آپ کی فائل موٹی ہوتی گئی اور حالت ردی ! آپ کی تیزی سے پگھلتی شمع زندگی کو دیکھ کر دوسرے ہسپتال کو ریفر کرنا ، پھر ایمبولنس کا سفر اور آئی سی  یو میں دوبارہ داخلہ !  اور پھر آپ  کا سائیکوسس  کا شکار ہونا ! کتنی عجیب بات ہے ناکہ  ہم بھائی بہنوں کی کم گوئی اور مردہ دلی اور آپ کی زندہ دلی اور باتونی شخصیت  زندگی بھر کشمکش میں رہی مگر ان پندرہ دنوں میں صورت ھال آہستہ آہستہ بالکل برعکس   ہوتی  گئی ۔ آپ کی زبان  خاموش ہوتی گئی اور ہم سب بول بول کر تھک گئے ۔ آپ کے تبصرے ہوں ہاں  تک محدود  ہوتے ہوتے  اس جزیرے تک پہنچ گئے  جہاں صرف رب کی سرگوشی ہوتی ہے اور کان صرف  و نحن اقرب الیہ منکم کی پکار سنتے ہیں   مگر نہیں ابھی تو کچھ مرحلے باقی تھے ۔

   آپ کی مایوس کن حالت پر ہم سب کے اعصاب جواب دینے لگے ، ڈاکٹرز ناامید اور انتظامیہ اپنے بل سے مطمئن ہوگئی تو پھر ہمارا کارواں  ایمبولنس پر سوار ایک اور اسپتال کی طرف رواں دواں ہوا ، جہاں آکر آپ کی ظاہری حالت تو پرسکون ہونے لگی مگر کانشسس لیول نہ ہونے کے برابر رہ گیا اور صرف اور صرف دعاوں  پر انحصار رہ گیا ۔

 کیسے تھے وہ لمحات  ! ایک مہربان  دین دار لیڈی ڈاکٹر  آپ کی دیکھ بھال پر مامور تھی اور عصر مغرب کے  درمیان فرشتوں کی تبدیلی کے اوقات  جب میں آپ کے سرہانے کھڑی تسبیحات دہرارہی تھی  اور آپ لپک کر  اپنے رب سے ملنے چل دیں ! آپ ہمیشہ لوگوں سے ملاقات کو بے چین رہتی تھیں اور خوش آمدید کہنے کو تیار ! یہ تو رب اعلیٰ کی  پکار تھی ، فرشتے لینے آپہنچے ! کیوں نہ جلدی کرتیں ؟

مجھے ڈاکٹر نے زبر دستی باہر بھیج دیا۔ میں روتی ہوئی آئی سی یو سے نکلی تو ٹی وی اداکارہ عائشہ خان اپنے بھانجے کو دیکھنے داخل ہورہی تھیں۔انہوں نے مجھے گلے لگاکر بوسہ دیا اور توجہ دلائی کہ رونے کا نہیں دعا کا وقت ہے کتنی مبارک گھڑی ملی ہے تمہاری ماں کو.!  کس قدر قابل رشک ہے ان  کی   روانگی !  ان کی تسلی نے مجھے ہمت دی ۔ میں آئی سی یو کے لاونج میں کھڑی  آپ کے اس الوداعی سفر کی اطلاع لوگوں کو دے رہی تھی تو اسی لمحے موبائل پر میاں طفیل محمد کی جدائی کی خبر بھی ملی ۔ آپ ہمیشہ اچھے لوگوں  کے درمیاں رہنا پسند کرتی تھیں لہذا اس موقع پر بھی تنہا نہ تھیں ۔

 جب روحوں کا قافلہ آسمان کی رفعتوں میں  داخل ہوا ہوگا تو فرشتے بھی ان پر رشک کر رہے ہوں گے ۔آپ صرف زمینی نہیں آسمانی مخلوق میں بھی مقبول رہی ہوں گی   جبھی تو ہم سب پر ایک سکینت طاری ہوگئی ہے !  شب جمعہ میں تدفین کے بعد بارش کا نزول ! اللہ آپ کی ہر منزل آسان کرے آمین  اور امید ہے کہ ان شاء اللہ  ایسا ہی ہوا ہوگا کیونکہ آپ کی وفات کے بعد اندازہ ہوا کہ بہت پر آسائش زندگی گزارنے کے باوجود آپ کا سامان زیست بڑا مختصر نکلا ۔ سب کچھ تو آپ اپنے ہاتھوں سے تقسیم کر چکی تھیں ۔ یقینا حساب کتاب میں ہلکی رہی ہوں گی  اور یہ ہی دعا آپ کی ڈائری کے آخری تحریر کردہ صفحے پر الحسیب کی تشریح میں لکھی تھی ۔

 یہ وہی ڈائری ہے جو آپ باقاعدگی سے لکھتی تھیں اور جو آپ کے اسپتال کے قیام کے دوران بچے  بحفاظت لیے پھر رہے تھے کہ نانی/ دادی  واپس آکر لکھیں گی اور اب مایوس ہیں کہ اسے کون مکمل کرے گا ؟  آدھی ڈائری تو  خالی ہی رہ گئی ہے ۔ بچوں کو تو یہ افسوس بھی ہے کہ وہ ڈھیروں کہانیاں جو چھٹیوں میں  آپ سے سننے کے لیے جمع کی تھیں اب کون سنائے گا ؟

 اپنے اپنے افسوس کے ساتھ ہم سب آپ کی جدائی پر نڈھال ہیں  مگر آپ کی خوش قسمتی پر رشک آرہا ہے  کہ آپ ہمیشہ لوگوں کے درمیان خوش اور مطمئن رہتی تھیں ۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی مصروفیات نے میل جول کم کردیا تو بھی ٹیلی فون کے ذریعے لوگوں سے رابطے میں  رہتی تھیں ۔ اب وہاں بھی اپنے بہن بھائی ، شوہر، سہیلیوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مصروف اور مطمئن ہوں گی  اور ننھی فضہ نے تو چونکا دیا سب کو یہ کہہ کر کہ  نانی اپنے بچوں کے ساتھ آرام سے جنت میں پھل کھا رہی ہوں گی !ہم سب کے استفسار پر بولی ۔۔" آپ کو پتہ نہیں آپ کے تین بہن بھائی پہلے سے اللہ میاں کے پاس موجود ہیں ۔۔"

اف یہ بچے ! کس قدر زبردست تخیل رکھتے ہیں ۔ہم سب کو یہ بات  معلوم تھی لیکن خیال ہی نہ رہا کہ ۔ یہاں آپ اپنی اولاد کو دیکھ کر تقویت حاصل کرتی تھیں کہ جن کی تمام سرگرمیاں  ، دلچسپیاں اور مصروفیات آپ کے گرد گھومتی تھیں ۔ گھر کا مینو ہا یا ترتیب ، کوئی دعوت ہو یا پروگرام ۔۔۔آپ کو محور بنا کر مرتب کیا جاتا تھا  اور اس پر آپ کا احساس تشکر ہم   سب کے لیے  خوشی کا باعث ہوتا تھا  اور اس خوشی سے آپ وہاں بھی محروم نہیں ہیں! کتنا دلآویز تصور دیا ہے اس بچی نے !!

