پیر، 10 نومبر، 2025

کوئی تو چارہ گر بنے !

 


کوئی تو چارہ گر بنے !

''ایک چھوٹے سے جراثیم کا تصور  بھی نہیں کیا ہوگا جس سے  شرح اموات  کا امکان 26 ٪  تک پہنچ جائے ،  یا پھر ایسی صورت حال کہ جس میں موت کا تناسب  15 سگریٹ روزانہ پینے والے فرد جتنا ہوجائے!  صحت کے حوالے سے ایک بحرانی کیفیت کا منظر پیدا ہوجائے   جس  کا تقابل کرونا سے پیدا شدہ ہنگامی صورت حال  سے بخوبی کیا جاسکتا ہے ! ''

عزیز قارئین !  یہ اوون جونز نامی نوجوان    برطانوی کے  بلاگ کا ابتدائی حصہ ہے  جو فروری  2020ء کے پہلے ہفتے میں دی گارجین میں شائع ہوا۔( خیال رہےکہ اس وقت کرونا کی ہلاکت خیزی محض چین تک  محدود تھی ۔یعنی  انسانی زندگی کو درپیش جس خطرے کا جائزہ لیا جا رہا ہے وہ کرونا سے پہلےکا  ہے !)

 بلاگر انکشاف کرتا ہے کہ ''۔۔۔   عوامی سطح پر صحت کے اتنے بڑے بحران کے متاثرہ افراد کی تعداد الزائمر اور ڈیمنشیا سےبھی   دگنی ہوسکتی ہے ۔ اس مرض کا نام ہے تنہائی ۔۔۔ بیس لاکھ سے زیادہ بالغ افراد  جو دائمی تنہائی کا شکارہیں ۔اگرچہ اس میں بڑی تعداد برطانوی معمر شہریوں  کی ہے مگر نوجوان اس سے بہت زیادہ متاثرہیں ۔انسانی جبلت ہے کہ وہ اپنے ہم نفسوں سے جڑا رہنا چاہتا ہے اورجس میں کمی کے باعث جسمانی اور ذہنی امراض کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اس وقت ہمارا معاشرہ  ٹکڑوں میں بٹا اپنے حصار میں گم  بالکل اسی طرح ہے جیسے صنعتی انقلاب کے خاتمے  پر تھا ۔"

"  بے شک اس زمانے میں تنہائی کے بر خلاف  گھٹن اور  ایک ہجوم انبوہ طاری تھا ۔ اس وقت کاروبار زندگی کا زیادہ تر انحصار کان کنی، شپ یارڈ یا کارخانوں پر منحصر تھا ۔ افراد کار کی زیادتی کے باعث خصوصا نوجوانوں نے پرائیویٹ کاروباری اداروں کی طرف رجوع کیا ظاہر ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی کمیونٹی سے باہر نکلے ۔ہم میں سے  تین چوتھائی افراد کا خیال ہے کہ اپنے  پڑوسیوں کو جاننا بہتر ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ 73 ٪ اپنے پڑوسیوں کے  نام تک نہیں جانتے ۔ ہم زیادہ سے زیادہ تنہا رہنا پسند کرتے ہیں  اور جیسا کہ 28٪ گھر سے بیٹھ کر کام کرنا پسند کرتے ہیں بلاشبہ یہ بات مزید تنہائی کا باعث بن رہی ہے  "( خیال رہے کہ یہ تحریر کرونا سے سال بھر پہلے کی ہے ! )

"۔۔۔ہمارے  مجتمع ہونے کی جگہیں سکڑتی جا رہی ہیں ۔1970ء کے عشرے میں اصحاب کے 4000  سے زائد کلب موجود تھے اب محض 1300 باقی ہیں ۔ 21 ویں صدی کے اغاز سے ہی ایک تہائی شراب خانے بند ہوچکے ہیں ۔ رات گئے تک جاری  زندگی کے ہنگامے ختم ہوچکے ہیں ۔ 2018 ء کی رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک نائٹ کلب بند ہوچکا ہے ۔ سینکڑوں یوتھ کلب ختم ہونے کے قریب ہیں  اور 800 کے قریب کتب خانے  تحلیل ہوچکے ہیں ۔ گویا 2010ء کے بعد کاعشرہ  حکومتی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشرتی نظام کے لیے کلہاڑی کی ضرب ثابت ہورہا ہے ۔ دینی رحجان کے منکر افراد برطانیہ میں مذہبی رسومات کے زوال کو خوژ آئند کہیں گے لیکن چرچز میں کم حاضری سے ہفتہ وار گفت و شنید کے مواقع بھی کم ہوگئے ہیں ۔۔۔""

 یہاں پر یہ نوجوان بلاگر سوال  اٹھاتا ہے کہ  "  کیا سماجی روابط کا حل ناگزیر اور ناقابل واپسی ہے؟  "

   اس کےجواب میں وہ ایک منظر بیان کرتا ہے جو اس نے مقامی کلب میں دیکھا           " 80 سال کی عمر کے افراد اپنے سے 6 دہائی چھوٹی عمر کی خواتین سے محو گفتگو ہیں ۔۔۔۔یہ " خاندان کی دیکھ بھال "  Family Care )) "   نامی ایک تنظیم کا تجویز کردہ خیال ہے ۔ یہ اس بات کا ابتدائیہ ہے کہ  شہری علاقوں میں مقامی بوڑھوں اور نوجوان کاروباری افراد کے درمیان باہمی تعلقات ہوں ۔یہ موقع ایک پب میں فراہم کیا جارہا ہے جہاں فری ڈرنک پیش کیا جاتا ہے ۔۔"