اسی طرح اور بہت سی باتیں اپنے بچپن، اپنی زندگی، اپنے اسکول ، اپنے اساتذہ ، اپنے دوستوں اور کھیل کھلونوں کی جو آپ نے اپنی اولادوں اور ان کی اولادوں کے ساتھ  شئیر کی تھیں ۔ایک خوبصورت سرمایہ ہے ان سب کے لیے !  ہم سب کے لیے آپ کا سرمایہ ، آپ کی قناعت و توکل اور انسانیت کی فلاح کا اجتماعی تصور ہے جس پر ہر ایک اپنی اپنی تشریح کے مطابق عمل پیرا ہے ۔

 مجھے یاد آرہا ہے کہ اپنی گویائی معدوم ہونے سے پہلے آپ نے مجھ سے قلم کے بارے میں  دریافت کیا ۔ میں نے پوچھا آپ کچھ لکھیں گی ؟ تو کہنے لگیں نہیں تم لکھو ۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ تھا  کہ میں ان کی کیفیات ، اسپتال کے حالات ، اور انتظامیہ کے رویے کے بارے میں لکھوں ۔یہ ان کی مجھ سے امید تھی ۔ان کی خواہش اپنی جگہ مگر میری تحریریں آپ کی حوصلہ افزائی سے ہی تو نمو پاتی تھیں ۔اب ان میں وہ رنگ کہاں سے آئے گا ؟ ماں سے محرومی کا دکھ تو موسیٰ نے بھی سہا تھا ۔ اب ہمیں بھی ایک ملال اور فکر مندی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے !

امی سے زندگی بھر ہم شاکی رہے کہ  آپ دوسروں کو ہم پر ترجیح دیتی ہیں ۔ مجھے یاد ہے ایک دن میرے اس شکوے پر آپ بول پڑی تھیں  

  " تمہیں اسلام آباد جانا تھا ، اگر میں نہ جگاتی تو تمہاری فلائٹ چھوٹ جاتی ۔ تمہا را انٹر کا پریکٹیکل تھا ، کتنی بارش تھی جو میں تمہیں لے کر گئی تھی ۔۔"  اور میں غصے میں ہونے کے باوجود آپ کا بازو پکڑ کر ہنس پڑی تھی  آپ کی معصو میت اور سادگی پر !  آپ سے کہہ نہ سکی تھی مگر آج اس کالم کے ذریعے کہنا چاہتی ہوں کہ آپ آن چھوٹے چھوٹے احسانات کو مت یاد دلائیں ! یہ تو ایسے ہیں جیسے بڑے بڑے ذخائر سے گرنے والے چند موتی !  ہماری تو زندگی ہی آپ کی احسان مند ہے ( اور یہ جاننے کے بعد کہ ایک نایاب ترین بلڈ گروپ رکھنے کی وجہ سے اولاد کی پیدائش کتنا بڑا رسک تتھی آپ کی زندگی کے لیے ! جس کو اٹھا کر آپ نے ہم سب کو جنم دیا ۔ اس احسان  کا بار کئی گنا بڑھ گیا ہے )

 بس  آپ ایسی ہی تھیں ۔ بچوں کی طرح معصوم جو بہت قیمتی اشیا ء کے مقابلے میں معمولی چیزوں سے بہل جاتے ہیں ۔ مگر آپ کا درجہ اور احسان اتنا سطحی نہیں ہے ۔ اس کے لیے تو قیمتی سے قیمتی انعام بھی ہیچ ہے ۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اشتہار میں آنے والے بچے کی طرح ڈائس پر کھڑے ہوکر ساری دنیا کو بتادوں :

 " میں آپ کے احسانااات نہیں گن سکتی ۔ میری زندگی کی ہر کامیابی کی اصل حقدار آپ ہیں امی جان !!"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرحت طاہر 

 :نوٹ 

اپنی ماں کے متعلق لکھنا پچھلے 20/ 25 سال سے  ایجنڈے میں تھا ۔۔شاید چینلز کے ذریعے مدرز ڈے کی خصوصی نشریات کا اثر تھا ۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ امی کے متعلق جب بھی کچھ لکھنا شروع کیا خواہ کاغذ قلم سے یا کی بورڈ کے ذریعے، وہ تکمیل نہ پاسکا اور حتی کہ حذف بھی ہوگیا ۔۔۔😥

!شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ امی کا تشہیر سے اجتناب کا رویہ ہمارے آڑے آتا رہا ہو

زیر نظر تحریر کا بیشتر حصہ اس وقت لکھا گیا جب میں ان کے ساتھ اسپتال میں تھی ۔۔مجھے لکھتے دیکھ کر ڈاکٹرز اور اسٹاف اکثر چوکنا ہوکر میرا ذریعہ معاش پوچھنے لگتے کہ کہیں میں ان کے خلاف کوئ رپورٹ نہ لکھ رہی ہوں😋

اپنے احساسات کو ان کے انتقال کے بعد اشاعت کے لیے بھیج دیا جو فورا ہی شائع ہوگیا ۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے اصلی نام کے بجائے کنیت کا سہارا لیا لیکن اس کے باوجود بہت سوں نے پہچان کر فون پر اپنا تبصرہ دیا ۔

نوٹ : اگرچہ اس مضمون کو دوبارہ شائع کرنے میں تبدیلی کی بہت گنجائش تھی لیکن ماسوائے کچھ انگلش الفاظ حذف کرنے کے اس کو جوں کا توں ہی شائع کر رہی ہوں کہ یہ اس وقت کی ذہنی کیفیت کو درست انداز میں ظاہر کر سکے ۔۔

ہفتہ، 21 جون، 2025

بدلتی رت

 


 بدلتی رت

 

نومبر 1970 ء 

حیدرآباد، سندھ

" چچی جان !  شاہینہ کو چھوڑ جائیں ! ابھی تو الیکشن  کی وجہ سے  اسکول بند ہوں گے !۔۔۔" روحی نے اپنی چچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

 شاہینہ اور اسکے بہن بھائی اپنی والدہ کے ہمراہ  عید منانے تایا جان کے گھر  کراچی سےآئے ہوئے تھے ۔ ملک کے حالات  اورچھوٹے بچوں کے ساتھ سفر آسان نہیں تھا   لیکن چونکہ  دادی جان بھی  یہاں تھیں اور ان کے ابا ملک سے باہر تھے تو یہ ہی مناسب فیصلہ تھا۔

" نہیں بالکل نہیں ! امی ووٹ ڈالنے جائیں گی تو پپو کو کون سنبھالے گا ؟  " ماجد بھائی نے شاہینہ کا  بازو پکڑتے ہوئے کہا   تو سب ہنس پڑے ۔ امی جان نے پیار سے اپنے  بارہ سالہ بیٹے کو دیکھا جو اپنےوالد کی غیر موجودگی میں بہت ذمہ دار بن گیا تھا اور بول پڑیں ۔

"   ہاں بھئی میرا ماجد اخبار پڑھتا ہے ،ریڈیو پر خبریں سنتا ہے  اور پنے نانا کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرتا ہے ۔  اس کے سیاسی شعور  کو ہرگز ہلکا نہ لیں ۔۔۔" 

اس محفل کے ساتھ ہی الوداعی لمحات آگئے  اور وہ سب کراچی  واپس ہولیے۔

 گھر پہنچتے ہی امی جان تو  گھر کے کاموں میں لگ گئیں اور بچے شام ہوتے ہی محلے میں کھیلنے چلے گئے۔ چونکہ  عید پر یہاں نہیں تھے تو بہت سی باتیں کہنی سننی تھیں ۔ عیدی کا حساب کتاب پوچھنا  اور بتانا تھا۔

 شاہینہ گلی میں نکلی تو عالیہ اپنے چھوٹے بھائی کو کمر پر اٹھائے عید کی باقیات چشمہ، گھڑی پرس لٹکائے آتی نظر آئی ۔ لیکن شاہینہ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھنے کے باوجود نظر انداز کرتے ہوئے  عبد الحنان کےگھر گھس گئی ۔ شاہینہ حیرت زدہ رہ گئی کیونکہ ان دونوں کے گھروں میں بالکل آمد و رفت نہیں تھی۔ باوجود اس کے کہ ان کی زبان ایک تھی ۔عبد الحنان   کاگھرانہ شدید  مذہبی تھا جبکہ عالیہ کے گھر میں  جدیدیت تھی ۔شاہینہ  اپنے بھائیوں کے ساتھ  کبھی کبھار  عبد الحنان کے گھر چلی جاتی تو اس کی امی زبان نہ جاننے کے باوجود  اس کی آؤ بھگت کرتیں کہ ان کی کوئی بیٹی نہ تھی۔ ان کو کٹھل اور ناریل کی مٹھائی کھلاتیں ۔ عبد الحنان اور اس کے بھائی  بھی شاہینہ کا بھرپور سواگت کرتے  تھے۔

عالیہ کے پیچھے پیچھے شاہینہ بھی اندر داخل ہوئی ۔  وہ سب باغیچے میں بنے حوض میں کاغذ کی کشتیاں بنا کر ڈال رہے تھے۔ ہنس ہنس کر ایک دوسرے سے بنگالی میں باتیں کر رہے تھے ۔ شاہینہ کو دیکھتے ہی  عالیہ نے نہ جانے کیا کہا کہ وہ سب  قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔  ابھی شاہینہ کچھ سمجھ ہی رہی تھی کہ ماجد نے آکر اس کا ہاتھ پکڑا اور گھر واپس لے گیا۔  ان دونوں گھروں  میں  آنے جانے کی پابندی   شاہینہ کو کچھ سمجھ آئی کچھ نہیں !  بہر حال  اس دن کے بعد وہ دونوں گلی میں  بالکل نظر نہیں آئے ۔  بچوں کی کمی نہ تھی لہذا شاہینہ اور اس کے بہن بھائی  دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگے ۔

 ایسے میں انتخابات  کا دن بھی آگیا۔جس کی خصوصی  نشریات  جمیلہ آنٹی کے گھر لحافوں میں گھس کر  ٹی وی    دیکھنے میں بڑا لطف آیا ۔ مزیدار چٹکلے  اور مختلف ڈرامے  سے لطف اندوز ہوئے لیکن نتائج بڑوں کو  تفکرات میں مبتلا کر رہے تھے ۔ بد ترین اندیشوں کی تصدیق ہوتی جارہی تھی  ۔ نیاسال نئی  پریشانیاں لے کر وارد ہوا ۔ مشرقی پاکستان سے پریشان کن خبریں آنے لگیں اور پھر بالآخر جنگ کا        بگل بج گیا ۔ خندق اور بلیک آؤٹ بچے پہلی دفعہ سن رہے تھے ۔ چھوٹے بچوں کے کانوں میں روئی ٹھونس دی جاتی تھی کہ بم کی آوازوں  سے متاثر نہ ہوں ۔ خندق میں   نت نئے کھیل ہوتے ۔ کبھی باہر نکلتے تو بچے آپس میں  ملاقات کرتے   مگر کھیل نہ پاتے کہ کوئی نہ کوئی آنٹی  بچوں کو دعائیں پڑھوانے میں لگ جاتیں ۔ جنگ ختم ہوئی اور سب خندقوں سے باہر آئے لیکن یہ کیا  ؟سب بڑے رو رہے تھے ۔ ننھی شاہانہ نے امی کو روتے دیکھا تو بولی

"۔۔۔۔ابا کو بلالیں وہ ٹھیک کردیں گے !   "                                               امی نے اسے گلے سے چمٹا لیا ۔

 شاہینہ کی پھوپھی مشرقی پاکستان میں رہتی تھیں ۔ ان سے رابطے کم ہوتے ہوتے ختم ہوگئے تھے۔ لیکن پھر ابا جان کے ذریعے ریڈ کراس کے تعاون سے ان کی خیریت کی اطلاع ملی اور پھر وہ لوگ بھی کراچی آگئے ۔ بدحال اور لٹے پٹے ! پھوپھی کے بچے سنبل اور صباح الدین شاہینہ اور اسکے بھائی کے ہم عمر تھے ۔ سنبل نے بتایا کہ بلبل اورجھرنا ان کےپڑوسی  اور دوست تھے ۔ ساتھ  کھیلتے اور اسکول جاتے تھےلیکن انہوں نے ہم سے بات چیت بند کردی ۔ اگر کبھی ضرورت پڑتی تو انگریزی میں بات کرتے کہ اردو ہماری زبان نہیں ہے ! تو کیا  انگریزی   ان کی زبان ہے ؟  شاہینہ نے بات کاٹی

 " نہیں  بنگالی ۔۔۔!           "   " اور انہوں نے ہمارے قائد اعظم اور پاکستان  کو گالیاں دیں ، ان کی تصاویر  پھاڑیں ، پاکستان کے جھنڈے کو آگ لگائی ۔۔۔۔"

اوہ ! ۔۔۔"                                                      شاہینہ نے اپنی بات کہی ۔

عالیہ کے  گھروالے  آزادی کا گیت گاتے   یہاں سے روانہ ہوگئے۔ عبد الحنان کے گھر تالا لگ گیا ۔ سب سے زیادہ غم بچوں کو قاری صاحب کے جانے کا تھا ۔ ابھی تو شاہانہ، ساجد، امجد کا قرآن نامکمل تھا۔ ننھا پپو جس کا نام راشد منہاس کی شہادت کے بعد راشد رکھ دیا گیا تھا ۔  اگر اسے کوئی  ڈانٹتا  تو اپنی توتلی زبان میں کہتا کہ کیا میں بنڈالی ہوں جو مجھے ڈانٹ رہے ہیں !! "                                 حالات بدلنے لگے تھے ۔

اسکول میں  بچوں نے کاغذ زمین پر پھینکے ہوئے تھے ۔ پرنسپل مسز شاہ نے اسمبلی میں بچوں کو بہت ڈانٹا ۔

"۔۔۔آپ کو پتہ نہیں ہے مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا ۔ کاغذ  وہیں سے آتا تھا  ۔ اب ہمیں مہنگا باہر سےمنگوانا پڑے گا ! "

   آہ مشرقی پاکستان !!! نقصان کاتخمینہ الگ  یہاں تو نفرت کے دریا بہنے لگےتھے  دونوں بازوؤں میں !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نومبر 2010 ءء

مکہ مکرمہ

شاہینہ ،  بھائی  اور خاندان کے دوسرے  افراد حج پر آئے ہوئے تھے ۔ منیٰ میں  ارکان حج کی ادائیگی تھی ۔ نا اہلی کہیں یا بد  دیانتی کہ تمام ادائیگی کے باوجود ان کی رہائش    کا  انتظام بہت ناقص تھا  چنانچہ وہ سڑکوں پر شرطوں کی ڈانٹ سن کر رل رہے تھے   ۔  ایسے میں شاہینہ اپنے گروپ سے بچھڑ گئیں ۔ کراچی سے ان کی بیٹی کا فون آیا تو وہ حالات جان کر پریشان تھی۔ ان کی بات سن کر قریب سے ان کی بیٹی کی ہم عمر   لڑکی ان کے قریب آگئی کہ مدد کر سکے ۔ لیکن ان کے درمیان زبان کی رکاوٹ تھی کہ شاہینہ کو بنگالی نہیں آتی تھی اور  اس کو اردو۔  بد قسمتی کہ عربی سے دونوں ہی  ناواقف تھیں چنانچہ ان کو  انگریزی کا سہارا لینا پڑ رہاتھا۔

 سویرا نام کی اس لڑکی نے شاہینہ کو سہارا دیا اور اپنےفون سے ان کے گروپ کے لوگوں سے بات  کروائی کیونکہ ان کے فون میں بیلنس ختم ہوگیا تھا۔اس نے شاہینہ کو  بتایا کہ   اس کی والدہ  کا بچپن  پاکستان میں  گزرا ہے ۔۔۔مزید تفصیل سے معلوم ہوا کہ وہ عالیہ ہی کی بیٹی ہے ! سویرا نے بتا یا کہ میں اپنے تینوں بچوں کو انہی کے پاس چھوڑ کر آئی ہوں ! لمحے بھر میں چالیس سال  پرانے  واقعات اور چہرے  گھوم گئے ۔شاہینہ کا بس نہیں چل رہاتھا کہ اس بے سرو سامانی  کے باوجود  کچھ تحفہ،  کوئی یادگار عالیہ اور اس کی بیٹی کے لیے  دے لیکن اس کی مہلت ہی نہ آئی ۔ ایک مرد جو یقینا سویرا کاشوہر  تھا ۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر غصے سے لے  گیا ۔اس کاگروپ ساتھ  تھا جو حقارت سے شاہینہ کو دیکھ رہاتھا ۔ وہ اپنی بیوی کو گھرک رہا تھا کہ پاکستانیوں سے رابطہ رکھنا ہماری حکومت کے لیے کتنا نا پسندیدہ ہے !اتنے میں شاہینہ کے گھر والے بھی اس کو ڈھونڈتے آپہنچے اور وہ سب بھیڑ میں گم ہوگئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگست 2024 ء

 ڈھاکہ

بریکنگ نیوز : احتجاجی مظاہرے میں شریک تقریبا    50 لاکھ افراد نے حسینہ واجد کے استعفی اور ملک سے فرار کے بعد اپنے مطالبات کو تسلیم کروالیا َ

ہر طرف خبریں تھیں ، تجزیے تھے ، !   "فضا  " امی کہ ، تمی کہ ؟  رجا کار ، رجا کار!"  ( ہم کون ؟ تم کون ؟ رضا کار ، رضاکار ) کے نعروں سے گونج رہی تھی 

شاہینہ سوشل میڈیا  کے ذریعے  بدلتی رت کا نظارہ کر رہی تھی ۔ یہ شاید ان ہی   بہت سے لوگوں کی روحانی نسل تھی جو  اپنے ہی ہم زبانوں کے ہاتھوں تختہ دار پر چڑھ گئے ۔کتنوں نے قربانیاں  دیں  ، ایک جہد مسلسل تھا  جو ظلم کے خلاف روا رکھا گیا  اب یہ ہی  افراد بھارت کی غلامی سے آزاد ہوکر فتح کا جشن منارہے تھے۔ بھارت سےمنسلک ہر چیز تہ و بالا کی جارہی تھی ۔  

۔۔۔۔شاہینہ  سوچ رہی تھی یقینا ان لوگوں میں عالیہ اور عبد الحنان جیسے  گھرانے  بھی ہوں گے جو اپنی   ترپن سالہ پرانی  غلطی کی تلافی کررہے ہوں گے !!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 فرحت طاہر

 کراچی

 

 

 

 

اتوار، 1 دسمبر، 2024



*پکنک کہانی*

    نومبر کے آغاز میں جب پکنک کا اعلان ہوا تو ہم نےاپنے عذرات اورتحفظات کے باعث  بے رغبتی کا اظہار کیا

 ہے  یہ معلوم  ہوا کہ گھر والے بھی ساتھ لے جاسکتے ہیں تو ہم نےبھی  دلچسپی  لینا  شروع کیا اور ظاہر ہے ان کو شامل کرنے کے لیے خود بھی جانا ضروری ٹھہرا!  لیکن جوں ہی دن قریب آئے تو ان میں سے کئی کے امتحان کی تاریخ آگئی. اور 22/23 نومبر کو اکثریت کا پیپر تھا۔ ظاہر ہے  وہ فہرست سے نکلے تو ساتھ ہی ان سب  کی والدہ محترمہ بھی! ایک کی بیرون ملک سفر کی تاریخ فائنل ہوگئی   اور کچھ بیمار ہوگئے۔ یوں ہم بھی  زرتعاون ادا کرنے کے باوجود  حیص بیص کا شکار تھے بہرحال کچھ دوسرے لوگوں کو راضی کرتے رہے۔...

بیماری کے باعث معذرت کرلی۔ اور پکنک سے 24 گھنٹے پہلے انکشاف ہوا کہ ہماری  ذمہ داری ایک  بس کی  ہے. کیونکہ  جن کےپاس ذمہ داری تھی

پکنک سے پہلے والی شام  مردانہ نظم نے کمال مہربانی  کے ساتھ ہمیں ڈرائیور کے رابطہ نمبر عطاکردیے۔ اگلے دن مقررہ وقت پر ہم نے  ڈرائیور کو پہنچنے کی ہدایت دی جس پر انہوں نے بروقت عمل کیا.

سب سے پہلے بس میں پہنچنے والی نمرہ عبد الباقی اپنے ننھے منوں کے ساتھ موجود تھیں... وقت کی پابندی پر بے انتہا تعریف !آہستہ آہستہ سب آتے  رہے اور کوسٹر مکمل طور پر بھر گئی۔ اس میں کل 38 مسافر تھے جن میں 21 خواتین اور 2 سے 12 سال کی عمر کے 14 بچے جبکہ 13سے 20 سال تک کی   نوعمر بچیاں  تھیں۔ اس کے علاوہ تفریح، کھیل اور کھانے کا بے شمار سامان!  

سورج  گرم ہورہا تھا اور ہم سب چلنے  کے لیے بے چین کیونکہ جہاں ساری بسوں کو جمع ہونا تھا وہاں وہ ہمارے منتظر تھے  .. اپنے بلاک سے نکل کر جیسے ہی ہم ڈبل روڈ پر آئے تو وہ گاڑی سامنے آگئی جس کا ہمیں انتظار تھا. ہم نے ایک دوسرے کو جوائن  ہی کیا تھا کہ ایک دم ہماری گاڑی رک گئی.. یہ کیا  

 دل وسوسوں میں گھرنے لگا.  سفر کا آغاز ہی میں یہ بات ہوگئی۔  انتظامیہ کی گاڑی بھی آپہنچی... دوسری بس منگوانے پر غورہونے لگا مگر ڈرائیورز کی مثلث نے بالآخر بس کو راضی کر لیا اور چل پڑی۔.

 ٭پکنک کہانی...  2

 

گاڑی  سانس لیتے ہی فراٹے بھرنے لگی اور بہت جلد اس سنگم پر پہنچی جہاں کئی اور گاڑیاں بے چینی سے ہماری راہ تک رہی تھیں اور پھر ان سب کو پیچھے چھوڑتی ہوئ ہماری بس سب سے آگے رواں دواں تھی۔ لو ٹوتھ کے ذریعے بس میں ترانے گونج رہے تھے ٹیکنالوجی کا شکریہ !!

بہت جلد ٹوٹی سڑکوں اور کچرے کے ڈھیر کا سلسلہ ختم ہوا اور ہموار صاف ستھری سڑک پر  سفر شروع ہوگیا 

کیا یہ بھی کراچی کا حصہ ہے؟؟؟ شاید ہم سب یہ ہی سوچ رہےتھے..!! 

اور پھر شہری  حدود مدھم پڑنے لگی اور ملیر ندی کے ساتھ عمارتوں کے بجائے قصباتی مناظر اور ماحول سامنے تھے.

اور 12 کلو میٹر کا فاصلہ  25 منٹ میں طے کر کے ہم شمسی فارم ہاؤس پہنچ چکے تھے... اتنی جلدی!!!  گھڑی دیکھی تو ابھی پونے دس ہی ہوئے تھے...

اندر داخل ہوتے ہی مٹی اور گھاس کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائ  اور  آنکھوں نے ایک خوشگوار سا منظر دیکھا...

 !! گہری گہری سانس لی... جیسے ایک نشئ اپنے نشے کو سونگھتا ہے 

بس سے اتر کر کوئی جانوروں کی طرف بھاگا تو کسی نے سوئمنگ پول کی راہ لی مگر سب سے پہلے ناشتہ کرنا ہے کیونکہ آنے کی جلدی میں  کسی نے ڈھنگ سے ناشتہ کیا بھی تھا تو اب تک ہضم ہوچکا تھا.. کچھ  خواتین موشن سکنیس سے نڈھال ہوتی ہیں اب کھلی فضا میں کچھ بحال ہورہی تھیں۔

ہمارے کچھ ساتھی جو گاڑی کے زریعے یہاں پہنچے تھے ایک دوسرے کو دیکھ کر اتنا خوش تھے گویا برسوں بعد ملاقات ہوئی ہو

 ایک دلچسپ مکالمے سننے کو مل رہے تھے 

ارے یہ تم ہو؟ 

اللہ آپ کتنی مختلف لگ رہی ہیں

اف پہچاننا مشکل ہے 

یہ اس لیے تھا کہ ہمیشہ ایک دوسرے کو حجاب اور نقاب میں دیکھتے ہیں اور یہاں اب بے فکری سے گھریلو انداز میں تھے کی صنف مخالف کا دور دور تک گزر نہ تھا. فارم ہاؤس کے کمرے  دیدہ و دل فرش راہ تھے مگر وہاں شاید ہء کوئی بیٹھنے کو تیار. گھروں میں تو لاؤنج سے کمرے تک بیٹھتے ہی ہیں آج تو کھلی فضا سے لطف لینا ہے چنانچہ فرش پر درختوں کے نیچے ہی چادر بچھا کر دستر خوان سج گئے. جو خواتین نیچے نہیں بیٹھ سکتیں وہ کمرے کے باہر بنے چبوترے کو ڈائننگ ٹیبل بناتے ہوئے ناشتہ سے لطف اندوز ہونے لگیں۔.

سب ایک دوسرے کو نوالے بنا بنا کر دے رہے تھے.. 

 ہر طرف تواضع ہورہی تھی حلوہ پوری تو چنے کا سالن... کسی نے گھر میں اگائ پیاز کا بنا آملیٹ ہمارے منہ میں ڈالا تو کسی نے  ابلے انڈے کا سنڈوچ، تو کسی نے شامی کباب !

ایک خاتون نے ہم سے  ہاتھ دھونے کےصابن کا مطالبہ کیا اور ہم ہونق ہوکر انہیں دیکھنے لگے ... بیگ میں رکھے پولی فیکس مرہم ،پٹرولیم جیلی، کاٹن / بنڈیج ، قینچی نظروں میں آگئے لیکن صابن ندارد! صفائی کے ذمہ دار کی حیثیت سے ہمیں اس کا خیال کیوں نہ آیا؟ 

خیر ایک سگھڑ خاتون کے بیگ سے صابن برآمد ہوا تو ہم نے سکھ کا سانس لیا..  

ناشتے سے فراغت کے بعد ہمیں کچرہ سمیٹنا تھا مگر یہاں سب کچھ سیلف سروس کے تحت ہورہا تھا لہذا ہمیں بالکل بھی محنت نہیں کرنی پڑی بلکہ سب نے خود ہی اپنا 

پھیلاوا سمیٹااور اپنی اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔۔۔۔

٭ پکنک کہانی                  ۔۔۔3

 

.. ناشتے کے بعد سب  بے چینی سے چائے کے منتظر تھے..کہ اس کا وعدہ تھا

اور *تھا جس کا انتظار وہ آگیا* کے مصداق، اس کی آمد نے ایک ہلچل سی مچادی..

سب قطار میں کھڑے تھے ایک عجیب گہماگہمی تھی.. حد تو یہ کہ جو تھرماس میں لانے والی چائے سے مستفید ہوچکے تھے وہ بھی اسی دلجمعی سے اس چائے کے انتظار میں تھے کہ اس کا لطف اور مزہ ہی کچھ اور تھا.

ہماری علاقے کی ناظمہ سعیدہ اشرف اپنے نائیبین صائمہ اور گوہر کے ہمراہ اس کی ترسیل میں ہماری میزبان ثروت شمیم اور حمیرا امان (جو ہم سے پہلے ہمارے استقبال کو  موجود تھی) کے ساتھ مسلسل  چائے کی ترسیل کی جدو جہد میں مصروف تھیں..

اللہ اللہ کر کے یہ مرحلہ طے ہوا تو لوگوں نے اپنی اپنی چھوڑی ہوئی سر گرمیاں دوبارہ شروع کر دیں.بلکہ کچھ لوگوں نے تو چائے کا وقفہ بھی نہیں کیا تھا

اب کہیں کرکٹ میچ شروع ہوگیا تو کہیں فٹبال، کہیں کہیں بیڈ منٹن کی پریکٹس اورکچھ جھولے پر لدگئے.. کچھ جانوروں کو بچا کھچا کھانا کھلانے لگے تو کچھ پانی کے


کیڑے پول میں جمپنگ !!

اور جو خواتین یہ سب کچھ نہیں کر رہی تھیں وہ کیا کریں؟. گھر میں ہوتیں تو گھر سمیٹ رہی ہوتیں،  برتن، کپڑے، بستر، بکھیڑے ہی بکھیڑے ہوتے ہیں. کچھ بچوں، گملوں/ پودوں/ جانوروں کی سیوا بھی کرتی ہیں..  اب یہاں تو فرصت ہی فرصت تھی نہ ماسیوں کا انتظار نہ ہی کھانے کی فکر !

دل ڈھونڈتا ہے فر صت کے وہی رات دن کہ بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

اب ان کے پاس باتوں کی مہلت ہی مہلت تھی. گھر کے قصے، بچوں کی باتیں، اپنا بچپن، کچھ اپنی مہارتوں کا ذکر تو نئی نسل کی سستی اور کاہلی پر مذاکرہ جاری تھا.... 

 کھانے کی ترکیبیں سکھائ جارہی تھیں!! 

باغبانی اور گھریلو مہارتوں میں عبور رکھنے والی ہماری ایک بہن للچائی ہوئ نظروں سے اونچائی پر املی کے پیڑ پر لٹکتے ہوئے کتارے دیکھ رہی تھیں اور سب کو اکسا رہی تھیں کہ اس کے پتے بھی مزے کے ہوتے ہیں  . 

جی بہت کھٹے ہوتے ہیں.... 

مگر املی کے پیڑ پر جن ہوتے ہیں !

ہم نے انہیں اسی طرح ڈرایا جیسے ہمیں بچپن میں ڈرایا جاتا تھا..  دراصل انہیں اس اڈونچر سے باز رکھنا تھا کہ کہیں وہ انہیں توڑنے کی کوشش  میں کوئی حادثہ نہ کرلیں ! )               یہ کوئ گھر تو نہیں تھا جس کی چھت کے جالے وہ کل برش سے جھاڑ کر آئ تھیں۔..) 

ہم بھی اس محفل میں سامع کی حیثیت سے تھے کہیں کہیں لقمہ دیتے..یہاں کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اگر کوئی خاموش بیٹھ کر غور و فکر  میں   مصروف ہے تو اسے بھی آزادی تھی کہ کوئی مخل نہ کرے!

دائیں طرف  دادی جان اپنی پوتیوں کو جھولا جھلا رہی تھیں تو  آگے بائیں طرف پانی کے تالاب میں نانی جان اپنے نواسے نواسیوں کے ساتھ غوطے میں مصروف !ہم اپنی پیاروں کو یاد کررہے تھے جو اس وقت امتحانی کمروں میں قلم اور کاغذ سے بر سر پیکار ہوں گی! یاد آتے ہی آسانی کی دعا نکلی! کچھ بچھڑے مل رہے تھے تو کہیں نئی دوستی کا آغاز ہورہا تھا... ہم ہر وقت شکوہ کرتے ہیں کہ لوگوں سے ملاقات کا وقت نہیں ملتا  یا لوگ نہیں ملتے!.

یہاں یہ دونوں سہولتیں وافر مقدار میں موجود تھیں...آتے جاتے سلام دعا تو ہوہی رہی تھی. مسکرا کر دیکھنے کے صدقے کا بھی اہتمام دل کھول کر ہورہا تھا...  کہیں بامقصد ملاقاتیں تھیں تو کہیں سرگوشیوں میں تبصرے، کہیں رشتے ناطے بھی جوڑے جارہے تھے.. 

تھوڑی دیر بعد ناظمہ ضلع ندیمہ تسنیم اور نائب رفعت بشیر بھی پہنچیں اور سب میں گھل مل کر باتوں میں مصروف ہوگئیں

ندیمہ بہن سے بات کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کا جبڑا زخمی ہے اور کل آپریشن ہے

اسلامیہ کالج کو منہدم کرنے پر احتجاج کرنے والوں پر تشدد کے نتیجے میں

اف!!! 

میں نے ان پر نظر ڈالی تو مامتا کی روشنی دیکھی جو ستر ماؤں سے زیادہ رحم کرنے والی ہستی پر بھروسہ کرنے پر  ان کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی.... 

: اس کہانی کو لکھتے وقت یہ طے کیا ہے کہ سوائے ذمہ داران کے کسی کا نام نہیں لکھنا ہے 

کیونکہ جس کا نام لکھنا بھول جاؤں اس کی ناراضگی کا خطرہ 

اور دوسری طرف جس کا لکھوں اس کے ناراض ہونے کا اندیشہ کہ میری بات کیوں لکھی 

لہذا اس میں اپنے آپ کو خود تلاش کریں!!!



*پکنک کہانی... 4 

اب 12 بجنے والے تھے..  کچھ کچھ تھکاوٹ لگنے لگی تھی کہ  تیاری میں نیند بھی ڈھنگ سے نہیں آئ اور سویرے بھی جلد اٹھے تھے...

باتیں بنانے والا گروپ بھی اب کچھ نڈھال ہوکر کمر ٹکا رہا تھا تو ہم کچھ نئی ملاقاتوں کے لیے پول کی طرف لپکے! کچھ پرانے لوگوں سے تفصیلی ذاتی باتوں کا ارادہ تھا وہ  تو نہ ملے البتہ غیر متوقع طور پر ایک نند بھاوج سے ملاقات ہوگئی۔ 

  اس کے بعد باغ کی طرف چلے جہاں  خزان رسیدہ گھاس پر جگہ جگہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو کچھ درخت کے تنوں  پر ٹکے ہوئے تھے. ہم نے بھی کچھ سے ملاقاتیں کیں.  یہاں سیلفیز لینا آسان تھا کہ لوگ دور دور تھے اور کسی کی پرائیویسی پر کوئی ضرب پڑنے کا امکان نہیں تھا .. یہاں وہاں  گھوڑے ٹہل رہے تھے. گھڑ سواری کا خیال آیا مگر اس کے لیے یقیناً کسی  سائیس کو آنا پڑتا جس کی گنجائش نہ تھی.. 

بہت دور ایک بیل بھی کھڑا تھا. ہم تو ان جانوروں کے قریب بھی نہ پھٹکے کہ کیا بھروسہ کب دولتی جھاڑ دے..؟ 

 پھر گھوم گھام کر واپس اپنے چبوترے پر آکر بیٹھ گئے..

۔ ہم نے آگے بڑھ کر استقبال کیا  کچھ سوتی جاگتی کیفیت تھی کہ دیکھا سامنے سے آمنہ عثمان اور رخشندہ منیب  خراماں خراماں چلی  آرہی ہیں!

اب چونکہ فرصت تھی اور نماز ظہر کا وقت ہوچلا تھا. تو اول وقت میں نماز ادا کرنے کا موقع  ملا... بہت ہی پرسکون سے ماحول میں بنی  خوب صورت چھوٹی سی مسجد میں نماز کا لطف ہی کچھ اور تھا... سامنے  حد نظر تک ہریالی بہت بھلی لگ رہی تھی... کچھ بہنوں نے مسجد کے سامنے رکھے بنچ پرنماز ادا کی تو کچھ نے مسجد کی منڈیر پر

  سب پوری ہی پڑھ رہےتھےیہاں یہ بحث نہیں تھی جو عموماً پکنک پر ہوتی ہے کہ قصر پڑھیں؟ یا مکمل نماز؟ 

 ایک اور بات جو یہاں محسوس ہوئی کہ مائیں بہت پرسکون تھیں. انہیں بچوں کی ہروقت کے جھگڑے نمٹانے سے فرصت تھی کیونکہ ہر بچے کو اپنی اپنی دلچسپی کا ۔سامان بھرپور مل رہا تھا تو اسکرین کے لیے کوئی چھینا جھپٹی نہیں نظر  آئ


...

*پکنک کہانی.. آخری حصہ*

 

نماز سے فارغ ہوئے تو خاصی گہماگہمی نظر آئ..  گھاس پر چادریں بچھ رہی تھیں.. کرسیاں جتنی بھی موجود تھیں لگائ جا رہی تھیں.. بیٹھنے کے لیے کچھ درخت کے تنے بھی موجود تھے 

آڈیو سسٹم اور مائیک بھی لگایا جارہا تھا یقیناً کچھ تذکیری اور تفریحی پروگرام کی تیاری ہے..

حیرت انگیز طور پر  اکثریت نظم و ضبط سے آکر  پرسکون انداز میں آکر بیٹھ گئی.. ہمیں جس گروپ میں جگہ ملی وہ کوئٹہ سے تھا.. ہم سمجھے کوئٹہ ٹاؤن سے آئے ہیں مگر معلوم ہوا یہ ساری خواتین زندگی کا بیشتر حصہ کوئٹہ میں گزار چکی ہیں... ہمیں تو کوئی خاص فرق نہیں لگا تھا لیکن  نئی دوستی ہونے والی خاتون کی نوعمر خوش مزاج بچی عائشہ نے اپنی والدہ  کو کچھ اور خواتین کی بابت بتایا کہ وہ  کوئٹہ کی لگ رہی ہیں..

 ہم اس کی مشاہدانہ قوت کے قائل ہوگئے

اس گروپ میں بیٹھنے سے ہمیں  کوئٹہ کے بارے میں مفید اور مطلوبہ معلومات ملیں.... 

جلد ہی زمہ داران کرسیوں پر متمکن ہوگئے اور پروگرام کا آغاز ہوا. تلاوت اور نعت تک تو مائیک نے کام کیا لیکن باہمی گفتگو کے وقت ناراض ہوگیا.. 

بہت افسوس رہا.. یقیناً کچھ متبادل ہونا چاہیے تھا ۔ اس دوران بریانی کی تقسیم  شروع ہوگئی ۔ اورہمیں اپنےسامان میں موجود پلیٹ چمچے یاد آئے ! 

اپنی بھانجی، بھتیجی جیسے لوگوں کو بھاگتے دوڑتے کام کرتے دیکھ کر بہت پیار آرہا تھا

سب خاموشی سے کھانے میں مصروف تھے.  تھوڑا ساکھا کر ہم نے اپنا بریانی کا ڈبہ بند کردیا کہ اس وقت اتنی ہی بھوک تھی اور پھر عائشہ نے جو ہماری تواضع کی.. جوس پلایا، ٹافیوں کا شاپر سامنے کیا تو ہم نے اپنی پسندیدہ ٹافی اٹھائ اور اس کے بعد  کہیں سے مٹھائی کا ڈبہ آگیا. بھرپور لنچ ہوا اور پھر عائشہ نے چگنے کے لیے سورج مکھی کے بیج بھی دے دیے۔...

کھانے پینے کا سامان دیکھ کر کوے بھی جھپٹنے کو تیار ہورہے تھے. منتظمین نے کمال مہربانی سے شاپر میں کچرہ جمع کرنا شروع کردیا. کچھ نے بریانی کے خالی ڈبے بھی احتیاط سے جمع کیے

نوجوان خواتین کے لیے علیحدہ نشست بچھائ جارہی تھی.. اس سے پہلے کہ  گفت و شنید  کا آغاز ہوتا وہ بیل جو انتہائی کونے میں نظر  آیا تھا جھومتا جھامتا اس نشست میں  آ پہنچا.. تمام لڑکیاں چیخ مار کر بھاگیں تو وہ آگے بڑھتے ہوئے ہماری طرف بھی آنے لگا. اور ہم  خواتین جو ہلنے کو بھی تیار نہ تھیں اور لڑکیوں کے ڈرنے پر انہیں  پرسکون رہنے کا کہہ رہی تھیں اب اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر چپلیں چھوڑ کر بھاگیں..  

کسی بہادر لڑکی نے اس کی رسی پکڑ کر اسے گرل سے باندھنے کی کوشش کی مگر وہ منہ زوری سے بھاگنے لگا. ایک دم بھگدڑ مچ گئی خیر اس کا نوعمر سا خدمتگار آکر اسے لے گیا تو سکون ہوا.مجھے لگا اسی نے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے بیل کو دوڑایا ہوگا!! 

 مزے کی بات یہ تھی کہ کرسیوں اور اسٹولز پر متمکن  خواتین جو اپنے سارے کاموں کے لیےاپنے بچوں کو دوڑا رہی تھیں.. اس ناگہانی پر کرسیوں سمیت بھاگیں.. واقعی جان سب کو پیاری ہوتی ہے!.

سب پرسکون ہوئے تو *کھو کھو* کھیلنے کا پروگرام  بنا.. اس پر نوجوانوں کا حیرت کا اظہار کہ یہ کیا ہوتا ہے؟

ہم نے کہا ٹک ٹاکر کہہ کر کھلواتے تو سمجھ پاتیں ۔۔۔۔۔!!! 

تعجب خیز بات ہے کہ ہم اپنی زبان کے ساتھ اپنے کھیل بھی بھولتے جارہے ہیں؟؟

اس دوران چائے  کی ٹنکی آگئی. ہم خالی کپ لے کر قریب پہنچے تو ہماری ایک مہربان ہستی نے ہمیں جلدی سے اسے بھر دیا!

بزرگی کا اپنا ایک الگ فائدہ ہے!

لان سے واپس آنے لگے تو سورج  جھکتا  محسوس ہوا چنانچہ مسجد سے ملحق وضو خانے سے تازہ وضو کرکے  نماز عصر بھی اولین وقت میں ادا کرکے ہم اپنے چبوترے پر



آبیٹھے. پرندوں کی تسبیح کا  وقت شروع ہوگیا تھا. ان کی چہچہاہٹ اللہ کی بزرگی بیان کررہی تھی.. سبحان اللہ !!!  

کچھ لوگ ہم سے پوچھ رہے تھے کب واپس چلیں گے جبکہ جن  کا دل ابھی نہیں بھرا تھا ہم سے کہہ رہے تھے 5بجے چلیں گے 

... اور دونوں گروپوں کو ہمارا ایک ہی جواب ہوتا 4.30 پر!

اور واقعی ہم سب سمیٹ کر ٹھیک مقررہ وقت پر گاڑیوں میں سوار ہوگئے  اور  سوا پانچ بجے اپنے گھر کے اندر داخل ہوگئے...

باقی سب بھی یقیناً کچھ آگے پیچھے گھر پہنچ گئے الحمدللہ !!

ایک تھکادینے والا دن جوخدشات سے شروع ہوکر طمانیت پر ختم ہوا