 وہ خود اپنا تجربہ بیان کرتا ہے       " ۔۔۔میں نے خود ایک ایک ایسی خاتون سے گپ شپ کی جو 1939ء کی پیدائش تھی اور جس نے 60ء کی دہائی میں یکساں شرح اجرت کی جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ ۔ اسی طرح ایک خاتون جس نے اپنی بیمار ماں کی تیمار داری کئی سال تک تنہا رہ کر کی تھی اب خوف زدہ ہے کہ بڑھاپے میں اس کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہیں مل سکے گا ۔۔۔"  بلاگر کے خیال میں   دو نسلوں کے درمیان فرق اور فاصلوں کو کچھ کوششوں سے دور کیا جا سکتا ہے ۔

ایک 26 سالہ رضاکار اینی  کا کہنا ہے کہ  "  میرے خیال میں تنہا ہونا  lonely  اور تنہا کردینا   isolation  دو مختلف چیزیں ہیں ۔ بہت سے  نوجوان افراد اپنے معاملات زندگی میں مصروف ہوکر تنہا ہوجاتے ہیں جبکہ معمر افراد  تنہا کردیے جاتے ہیں ۔ ان کی سماجی حیثیت ختم ہوچکی ہے ۔ ان کے ارد گرد نہ خاندان ہے اور نہ دوست ۔۔"

 بلاگر کا کہنا ہے کہ " یہاں کچھ ایسے ادارے وجود پاچکے ہیں جو  سماجی روابط  اور اعتماد کی بحالی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ وہ کچھ گائیکی کے گروپ بناتے ہیں جن میں کچھ گلوکار اور کچھ نغمات کی تحریر اور ترتیب کا کام کرتے ہیں ۔ کچھ گروپس معمر اور نوجوان افراد یکساں تعداد میں ملاکر بناتے ہیں جس میں مقامی سفید فام لندن کے پرانی رہائشی سے لے کر نقل مکانی کرنے والوں کی پہلی نسل شامل ہے ۔ "

 "۔۔  Family Care  کا خیال الیکس اسمتھ نامی ایک سابق مزدور رہنما کا ہے جو ایک معمر فرد فریڈ سے انتخابی مہم کے سلسلے میں ملا ۔ فریڈ نے آج تک کوئی  انتخابی معرکہ نہیں چھوڑا تھا  لیکن گھر میں محصور ہونے کی وجہ سے اب وہ پولنگ اسٹیشن پہنچنے سے قاصر تھا  چنانچہ الیکس فریڈ کو ووٹ ڈلوانے لے گیا ۔ فریڈ کے لیے نہایت خوشگوار لمحہ تھا ۔ اس سماجی رابطے نے سوشل میڈیا کے اس دور میں تہلکہ مچا دیا ۔ اس نیٹ ورک نے لوگوں کی زندگیاں بدل دیں ۔  اس کمیونیٹی نے یہ بات دہرائ کہ   " تنہائی ناقابل برداشت ہے ۔ ہم سب کو دوسروں سے منسلک رہنے کی ضرورت ہے جو سماجی طور پر ہم سے چھن چکی ہے ۔علیحدہ علیحدہ ٹکڑیوں میں بٹ کر رہنا نہ صرف ایک غمناک تاثر ہے بلکہ ماتم کناں ہے کہ یہ ایک مہلک مرض بن کر سامنے آتا ہے ۔ تنہائی ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کو تباہ کرنے والی چیز ہے جو رفتہ رفتہ  موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے ۔ لیکن شکر ہے کہ ہم اس سے کسی نہ کسی  طرح صحت یاب ہوسکتے ہیں ! بس  ہمیں صرف قوت ارادی کی  ضرورت ہے ۔۔۔"

 عزیز قارئین !

 یہ مضمون  میں نے فروری 2020ء میں  پڑھا تو اس کے حوالے سے اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہوئے اس فکر کو مفید پایا ۔ زیر مطالعہ مضمون  کاابتدائی حصہ جبھی لکھاتھا  لیکن اس کے فورا بعد کرونا کا زمانہ آگیا جس میں آئسولیشن ہی علاج سمجھا گیا تو اس مضمون کی افادیت اتنی موثر نظر نہیں آئی لیکن بہرحال یہ میرے ڈیسک ٹاپ میں محفوظ رہا اور آج 5  سال بعد  دوبارہ دیکھا تو  بعد از کرونا کے زمانے میں اس مسئلے کی شدت میں اضافہ پایا ۔ اب آن لائن کاروبار زندگی نے سماجی روابط کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔  ایک باپ بیٹے کا مکالمہ ذہن میں لائیں  ! جس میں  بیٹا اپنے باپ کو بنک جاکر رقم نکلوانے کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہے لیکن باپ اس کو یہ کہہ کر خاموش رہنے پر مجبور کردیتا ہے کہ اس طرح میری کچھ لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے ۔واقعی اس نظریہ سے دیکھا جائے تو آن لائن منتقلی رقم میں گھر بیٹھے منٹ بھرمیں کام ہوجاتا ہے لیکن فرد سے فرد کا رابطہ ختم ہوجاتا ہے ۔

 شہری آبادیوں کے انخلا سے ہمارا سماجی ڈھانچہ بھی بری طرح متاثر ہے ۔ بظاہر ہماری آبادیاں   گنجان  نظر آتی ہیں لیکن تنہائی کا مسئلہ یہاں بھی موجود ہے  ۔ ہمارا خاندانی نظام کسی حد تک محفوظ ہے ،  معاشرتی اور سماجی  ڈھانچے بھی نظر آتے ہیں   کیونکہ مذہبی تعلیمات بھی اس طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن ان سب کے باوجود ایک ذہنی و سماجی تنہائی کا عنصر موجود ہے ۔ جس کے لیے فکر مندی ہی نہیں بلکہ درستگی کی اشد ضرور ت ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرحت طاہر ، کراچی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں